قسط نمبر 4

731 34 20
                                    

دوسرا عشرہ بھی دھیرے دھیرے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا۔ سحری کے بعد دادی نے ان پانچوں کو اپنے دربار میں حاضری کے لیے بلایا تھا۔ لاریب اور مائدیہ بیڈ پر جبکہ لائقہ شافع اور محاد نیچے کارپیٹ پر بیٹھے دادی کے سوال کے منتظر تھے۔
"وہ منہا کہاں ہے؟ دھیان رکھنا تھا کہیں یہیں نہ آ نکلے۔"
دادی نے آدھ کھلے دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو محاد نے اٹھ کر دروازہ اچھے سے بند کر دیا۔
"نہیں آتیں۔ اب بولیں جلدی۔"
محاد کو تو تجسس کھائے جا رہا تھا۔
"بے وقوف سپاہیوں مشن کی سناؤ۔ کوئی مثبت نتائج بھی آئے کہ وہی بارہ کے بارہ آنے رہے۔"
دادی آنکھیں گھماتے ہوئے بولیں تو شافع کھسک کر دادی کے گھٹنے کے قریب ہو گیا۔
"لے دادی! نتائج تو ایسے نکلے ہیں کہ ہم۔خود بھی دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔"
شافع نے عظیم نقشہ کھینچا تھا کہ دادی بھی دم بخود رہ گئیں۔
"ہیں جلدی پھوٹ کیا ہوا تھا۔"
دادی کی بے چینی دیکھنے لائق تھی۔ شافع نے گہری سانس بھری اور پھر سے اپنی طاقت بحال کرتے ہوئے شروع ہوا تھا۔
"میں نے دیکھا تھا دادی! جب دونوں اندر داخل ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ بھیا بھابھی کے قریب یعنی کہ میرا مطلب ہے بہت قریب کھڑے ہو کر کوئی بات کر رہے تھے اور بھابھی چہرے پر شرم گیں مسکراہٹ لیے نگاہیں جھکائے کھڑی تھیں۔"
شافع نے الف سے یے تک سارا نقشہ کھینچا تھا۔ دادی نے اس کے سر پر ایک لگائی تھی۔
"اور تجھے شرم نہیں آئی تھی بھائی اور بھابھی کے رومانوی سین بڑے ہی غور و فکر اور شوق سے دیکھ رہا تھا۔"
دادی کے کہنے پر سب دبا دبا سا ہنس دیے۔
"لے بھائی اور بھابھی کو بھی تو چاہیے تھا نا کہ اپنے کمرے میں جا کر رومینس کرتے بھلا ٹی وی لاونج کو بیڈ روم کون بناتا ہے۔ اور اگر میں دیکھتا نہ تو آپ کو بتاتا کیسے۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولا تو کچھ دیر کے لیے دادی بھی سوچ میں پڑ گئیں۔
"ہاں ویسے کہہ تو یہ بالکل ٹھیک رہا ہے۔ شاباش تیری رپورٹ بہت اچھی تھی۔ مطلب کہ لو اسٹوری شروع تو ہو چکی ہے اب تو بس عشق کی منزلیں اور امحتان باقی ہیں۔"
دادی سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بولیں تو وہ سب بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
"چلو پھر سب بیٹھے ہی ہو تو کوئی تسبح ہی کر دو۔"
دادی کے کہنے کی دیر تھی سب کو باسیاں آنا شروع ہو گئیں۔
"دادی! بڑی نیند آ رہی ہے ظہر کے بعد کریں گے انشاءاللہ۔"
کہتے ہوئے سب باری باری کھسکے تھے۔
"در فٹے منہ ان سب کا۔ نکمے جیے اللہ جی معاف کرنا نادان پوتے پوتیاں ہیں میرے سمجھتے ہی نہیں ہیں۔"
انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اللہ توبہ کی اور خاموشی سے اپنے بستر کی جانب بڑھ گئیں۔ ایک جانب سے تو دل میں ڈھیروں اطمینان اتر آیا تھا کہ چلو ابصار اور منہا کے رشتے میں سب کچھ ٹھیک ہونے کی جانب جا رہا ہے۔
"یااللہ! تو میرے بچوں کو ہمیشہ خوش اور آباد رکھنا۔ انہیں دنیا جہاں کی خوشیاں دکھانا آمین۔"
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے بستر کی جانب بڑھی تھیں۔
واقعی ہی سب ٹھیک ہونے کی جانب تو جا رہا تھا۔ کسی کی زندگی میں سب ٹھیک ہو رہا تو کسی کی زندگی میں ٹھیک ہونے کی جانب جا رہا تھا۔ کوئی پا لینے کے عمل سے گزر رہا تھا تو کوئی حاصل کرنے کی تکلیف سے۔ کسی کی خاموش چاہت سسکیاں بھر رہی تھی تو کسی کے آنے والی زندگی کو لے کر خدشے۔۔۔ سب کی زندگیوں میں کچھ نا کچھ ہو رہا تھا۔ کوئی نہ کوئی عمل چل رہا تھا۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ وہ کبھی خاموش ہو کر نہیں بیٹھتی بس چلتی ہی رہتی ہے۔ کسی سے محبت کروا دیتی ہے تو کسی سے نفرت۔۔۔ کبھی تعلقات کو جوڑ دیتی ہے تو کبھی تعلقات توڑ ڈالتی ہے۔ یہ زندگی ہے جو بنا رکے بس چلی جاتی ہے۔
**********************
وہ دونوں بستر پر چت لیٹے چھت پر چلتے پنکھے کو گھور رہے تھے۔ موسم نارمل ہونے کے باعث پنکھے کو سست روی سے چلایا گیا تھا۔
"منہا! تمہیں نیند نہیں آ رہی کیا؟"
اس نے ہنوز چھت پر سست رفتاری سے چلتے پنکھے کو دیکھتے ہوئے برابر میں لیٹی منہا سے پوچھا تو منہا نے آنکھیں بند کر کے کھولی تھیں۔
"نہیں پتا نہیں کیوں نیند تو نہیں آ رہی آپ کو بھی نہیں آ رہی کیا؟"
اس نے اب رخ اس کی جانب موڑا تھا۔ ابصار نے نیم اندھیرے میں اس کے نظر آتے چہرے کو دیکھا تھا۔وہ شاید اتنے دنوں بعد اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اندھیرے میں بھی وہ منہا کے نقوش باخوبی دیکھ سکتا تھا۔
"بڑی بڑی روشن سیاہ آنکھیں صاف رنگت پر چھوٹی سی ناک اور باریک خوبصورت لب۔ وہ ہنستی تو لگتا جیسے ساری بہار سمٹ کر اس کے چہرے پر آ گئی ہو۔ دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔ دھڑکن بڑھی تو اس نے آنکھیں موند کر سینے میں دھڑکتے دل کی آواز کانوں میں سنی۔
"تم بہت خوبصورت ہو منہا! ہاں تم ہو۔"
وہ ایک دم اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولا تو منہا ہنس دی۔
" زیادہ جلدی نہیں آپ کو میری خوبصورتی کا خیال آ گیا۔ یہ خوبصورتی تو یہاں جوں کی توں قائم تھی مگر دیکھنے اور سراہنے والی آنکھیں کہیں کھوئی ہوئی تھیں۔"
وہ اپنی جگہ سے کھسک کر اس کے قریب ہوئی تھی۔ ابصار نے سر رکھنے کے لیے اپنا بازو کھولا تو اس نے نرمی سے اپنا سر اس کے بازو پر رکھ لیا۔
"میں نے آپ کی ہر وہ نظر مس کی ہے جو میری جانب محبت سے اٹھتی تو میں سو دفعہ جی اٹھتی۔ میں نے آپ کی وہ ہر شرارت مس کی ہے جو مجھے دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں اترتی اور آپ کے لبوں سے ہنسی بن کر آزاد ہوتی۔"
اس نے چہرہ ابصار کے سینے میں چھپایا تھا۔ نجانے کیوں مگر لبوں سے ایک سسکی آزاد ہوئی تھی۔ ابصار نے اس کے بالوں پر اپنے لب رکھے اور اس کا سر آہستہ آہستہ تھپکا۔
"ارے تو اس میں رونے کی کیا بات ہے یار! ہماری شادی کو ایک مہینہ ہوا ہے کوئی ایک سال نہیں جو ہم پرانے ہو گئے ہیں۔ ابھی بھی ہم نیا نویلا شادی شدہ جوڑا ہیں۔ تم فکر کیوں کر رہی ہو۔ اب سے میری ساری نظروں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔"
اس کی ناک دباتے اور پھر اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھتے ہوئے اس نے کہا تو منہا ہنس دی۔
"پتا میں آپ کو کڑوا کریلا کہتی تھی۔ بلکہ کہوں گی جب جب آپ کوئی کڑوی حرکت کریں گے۔"
اس نے اپنا عظیم کارنامہ اسے سنایا تو ابصار نے منہ کھول کر اس کی جانب دیکھا۔
"شرم تو نہیں آتی شوہر کو کڑوا کریلا کہتی رہی ہو تم۔ کہتا تو ویسے میں بھی تھا تمہیں پاپا کی پری مجھے اچھا لگتا ہے میں کہتا ہی رہونگا گا پاپا کی پری۔۔۔"
وہ ہنستے ہوئے بولا تو منہا نے اس کی جانب گھور کر دیکھا۔
"پھر میں بھی کہتی ہی رہونگی۔ کڑوا کریلا،کڑوا کریلا۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ہنس دی تھی۔ دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔ اوپر سے دیکھتی تقدیر بھی ان کی زندگی سے بھر پور ہنسی پر ہنس رہی تھی۔ وہ شاید دنیا میں آئے ہی ایک دوسرے کے لیے تھے۔
**********************
خوبصورت صبح نے پورے بھارہ کہو پر اپنے پر پھیلائے تھے۔ ساڑھے نو بجے اس کی آنکھ اپنے بازو پر بوجھ کے تحت کھلی تھی۔ ساری رات ایک ہی سمت میں بازو رکھ کر اس کا بازو اکڑ چکا تھا۔ وہ تھی کہ اس اکڑے ہوئے بازو پر ہی مزے لے کر سو رہی تھی۔ ابصار نے جھنجھلا کر اس کی سوئی ہوئی شکل دیکھی تھی جو ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔
"یہ اچھا ہے بھئی ایک مہینے کی ساری کسریں اب میرے بازو پر اپنا فولادی سر رکھ کر نکال رہی ہیں۔"
اس کا بازو حقیقتاً بہت دکھ رہا تھا۔ صبح صبح اتنے تابڑ توڑ حملے کے ہوتے ہی اس کی ساری رات والی محبت اُڑن چھو ہو گئی تھی۔
"منہا میڈم!"
