محرومیاں بیااعوان کے قلم سے۔۔۔

1 0 0
                                    

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس کا بچپن محرومیوں میں گزرا ۔آپ  محرومیوں کو کن معنوں میں لیتے ہیں؟؟
محروم کسی کے پیار سے، کسی کی اپنایت سے، کسی کے آواز دینے سے، کسی کا سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرنے سے یہ وہ اصل محرومیاں ہیں جنیھئں خدا کسی دشمن کو بھی نہ دے ۔ ازیت والی، توڑنے والی، بار بار گرانے والی، اعتبار جیسے لفظ سے نفرت کرا دینے والی، رشتوں کی چاہ ختم کر دینے والی، انسان کو اندر سے کھوکھلا  کر دینے والی، مسکراہٹ چھین لینے والی، بے تعاثر چہرے کتنی ہی بےرونق زندگی گزارتے ہیں نا ایسے لوگ۔۔۔۔
میں امید کرتی ہوں اس کہانی سے آپ کو کچھ سیکھنے کو ملے گا۔۔ تو چلیں پھر پڑھتے ہیں۔۔
جی تو یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی جسے پیار سے سب  مِشی کہتے ہیں اور میں اس کو مَنور کہتی تھی۔۔۔
ہم  نے بہت سارا وقت ساتھ گزارا میں اُس وقت کی بات کر رہی ہوں جب آپ کچی عمر میں ہوتے ہو۔ جب آپ جزبات سے کام لیتے ہو۔ جب آپ کے اندر اتنی سقت نہیں ہوتی کہ آپ اپنے غصے ، اپنے جزبات ،اپنے سوچ پہ قابو  نہ پا سکو۔۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں آپ اپنے زار اپنے قریبی لوگوں پر عیاں کر دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو کوئ سمجھنے والا کوئ سمجھانے والا چاہیے ہوتا ہے۔ کچھ باتیں آپ کو اس وقت سمجھ نہیں آتیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ آپ سیکھ جاتے ہو، سمجھ جاتے ہو مگر بھول نہیں پاتے۔
مشی اور میں نے 3 سال ساتھ گزارے اور ایک سال ہم نے صرف دعا سلام تک گزارا ۔ عجیب لگا ہو گا نا آپ کو مجھے بھی لگتا ہے بہت عجیب خیر کیا کیا جاسکتا ہے۔ ہم بہت سارے دوست تھے کھیل کود ،موج مستی سب کرتے تھے 2 سال ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے گزارا مگر وہ کہتے ہیں نا بعض اوقات جنہیں آپ بہت عزیز ہوتے ہو وہ آپ کو خود ہی آپنے آپ سے جدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں ان لوگوں میں سے تھی جو  دوستوں کے ساتھ دوست اور انجان لوگوں کے ساتھ انجان لیکن کچھ لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں ان سے بھی انجانوں والا رویہ اپناؤں۔
چلیں یہ تو الگ کہانی ہے ۔ میں تو آپ کو مِشی کی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ ایک مضبوط فیصلے والی لڑکی تھی اب کا معلوم نہیں مگر پہلے تو ایسی ہی تھی۔
مشی کے والد کا نام خالد تھا مگر اس نے کبھی اپنے نام کے ساتھ ان کا نام نہیں لگایا ۔ کتنا تکلیف دہ ہے نا!!! میرے لیے تو بہت تھا  ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے باپ کے لیے نفرت میں نے دیکھی تھی ۔ میں حیران تھی بیٹیاں تو باپ سے کتنا پیار کرتی ہیں ناں۔۔۔۔۔۔ ان کے گھر آنے کا انتظار کرتی ہیں جب وہ آ جائیں تو ان کے لیے دوڑ کے پانی لاتی ہیں۔ ان کا سر دباتی ہیں جو کہ وہ بلکل نہیں دبواتے ۔ باپ تو بوسہ دیتے ہیں دعا دیتے ہیں لاڈ اٹھاتے ہیں ۔ہر بات جو ابھی پوری منہ سے ادا بھی نہ ہوئ ہو وہ اپنی تھکان، اپنا کھانا چھوڑ کر اپنی بیٹی کی خواہش پوری کرنے کو دوڑتے ہیں۔۔
مگر یہاں کون تھا وہ کیوں تھی ایسی؟؟ کیوں اسے نفرت تھی اپنے  نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لگنے سے؟؟۔
