"آخر تم میری بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے ہو سالار!"وہ انتہائی بے چینی سے بولی۔ ستاروں کے جھرمٹ میں فلک اپنا وسیع دامن پھیلاۓ ہوئے تھا۔صحن میں لگے بلب کی سنہری روشنی میں وہ موبائل کان سے لگاۓ محو گفتگو تھی۔
"وہ لوگ نہیں آئیں گے حجاب! تم فکر نہیں کرو' ایسا کچھ نہیں ہو گا۔"
دوسری طرف سے قدرے تسلی بخش انداز میں کہا گیا تو وہ بوکھلا کر چونکی
"فکر نہ کروں؟ کیسے فکر نہ کروں؟ ابا نے بتایا ہے کہ وہ لوگ کل یا پرسوں تک لازمی آجائیں گے اور شاید بات بھی پکی کر جائیں۔ تب میں کیا کروں گی؟"
حجاب کے لہجے میں فکر مندی کا عنصر واضح جھلک رہا تھا۔ اس نے اپنی پشت پر بند دروازے کو ایک جھلک دیکھا اور پھر سے اپنے سامنے پھولوں کی کیاری پہ نظر جما لی۔
"تم انکار کر دینا حجاب! میں تمہیں کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔" سالار نے تڑپ کر کہا۔" ہاں انکار کرنا جیسے بہت آسان ہے نا میرے لیے، ابا جان لےلیں گے میری"۔
"پلیز حجاب میری خاطر"۔ اسکا انداز لجاجت سے بھرپور تھا۔
"تو تم بھیج دو نا اپنے پیرینٹس کو میرے گھر"۔اس نے مسلۂ کا حل پیش کیا۔
"وہ نہیں مانیں گے"۔ااسکی آواز و انداز یکایک پست ہو گئی تھی۔
"تم انہیں منا لو ناں پلیز۔ دیکھو سالار! میں تمہارے علاوہ کسی اور کو نہیں اپنا پاؤں گی"۔
"کس سے بات کر رہی ہو حابو!" کوئی اسکی پیٹھ پیچھے سے بولا تو وہ بوکھلا کر پلٹی۔ اسکے سامنے ایک ضعیف وکمزور خاتون نیم غنودگی کے عالم میں کھڑی تھی۔چہرے پہ بے جا جھڑیاں اور کالے دھبے تھے جو اسکی بڑھتی عمر کا تقاضا کر رہے تھے۔
"کسی سے ۔۔۔۔۔نہیں اماں۔ میں تو ۔۔۔کتاب پڑھ رہی تھی۔" اس نے ہاتھ میں پکڑی کتاب جھٹ سے آگے کرتے حیلہ بنایا اور موبائل کتاب کے نیچے چھپا گئی۔
"چل چھوڑ اسے اور اندر آ جا بہت رات ہو گئی ہے۔ باقی صبح پڑھ لی۔"
"جی اماں"۔ اماں کے جاتے ہی اسکی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ ایک افسردہ نگاہ موبائل سکرین پر ڈالی اور پژمردہ چال چلتی اندر ہو لی۔ لائن کٹ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی دن کے آٹھ بجا رہی تھی مگر اس کے باوجود وہ سر سے پاؤں تک چادر تانے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔
"ارے حابو! اٹھ بھی جاؤ۔ ابا جا رہے ہیں ان سے مل تو لو"۔ض
"حیا! پلیز تنگ مت کرو۔ سونے دو مجھے"۔وہ بے اعتنائی برتتی کروٹ لے کر پھر سے سونے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ حیا نے اسکی بےپرواہی پر کف افسوس ملا۔
"بہت بے شرم ہو گئی ہو ہمیشہ جان ہی چھڑاتی رہتی ہو۔کبھی نہیں ملتی تم ابا سے۔" وہ کہہ کر باہر نکل گئی۔
مختصر سا گھر جو ایک عدد کمرہ، غسل خانے اور کچن پر مشتمل تھا۔ ایک کونے میں نل لگا تھا جو وضو کرنے یا کپڑے دھونے کے کام آتا تھا۔ کچی اینٹوں کی بغیر پلستر کے دیواریں تھیں۔ صحن کا فرش بھی جگہ جگہ سے اکھڑ کر اب بڑے بڑے سوراخوں میں تبدیل ہو گیا تھا۔
حیا اپنے بالوں کی دو چٹیاں بناۓ، چہرے پر بلا کی معصومیت اور گہری مسکراہٹ لیے ابا کو ٹفن باکس تھما رہی تھی،یہ اسکا معمول کا کام تھا۔ اسکے سبا ٹیکسی ڈرائیور تھے۔
"افوہ! کیا مصیبت ہے۔" حجاب جو بہت دیر سے سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی بالآخر جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی۔