اس نے دھیرے سے اسے آواز لگائی تو خوش قسمتی سے منہا پہلی ہی بیل پر جاگ گئی۔ ایسا ابصار کا ذاتی خیال تھا۔
"تمہیں بدلہ لینے کو کوئی اور چیز نہیں ملی تھی۔ اگر اتنا ہی پسند ہے میرا بازو تو ویسے ہی کاٹ کر تم اپنے پاس رکھ لو۔ یہ آدھا میرا اور آدھا تیرا والا سین کیوں کرتی ہو۔"
وہ اپنا بازو دباتے ہوئے بولا تو منہا نے تیوری چڑھا کر اس کی جانب دیکھا۔
"سونے کا بازو نہیں ہے آپ کا جسے بیچ کر مجھے ڈالر ملیں گے۔ ہاں وہ پتا نہیں کیسے رات کو سوتے سوتے۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتی وہ فوری بولا تھا۔
"میرا سیر کرنے کو دل کیا تو آپ کی طرف نکل آئی۔ پھر آپ کا بازو دکھائی دے گیا تو سوچا تھوڑی دیر اس کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں سے لطف اندوز ہو جاؤں۔ پھر مجھے وہ جگہ پسند آ گئی تو میں نے وہاں مستقل ڈیرے ڈالنے کا سوچ لیا۔"
وہ مسلسل منہ ہلا ہلا کر بول رہا تھا جس پر منہا منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کتنے بُرے ہیں آپ۔۔۔ابھی رات کی ہی تو بات اتنے اچھے سے پیش آ رہے تھے۔ اب واپس اپنے کڑوے کریلے موڈ میں آ گئے۔ یہ پکڑیں اپنے کپڑے اور جائیں تیار ہوں جا کر۔"
اس نے اپنے کھلے ہوئے بال جُوڑے میں قید کیے اور بستر کی چادر درست کرنے لگی۔ وہ کپڑے لے کر باتھ روم میں بند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد نکلا تو نک سک سا تیار تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اچھے سے بالوں کو سیٹ کیا اور خود پر پرفیوم اسپرے کرنے کے بعد منہا کی جانب متوجہ ہوا۔
"چلیں میڈم! چھوڑ کر آئیں مجھے۔"
اپنا بازو اس کے سامنے کرتے ہوئے اس نے کہا تو منہا نے مسکرا کر اس کے بازو میں اپنا ہاتھ ڈال لیا دونوں مسکراتے ہوئے سیڑھیوں سے اترے تھے۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر قبل ان کی کسی بات پر بھیس ہو رہی تھی۔ وہ یونہی سیڑھیوں سے یہ سوچ کر اترے تھے کہ سب اس وقت اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہونگے مگر سامنے ہی لاونج کے صوفے پر نیم دراز دادی جان کی انہیں دیکھ کر آنکھیں باہر آتے آتے رہی تھیں۔
"ماشاءاللہ ہو تعالیٰ یہ فوجیں کدھر کو چلی ہیں صبح ہی صبح؟"
دادی معنی خیزی سے منہا کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں تو منہا نے جھینپ کر چہرہ جھکا لیا۔
"کہیں نہیں دادی جان! آج مابدولت کی بیگم سرکار اور آپ کی بہو بیگم آپ کے پوتے کو گیٹ تک چھوڑنے جا رہی ہیں۔"
وہ مسکرا کر بولا تو دادی جان نے بھی اپنی مسکراہٹ دبائی اور پھر آنکھیں گھماتے ہوئے بولیں۔
"کیوں بیٹا! تجھے کیا اپنے گیٹ کا راستہ نہیں آتا تھا جو تو ساتھ باڈی گارڈ لے کر جا رہا ہے۔"
دادی کی آنکھوں میں شرارت تھی جو وہ محض ابصار کو چڑانے کے لیے کہہ رہی تھیں۔
"دادی ہمسفر اچھا ہو تو راستہ خوبصورت ہو جاتا ہے سمجھا کریں۔"
وہ انہیں آنکھ مارتا ہوا منہا کے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے ایک نظر خود کی جانب مسکرا کر دیکھتی اپنی بیوی پر ڈالی تھی۔
"اگر تم روزانہ مجھے یونہی مسکرا کر دفتر بھیجو گی تو میرا تو دن ہی بہت خوبصورت ہو گا۔"
باری باری اس کے دونوں گالوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے ابصار نے کہا تو وہ سرخ چہرے کے ساتھ مسکرا دی۔
"اب آپ جائیں بھی کہ یہیں سارا دن گزار دینا۔"
وہ اسے گاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئی بولی تو وہ مسکرا کر ہاتھ ہلا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ منہا نے گیٹ بند کیا اور اندر آ گئی۔ دادی جان لاونج میں بے چینی سے اس کی منتظر تھیں۔
"واہ بھئی واہ اتنی سیٹنگیں ہو گئیں اور دادی کو خبر ہی نہ ہوئی۔ رونے مجھ سے رو رہی تھی اس دن اور مجھے بتایا ہی نہیں۔"
دادی خشمگین نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولیں تو وہ انگلیاں چخٹا کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی۔
"دادی جان! مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آئی۔ یہ ایک دم سے پتا نہیں کایا کیسے پلٹ گئی۔"
وہ خود بھی حیران تھی۔
"بیٹا جی! یہ کایا ایسے ہی پلٹا کرتی ہے۔ چلو اللہ کا لاکھ اور کڑور بار شکر ہے یہ بے وقوف لائن پر تو آیا۔"
دادی ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولیں تو منہا ہنس دی۔
"بے وقوف کوئی نہیں ہیں۔ بالکل ہی پورے ہیں اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔"
وہ منہ میں منمناتے ہوئے بولی تو دادی نے اسے گھورا۔
"میرا پوتا ہے بھئی زبان کو ذرا لہذا سنبھال کر۔"
دادی تو بُرا ہی مان گئی تھیں۔ منہا نے خجل سی ہو کر دادی کی جانب دیکھا تو دونوں ہنس دیں۔
"اچھا یہ پتا یہ شافع کن ہواؤں میں ہے آ ج کل؟"
دادی ہم اس کے قریب ہو کر بڑے ہی راز دانہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔ دادی کے سوال پر پہلے تو منہا حیران ہوئی اور پھر اس کے بعد آنکھیں چھوٹی کر کے دادی کی جانب متوجہ ہو گئی۔۔
"صحیح کہہ رہی ہیں آپ مجھے بھی اس کے لچھن کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔"
منہا بھی دادی کی بات سے سو فیصد متفق تھی۔
"یہ پاگل نا لائقہ کو پسند کرتا ہے مگر اتنا کوئی ڈرپھوک ہے کہ اسے کہہ ہی نہیں پا رہا۔"
دادی نے بڑے ہی اعتماد سے منہا سے کہا تو منہا کچھ دیر کے لیے حیران رہ گئی۔ شک تو اسے بھی تھا کہ چکر بیچ میں کچھ ایسا ہی ہے مگر بالکل کیا بات تھی۔ یہ اسے نہیں معلوم تھا۔
"لیکن آپ کو کیسے پتا دادی جان؟"
وہ تجسس کے مارے ان کے نزدیک ہوئی تو دادی نے مسکراہٹ دبائی۔
"کمینہ ہے پورا جب دیکھو تو اسے ہی دیکھ رہا ہوتا۔ چشماٹو یہ تو چشماٹو وہ۔۔۔چھوٹا ہے ابھی اس کی شادی نہیں کر سکتے ہاں میں احد سے بات کرتی ہوں دونوں کی منگنی کر دیتے ہیں۔ شادی ان کی پڑھائیوں کے بعد کر دیں گے۔"
دادی نے منہا سے کہا تو منہا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے فوری محاد کا خیال آیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے سوچا دادی سے محاد کی بات بھی کر ہی دے مگر پھر نجانے وہ کیوں رک گئی۔
"چلیں آپ آرام کریں اپنے کمرے میں جا کر میں بھی ذرا کچھ کام دیکھ لوں۔"
دادی کو سہارا دے کر اٹھا کر ان کے کمرے کی جانب لے کر جاتے ہوئے اس نے کہا تو دادی اثبات میں سر ہلا گئیں۔
"جیتی رہ میری بچی!"
