باب نمبر 3 : شاعرہ شازیہ مزمل

8 2 0
                                        

چلو دل رکھنے کو ہی کہ دیتے
میری جان تم سے اداس ہوں

کہاں دیکھوں
کہیں نہیں تم

لاتعلق کیسے ہو جاؤں
دل کا تعلق تم سے ہے

کبھی تو آنکھیں دیکھیں گی اسے
بیوفائی کے بعد دکھتا ہے کیسا

محبت کی حد کوئی تو ہوتی
درد سہنے کا حوصلہ اب نہیں

دل بتا اسے بھولیں گے کیسے
بڑے دل سے دل لگایا ہے

جب بھی آئے ہیں وہ بزم میں ہماری
دنیا کے ڈر سے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا

محبت کا اخلاص تو ہے توحید پر قائم
لوگ کس منہ سے عشق کا دم بھرتے ہیں

تسلی کے پھاہے کام آتے نہیں
روح کے گھاو بہت گہرے ہیں

چاہتے چاہتے جان گئ
اتنا تو ہوا پہچان گئ

بیچ بھنور ہے کشتی ڈوبی بچنے کے آثار نہیں
تسبیح مصیبت پڑھ تو لوں جینے پہ اختیار تو ہو

حیران ہے بنا اس کے اب کیسے رہ لیتی ہوں
دل پتھر کر لیا درد چپ چاپ سہ لیتی ہوں

کتنے لاتعلق ہو مجھ سے صاحب
کبھی اپنے نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے

کتنی تمنا تھی تیرے ساتھ کی
کتنی حسرت ہے اس ہمراہی میں

میں تو شاید بھول ہی جاتی صاحب
دل کے زخم کچھ بھی بھلانے نہیں دیتے

اظہار کیا سادہ الفاظ میں
درد مگر بہت پیچیدہ ہے

کوئی طرز میرے لئے بھی کر ایجاد
تو نے کس طور بھلایا مجھ کو

روکا نہیں تجھ کو راستے سے ہٹ گئے
دل کا کیا خوداری بھی کوئی چیز ہے

دسترس سے تیری نکلیں بھی تو
جائیں کہاں ؟ ہر راہگزر تیری ہے

تیری وفا پہ یقین تھا اتنا
اب یقین پہ بھروسہ نہیں رہا

دل کے بہلنے کو تیری یاد ہے کافی
زندگی گزارنے کو تیرا نام بہت ہے

وہ ملتا تو ہے مگر دو پل کے لئے
بھلا باقی وقت کیسے بسر کرئے کوئی

یاد کرو گے کیا؟
ہم بھول گئے تو

جانے دل کس نہج پہ چل پڑا ہے
گومگو سا ہے پتھر کا لگ رہا ہے

کب سے اپنی نئ تصویر نہیں بنائی
عرصہ ہوا خود کو اچھے نہیں لگے ہم

❤ 💘 💔




 چاند ہو تمحيث تعيش القصص. اكتشف الآن