وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو نیند میں بھی بڑی احتیاط سے رکھے ہوئے تھی۔
"عید مبارک!"
اس نے اس کے مہندی لگے ہاتھوں کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا تو منہا ذرا سا کسمسائی پھر یونہی آنکھیں کھول کر اپنے اوپر جھکے ابصار کو دیکھنے لگی۔
"عید مبارک۔۔"
اس نے باسی روکتے ہوئے کہا تو ابصار نے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔
"جلدی سے میری شوار قمیض نکال دو میں شاور لینے جا رہا ہوں۔ نماز کے لیے دیر ہو رہی ہے. لیکن پہلے ہاتھ دھو لینا۔"
اس نے اس کے مہندی لگے ہاتھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اثبات میں سر ہلا کر بستر سے اٹھ گئی۔ پہلے ہاتھ دھوئے اور پھر ابصار کے کپڑے نکال کر اسے تھمائے۔ نیچے آئی تو سب مرد حضرات عید کی نماز کے لیے جا چکے تھے۔
"عیدی تب ملے گی جب ساری لڑکیاں واپس آنے تک تیار ہونگیں۔"
ولی صاحب جاتے ہوئے باآوازِ بلند اعلان کرتے ہوئے گئے تھے۔
"چلو تیار ہوتے ہیں ورنہ ابو نے ہر دفعہ کی طرح عیدی کوئی نہیں دینی۔"
لائقہ نے منہ بنا کر کہا تو سیڑھیوں سے اترتے شافع کے کان کھڑے ہو گئے۔
"کوئی بات نہیں اس بار تم مجھ سے عیدی لے لینا۔"
اس کے پیچھے سے گزرتے ہوئے کہا تو لائقہ نے گھور کر اسے دیکھا۔
"خود جو عیدی لیتے ہوں اب تک وہ کسی اور کو کیا دیں گے۔"
اس نے ہنستے ہوئے کہا تو شافع دانت پیس کر رہ گیا۔
"بتاتا ہوں تمہیں واپس آ کر صبر کرو ذرا تم چشماٹو۔"
وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ سب لڑکیاں تیار ہونے اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں۔
وہ عید کی نماز پڑھ کر آیا تو منہا تیار کھڑی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی چوڑیاں پہن رہی تھی۔
"آہم۔۔۔"
وہ کھنکارتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ منہا نے چونک کر آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھا تھا۔
"لاؤ میں پہنا دوں۔"
اس کے ہاتھ سے چوڑیاں لیتے ہوئے وہ نرمی سے اس کی کلائی میں پہنانے لگا۔ منہا اس کو محویت سے چوڑیاں پہناتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
"عید نہیں ملو گی۔"
وہ چوڑیاں پہنا کر بازو کھولے کھڑا ہوا تو منہا ہنس دی۔
"پہلے عیدی تو دیں. پھر عید ملنے کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں۔"
اس نے آنکھیں گھما کر کہا تو ابصار نے اسے گھورا۔
"تو یہ جو میں نے تمہیں اتنی ساری شاپنگ کروائی تھی عید کی اس کا کیا ہوا۔"
اس کے کپڑوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ بولا تو منہا نے منہ بنایا۔
"وہ تو کروانی ہی تھی آپ کو اب جلدی عید نکالیں۔"
ہتھیلی اس کی جانب کرتے ہوئے اس نے کہا تو ابصار نے بھنویں اچکائیں۔
"پہلے عید ملو۔"
اسے کھینچ کر اپنے حصار میں لیتے ہوئے اس نے کہا تو منہا ہنس دی۔
"بہت چالاک ہیں آپ۔"
آنکھیں موند کر اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے منہا نے کہا تو وہ ہنس دیا۔
"تم سے تو کم ہی چالاک ہوں۔ یہ لو عیدی۔"
اس نے اپنا والٹ اس کے ہاتھ میں دیا تو منہا نے آنکھیں پوری کی پوری کھول کر اس کی جانب دیکھا۔
"یہ ساری؟"
وہ حیرت سے گویا ہوئی تو وہ آنکھیں جھکا کر ہنس دیا۔
"تم ساری رکھ لو۔"
اس لمحے منہا کرمانی ابصار کرمانی کی ایک ایک ادا پر قربان جا رہی تھی۔ اس کا بھنویں اچکانا،نگاہیں جھکا کر مسکرانا۔ شوخ جملے بولنا۔ اسے جیسے کوئی خواب ہی لگ رہا تھا۔ دونوں کتنی دیر کھڑے یونہی باتیں کرتے رہے۔
*******************
"یہ لو پکڑو عیدی! جو خود لیتے ہوں وہ کیا دیں گے۔"
اس نے لائقہ کی نقل اتارتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی۔
"چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر کیوں لیتے ہیں آپ شافع!"