دادی تو اس کے صدقے واری جا رہی تھیں۔ منہا انہیں ان کے کمرے میں چھوڑ کر واپس اپنے کمرے میں آئی تھی اسے آئرہ کو فون کرنا تھا۔
******************
بھارہ کہو میں سورج اپنی کرنیں پھیلا چکا تھا۔ پہاڑوں کی ہری بھری چوٹیوں پر جب سورج کی کرنیں پڑتیں تو پہاڑوں کی چوٹیاں روشن ہو کر ایک الگ ہی فسوں خیز منظر پیش کرتیں۔ وہ بازو کے حلقے میں تکیہ دبوچ کر گدھے گھوڑے بیچ کر گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی۔ کمرے کی کھڑکی سے ذرا سی روشنی نکل کر اس کے بستر پر پڑ رہی تھی۔ سائیڈ میز پر رکھا ہوا اس کا فون چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کر رہا تھا مگر آئرہ میڈم تو ایسی مدہوش سوتیں کہ اگر موت کا فرشتہ بھی انہیں جگانے آ جائے تو بھی بمشکل ہی اٹھتی تھیں۔۔
اب کی بار کوئی تیسری بار فون بجا تو آئرہ نے نیند میں ڈوبی ہوئی اپنی آدھ کھلی آنکھیں کھول کر سائیڈ میز پر رکھے ہوئے فون کو دیکھا۔ اوپر منہا کا نام چمک رہا تھا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو گھڑی صبح کے ساڑھے دس بجنے کا عندیہ دے رہی تھی۔
"اف یہ کوئی وقت ہے کسی کو فون کرنے کا۔ اس منہا کی بچی کو کبھی عقل نہیں آ سکتی۔ اس نے جھنجھلا کر کہتے ہوئے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
"ہیلو! کیا مصیبت آ گئی صبح صبح خود تو تم اپنے سسرال میں سکون نہیں لیتی ہو بندہ دوسروں کو تو لینے دے دیتا۔"
وہ سوئی ہوئی آواز میں بولی تو دوسری جانب سے منہا نے دانت پیس کر اپنا غصہ ضبط کیا۔
"دوسروں کی نیندیں حرام کر کے خود تم سو رہی ہو اٹھو اور میری بات کان کھول کر سنو۔"
فون کے اس پار سے منہا کی تپی ہوئی آواز ابھری تو آئرہ اچھل کر بستر سے اٹھی۔
"کیا ہو گیا خدا نخواستہ کسی بچھو نے تو ڈنگ نہیں مار لیا جو یوں تڑپ رہی ہو۔"
آئرہ کو ایسی صورتحال میں بھی مذاق سوجھ رہا تھا۔
"تم نا قسم سے مفت میں ضائع ہو جاؤ گی میرے ہاتھ سے۔"
منہا اب کی بار تو خاصی تپ گئی تھی۔
"بات بولو جلدی۔ فضول پریشان کر رہی ہو مجھے۔"
اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تو منہا نے گہری سانس بھری۔
"یہ کیا تماشہ لگایا ہوا تم نے مادی کے ساتھ۔۔کیوں تنگ کر رہی ہو اسے؟"
آئرہ نے اس کے سوال پر بھنویں اچکائی تھیں۔ تو اب اسے سارا معاملہ سمجھ میں آیا تھا۔
"کیا گستاخی کر دی میں نے آپ کے مادی کی شان میں۔ کونسے بم کے گولے سے اُڑا دیا میں نے اسے؟"
وہ تپ کر بولی تو منہا نے منہ بنایا۔
"وہ کہہ رہا ہے شادی کر لو تو ہاں کیوں نہیں کر رہی ہو کیا تکلیف ہے تمہیں؟"
منہا تو اس لمحے آئرہ کو بالکل صحیح سٹار پلس والی بہو لگی تھی جو سسرال پر سر پر کفن باندھ کر مر مٹنے کو تیار تھی۔
"او باجی! بریک تے پیر رکھو تے میری وی گل سن لو۔"
وہ اب کی بار تحمل سے گویا ہوئی تو دوسری جانب سے منہا خاموش ہو گئی۔
"ایسے کیسے ہاں کردوں۔ اپنے گھر والوں کو لے کر آئے گا تو ہاں کرونگی نا کہ اسے فضول ہی ہاں کر کے ابھی سے سر پر بٹھا لوں۔ موصوف پتا چلے کسی غلط فہمی میں لگے گئے ہیں۔"
اب کی بار وہ ہنستے ہوئے بولی تو منہا بھی ہنس دی۔
"بہت فضول ہو تم ٹانگا ہوا تم نے اسے دن رات سولی پر۔ بیچارے کی شکل دیکھنے لائق ہوتی ہے۔"
منہا ہنستے ہوئے بولی تو آئرہ نے منہ بنا لیا۔
"تم بھی ٹانگ لیتی اپنے شوہر کو تو آج تمہارے بھی اشاروں پر چل رہے ہوتے وہ۔"
آئرہ کی زبان کون روک سکتا تھا۔ دوبدو تیر برسانا اس کا پسندیدہ کام تھا۔
"شرم کرو الحمداللہ نہیں ٹانگا تو ہی اتنی عزت کرتے ہیں میری اور شاید محبت بھی۔۔۔"
آخری جملہ پورا کرتے ہوئے وہ ذرا سا اٹکی تھی۔
"یہ جس طرح تم محبت میں اٹکی ہو نا مجھے لگتا کوئی اٹکی ہوئی محبت ہی کرتے ہیں تمہارے وہ۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی تو منہا نے منہ بنا کر فون کی جانب ایسے دیکھا جیسے آئرہ اس لمحے اس کے سامنے ہو"
اپنا منہ بند کرو اور دفع ہو یہاں سے کرتی ہوں تمہارا علاج بھی۔"
منہا نے کہتے ہوئے کھٹاک سے فون بند کر دیا تو آئرہ ہنسنے لگی۔
"ساری نیند برباد کر دی۔ چلو پھر سے سونے کی کوشش کرتے ہیں۔"
اس نے چادر کھول کر منہ تک تانی اور واپس کشن بازو میں دبا کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ اس سے پہلے وہ اپنے کمرے کے پردے بند کرنا نہیں بھولی تھی۔
*******************
کرمانی ہاؤس کی عوام دھیرے دھیرے بیدار ہوئی تھی۔ ظہر کی نماز کے وقت بمشکل ساری نوجوان ٹولی کی آنکھ کھلی تھی۔ منہا نے نماز پڑھ کر دوپٹہ ڈھیلا کیا اور فون تھام کر ابصار کو پیغام بھیجا۔
"آج افطاری میں کیا کھائیں گے آپ؟"
پیغام بھیج کر وہ کمرے کی حالت درست کرنے لگی۔ ابصار کا کمرہ درمیانے سائز کا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب ڈبل خوبصورت لکڑی کا بیڈ رکھا ہوا تھا جس کے اطراف میں دو سائیڈ میزیں تھیں۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر ڈریسنگ میز تھا۔ جس کے بالکل ساتھ اندر کی جانب ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلتا تھا۔ بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا دیوان رکھا ہوا تھا جس کے بالکل پیچھے ہی شیشے اور لکڑی کی کھڑکی تھی۔ اس نے کمرے کی حالت درست کی تو اس کے فون کی میسج ٹون بجنے لگی۔
"جو بھی تم پیار سے بناؤ۔"
آگے دل کا نشان تھا۔
"سیریس سوال پر بھی ان کو رومینس سوج رہا ہے۔ ان کو کیا پتا ہو کیا پکایا جائے اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو عورتوں سے حل نہیں ہوتا تو مردوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔"
اس نے منہ بنا کر اسے فون ملایا تو پہلی ہی گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
"ہاں جی کیا حال ہے؟"
دوسری جانب سے اس کی بشاش آواز ابھری تو منہا مسکرا دی۔
"حال کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ آج کیا پکائیں۔ امی نے کہا کہ آپ سے فون کر کے پوچھ لوں کہ آپ کیا کھائیں گے۔"
منہا نے ماریہ بیگم کی دہرائی ہوئی باتیں اسے بتائیں تو اس کا منہ بن گیا۔
"لے میں کیا امی کو کوئی باورچی نظر آتا ہوں یا میرا کیا کسی ڈھابے سے تعلق ہے جو میں بتاؤں بھئی اس گھر میں جو بھی پکتا ہے میں چپ کر کے کھا لیتا ہوں آج تک جو میں نے کسی چیز پر نخرہ کیا ہو۔ جو مرضی بنا لو مجھے کام کرنے دو سارا موڈ خراب کر دیا۔"
اس نے بول بال کر کھٹاک سے فون بند کر دیا جبکہ منہا تو بس ہاتھ میں تھامے ہوئے فون کو دیکھتی رہ گئی۔ دماغ میں ایک خیال آیا تو آنکھیں بھی اس خیال کے خیال سے چمک اٹھیں۔
وہ فون بند کر کے نیچے اتری تھی۔
"اب آئے گا مزہ اور نہ بتائیں میں کوئی باورچی لگا ہوا ہوں یا میرا ڈھابہ ہے۔ بھئی میں تو بڑا شریف ہوں جو پکتا چپ کر کے کھا لیتا۔ لگے گا پتا کتنے شریف ہیں ہمارے میاں صاحب۔۔"