وہ پریشان ہو جاتی تھی جب وہ نام سنتی تھی۔ میں نے بہت بار سوچا پوچھوں مگر نہ پوچھ سکی۔۔۔
کافی دن گزر گئے ہم گراؤنڈ میں بیٹھے تھے میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا وہ سامنے ہماری دوسری دوستوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی ہم دونو آپنی باری کا انتظار کر رہے تھے میں نے ہمت کر کے اسے مخاطب کیا۔ وہ ہمیشہ میری بات غور سے سنتی تھی ۔۔۔۔ اس نے اپنا چہرا میری جانب کیا اور باتھوں کو جھاڑ کر آلتی پالتی مار کے میرے سامنے بیٹھ گئ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھوں مگر اس مید سے کہ وہ مجھے بتا دے گی میں نے کہا۔۔
منور تمیں کیوں  نہیں پسند کہ تمہارے نام  کے ساتھ تمہارے بابا کا نام لگے۔
وہ حیرت اور افسردگی کی مکی جلی قیفیت میں مبتلا تھی۔
میں اس کی خاموشی کو سمجھ نہ سکی اور اسے انکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ بتا سکتی ہے۔
پھر جو اس نے مجھے بتایا مجھے یقین نہیں آرہا تھا بکلہ میں نے  کچھ لمحے تک یقین بھی نہیں کیا۔ میں کیسے کرتی مجھے تو لگا تھا سب ایک جیسے ہوتے ہیں پر اس وقت میں نے دنیا کو نہیں دیکھا تھا نا ۔
خیر میں خاموشی سے سنتی رہی۔ میں اس کے ایک ایک حرف کو دل میں دہراتی  رہی۔
جانتے ہیں اس نے کیا کہا۔۔۔۔
اس نے کہا اس کا کوئ باپ نہیں جانتے ہیں کیوں کہا اس نے۔۔
کیوں کہ باپ تو ساہباں ہوتے ہیں ۔ڈھال ہوتے ہیں ، کسی کی مجال نہیں ہوتی کوئ آپ کو آنکھ اٹھا کر دیکھے، باپ کے شفقت کا  سائیہ تو شجر کے سائے سے ذیادہ ٹھنڈا اور سکون والا ہوتا ہے۔
پر وہ کیوں محروم تھی؟؟ کیوں اس کے اندر محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تھی؟ ۔
میرے پاس الفاظ نہیں تھے سوائے کیوں کے۔ میں نے کہا ایسا کیوں کہ رہی ہو۔
اس نے بغیر آہ بھرے کہا ۔ کیوں لگاؤ نام اِس نام کا کیا کروں مجھے نام  نہیں باپ چاہیے تھا ۔
اس نے مجھے کہا تم جانتی ہو میرے باپ نے میری ماں کو چھوڑ دیا اور وجہ وجہ میں ہوں  میں ۔۔۔۔۔۔۔
اسے کی آنکھوں میں آنسو نہ تھے مگر دل دل تو روتا ہوگا نا۔۔۔
اس نے کہا میرے باپ نے میری ماں کو میری وجہ سے چھوڑا ۔۔( ایک درد بھری مسکراہٹ۔۔۔۔) انھوں  نے اس لیے چھوڑا کہ بیٹی کیوں پیدا ہوئ  انھیں بیٹا چاہیے تھا ناں اور میں پیدا ہو گئ۔ کیا میری ماں کے اختیار میں تھا سب ؟؟؟
جس شخص نے مجھے پیار کرنا تو دور کی بات دیکھا بھی نہیں اس کے نام کا کیا کروں میں؟؟
میرے لیے میری ماں سب کچھ ہے ۔۔۔۔(خاموشی۔۔۔۔۔۔)
مجھے سمجھ نہ آیا میں کیا ردعمل دوں ۔ میں نے کہا پھر تم کدھر ہوتی ہو؟
اس نے کہا : ہم نانو کے گھر ہوتے ہیں ۔۔۔
میں نے کہا سہی اتنے میں بیل کی آواز گونجی اور پھر اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور ہم اپنی کلاس کی جانب ہو لیے۔۔۔۔۔
اس کے بعد ہم نے نہ کبھی خود اس کے نام کے ساتھ اس کے بابا کا نام لیا اور نہ کسی کو لینے دیا۔۔۔
  اس بات کو گزرے کافی وقت ہو گیا تھا ۔۔ ایک دن ہم یوں ہی فارغ بیٹھے تھے تو میں نے اس سے سوال کیا۔۔
مشی کیا تم نے کھبی اپنے بابا سے ملنے کی کوشش نہیں کی؟
اس نے میری طرف دیکھا میں باہر درخت کو دیکھ رہی تھی اس کی نظروں کو اپنے اوپر  محسوس کر کے میں نے اس جانب رخ کیا۔۔۔
تو وہ کہنے لگی ۔۔ نہیں !
