خاموش آنسو

34 0 0
                                    

خاموش آنسو
از قلم اقراء انصاری
سٹیٹس:سلسلہ وار ناول

رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب وہ شخص اپنے کمرے میں بے سدھ سویا ہوا تھا۔ وہ خواب کی سی کیفیت میں نیند میں بڑبڑاتا ہے۔۔
"امّی پلیز مجھے خود سے الگ مت کریں ۔۔۔"
"میں آپکے پاس رہنا چاہتا ہوں۔۔"
"امّی مجھے اپنے پاس رکھ لیں۔۔۔ "
پھر خواب کے زیراثر اس کی آنکھ کھلی۔ وہ پسینے میں شرابور اور ایسے لگ رہا تھا جیسے سوتے میں بھی بھاگ بھاگ کے سانس چڑھا ہو۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اسے احساس ہوا کہ وہ رو بھی رہا تھا ۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔۔۔
جب اسے اس طرح کے خواب آتے تھے تو اس کی حالت ایسی ہی ہوتی تھی۔۔
وہ لمبے لمبے سانس لے کے خود کو بحال کرتا ہوا بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
باہر تہجد کی اذانیں دی جا چکی تھیں۔۔
وہ بوڑھا شخص تہجد کی نماز پڑھ کے جائے نماز پر تسبیح میں مصروف تھا کہ وہ شخص دروازہ کھول کے اندر آیا اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔
"دادا جی مجھے وہ دن وہ اذیت ناک راتیں بہت ستاتی ہیں۔۔ "اس نے چھوٹے بچے کی طرح روتے ہوۓ اپنا سر ان کی گود میں چھپا لیا۔۔
"مجھے راتوں کو سکون کی نیند نہیں آتی۔۔۔"
"یہ خواب مجھے بہت اذیت دیتے ہیں۔۔"
انہوں نے بہت پیار سے اپنے پوتے کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور خود یاسیت سے آنکھیں میچ لی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عرشی بیٹا!!"جلدی کرو میں تمھارے مدرسے(النور)کے پاس سے گزروں گا تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔
"جی بابا چلیں "
"ہممم!! اپنے بھائی کو کال کر دینا وہ تمہیں وہاں سے لے آئے گا۔۔"
"جی بابا بس آج تھوڑی دیر ہو جائے گی۔ آج کنووکیشن ہے"
"اوکے "
اتنے میں مسز واجد اپنی بیٹی کی بات سن کے باہر آئیں۔۔
"عرشی آخر تم کب یہ سوکالڈ مدرسہ  چھوڑو گی۔۔" ہر دفعہ کا کہا گیا جملہ پھر اس کی سماعت میں بے طرح ٹکرایا تھا۔۔
"کم از کم اپنی حیات میں تو کبھی بھی نہیں۔۔"
سرسری سا جواب دے کر وہ پلٹ گئی لیکن اپنی ماں کے الفاظ سن کہ اس کے پاؤں زنجیر ہو گئے تھے۔۔
"مجھے تمہارا وہاں جانا پسند نہیں ہے۔۔ وہ لوگ اسلام کے نام پہ انتشار پھیلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ان کو دین کی زیادہ سمجھ ہے۔ وہ لوگوں کو نیچا دکھانے کیلیے ایسا کرتے ہیں۔۔"
وہ ٹھہر ٹھہر کہ درشتی سے الفاظ ادا کرتی ہوئی عرشیہ کے بلکل قریب آ گئیں۔۔
عرشیہ اسی سکون سے پلٹی اور دونوں ہاتھ باندھ کر اور اپنی ہلکی نیلی آنکھیں ان پر گاڑ کر متانت سے کہا۔۔
"ماما آپ کو میرا پڑھنا، وہاں جانا پسند نہیں؟۔۔ ٹھیک ہے!
لوگوں کو میں اچھی نہیں لگتی؟ ٹھیک ہے!"