وہ دل ہی دل میں مسکراتی ہوئی ماریہ بیگم کے کمرے میں آئی تھی جو اب ظہر کی نماز کے بعد قرآن مجید پڑھ رہی تھیں۔
"امی! میں نے ان کو فون کر کے پوچھا تو انہوں نے کہا جو مرضی پکا لو میں کونسا کبھی کوئی نخرہ کرتا ہوں۔ جو پکتا چپ چاپ کھا لیتا ہوں۔"
وہ کندھے اچکا کر آرام سے بولی تو ماریہ بیگم کی آنکھیں حیرت سے ہی کھل گئیں۔
"ایسا اس نے کہا ہے۔ ارے سب سے زیادہ ڈرامے اور نخرے اسی کے ہوتے ہیں کھانے میں اگلے کو کوئی چھوٹی موٹی چیز تو پسند ہی نہیں آتی ہے۔"
ماریہ بیگم اچھنبے سے بولی تو وہ ہنس دی۔
"جانے دیں امی! مجھے بھی پتا ہے موصوف کتنے پانی میں ہیں۔ آج انکو مزہ چکھاتے ہیں۔آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان کو سبزیوں میں سب سے زیادہ ناپسند کیا ہے۔ جو بالکل ہی نہ کھاتے ہوں۔ ذرا سا بھی نہیں۔"
منہا نے ناک چڑھا کر ہاتھوں سے اشارہ کیا تو ماریہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں۔
"ٹینڈے اور شملہ کی مرچیں تو بالکل ہی نہیں کھاتا۔ گھر میں جس دن پکتی ہیں لڑائی ڈال کر بیٹھ جاتا کہ یہ کوئی پکانے کی چیز ہے حالاکہ ٹینڈے شافی اور شملہ مرچ اور قیمہ مادی کو بڑا پسند ہے۔ اب بندہ ان لوگوں کی سنے یا لاڈ صاحب کی۔"
ماریہ بیگم تو اپنے بچوں کی حرکتوں پر خاصی تپی ہوئی تھیں۔ منہا کو بے اختیار ہنسی آئی تھی۔
"تو پھر آج مادی اور شافی کو خوش کرتے ہیں امی جان! اور لاڈ صاحب کو آج تھوڑا ناراض کر دیتے ہیں۔ لیکن تھوڑا۔ ان کی پسند کی چیز بھی بنا لیتے ہیں مگر وہ ہم کچن میں ہی چھپا دیں گے۔ ذرا سا منہ بنائیں گے تو بعد میں لگے گا پتا۔"
منہا نے مزہ لیتے ہوئے کہا تو ماریہ بیگم نے اس کے سر پر چت لگائی
"تو بیٹا! یہ تین تین ہانڈیوں کا ہم کیا کریں گے۔"
وہ بھنویں اچکاتے ہوئے بولیں تو منہا ان کے قریب ہی بستر پر بیٹھ گئی۔
"ہم کونسا ہتیلے بھر بھر کر پکانے والے ہیں تھوڑا تھوڑا سا پکائیں گے بس جو سحری ٹائم تک ختم ہو جائے۔"
اس کی بات سن کر ماریہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور قرآن مجید بند کر کے الماری میں رکھنے لگیں۔
ان کی بہو بے بشک اتنا اچھا پکانا نہیں جانتی تھی مگر اس نے کبھی بھی کوئی بھی کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا۔ جو بھی کام کہو فوری سر تسلیمِ خم کرتی اور فوری کر دیتی۔ وہ واقعی ہی اس سے بہت خوش تھیں۔
****************
وہ فائل دیکھتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھا تھا۔ ابھی ابھی محاد اسے احد صاحب سے بات کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے گیا تھا۔ اس کے خیال میں اب ابصار کو احد صاحب سے اس کی اور آئرہ کی شادی کے لیے بات کرنی چاہیے۔ وہ اپنے کام نمٹا کر اپنا فون جیب میں ڈالتا ہوا احد صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔ ان کے پی این سے ان کے اندر ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ ولی صاحب بھی اندر ہی موجود تھے۔
"ابو مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"
اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا تو ولی صاحب اٹھ کر باہر جانے لگے۔
"ارے آپ کہاں جا رہے ہیں چاچو! بیٹھیں آپ بھی۔ دونوں سے بات کرنی ہے۔"
اس کے کہنے پر کرسی سے اٹھتے ہوئے ولی کرمانی بھی واپس بیٹھ گئے۔
"ہاں بولو کیا بات ہے سب خیر تو ہے نا؟"
وہ دونوں اس کی جانب دیکھتے ہوئے مکمل طور پر ہمہ تن گوش تھے۔
"ابو! آپ بھی جانتے ہیں اور ولی چاچو بھی کہ میری شادی سے پہلے بھی مادی اور آئرہ اکھٹے ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔"
وہ اپنی بات کہتے ہوئے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا تھا۔ ولی کرمانی اور احد کرمانی مکمل طور پر اس کی بات سن رہے تھے۔
"ہاں تو آگے بھی تو بولا نا۔"
ان کے انداز میں بے چینی تھی۔ وہ بھی متجسس ہوئے تھے کہ آخر کو ابصار کہنا کیا چاہتا ہے۔
"تو مادی آئرہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی کو بھی اس سلسلے میں کوئی مسئلہ ہے۔"
وہ اپنی بات مکمل کر کے ان دونوں کی جانب دیکھنے لگا جن کے چہرے پُرسکون تھے۔
"اس میں کوئی بُرائی تو نہیں ہے اگر مادی آئرہ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے کر لے بے شک۔"
ولی صاحب نے احد صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے تائید چاہی تو وہ کچھ پُرسوچ دکھائی دیے۔
"آپ کو کوئی مسئلہ ہے ابو! کیا آپ نہیں چاہتے کہ ایسا کچھ بھی ہو؟"
وہ ان کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے پریشان ہوا تھا۔
"نہیں مسئلہ تو کوئی نہیں مگر ایک ہی گھر سے دو بہوئیں۔ کیا یہ ٹھیک رہے گا۔"
وہ ولی صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے بولے تو ابصار نے گہری سانس بھری۔
"ابو! اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ایک ہی گھر سے دو بہوئیں آ جائیں گی۔ فرق صرف اس بات سے پڑنا چاہیے کہ لڑکی اور اس کا خاندان دونوں اچھے ہیں۔"
ابصار کے کہنے پر احد صاحب نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"ٹھیک ہے تم مادی سے پوچھ لینا کہ کب چلنا ہے ان کے گھر ایک بار منہا سے بھی مشورہ کر لینا۔ آخر کو اس کی بہن کا معاملہ ہے۔"
انہوں نے اپنے تئی بڑی ہی مناسب بات کی تھی۔ ابصار نے سر ہلایا اور ان کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس سارے عرصے میں وہ بار بار فون دیکھنا نہیں بھولا تھا۔
"کتنی بے مروت ہے اس کے بعد فون کر کے پوچھا بھی نہیں۔"
اس نے منہ بنا کر سر جھٹکا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
*********************
وہ عصر پڑھ کر باورچی خانے میں حسبِ معمول ماریہ بیگم اور علیزے بیگم کے ساتھ کام میں لگ گئی۔ اس کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی ماریہ بیگم نے اسے سالن نہیں پکانے دیے تھے۔ ان کے خیال میں اسے آرام کرنا چاہیے تھا۔ وہ ان کے باورچی خانے سے نکالنے پر باہر لاونج میں آ کر بیٹھ گئی جہاں وہ تینوں بیٹھی جسبِ معمول عید کی تیاریوں پر لب کشائی کر رہی تھیں۔
"ہاں بھئی کیا ہو رہا ہے؟"
اس نے باری باری تینوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو مائدیہ جوش صوفے پر سے کشن اٹھا کر نیچے رکھتے ہوئے بیٹھ گئی۔
"ہوا تو کچھ بھی نہیں بس ہم یہ سوچ رہے تھے کہ عید پر کیسی مہندی لگائیں گے۔ چاند رات پر کیا کریں گے۔"
اس نے جوش سے بتایا تو وہ ہنسنے لگی۔
"کیا مطلب ہوتا کیسی مہندی لگائیں گے جیسی دل کرے لگا لینا۔ تمہیں کوئی روک تھوڑی سکتا ہے۔"
صوفے پر اوپر ہاؤں کرتے ہوئے وہ بولی تو مائدیہ جھینپ کر مسکرا دی۔
"روکنا کس نے ہے بھابھی! مگر ایک ٹینشن ہے نا مہندی لاریب آپی کو آتی لگانی اور ان کا تو خود نکاح ہے۔ اب ہم کیا کریں گے سارے۔ ان کے تو پہلے ہی اتنے نخرے ہوتے ہیں۔"