اس نے بڑی مشکل سے خود کو بھیا لگانے سے روکا تھا۔
"شکر ہے تم نے میرا بھی کوئی ڈھنگ کا نام لیا۔ ملتے ہیں تم سے کل اپنے نام کی انگوٹھی کے ساتھ۔"
وہ اسے وہیں ہکا بکا چھوڑ کر لاونج سے باہر نکل گیا۔ عید کا پورا دن خوب چہل پہل اور ہنگاموں میں گزرا تھا۔ اگلے روز عصر کے بعد لاریب کا نکاح ہوا تھا شام کو شافع اور محاد کی منگیاں تھیں۔ وہ سارے کرمانی ہاؤس کے لان میں ہی موجود تھے۔ شافع نے لائقہ اور محاد نے آئرہ کو انگوٹھی پہنائی تو سب تالیاں بجا کر ہنس دیے۔
"آخر محبت کرنے والے جیت ہی جاتے ہیں۔"
اس نے آئرہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دی۔
لاریب بھی وجدان کے ساتھ سج دھج کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ابصار اور منہا کونے میں کھڑے مسکرا رہے تھے۔
"مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔"
اس نے بھیڑ کی جانب ایک نظر ڈالتے ہوئے ابصار سے کہا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔
"مجھے تو پہلے دن سے ہی آپ سے محبت ہے اور یہی میرے دل کی بات تھی۔"
وہ بمشکل بولی تو ابصار اس کا ہاتھ دبا کر ہنس دیا۔
"مجھے معلوم تھا۔"
اسے منہا کا نروس چہرہ اس لمحے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ لاریب وجدان،محاد آئرہ،شافع لائقہ اور ابصار منہا ایک ہی قطار میں کھڑے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ فوٹو گرافر نے ان کی تصویر کھینچی تھی۔
"سب کے کپلز بن گئے ایک ہم دونوں ہی ہیں لڈو پیڑے جو سنگل رہ گئے۔"
مائدیہ نے مصحف سے کہا تو دونوں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئے۔ فضا مسکراہٹوں اور قہقہوں سے سجی ہوئی تھی۔
ہر رشتہ اظہار کا محتاج ہوتا ہے۔ رشتوں میں جب تک اظہار ہوتا ہے وہ خوبصورت رہتے ہیں جاندار رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ان رشتوں سے اظہار کی خوبصورتی ختم ہوتی ہے یہ بالکل مرجھا جاتے ہیں۔ کوشش کریں نئے بنانے والے رشتوں کی متوقع خوبصورتی کو پہلے دل سے ایک بار سوچ لیں۔ اس کے لیے دماغ کو تیار کر لیں تاکہ وہ رشتہ آپ کی زندگی میں آنے کے بعد نظر انداز نہ ہو۔
خدا ہم سب کو نئے رشتوں کو دل سے قبول کرنے کی توفیق دے۔ محبت ایسا جذبہ ہے جو سیدھا دل پر لگتا ہے اسی لیے تو اسے دل کی لگی کہتے ہیں کیونکہ خالصتاً دل کا معاملہ ہوتا ہے۔
میری اور کرمانی ہاؤس کی جانب سے آپ سب کو عید کی ڈھیروں ڈھیر خوشیاں مبارک ہوں۔ خوش رہیں اور خوش رکھیں۔
ختم شد
YOU ARE READING
دل کی لگی✅
Humorکہانی ہے زندگی کے کھٹے میٹھے اتار چڑھاؤ کی۔ ارینج میرج کے بعد آنے والی تبدیلیوں کی۔۔۔بھرے پورے سسرال میں سب کا ہنس کر ساتھ دینے کی۔ سڑیل سے شوہر سے اظہارِ محبت کروانے کی۔ نئی نئی شادی کے بعد آنے والے پہلے پہلے رمضان اور عید کی خوشیوں کی۔۔۔ رشتوں می...