"لیکن اللّٰہ کو؟۔۔۔ ہاں ماما؟ ۔۔۔ اللّٰہ کو میں ایسے ہی اچھی لگوں گی۔ ان کی محبوب بندی میں ایسے ہی بنوں گی۔"
"جہنم کی آگ سے، قبر کے عذاب سے میری حفاظت قرآن، میرا اسلام کرے گا۔۔"
"دنیا پیٹھ دکھا کہ ،انسان کو تنہا چھوڑ کر چلی جاتی ہے بھرنا خود نے ہے۔ ہم اپنی فانی زندگی میں کیا بوتے ہیں؟ اور ابدی میں کیا کاٹیں گے؟ اس کا فیصلہ انسان کرتا ہے۔ اور انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔۔۔  بیشک اللّٰہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کر دے۔ پھر اللّٰہ گمراہوں کو ہدایت نہیں دیتا۔۔"
وہ خود کے خلاف باتیں سن سکتی تھی لیکن دین پہ کیسے سہتی۔۔۔
پھر اس کی ماں نے دوسرا حربہ آزمایا اس کو توڑنے کیلیے۔۔۔
"یہ جو تم دین کا لبادہ اوڑھ کر مجھے بیوقوف بنا رہی ہو۔۔ کیا میں واقف نہیں ہوں تمھاری کرتوتوں سے؟ یہ جو لوگ باتیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ کیا اس سے ہمارے سٹیٹس پر بات نہیں ہو گی؟ اور اگر تم اتنی نیک اور پاکباز ہوتی تو تمھارا شُوہر تمھیں رخصت کروا کر نہ لے جاتا۔۔دو سال ہو گئے ہیں پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔۔۔تمھاری انھی حرکتوں کی وجہ سے۔۔"
عرشیہ یہ الفاظ سن کہ گنگ رہ گئی ۔۔وہ اپنی ماں کے زہر میں بجھے ہوۓ تیروں سے ایسے ہی چھلنی ہوتی تھی۔۔اس کو اپنا آپ منّوں مٹی تلے دبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
اور جب عرشیہ خود کو ڈی فینڈ کرتی تو اس کی ماں اس کو ایسے ہی زہریلے کوڑے رسید کرتی تھیں۔
وہ یہ الفاظ پچھلے کئی سالوں سے سن رہی تھی۔۔
آخر ایسا کیا گناہ ہوا تھا عرشیہ سے جو وہ یہ الفاظ اپنے لیے سنتی آ رہی تھی۔۔۔
اور آنسو؟۔ کیا رک سکتے تھے اس کے؟ اسکی آسمان کی رنگت جیسی ہلکی نیلی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر اس کے عبائے میں جذب ہونے لگے تھے۔۔۔
کیا ماں بھی اپنی بیٹی کے خلاف اپنے اندر اتنا غبار رکھ سکتی ہے؟
آخر اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے
دنیا کو سمجھانا
"(اور دنیا تو بلاشبہ سب سے بڑی آزمائش ہے)"
اور واجد صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ  بیزاری سے اپنی بیوی کو دیکھا۔۔
"کیا تمہارا آئے دن یہ تماشا لگانا ضروری ہوتا ہے؟ ڈرو اس دن سے جس دن اپنا بویا ہوا خود کاٹو گی۔۔ منہ کے بل گرو گی یاد رکھنا۔۔"
انگشتِ شہادت اٹھا کر ترش لہجے میں کہا۔۔ واجد صاحب ان کو ایسے ہی لفظوں کے چانٹے رسید کیا کرتے تھے۔ لیکن ایسے لوگوں کو کہاں لگتی۔۔
موسمِ بہار کی خوشگوار بادِصبا میں زہریلا تناؤ پھیل گیا تھا۔۔ وہ اچٹتی نگاہ ان پہ ڈال کہ سر جھٹک کہ آگے بڑھ گئے۔۔
"چلو عرشی بیٹا"
اور عرشی غائب دماغی سے اپنے باپ کے قدموں کی پیروی کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔۔
پیچھے مسز واجد اکیلی رہ گئیں اور ایسے لوگ ایک دن واقعی ہی اکیلے رہ جاتے ہیں ۔۔لیکن وہ اپنی خصلتوں سے نہیں پھرتے۔۔انسان اپنی سرشت سے کب پھرا ہے۔۔