لائقہ نے منہ بنا کر کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔
"کوئی بات نہیں میں آئرہ کو بلوا لونگی۔ پتا ہے اسے بھی بڑی اچھی مہندی لگانی آتی ہے۔۔ میرے تو ہمیشہ عید پر وہی لگاتی ہے۔ مجھ سے خود سے تو کبھی ایک پھول بھی نہیں بنا۔"
وہ مسکراتے ہوئے انہیں بتا رہی تھی۔
"یہ تو اچھا ہو جائے گا اگر آئرہ بھی آ جائے گی تو وہ مجھے مہندی لگا دے گی اور میں اسے لگا دونگی اور ہم دونوں مل کر آپ سب کو لگا دیں گے کیسا۔۔۔"
لاریب جھٹ سے مشورہ دیتے ہوئے بولی تو منہا بس اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔
"نکاح ہونے والا تھا مگر ایسی معصومیت تھی اس کے چہرے پر جیسے کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتی۔ کبھی کبھی چھوٹی سی بات پر منہ پھلا لیتی۔ اس کے جانے کے بعد وہ اسے واقعی ہی اس گھر میں سب سے زیادہ یاد کرنے والی تھی۔ وہ سب کی سب ہی یاد رکھنے لائق تھیں معصوم سی، چلبلی سی۔ کبھی شوخ ادائیں دکھانے والیں تو کبھی خوف سے دبکنے والی۔ ایک دن کے لیے بھی انہوں نے اسے احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ کہیں باہر سے ان کے گھر میں آئی ہے۔ وہ شادی سے پہلے ہمیشہ نندوں کے بارے میں بُرا بھلا ہی سنتی تھی۔ ایسی ہوتی ہیں تو ویسی ہوتی ہیں۔ شوہر سے لڑائی کرا دیتی ہیں تو یہ تو وہ مگر یہاں آ کر اسے نندیں کم اور بہنیں زیادہ ملی تھیں۔"
وہ ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے سوچ کر مسکرا رہی تھی۔
"کیا ہوا بھابھی! آپ کیوں تنہا تنہا ہنس رہی ہیں۔ کیا اب خیالوں میں بھیا آنے لگے ہیں؟"
مائدیہ نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو وہ جھینپ گئی۔
"شرم کرو بد تمیز ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"
اس کے کندھے پر دھپ رسید کرتے ہوئے وہ اٹھ کر باورچی خانے کی جانب بڑھی تھی۔
"وہ کیا کھاتے ہیں شوق سے یہ تو آپ نے مجھے بتایس نہیں؟"
وہ سالنوں کا ڈھکن الٹ پلٹ کرتے ہوئے بولی تو ماریہ بیگم نے مصروف انداز میں اس کی جانب دیکھا۔
"وہ کون؟"
ماریہ بیگم ہنوز دھنیا کاٹنے میں مصروف تھیں۔۔اس لیے نہ تو اس کی بات کا مفہوم سمجھی تھیں اور نہ ہی معنی۔
"امی! میں ان کی بات کر رہی ہوں۔"
اب کی بار اس کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔
"ارے بھئی کن کی بات کر رہی ہو ٹھیک سے بولو میں بڑی مصروف ہوں آج۔"
وہ حقیقتاً کافی سے زیادہ مصروف دکھائی دے رہی تھیں۔
"آپ کے بڑے بیٹے کی امی!"
اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ ہاتھ روک کر اس کی جانب دیکھنے لگیں پھر قہقہہ لگا کر ہنسی تھیں۔
"میرے سامنے تم اس کا نام لے سکتی ہو۔ میں بُرا بالکل نہیں مناؤں گی۔"
ان کے چہرے پر ابھی بھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ منہا کو تنگ کر رہی تھیں یا سچ میں کہہ رہی تھیں اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔
"ایویں ہی امی! دادی جان اتنا غصہ کرتی ہیں میں نے تو کبھی نام یاد کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔"
اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر ماریہ بیگم چھری وہیں شیلف پر چھوڑ کر اس کے پاس چلی آئیں۔
"تو میری بیٹی کو کیا اس بات کا دکھ ہے کہ تم نے میرے بیٹے کا نام تک یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی۔"
اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ نگاہیں جھکا گئی۔ ماریہ بیگم نے مسکراہٹ دبائی تھی۔
"ابصار نام ہے اس کا۔ ابصار کرمانی۔ ابصار کے معنی بڑے ہی خوبصورت ہیں۔ حکمت والا۔ دانا۔"
وہ ایک جذب سے چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے بتا رہی تھیں۔
"شوہر کا نام لینا کوئی بُری بات نہیں ہے یہ تو بس اماں کو ایسے ہی پسند نہیں ہے۔ تم ان کے سامنے نہ لیا کرو لیکن ویسے لے سکتی ہو۔"
وہ انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں اسے کہہ رہی تھیں۔
"اب عادت ہو گئی ہے میرے منہ پر نہیں چڑھتا ان کا نام۔"
وہ جھرجھری لے کر بولی تو باورچی خانے میں داخل ہوتی علیزے بیگم بھی ہنس دیں۔
"چھوڑو خود کو کیوں تھکا رہی ہو۔ نہیں چڑھتا تو نہ سہی۔۔۔انہیں اُنہیں سے ہی کام چلا لو جیسے آج تک اماں جان کے ڈر سے ہم چلا رہے ہیں۔ ہمیں بس یہ پتا ہے کہ ہمارے شوہروں کے نام یہ یہ ہیں منہ سے کبھی غلطی سے بھی نہیں نکلا۔"
وہ ہانڈی میں چمچہ چلاتے ہوئے اپنے جلتے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ جبکہ ان کے انداز پر منہا اور ماریہ بیگم دونوں ہنس دیے۔
"امی! لگتا ہے چچی جان کو چاچو کا نام نہ لینے کا سب سے زیادہ دکھ ہے۔"
وہ ہنسی دباتے ہوئے بولی تو علیزے بیگم شرما کر رہ گئیں۔
"ہٹ پرے بے شرم لڑکی۔۔"
وہ ہاتھ جھلاتے ہوئے بولیں تو منہا نے مسکراہٹ دبا کر ان کی جانب دیکھا۔
"کوئی شرم سے لال ٹماٹر ہو رہا ہے۔"
وہ مسلسل ہنس رہی تھیں اور ماریہ بیگم اسے آنکھیں نکال رہی تھیں مگر وہ کہاں باز آنے والی تھی۔
"تو نکل جا منہا یہاں سے ورنہ مفت میں روزے میں مار کھا لے گی مجھ سے۔"
علیزے بیگم نے اسے دھکا مار کر باورچی خانے سے باہر نکالا تو وہ ارے ارے کرتی ہی رہ گئی۔
"اف آفت کی پرکالہ ہے آپ کی بہو تو۔ دو منٹ میں لال ٹماٹر کر دیا مجھے۔"
وہ اپنے گال رگڑتے ہوئے بولیں تو ماریہ بیگم ان کے انداز پر ہنس دیں۔
"تو تم لال ہو رہی تھی تو وہ تمہیں لال کر رہی تھی نا پاگل۔۔ اتنے سال بیت گئے تمہاری شادی کو مگر ولی کے نام پر ابھی بھی تم ویسے ہی سرخ پڑ جاتی ہو جیسے شادی کے پہلے روز پڑتی تھی۔"
وہ انہیں مکمل چھیڑ رہی تھیں اور وہ نگاہیں جھکائے بس شرمائی ہی جا رہی تھیں۔
"کیا بھابھی آپ بھی نا بچی کے ساتھ ہی مل گئی ہیں۔"
وہ کہتے ہوئے کام میں دھیان لگانے لگیں۔ جوان بیٹیوں اور بہو کے ہوتے ہوئے بھی اب تک خود ہی باورچی خانہ سنبھالتی تھیں وجہ یہ تھی کہ وہ اس معاملے میں کسی پر بھی مکمل بھروسہ نہیں کرتی تھیں۔ ہاں مدد لے لیتی تھیں مگر مکمل باورچی خانہ کسی کے حوالے کر دینا نہ بھئی نہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ماریہ بیگم جلدی جلدی آلو گوشت چڑھانے لگیں جو ابصار صاحب کی پسند کا تھا۔
*********************
افطار کے برتن میز پر لگاتے ہوئے وہ دل ہی دل میں بہت مزہ لے رہی تھی۔ اس لمحے کا خیال ہی اسے لطف دے رہا تھا جب ابصار میز پر ٹینڈے اور شملہ مرچوں کا سالن دیکھتا پھر بُرا سا منہ بناتا۔ بس وہی زاویے تو اسے دیکھنے تھے۔ جو یہ دعوع کرتا تھا کہ وہ تو سب کچھ بنا کسی چوں چراں کے کھا لیتا آخر کو چوں چراں کرتا ہوا کیسا لگتا۔
"جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ نا۔"
اس نے سستی سے برتن لاتی مائدیہ اور لائقہ سے کہا تو دونوں جلدی جلدی پلیٹیں رکھنے لگیں۔
"اسلام علیکم!"