میں نے کہا کیوں؟ تو اس نے جواب دیا کبھی دل ہی نہیں چاہا۔ مجھے معلوم ہے وہ کدھر ہیں ان کی ایک  کمپلیٹ فیملی ہے بیوی بچے ۔۔ بچے پہ وہ رکی.... اور ہنس کر کہنے لگی بیٹے۔۔
مجھے بہت عجیب لگا اس کا یوں کہنا ۔
مجھے برا لگا اس کا یوں کہنا ہزار سوال میرے دل میں ہل چل مچا رہے تھے۔
مگر اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کو ترتیب کیسے دوں ۔۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کہ ایک اور سوال کر بیٹھی۔
مشی تمہیں تمہاری ماما نے منع کیا ہے کیا ؟
وہ بولی!! نہیں..... بلکل بھی نہیں مامو مجھے کہتے ہیں اگر تم ملنا چاہتی ہو تو ہم تمہیں نہیں روکیں گے ۔۔پر مجھے نہیں ملنا  کبھی کبھی دل کرتا ملوں اور پوچھوں کسور کس کا تھا ۔ پر سوال اور گلے تو اپنوں سے کیے جاتے ہیں ناں۔۔
میں حیران کھڑی اس کی باتیں سن رہی تھی۔

پھر اس نے بتایا اس کی ماما نے دوسری شادی کی تھی مگر وہ بھی نہ چل سکی اور وجہ پھر وہ بنی کون رکھتا ہے کسی اور کی اولاد کو  بہت کم لوگ اعلا ظرفی کا مظاہرہ  کرتے ہیں۔۔
اس کا ننہیال کافی ویل سیٹلڑ تھا مگر اس کی امی نے اس کی خاطر خود کام کیا۔۔۔
یہاں تک کہ  کیفیے میں ویڑر کی جاب بھی کی۔
کہتے ہیں ناں ماں غریب بھی ہو اکیلے پال لیتی ہے اولاد کو ۔ باپ بادشاہ بھی تو ہمیشہ اچھی تربیت کے لیے ایک ملکہ کی ضرورت رہتی ہے اسے۔۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کیا دورِ جہالت واپس آ گیا ہے ؟؟؟؟؟
ہاں یقیناً ایسا ہی ہے بس فرق اتنا ہے  اس وقت تو لوگ بیٹیوں کو زندہ گاڑھ دیتے تھے  اور آج کل کچھ لوگ  بیٹیوں سے رشتہ ہی نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔۔
افسوس ہے مجھے ایسے لوگوں کی سوچ پر کیسے بھول جاتے ہو تمہیں جننے والی بھی عورت ہی ہے۔
جس سے نکاح کیا ہے وہ تو بھی عورت ہی ہے۔
تم الله پر بھروسہ تو رکھو جس ذات نے تمہیں رحمت سے نوازہ ہے اس کے پاس کوئ کمی تو نہیں وہ تمیں نعمت سے بھی نوازے گا۔ ارے اولاد تو آزمائش ہوتی ہے اللہ آزماتا ہے اپنے بندوں کو کبھی اولاد دے کر کبھی لے کر۔
یقین مانو سہی کہتے ہیں جس گھر میں بیٹیاں نہ ہوں وہاں رونق نہیں ہوتی۔
آپ کیا چاہتے ہیں روز محشر جب ترازو رکھے جائیں تو اللہ آپ کے اعمال تو طولیں بھی نہ اور کہیں بتا کیا تو تھا مالک اس بیٹی کی روٹی کا کیا تو تھا مالک اسے رزق دینے کا ؟ جب خالق اور مالک وہ ہے پھر تمہیں کیوں بھاری لگتی ہیں بیٹیاں ۔ ہر شخص اپنے نصیب کا کھاتا ہے ایسا گناہ نہ کریں خدارا بیٹی کبھی بھی اپنے باپ کا جھکا سر نہیں دیکھ سکتی۔۔۔
اس کہانی کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسے میری التجا سمجھیں یا گزارش ایک بار سوچیں کہ یہ رشتے آپ سے کیا مانگتے ہیں ؟ صرف خلوص اور پیار کے اور کچھ نہیں مانگتے ۔ یقین مانیں آپ دنیا کی ہر چیز لا کر بھی جھولی میں ڈال دیں اور محبت سے پیش نہ آئیں تو ان سب چیزوں کی اہمیت صرف اتنی ہے ریت پہ آپ کچھ لکھو اور پانی کی لہریں اسے بہا لے جائیں۔۔۔
میں یہ ہر گز نہیں کہوں گی کہ اگر ایک شخص کو بیٹے کی خواہش ہے اور اس کی بیٹیاں ہی بیٹیاں ہے تو وہ دوسری شادی نہ کرئے یہ اس کا حق ہے وہ ضرور کرئے میں آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے  اسے تو  اسلام نے اجازت دی ہے وہ دوسری کیا تیسری  شادی بھی  کر لے مگر میں اتنا ضرور کہوں گی اپنا حق حاصل کرتے کرتے دوسروں کا نہ ماریں دوسروں کے حقوق بھی پورے کرئیں تاکہ آپ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں۔۔۔۔۔۔
از قلم بیااعوان۔۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 07, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

محرومیاں complete story✅Where stories live. Discover now