مسز واجد پیر پٹختی واپس چلی گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلند و بالا عمارت پر اس کا شیشوں سے ڈھکا آفس آج بھی اپنی پوری شان سے کھڑا تھا۔۔۔
اس وقت وہ شخص اپنے آفس میں فائل کی ورق گردانی کرتا بلکل اپنے کام میں مصروف تھا کہ اسی وقت دروازہ نوک ہوا۔
"Yes come in"
"سر وہ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے " ہاتھوں کو باہم پھنسائے اس نے کہا۔۔
"کون؟؟" سر  فائل میں گھسا کے بلکل مصروف انداز میں پوچھا۔۔
"سر ساجد" اور اپنے والد کا نام سن کے اس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت فائل پہ سخت کر لی۔
سیکٹری نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا پھر اس کی نظر اس کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اس کے لال بھبھوکا چہرے پہ گئی اور مارے خوف کے اس نے اپنا پسینہ صاف کیا۔
"بھیج دو"۔۔۔۔  سپاٹ انداز میں یک حرفی جواب دیا۔ اور سر جھٹک کہ دوبارہ فائل میں مصروف ہو گیا۔۔
سیکٹری وہاں سے اس کا جواب سن کر گولی کی طرح غائب ہوئی تھی جیسے وہ اسے کچا چبا جائے گا۔
اسی وقت دروازہ کھول کہ ساجد صاحب داخل ہوئے۔۔
"زاویار بیٹا میں پچھلے آدھے گھنٹے سے تمھاری سیکٹری سے کہہ رہا تھا کہ میرے آنے کی اطلاع دے دو لیکن وہ کہہ رہی تھی تم میٹنگ میں تھے؟" ساجد صاحب نے آتے ہی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
اور زاویار کی طرف سے جواب ندارد پا کر انہوں نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں اور ترش لہجے میں گویا ہوئے ۔
"زاویار ساجد میں تم سے مخاطب ہوں۔۔ "" اور زاویار تو جیسے یہاں موجود ہی نہ ہو پھر فائل ٹیبل پر پٹخ کر ایک ہاتھ جیب میں اڑس کر پتھریلے لہجے میں گویا ہوا۔۔
""Correction please""
زاویار انصاری نہ کہ زاویار ساجد ۔۔۔سپاٹ اور سخت چہرے کے ساتھ جواب دیا۔
"اور میں نے بھی آپ کو لاکھ دفع کہا ہے یہ میری ورک پلیس ہے یہاں نہ آیا کریں میں یہاں کسی قسم کی بد مزگی نہیں چاہتا۔ آپ بھی تو ہر دوسرے دن منہ اٹھا کہ آجاتے ہیں۔۔" زاویار نے زہر سے بھی کڑوے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
ساجد صاحب ہمیشہ سے زاویار کے زہریلے تیروں کا شکار رہے تھے جو ان کے جسم میں پیوست ہو کہ ان کو ریزہ ریزہ کر دیتے تھے۔۔
اور زاویار کو رحم آئے بھی کیوں؟ کیا برسوں پہلے اس پر رحم کیا گیا تھا؟
"زاویار کیا تم وہ سب بھول کر ہمارے ساتھ ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتے؟" ساجد صاحب نے بہت نرمی سے التجائی انداز میں کہا۔
"نہیں کر سکتا کچھ اور، بس یہی کہنے آئے تھے آپ؟ "
انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو اب آپ جا سکتے ہیں مزید بات نہیں کر سکتا۔
"ہمم اگر تم ایسے ہی چاہتے ہو تو ایسے ہی صحیح" وہ کڑک سے دروازہ بند کر روانہ ہو گئے۔
اور اسی وقت دروازہ وا ہوا اور ایک دراز قد موٹی گول مٹول آنکھوں والا شخص؛ گندمی رنگ، بھرے ہوۓ گال، سیاہ بالوں کا سپائک کھڑا کیا ہوا، کشادہ پیشانی اور وجہیہ شکل وصورت کا مالک ولید افتخار اور زاویار انصاری کا عزیز از دوست اندر داخل ہوا۔