"ابا تو چلے گئے". اسے یوں بیٹھے دیکھا تو حیا نے اطلاع دی۔کمرے کی حالت بھی باہر سے مختلف نہ تھی۔فرق صرف یہ تھا کہ اسکی دیواریں پلستر شدہ تھیں۔
"تم ہمیشہ ابا کے چلے جانے کے بعد ہوش میں آتی ہو۔" ناجانے وہ طنز کر رہی تھی یا جتلا رہی تھی حجاب سمجھ نہیں پائی اور اپنے بالوں کو سنوارنے لگی۔
"حابو! ایک مزے کی بات بتاؤں؟" حیا اجازت طلب کرتی دھپ سے اسکے ساتھ چارپائی پہ ٹک گی۔ حجاب نے سر ہلا کر اجازت دی۔
"آج سلوی آپا آرہی ہیں اور ساتھ انکی رونقیں بھی۔ کتنا مزہ آۓ گا نا۔"
"کب"؟
"آج شام کو"
اور وہ جو۔۔۔۔۔ رشتے والے۔۔۔وہ کب؟"
حجاب نے فکر مندی سے پوچھا۔
"ابا بتا رہے تھے کہ وہ لوگ کل آئیں گے تبھی تو آپا کو آج بلایا ہے تاکہ کچھ تیاری کر سکیں۔ تمھارے تو ایگزامز ہونے والے ہیں تو تم نے کہاں کسی کام کو ہاتھ لگانا". حیا اپنے بالوں کو بل دیتے ہوئے بولی۔
"تمہاری تیاری کیسی ہے؟"
"ہوں اچھی ہے". اس نے مختصر سا جواب دیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب بس بھی کرو حابو"۔ وہ کب سے اپا کی گود میں سر دھرے زاروقطار روۓ جا رہی تھی اور وہ اسے تسلی دیتے نہیں تھک رہی تھیں۔ جبکہ حیا تاسف سے اسے تکے جا رہی تھی۔ اسکی اک نظر حجاب پر اور دوسری نگاہ اپنی انگشت میں پہنی انگوٹھی پہ ٹک جاتی۔
"حابو! اس میں اتنا رونے کی کیا بات ہے۔ بیٹی تو ہوتی ہی پرایا دہن۔ آج نہیں تو کل اسے اگلے گھر تو جانا ہی ہوتا ہے"۔ آپا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"مگر آپا بیٹی کوئی بھیڑ بکری تھوڑی ہے کہ جس ریوڑ میں چاہیں ہانک دیں۔ پسند ناپسند بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔" اس نے سر اٹھا کر شکوہ کیا۔
"دیکھو حجاب! شہریار اچھا لڑکا ہے۔ پڑھا لکھا ہے، اپنے گھر والا ہے۔ بہت کیرینگ ہے۔ بہت خوش رکھے گا تمہیں۔"
"But i don't like him."
وہ حقارت سے بولی۔"میں ہرگز اس سے شادی نہیں کروں گی۔" وہ انگشت بدنداں سی اسے دیکھے گئی۔
"حابو! تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟"
"جی بہت اچھے سے۔ وہ میرا آئیڈیل تھا اور نہ ہی ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔"اسکا لہجہ اٹل تھا۔ سلوی کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔وہ اپنا شک ظاہر کیے بنا نہ رہ سکیں۔
"حابو! تم ابھی تک۔۔۔۔ سالار سے۔۔۔۔"
وہ دانستہ اپنی بات ادھوری چھوڑ گئیں۔ آج رشتے والے حجاب کو پسند کر گئے جس پر اسکے حواس جاتے رہے۔ وہ اس رشتے کے لیے قطعی راضی نہ تھی اور نہ ہی ہونا چاہتی تھی۔ وہ ایم ایس کی سٹوڈنٹ تھی جب سالار نامی شخص سے اسکا واسطہ پڑا تھا۔ اسکی خاموشی کا مفہوم وہ اچھے سے سمجھ گئیں۔
"حابو! تم اس سے دوبارہ کب ملی؟"
"میں نے اسے چھوڑا ہی کب تھا جو دوبارہ ملتی۔"وہ مسکرا کر بولی۔
YOU ARE READING
حجاب
Short Storyیہ کہانی ایسی خواہشات اور آرزوؤں کے گرد گھومتی ہے جو لاحاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تباہ کن بھی ثابت ہوتی ہیں۔ حجاب کی خواہشات بھی کچھ اسی طرح کی ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کی خاطر وہ بہت سوں کی زندگیاں اور عزت داؤ پر لگا دیتی ہے۔