بھورا کوٹ ہاتھ میں پکڑے۔ سفید شرٹ کی آستینوں کو کوہنیوں تک موڑے اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے وہ خاصا تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
"وعلیکم اسلام!"
منہا نے اس کے ہاتھ سے اس کا بیگ لیا اور اس کے پیچھے ہی کمرے میں آ گئی۔۔
"کپڑے نکال دوں آپ کو؟"
اس نے الماری کی جانب بڑھتے ہوئے کہا تو صوفے پر جوتوں سمیت نیم دراز ابصار نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔
"سارا دن تو تمہیں ہوئی نہیں میری اتنی فکر جتنی اب ہو رہی ہے۔"
وہ اس پر مکمل تپا ہوا تھا۔ منہا نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
"سارا دن میں وہ فون کس نے کیا تو جو آپ نے یہ کہہ کر بند کر دیا تھا کہ سارا موڈ خراب کر دیا۔"
وہ کمر پر ہاتھ ٹکا کر کسی لڑاکا عورت کی طرح سامنے آئی تھی۔ گلابی کُرتے کو سفید پجامے کے ساتھ پہنے بالوں کو پونی میں قید کیے اس کے چہرے پر بھی دبا دبا سا غصہ جھلک رہا تھا۔
"ہاں تو شوہر دفتر گیا ہو اور اس کا بیوی سے اچھی اور رومینٹک باتیں کرنے کا دل بھی کر رہا ہو اور پھر وہ آپ کو فون کرے اور پوچھے کہ ٹینڈے پکاؤں کہ شملہ مرچیں تو بندے کا موڈ ہی برباد ہوتا نا۔"
وہ جل کر بولا تو منہا اپنی ہنسی دبا گئی۔ وہ لگ ہی اتنا مزاحیہ رہا تھا کہ منہا نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"کیا اب ضروری تھوڑی ہے کہ ایک بندے کا رومینٹک باتیں کرنے کا دل کرے تو دوسرے کا بھی کرے۔ ہر بندہ اپنے اپنے دھیان میں ہوتا ہے۔"
اس نے لڑکھڑاتے لہجے میں اپنی صفائی دی تو وہ صوفے سے اٹھ کر اس کے نزدیک آ گیا۔ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ابصار نے اسے اپنے قریب کیا تھا۔ منہا کی آنکھیں بس اُبلنے کو تھیں۔
"کل کوئی مجھے کہہ رہا تھا اس نے میری ہر لمحہ محبت چھلکاتی نگاہوں کو مس کیا ہے تو پھر اب اس سے میری محبت اور قربت برداشت کیوں نہیں ہو رہی۔"
وہ اس لمحے حد سے زیادہ سنجیدہ معلوم ہو رہا تھا۔ منہا کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی اس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔
"اب۔۔۔ابصار پلیز!"
وہ بمشکل بولی تھی۔ پورے ایک مہینے میں پہلی بار منہا کے لبوں سے اس کا نام ادا ہوا تھا۔ ابصار نے آنکھیں موند کر اس لمحے کو اپنی آنکھوں اور کانوں میں محفوظ کیا تھا۔
"ایک بار پھر سے بولو۔"
اس نے اب کی بار نرم لہجے میں کہا تھا۔ منہا کو وہ شخص اس لمحے عجیب سا لگا تھا۔ دھوپ چھاؤں سا۔ دل کرتا تو جی بھر کر محبت برسا دیتا اور دل نہیں کرتا تو اس کی جانب دیکھتا بھی نہ۔ اور یہی تو منہا کو پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتی تھی اگر اس کا شوہر اسے محبت سے دیکھے تو ہر لمحہ اور ہر نظر محبت سے پُر ہو اس میں اجنبیت اور بیگانگی کی شبہ تک نہ ہو۔
"ابصار پلیز! نیچے افطاری پر سب انتظار کر رہے ہونگے۔ چھوڑیں مجھے۔"
اب کی بار اس نے نرمی سے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ ابصار کی گرفت ذرا ڈھیلی پڑی تو وہ فوری نکل کر دروازے کی جانب بڑھی۔
"چینج کر کے جلدی آ جائیں نیچے روزہ کھلنے والا ہے بس۔"
جاتے جاتے وہ اسے جلدی آنے کی تلقین کرنا نہیں بھولی تھی۔ وہ کچھ دیر یونہی کھڑا اپنی حرکت پر پشیمان ہوتا رہ گیا اور پھر باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔ پتا نہیں اسے ایک دم سے کیا ہو گیا تھا۔ وہ یہ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر شاید دفتر میں سارا دن کی تھکان کے بعد اس نے ایسا کر دیا۔ بہرحال وہ منہا سے معافی مانگنے کا سوچ چکا تھا۔
وہ کپڑے تبدیل کر کے نیچے آیا تو سب ڈائینگ ٹیبل پر اس کے منتظر تھے۔ افطاری کے سامان سے میز سجایا جا چکا تھا۔ سب میز پر موجود تھے صرف اسی کی کمی تھی۔
مولوی صاحب بولے تو سب نے روزہ کھول لیا۔ ابصار کی عادت تھی وہ افطاری کے بعد فوری کھانا کھاتا تھا۔
"پکایا کیا ہے امی!"
اس نے ڈونگوں پر ڈھکن دیکھتے ہوئے پوچھا تو ماریہ بیگم نے منہا کی جانب دیکھا۔
"منہا بیٹا تم ہی بتاؤ آج ابصار کو کہ کیا پکا ہے گھر میں۔۔۔ماشاءاللہ سے میرا بیٹا تو سب کچھ بنا چوں چراں کھا لیتا۔"
ماریہ بیگم منہا کی جانب دیکھتے ہوئے بڑے ہی آرام سے کہہ رہی تھیں جبکہ ابصار کی سمجھ میں تو ابھی تک معاملہ آیا ہی نہیں تھا۔
"لیں ٹینڈے گوشت اور شملہ مرچ قیمہ بنایا ہے۔"
منہا کی بات سن کر اسے لگا جیسے کسی نے اسے زہر والا ٹیکا لگا دیا ہو۔
"کیا ہو گیا آپ تو بالکل ہی گم صم ہو گئے۔ دوں سالن ڈال کر؟"
اس نے چمچ پکڑ کر پلیٹ اٹھائی تو اس نے فوری سے بیشتر اسے منع کر دیا۔
"نہیں نہیں میں نے تو افطاری ہی اتنی کر لی میری تو بھوک ہی مر گئی ساری۔"
وہ جلدی جلدی کرسی چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے اٹھا تھا۔ دو منٹ میں یہ جا وہ جا۔
"توبہ یہ تو ایسے بھاگے ہیں جیسے میں انہیں زبردستی پکڑ کر ٹینڈے کھلا دونگی۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی تو باقی سب بھی ہنسنے لگے۔
"شکریہ بھابھی! ہم دونوں کے لیے تو آپ نے بہت ہی اچھا کر دیا۔ ہاں البتہ اپنے اکلوتے میاں کو بھوکا ہی مسجد بھیج دیا۔"
وہ دونوں افسوس سے بولی تو وہ مسکرا گئی۔
"فکر نہ کرو انہیں بھی بھوکا نہیں رہنے دیتی میں۔ تم دونوں جلدی ٹھوسو اور مسجد جاؤ نماز پڑھنے۔"
اس نے ان دونوں کو جلدی کھانے کا اشارہ کیا تو دونوں فٹا فٹ کھانے لگے۔
"صحیح علاج کیا ہے ویسے تو نے اس کا۔"
دادی ہنستے ہوئے بولیں تو وہ نگاہیں جھکا گئی۔
"سوری میں نے تو بس ایسے ہی سوچ لیا یہ کرنے کا۔"
وہ شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔
"ارے کوئی بات نہیں بیٹا! اسے بھی تو پتا ہونا چاہیے کہ ایویں ہی بیوی کے سامنے فضول کی شیخیاں نہیں بگاڑتے۔"
احد صاحب سنجیدگی سے بولے تو سب دبا دبا سا ہنس دیے جبکہ وہ اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہو گئی۔ اس کے بعد اسے ابصار کے واپس آنے کے بعد اس کے لیے الگ سے سالن گرم کر کے کھانا لے کر جانا تھا۔ جو بھی تھا وہ سارا دن روزہ رکھنے کے بعد صرف پانی اور ایک دو پکوڑے کھا کر مسجد کے لیے نکل گیا تھا۔ اسے اب اپنے کیے مذاق پر شرمندگی ہو رہی تھی۔ مگر جو کچھ دیر قبل اس نے اتنی زور سے پکڑا تھا اسے وہ کیا تھا۔ وہ منظر آنکھوں کے پردوں پر تازہ ہو کر منہا کو ایک انجانی سی تکلیف پہنچانے کا باعث بنا تھا۔ اس نے سر جھٹکا اور مغرب کی نماز پڑھنے لگی۔ اب وہ کم از کم پانچ وقت کی نماز انتہائی باقائدگی سے پڑھتی تھی۔
"لائقہ! اگر زحمت نہ ہو تو سب کے لیے چائے رکھ دو گی چولہے پر پتا نہیں کیوں سر بہت دکھ رہا ہے۔"
