حجاب پہ تو گویا بم پھوڑ دیا گیا تھا۔ دماغ یکدم ماؤف ہو گیا تھا۔ جب حواس تھوڑے بحال ہوۓ تو غصہ عود کر آیا اورچیخ پڑی۔
"تم گھٹیا، دھوکے باز۔ میری زندگی برباد کر ڈالی۔ مجھ سے شادی کے وعدے کر کے خود۔۔۔ یہ۔۔۔ ازدواجی زندگی مزے سے گزار رہے ہو۔" حجاب نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔
"بیہیو یور سلف"۔ وہ اسکے ہاتھ جھٹک کر تقریباً دھاڑا۔
"تم نے مجھے چیٹ کیا ہے، دھوکہ دیا ہے مجھے۔ جب دھوکہ ہی دینا تھا تو مجھ سے شادی کے وعدے ہی کیوں کیے تم نے؟ میں تمھاری خاطر سب کچھ یہاں تک کہ اپنی شادی بھی چھوڑ ائی۔" حجاب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر ڈالے۔ وہ اپنے بال نوچنے پہ آگئ۔ وہ کیا کر بیٹھی تھی؟ یہ کیا ہوگیا تھا؟ پلٹ وہ سکتی نہیں تھی۔ ناجانے کیا قیامت گزری ہوگی وہاں؟۔
"شادی اور تم سے؟" وہ تمسخر اڑاتے ہوئے بولا۔
"تم ہو اس قابل؟ آئینہ دیکھا ہے کبھی غور سے؟ اپنے ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال کر آئی ہو اور مجھ سے بات کرتی ہو شادی کی؟ جسے عزت اور رشتوں کا پاس رکھنا نہیں آتا وہ کسی کی عزت کا کیا خاک خیال کرے گا۔ جاؤ جاؤ کسی اور کو یہ چکمہ دو۔ بے غیرتی کی انتہا کردی ہے تم نے۔" وہ اپنا دامن بچا کر سارا الزام اسکے سر ڈال رہا تھا۔ وہ بس اسکا منہ دیکھتی رہ گئی۔
امل اور اسکی ساس خاموش تماشائی بنی رہیں۔ وہ کب اٹھی ، کہاں گئی، سالار نے جاننے کی رتی برابر بھی کوشس نہیں کی۔
"سالار! یہ سب کیا تھا؟ وہ سچ کہہ رہی تھی؟ تم نے کہا اسے شادی چھوڑنے کا؟"
"ممی! میں اسے ایسا کیوں کہوں گا؟ میں ایسا لگتا ہوں آپکو؟"
"میں ماں ہوں تمہاری۔ بہت اچھے سے جانتی ہوں تمہیں۔" اسکی سرزش کی گئی تو وہ ماں کو آنکھوں سے امل کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔
"ممی!" اسکی آواز میں التجاء تھی۔ امل خاموشی سے اٹھ کر سالار کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
" میں جانتی ہوں وہ لڑکی حرف بہ حرف سچ بول کر گئی ہے۔ میں آپکو اس سے باتیں کرتے کئی بار سن چکی ہوں۔ کاش سالار آپ نے کسی کی بیٹی کی زندگی کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ایک بار یہ سوچا ہوتا کہ آپ خود بھی ایک بیٹی کے باپ ہیں"۔ وہ اسے شرمندہ سا چھوڑ کر باہر نکل گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار سال بیت گئے مگر وہ یونہی زمانے کی ٹھوکروں میں رہی۔ کہیں بھی ٹک کر نوکری نہ کر پائی۔ جہاں جاتی اسے اکیلا اور بے آسرا سمجھ کر ہوس زدہ نگاہیں پیچھا کرنے لگتیں۔ کئی بار اپنی عزت بچانے کے لیے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔
"حجاب! تم بہت خوبصورت ہو۔ اور یہ دنیا کے کالے بھیڑیے تمہیں بےآسرا پا کر نوچ کھائیں گے۔ اپنی حفاظت کرو۔" کسی کولیگ نے اسے ایک کالا کپڑا تھماتے ہوئے کہا۔ وہ تو اسے کپڑا دے کر چلی گئی مگر وہ اسے اپنے اوپر اوڑھ کر زاروقطار رو دی۔ "کونسی حفاظت؟ کیسی حفاظت؟ کاش کہ آپاکا کہا مان لیتی اور تب اس سے اپنی حفاظت کرتی۔ تب کر لیتی تو شاید سالار مجھ پر فریفتہ نہ ہوتا، کاش میں اسکی چپڑی باتوں میں نہ ائی ہوتی۔"
وہ اسکارف سے چہرہ ڈھانپے، بس اسٹاپ پر کھڑی بس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی جب اسکی نظر بینچ کے کونے پہ بیٹھی سلوی پر پڑی۔ کتنے عرصے بعد قسمت مہربان ہوئی تھی، کسی اپنے کا چہرہ دکھائی دیا تھا۔ وہ فوراً سے پیشتر اس تک لپکی۔ وہ تو ترس گئی تھی کسی اپنے کو دیکھنے کے لیے۔ کوئی اپنا جسکے کندھے پر سر رکھ کر کچھ آنسو بہا لیتی۔ اب ہی تو موقع ملا تھا۔ وہ تقریباً بھاگ کر سلوی کے قدموں میں بیٹھی تھی۔
"آپا!" سلوی جسکے چہرے پر دن بھر کی تھکان اور اکتاہٹ تھی لمحے بھر کو حیرت میں بدل گئی۔
"آپا! میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔" اسکی زبان لڑکھڑا گئی۔ کیا تعارف کرواتی اپنا؟ اور کس منہ سے کرواتی؟
"حابو! تم؟" اسے پکارتے ہی سلوی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ حابو گلے لگ کر ناجانے کتنی دیر آنسو بہاتی رہی۔ سلوی نے اسے اٹھا کر اپنے برابر بٹھا لیا۔ "کیسی ہو آپا؟ اماں ابا کیسے ہیں؟ اور حیا؟ وہ بہت خوش ہو گی شرجیل کے ساتھ۔ کتنے بچے ہیں اسکے؟" وہ ایک ساتھ اتنے سوال کر بیٹھی اور آپا کرب سے آنکھیں موندھ گئی۔ کتنے دردناک سوال تھے یہ۔ آپا کو چکر سے آنے لگے۔ آنسوؤں کا تانتا بندھ گیا۔ پلکوں سے ٹوٹ کر گالوں پر اور پھر تھوڑی سے لڑھک کر چادر میں جذب ہوتے چلے گۓ۔
"آپا؟" حجاب کا تڑپ اٹھا۔ کچھ غلط ہو جانے کا اندیشہ گزرا۔
"اماں ابا کیسے ہیں؟" اس نے بےچینی سے سوال دوہرایا۔
"حابو! ابا۔۔۔۔اب نہیں رہے"۔ وہ دھیرے سے گویا ہوئی۔ اسکا سر سائیں سائیں کرنے لگا۔
"کیا؟"
"تمھارا یوں گھر سے جانا ابا کو گہرا صدمہ دے گیا اور وہ وہیں دم توڑ گئے۔ اماں کو فالج ہو گیا ہے، اور۔۔۔ مجھے طلاق ہوگئی۔ میں اماں کے ساتھ ہوتی ہوں"۔ انکی آواز مزید پست ہو گئی۔
"طلاق؟۔۔۔۔کیوں؟" یہ کیسے انکشافات ہو رہے تھے اس پر۔ آپا نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔
"تمہاری وجہ سے۔ تمھارا کیا خیال تھا کہ تم ایسے بھاگ جاؤ گی عین نکاح کے وقت اور میرے سسرالی اپنی بےعزتی بھلا کر مجھے اپنے ساتھ رکھتے؟" وہ نظریں چرا گئی۔
"حیا؟" وہ بس اتنا ہی بول پائی۔ آپا نے طویل سانس کھینچی۔
