زندگی کا سفر ریل کی طرح ہوتا ہے جو غمی اور خوشی کے ٹریک پہ سوار بہت سے مناظر کو پیچھے چھوڑے دوڑا چلا جاتا ہے۔اس سفر میں جہاں بہت سی دشواریوں سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے وہی بہت سی آسانیاں بھی میسر آتی ہیں۔منظر ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔تبدیلی زندگی کا حصہ ہے۔کچھ منظر ہماری آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں تو کچھ منظر آنکھوں میں چبھن کا باعث بھی بنتے ہیں۔اس سب کے باوجود ہم زندگی کی اِس ٹرین میں سوار رہتے ہیں اس سوچ کے ساتھ کہ اس سفر کے اختتام پہ ایک خوبصورت منزل ہماری منتظر ہو گی۔مگر کیا منزل ملنے کے بعد سفر ختم ہو جاتا ہے؟ بالکل نہیں۔۔۔سفر یونہی جاری و ساری رہتا ہے بس نوعیت بدل جاتی ہے۔زندگی کی اِس ٹرین میں وہ پانچوں بھی یونہی سوار تھے۔گزرتے سفر اور وقت کے ساتھ جہاں بہت سی تبدیلیاں اُن کی زندگیوں میں رونما ہوٸیں تھیں وہی اُن کی بہت سی عادتیں بھی پختہ ہو گٸیں تھیں۔اور وقت کے بہتے دھارے میں کب اُن کے تین سمیٹرز پورے ہوۓ اُنہیں پتہ بھی نہ چلا۔چوتھا سمیسٹر شروع ہو چکا تھا۔اور اس سمیسٹر کے ختم ہوتے ہی جہاں عبیرہ کے گھر والے اُسے اور زین کو کِسی رشتے میں منسلک کرنے کا سوچ رہے تھے تو دوسری طرف عافیہ بھی بہت سوچ بچار کے بعد حدید کے حق میں فیصلہ سُنا چکی تھی۔اور اُس کے اقرار کے بعد حدید کو یوں لگا جیسے لمبی مسافت کے بعد اُسے سکون میسر آ گیا ہو اور وہ ایک دم ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔ان پانچوں میں ہالہ نور وہ واحد ہستی تھی جو بظاہر تو اِن سب کے ساتھ زندگی کا یہ سفر ہنسی خوشی گُزار رہی تھی۔مگر اُس کے دل پہ ٹھرے پانیوں سا سکوت چھایا تھا۔۔۔اک گہری خاموشی اور جمود۔۔جہاں کوٸ ہلچل نہ تھی۔۔۔یوں لگتا جیسے زندگی کی اس ریل میں سوار ہونے سے پہلے وہ اپنا دل اسٹیشن پر ہی چھوڑ آٸ ہو اس آس کے ساتھ کہ اُس کا صیح حقدار اُس کے نام کی تختی لیے ایک دن اسٹیشن پہ آکے اُسے موصول کر لے گا۔۔۔مگر موصول کرنے والا تو جیسے بھول چکا ہے کہ کوٸ اُس کا منتظر ہے۔۔اور بھلا بغیر دل کے بھی کوٸ زندہ دلی سے جی پایا ہے۔۔بالکل نہیں دل کے بغیر زندگی کو گھسیٹا جا سکتا ہے جیا نہیں اور یہی حال ہالہ نور کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روشن دن کا آغاز ہو چُکا تھا۔سردیوں کی آمد آمد تھی۔اور شہرِ اسلام آباد میں تو سردیوں کے شروع کے دنوں میں ہی اچھی خاصی محسوس کیے جانے والی ٹھنڈ ہوتی تھی۔مگر آج ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوٸ تھی۔جو کہ اس شہر کے مکینوں کے لیے سکون کا باعث تھی۔سلطان ولاز کے لان میں بیٹھی وہ تینوں بھی دھوپ سینک رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مالٹوں سے لُطف اندوز ہو رہی تھیں۔گزرتے سال میں اِن تینوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔جِس کی وجہ سے وہ تینوں اب بغیر جھجک کے آۓ روز ایک دوسرے کے گھر پاٸی جاتیں۔گزرتے وقت کے ساتھ اُن کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گٸ اور شرارتوں میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ایسے ہی موج مستیاں کرتے انہوں نے ایک دوسرے کے سنگ گُزرا ہر پل یادگار بنایا۔عبیرہ بس بھی کر دو کیا ندیدوں کی طرح اِن سارے مالٹوں پہ تم ہی نے ہاتھ صاف کرنے ہیں،عافیہ نے گھورتے ہوۓ عبیرہ کے ندیدے پن پہ چوٹ کی جو شودوں کی طرح مالٹے پہ مالٹا کھا کم ٹھونس زیادہ رہی تھی۔
YOU ARE READING
اکھیاں نوں اُڈیک سجن دی
Romanceیہ داستان ہے حاصل و لا حاصل کے درمیان ڈولتے یکطرفہ عشق کی اب دیکھنا یہ یے کہ عشق کی آگ میں سلگتی لڑکی کے نصیب میں وصال یار لکھا ہے یا پھر ہجرِ یاراں۔۔ اور یہ کہانی ہے خالص جذبوں میں گندھی دوستی کی❤