اس نے جانماز طے کرتے ہوئے کہا تو لائقہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باورچی خانے کی جانب بڑھ گئی جہاں مائدیہ پہلے سے موجود افطاری کے برتن دھو رہی تھی۔ وہ دوپٹہ ڈھیلا کر کے باہر لان میں ہی آ گئی۔ نجانے کیوں مگر دل گھبرا رہا تھا۔ وہ کچھ دیر ٹہل کر وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ تب تک شاید وہ بھی نماز پڑھ کر واپس آ چکا تھا۔ اسے یوں لان کی کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو قدم بے اختیار ہی اس کی جانب اٹھ گئے۔
"تم یہاں کیوں بیٹھی ہو سب خیر ہے نا۔۔طبعیت ٹھیک ہے تمہاری؟"
اس کی قریبی کرسی گھسیٹتے ہوئے اس نے پوچھا تو منہا اثبات میں سر ہلا گئی۔
"آئی ایم سوری۔۔ مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے ہی پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔ میں سارا دن کے کاموں سے بہت تھکا ہوا تھا۔ اس لیے تم پر۔۔۔"
اس سے آگے وہ اپنا جملہ دانستہ ادھورا چھوڑ گیا تھا۔ منہا نے اس کی شرمندگی پر گہری سانس بھری تھی۔
"پھر وہی بات آ گئی نا آپ کے کاروباری مسائل اور آپ کی نجی زندگی۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ آپ نے جب مجھ سے شادی کا فیصلہ کیا تو آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ آپ یہ شادی کرنا چاہتے بھی تھے یا نہیں مگر میں نے یہ فیصلہ تب صرف اپنے بابا کے لیے کیا تھا۔ جانتے ہیں جب میرے گھر آپ کا رشتہ آیا تو میرے ذہن میں پہلی تصویر کیا ابھری؟"
وہ خاموش ہو کر اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو شاید بے چینی سے اس کے آگے بولنے کا منتظر تھا۔
"میرے ذہن میں یہی آیا تھا کہ وہ بہت پریکٹیکل اور سنجیدہ سے انسان ہیں اور میں بہت سافٹ سپاکن اور زندہ دل ہوں۔ مجھے ہر چھوٹی سی چیز میں بھی زندگی تلاش کرنا اچھا لگتا ہے مگر آپ ایسے نہیں ہیں۔ آپ کا دائرہ صرف چند چیزوں کے گرد گھومتا ہے۔ میں کبھی بھی نہیں چاہتی کہ آپ اپنے دائرے سے نکل کر میرے محور میں داخل ہوں مگر کیا آپ اپنے دائرے کو اتنا وسیع نہیں کرسکتے کہ وہ میرے دائرے کو بھی خود میں سما لے۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے دائرے میں داخل ہونا ہے کیونکہ ہمارا رشتہ ہم سے یہی چاہتا ہے۔ ہم میاں بیوی ہیں۔ ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ میاں بیوی کے رشتے میں صرف پیار بھری نظریں اور جملے ہی نہیں ہوتے اس رشتے کے اور بھی بہت سارے تقاضے ہیں۔"
وہ بولتے بولتے خاموش ہوئی تھی۔ شاید اس لمحے اس شخص کو اس رشتے کی اہمیت کا احساس کرانا لازمی تھی۔ اسے بتانا لازمی تھا کہ یہ رشتہ کوئی دو چار دنوں پر محیط نہیں ہوتا کہ آج شروع ہوا ہے دو چار اچھے لمحے گزارے ہیں اور پھر کل بس ختم۔۔۔ تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے۔
"تم کہنا کیا چاہتی ہو منہا!"
وہ شاید اس کا نقطہ نظر سمجھنا چاہتا تھا۔ اس لیے خاموشی سے اس کے مزید بولنے کا منتظر تھا۔
"جب ہمیں بتایا جاتا ہے نا کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے تو ہم لڑکیاں اپنے وجود پر کسی ایک نام کی مہر محسوس کرتی ہیں۔ جیسے جب میرا آپ سے رشتہ طے ہوا تو میں نے دل سے خود کو صرف آپ کا محسوس کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ آج سے میں میرے اس گھر میں ابصار کرمانی کی امانت ہوں۔ مجھے خود کو اتنا سنبھال کر رکھنا ہے کہ اس کی امانت میں خیانت نہ ہو جائے۔ کیا آپ نے یہ محسوس کیا کہ آپ بھی کسی کے ہونے جا رہے ہیں؟"
اس نے سوال پوچھ کر اس کی جانب دیکھا تھا جس کی کئی دھڑکنیں ابھر کر معدوم ہوئی تھیں۔
"میں نے تو ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا مجھے بس اتنا پتا تھا کہ میری شادی ہو رہی ہے میرے کمرے اور میری زندگی میں ایک شریک کا اضافہ ہو گا اس کے علاوہ تو میں نے کسی چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ میں نے اتنے خوبصورت لمحات بنا سوچے کیوں ضائع کر دیے۔"
وہ چہرے سے ہی پشیمان دکھائی دے رہا تھا۔
"اسی لیے آپ کو اس رشتے کی خوبصورتی اور نازکی کا احساس بہت دیر سے ہوا ہے ابصار صاحب! وہ بھی جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ نکاح کے تین بول اپنے آپ میں اتنی زیادہ طاقت رکھتے ہیں کہ دو جسموں کو ایک جان کر دیا جاتا ہے۔ وقت لیں اور سوچیں آپ کے دل میں میرے لیے کیا ہے۔ جب آپ مجھے یہ سمجھانے کے قابل ہو جائیں گے نا کہ آپ کے دل اور زندگی میں میں کیا اہمیت رکھتی ہوں اس دن میں بھی اپنے دل کی ہر بات کہہ دونگی۔"
وہ اسے وہاں ساکت و جامد بیٹھا چھوڑ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ تو جو وہ اسے گزشتہ دو تین روز سے اتنی اچھی لگ رہی تھی وہ سب اسے کیوں دکھائی نہیں دیا۔
ابصار نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تھی اور حیرت انگیز طور پر اس بار اسے اندر سے جواب دے دیا گیا تھا۔ جو اسے حیران کر گیا تھا۔
"کیونکہ اسے ان لمحات کے ہمیشہ رہنے کا یقین نہیں ہے کیونکہ تم نے اب تک اسے یہ یقین دلایا ہی نہیں ہے۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے رشتے کی حقیقت کو تلاشنے کی کوشش کرو۔ کیا رشتہ ہے تمہارا اس لڑکی سے۔ کیوں وہ تمہارے بستر اور گزشتہ روز سے تمہاری محبت بھری نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی اور اسے پھر سے تمہاری سنگ دلی کیوں یاد آئی ہے۔"
یہ سارے سوال مل کر اس کے وجود میں عجیب سا انتشار پیدا کر رہے تھے۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
**********************
وہ کچھ دیر باہر بیٹھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ ذہن عجیب سی کیفیات کا شکار تھا۔ منہا کی باتیں اس کے پورے وجود میں گردش کر رہی تھیں۔
اس کا سائیں سائیں کرتا ہوا دماغ ایک ہی جملے پر اٹکا ہوا تھا۔
"اپنے اندر جھانک کر یہ دیکھیں کہ میں آپ کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہوں۔"
اس ساری صورتحال میں وہ اس بُری طرح گرفتار تھا کہ بستر پر رکھی ہوئی ٹرے پر اس کی نظر ہی نہیں پڑی۔ وہ بیڈ پر بیٹھا تو ہاتھ ایک دم ٹرے سے ٹکرا گیا۔ ٹرے میں موجود پلیٹ میں آلو گوشت کا سالن تھا۔ ساتھ ہی چاولوں کی ایک پلیٹ بھی رکھی ہوئی تھی۔ پانی کا گلاس گو کہ ہر ضرورت کی چیز اس ٹرے میں موجود تھی۔ ابصار کی بھوک چمکی تھی۔ اسے واقعی ہی بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔۔
"دیکھ لو ابصار کرمانی! وہ تمہاری بیوی ہے۔ اسے تمہاری بھوک کا احساس ہے۔ احساس اس رشتے کی پہلی بڑی حقیقت ہے۔"
اطراف سے آواز ابھری تو اس نے آنکھیں موند کر آج اس پہلے عمل سے اس رشتے کی پہلی حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ وہ گہری سانس بھر کر کھانا کھانے لگا مگر دل میں عجیب سی کیفیات ابھر رہی تھیں۔