"تم جانتی ہو اسکی زندگی میں صرف دو ہی مرد آۓ تھے۔ ایک ابا اور دوسرا شرجیل۔" آپا کی آنکھیں موتیوں سے چمک رہی تھیں۔ وہ ضبط کر کے بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔ پورا ماضی کسی فلم کی طرح پھر سے نظروں کے سامنے گھوم گیا۔
"ابا کے جانے کے بعد حیا بیمار ہو گئی۔ چیک کرنے پر پتا چلا کہ ٹایفیڈ بگڑ گیا ہے۔ بس سنبھل نہیں پائی وہ۔ غموں کے پہاڑ سہے تھے اس نے۔ ایک ابا کی وفات اور دوسرا تمھاری وجہ سے اسکی بارات لوٹ گئی۔ میں اب اماں کے ساتھ ہوتی ہوں، یہاں قریب ہی سرکاری سکول میں ٹیچر ہو"۔ وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ حجاب کا دل بیٹھنے لگا۔ آپا اسکی نہیں سنیں گی؟
"آپا!٫ وہ کرب سے بولی۔
"کاش! تم نے ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار فقط ایک بار اپنے سے جڑے رشتوں کے لیے سوچا ہوتا۔ تو شاید یہ سب نہ ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔ تمھارے بوۓ گۓ اس بیج کی فصل ہمیں ساری عمر کاٹنی ہے۔ تم نے اچھا نہیں کیا ہمارے ساتھ۔ چلتی ہوں، اماں انتظار کر رہی ہوں گئیں"۔وہ کہہ کر قریب رکنے والے رکشہ میں بیٹھ گئیں۔ جبکہ وہ دم سادھے بیٹھی رہ گئی۔
اسکا فقط ایک غلط فیصلہ کتنوں کی زندگی برباد کر گیا۔ وہ کتنی دیر یونہی خالی الذہنی کے ساتھ بیٹھی رہی۔ پھر چہرہ چھپانے سڑک کے کنارے چلنے لگی۔ وہ اپنی پشیمانی چھپا نہیں پا رہی تھی۔ اس عالم میں اسے نہ تو چبھتی دھوپ کی فکر تھی اور اپنی ٹوٹی ہوئی چپل کی۔
"یہ کیا ہوگیا؟ میں نے ایسا کیوں کیا؟ صرف سالار کے لیے؟ ۔۔۔۔جو کبھی میرا تھا ہی نہیں۔ کاش! کاش! میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ کاش! میں نے اماں ابا کی عزت کا پاس رکھا ہوتا۔"
"اب کیا فائدہ"
کوئی اسکے اندر سے بولا۔
"سب کچھ تو برباد ہو گیا۔ کچھ بھی تو نہیں بچا۔ تمھاری خود سری نے سب برباد کر دیا"۔
کوئی مسلسل اسکے اندر اسے ملامت کر رہا تھا۔
"تم ہمیشہ ابا کے چلے جانے کے بعد ہوش میں آتی ہو"۔
اسے لگا جیسے حیا نے بہت قریب سے یہ بولا ہو۔ مگر۔۔۔۔۔
وہاں تو کوئی نہ تھا سواۓ۔۔۔۔۔
اسکی بربادی کے،اسکی پشیمانی اور۔۔۔۔
اور خالی دامن کے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
حجاب
Historia Cortaیہ کہانی ایسی خواہشات اور آرزوؤں کے گرد گھومتی ہے جو لاحاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تباہ کن بھی ثابت ہوتی ہیں۔ حجاب کی خواہشات بھی کچھ اسی طرح کی ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کی خاطر وہ بہت سوں کی زندگیاں اور عزت داؤ پر لگا دیتی ہے۔