*****************
رات آسمان پر گہری ہو رہی تھی۔ وہ عشاہ کی نماز پڑھ کر ابھی فارغ ہوئی ہی تھیں کہ احد صاحب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ بستر پر بیٹھ کر انہوں نے ٹانگیں اوپر کو پھیلائیں اور بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر بیٹھ گئے۔ تب تک ماریہ بیگم بھی دوسری جانب سے آ کر بستر پر بیٹھی تھیں۔
"ماریہ! ذرا مادی کو بلاؤ۔"
سامنے لگی ہوئی ایل ای ڈی چلاتے ہوئے انہوں نے کہا تو ماریہ بیگم اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گئیں۔
محاد بستر پر نیم دراز فون ہاتھ میں تھامے انگلیاں چلا رہا تھا۔ ماریہ بیگم نے دروازہ کھٹکایا اور اندر جھانک کر بستر پر نیم دراز شافع اور محاد کو دیکھا۔
"مادی! تمہارے ابو تمہیں بلا رہے ہیں۔ جلدی آ کر ان کی بات سنو۔"
ماریہ بیگم کے بلاوے پر اس نے تھوک نگل کر شافع کی جانب دیکھا تھا۔
"جا بھئی جا آگیا ہیڈ کواٹر سے بلاوا۔ لگتا ہے بڑے بھیا نے سرکاری ادارے میں تیری عرضی دے ڈالی ہے جا اب پیشی بھگتا لے جا کر۔"
شافع نے شرارت سے کہا تو وہ گھور کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"ہائے میں جا رہا ہوں تو دعا کرنا۔ کامیاب ہو کر لوٹوں۔"
اس نے دروازے سے باہر جاتے ہوئے مڑ کر کہا تو شافع قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"تو تو ایسے کہہ رہا ہے جیسے ابو کی عدالت میں نہیں جنگِ عظیم پر جا رہا ہو۔"
شافع نے مزے لیتے ہوئے کہا تو محاد نے اس پر دو حرف بڑے ہی زور دار انداز میں بھیجے اور باہر نکل گیا۔ دل دہک دہک کر رہا تھا۔ واقعی ہی یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی جنگِ عظیم پر ہی جا رہا ہو۔ سیڑھیاں اتر کر وہ ان کے کمرے کے باہر پہنچا۔ ایک گہری سانس بھر کر اس نے خود کو ان کے ڈھیر سارے سوالوں کے لیے تیار کیا تھا۔ وہ معاملہ فہم انسان تھے۔ کوئی بھی فیصلہ کبھی بھی یونہی نہیں کرتے تھے۔ اگر اس معاملے پر انہوں نے اسے بات کرنے کے لیے بلایا ہے تو ضرور بات بہت خاص ہو گی۔ اس نے دروازے پر دستک دی تھی۔
"ابو! میں اندر آ جاؤں؟"
دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے چلتے ہوئے ٹی وی کی آواز ریموٹ سے کم کر دی۔
"ہاں آ جاؤ۔"
ماریہ بیگم بھی قریب ہی نیم دراز تھیں۔
"اپنے سفیر بھیجنے کی بجائے اگر تم خود میرے پاس اپنی عرضی لے کر آتے تو میں زیادہ بہتر طور پر اس کا فیصلہ کر پاتا۔"
وہ اس لمحے از حد سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے۔اس کی دھڑکن ڈوب کر ابھری تھی۔
"میں سمجھا نہیں ابو!"
وہ نگاہیں جھکاتے ہوئے بولا تو احد صاحب نے گہری سانس بھری۔
"کیا چاہتے ہو تم؟"
انہوں نے گہری سانس بھر کر اس سے پوچھا تو اس نے آنکھیں موند کر کھولیں۔
"آئرہ کو میں یونیورسٹی سے پسند کرتا ہوں ابو! میں چاہتا ہوں۔ آپ اس کے گھر میرے رشتے کی بات کرنے جائیں۔"
اس نے بہت ہی آرام سے اپنا مدعہ ان تک پہنچایا تھا۔
"اگر میں کہوں کہ وہ لڑکی تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے تو پھر تم اس پر کیا کہو گے؟"
ان کی سنجیدگی ایک لمحے کے لیے بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
"پھر میں آپ سے وجہ پوچھوں گا اگر وجہ میں مجھے ایسا لگا کہ واقعی ہی آپ کا مقطہ نظر ٹھیک ہے تو میں اس پر سوچ ضرور سکتا ہوں مگر میرا نہیں خیال کہ اس پر سوچ کر بھی میں اسے چھوڑ سکتا ہوں۔ شاید انسان اپنی زندگی میں ایک عورت کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جیسے آپ کی زندگی میں امی آئیں،بھیا کی زندگی میں منہا بھابھی اور مجھے آئرہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے۔"
اس کا انداز انتہائی دو ٹوک تھا۔ احد صاحب اور ماریہ بیگم نے بغور اسے دیکھا اور پھر مسکرا دیے۔
"مجھے بس یہی دیکھنا تھا کہ تم اس معاملے میں کس حد تک سنجیدہ ہو۔ ابصار کی شادی کے وقت میں نے اس سے ایسا کوئی سوال نہیں کیا تھا شاید اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے ہی زندگی کو لے کر بے حد سنجیدہ تھا مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے اس معاملے پر بھی انتہائی سمجھداری سے کام لے گا۔ اس لیے اس رشتے کی نازکی کی بابت مجھے اسے سمجھانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔"
وہ چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ لیے گویا ہوئے تو محاد کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
"مجھے لگتا ہے ابو! آپ نے بھیا کو اس رشتے کی نازکی کی بابت نہ سمجھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ کبھی ان کے اور بھابھی کے رشتے کا قریب سے تجزیہ کریں پھر آپ کو احساس ہو گا کہ وہ کہیں نا کہیں ادھورا سا رشتہ ہے۔ کچھ ہے اس میں جو نامکمل ہے۔"
وہ کہتے ہوئے اٹھ کر ان کے کمرے سے باہر نکل گیا مگر جاتے ہوئے ان کے لیے سوچوں کے بہت سارے در کھول گیا تھا۔ انہیں خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ ان سے کہاں بھول ہوئی تھی جو محاد انہیں اتنی بڑی بات کہہ گیا تھا۔
********************
پورے کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ اس کے اطراف کے دونوں بستروں پر مائدیہ اور لاریب گہری نیند سو رہی تھیں۔ وہ خود بھی کب سے سونے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی مگر نیند تو جیسے آج اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ سائیڈ میز پر رکھا ہوا فون کب سے ٹو ٹو کر کے بجی جا رہا تھا۔ اب تو اس کا دل کر رہا تھا فون پر پیغام بھیجنے والے کو رکھ کر سنا دے۔
"پتا نہیں کیا مصیبت ہے لوگوں کو اپنے گھر بھی سکون نہیں ہے ولے جئے۔"
اس نے جھنجھلاتے ہوئے فون اٹھا کر دیکھا تو شافع کا پیغام چمک رہا تھا۔
"اوے چشماٹو! ذرا ٹیرس میں آنا تھوڑی دیر کے لیے ضروری بات کرنی ہے۔"
پیغام پڑھ کر لائقہ نے آنکھیں گھمائی تھیں۔
"کس خوشی میں۔۔۔ میں کوئی نہیں آ رہی۔"
اس نے منہ بناتے ہوئے تیز تیز لکھا اور پھر شافع کے نمبر پر بھیج دیا۔
"آئے بڑے۔۔۔نوکر ہوں نا ان کی جا کر حضور کی بات سنوں۔"
وہ شدید غصے میں لگ رہی تھی مگر میسج کی اگلی بجنے والی گھنٹی نے اس کے تجسس کو ہوا دی تھی۔
"اگر تم دو منٹ میں ٹیرس پر نہ آئی تو میں تمہارے کمرے میں آ جاؤں گا اور پھر اس کے بعد جو بھی ہو گا تمہاری زمہ داری ہو گی۔"
پیغام پڑھ کر تو لائقہ کے سر پر لگی اور تلوؤں پر بجی۔ وہ پیروں میں جوتے اڑسا کر سائیڈ میز سے چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگاتی ہوئی ٹیرس کی جانب بڑھی تھی جہاں شافع اس کا انتظار کر رہا تھا۔
"کیا مسئلہ ہے شافع بھا۔۔۔"
وہ غصے میں بولنے لگی تھی جب شافع نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں۔

دل کی لگی✅Where stories live. Discover now