اور دھرم سے کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھا ۔۔
وہ زاویار کی زندگی میں ہر دفعہ کسی شیطان کی طرح ہی نازل ہوتا تھا۔
اور آفس میں کوئی اس طرح سے داخل ہو سکتا تھا تو وہ تھے ولید صاحب ورنہ کسی کے باپ میں اتنی ہمت نہیں یہاں تک کہ زاویار کے باپ میں بھی نہیں کہ اس کے آفس میں اس کی اجازت کے بغیر ایسے داخل ہو جائے ۔۔
ولید کے ایسے آنے پر زاویار کی پیشانی کے بلّوں میں اضافہ ہوا۔۔۔
"تمہیں اپنے آفس میں کوئی کام نہیں ہوتا ہر وقت میرے سر پہ مسلط رہتے ہو۔ "
اور اس کے ایسے طرز تخاطب پر ولید منہ پھاڑے ہونقوں کی طرح اسے دیکھے گیا۔
"تمہیں کیا ہوا ہے۔۔"تفتیشی انداز میں پوچھا۔۔۔
"تم کیا کر لو گے؟"پوچھتے پوچھتے اس کی نظریں ولید کے چہرے پہ گئیں جو اسے کھوجتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟"۔۔۔
"انکل آئے تھے؟" ۔۔بغیر کسی لگی لپٹی کے پوچھا ۔۔
اس کا غصہ جس طوفان کا پیش خیمہ تھا اس کے تمام تر آثار زاویار کے چہرے پر بکھرے تاثرات سے ظاہر ہو رہے تھے۔۔
زاویار نے ہولے سے سر اثبات میں ہلایا اور بولا "ویسے تم کوئی جن کی اولاد ہو؟ تمہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے؟"
"استغفراللّٰہ! زندہ انسان کی اولاد ہوں اور رہی بات  پتہ کیسے چل جاتا ہے؟۔۔۔تیری شکل سے جو تو ایسے بنا لیتا ہے جیسے تجھے کوئی لڑکی چھوڑ کے کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہو۔۔چچ چچ اس طرح کی شکل بناؤ گے تو کسی اندھے کو بھی پتہ چل جاۓ۔"
وہ زاویار کو زچ کر کہ حد درجہ محفوظ ہوتا تھا ۔۔
"ویسے یہ فضول بکواسیات تمھارے ذہن میں آتی کہاں سے ہیں؟"تپے ہوئے لہجے میں کہا
"یہ میرے خون میں ہے پیارے اور اس کو انٹرٹین کرنا کہتے ہیں۔۔تصیح کرو۔۔۔خود تو ہر وقت سڑی ہوئی شکل بنا کہ گھومتے ہو اتنی پیاری شکل اللّٰہ نے اس لئے تو نہیں دی ۔۔لیکن اس کے اوپر ہمیشہ بارہ بجے رہتے ہیں ۔۔شکر کر میرے ساتھ مسکراتا تو ہے--"
زاویار ہلکا سا مسکرایا تو اس کی ٹھوڑی پر موجود ڈمپل گہرا ہوا تھا۔
"عرشیہ بھااا۔" زاویار نے سراعت سے ولید کا جملہ کاٹا اور انگشتِ شہادت اٹھا کر تنبہیہ کی۔۔
"یہ بات نہیں ولی باقی جو مرضی کر لیا کرو مگر اس موضوع پر مجھ سے بات نہ کیا کرو۔۔" ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ ادا کیا۔۔
"مزید میرا سر نہ کھاؤ اور یہاں سے جاؤ۔۔"
دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔
وہ جو اس کے ساتھ لنچ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا زاویار کے ایسے انداز پر ولید صاحب کہ تو مانوں سارے طوطے ہی اڑ گئے۔۔
"ویسے تم کہیں کریلے کا جوس وغیرہ تو نہیں پیتے؟ یا پھر  تم جڑ ہی کریلے کی ہو؟" اتنا کہہ کر ولید نے اپنی گول مٹول آنکھوں سے اس کو گھوری سے نوازا۔۔۔
زاویار نے اٹھ کر اپنی شرٹ کی آستینیں نیچے کیں پھر کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھاتے ہوۓ کہا۔۔
"میں میٹنگ میں جا رہا ہوں جب دل کرے چلے جانا۔۔"
"کوئی میٹنگ ویٹنگ نہیں ۔۔میں فری تھا سوچا لنچ ساتھ کرتے ہیں ۔۔"
اب تو صحیح معنوں میں زاویار کا دماغ ,الٹ گیا۔۔مطلب!
نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔
"تو تم بزی کس دن ہوتے ہو؟ اور دن میں دو تین مرتبہ تو تم نے اپنا یہ نورانی مکھڑا مجھے دکھانا ہوتا ہے۔۔" آنکھیں چُندھیا کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔
" تمہیں زیادہ نہیں بولنا آ گیا ؟" ۔۔ آنکھیں سکیڑ کر جواب آیا ۔
"اور پہلے لنچ کریں گے۔۔ بعد میں تم اپنی اس کمپیوٹرائز دنیا میں آ کہ جتنی مرضی میٹنگز کرنا میں تین چار گھنٹے تمہیں بلکل تنگ نہیں کروں گا۔ اس کہ بعد کا میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔"
ولید صاحب ایسے کہہ رہے تھے جیسے مانو احسان کر رہے ہو تین چار گھنٹے کی مہلت دے کہ۔۔۔
"پہلی بات کہ مجھے زیادہ بولنا آ گیا ہے تو ولید صاحب یہ آپ کی صحبت کا اثر ہے۔۔ اور دوسری بات! اگر اب تم یہ سب فضولیات لے کر میرے آفس آئے تو گارڈ سے کہہ کر باہر پھینکوا دوں گا تمہیں۔۔" انگشت شہادت اٹھا کر کہا۔۔
اور یہ جملہ ولید کو دن میں ایک مرتبہ تو سننے کو ضرور ملتا تھا۔
"تم نے وہ پرانی کہاوت تو سنی ہو گی، عورتوں سے الجھنے سے اچھا ہے بندہ سانپ سے کھیل لے اور تم کسی عورت سے کم مجھے لگتے نہیں ہو۔۔کیونکہ اتنے زہریلے طنز وہ ہی کرتی ہیں۔۔۔" زچ ہو کر کہا۔۔
زاویار نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
"ہنہ زہریلی عورت۔۔" ولید اپنے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔۔
وہ ولید کے ساتھ لڑ تو سکتا تھا لیکن انکار نہیں کر سکتا کیونکہ یہ واحد انسان تھا۔۔جسکے ساتھ زاویار کم از کم خوش تو رہتا تھا۔۔۔
ان کی کھٹّی میٹھی نوک جھوک پر آفس کی دیواروں نے ایک تابڑتوڑ قہقہ لگایا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
النور میں آج خاصا رش تھا ۔۔
تکمیل قرآن کی تقریب اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔۔
سب نے استاذہ جی کے ساتھ دعا کیلئیے ہاتھ اٹھائے تھے۔۔۔
عرشیہ نے بھی اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کہ چھپا لیا تھا۔۔
اور اجتماعی دعا تو ویسے بھی بہت فضیلت رکھتی ہے ۔۔
"دعا کیا ہے؟ دعا تو امید ہے۔۔اپنے اللّٰہ سے لگائی گئی آس  ہے ۔۔بیشک اللّٰہ  ہی دعاؤں کا سننے والا ہے۔۔
اِنَّکَ سَمِیۡعُ  الدُّعَآءِ ﴿۳۸﴾
بیشک تو دعا کا سُننے والا ہے
وہ کُن فَیَکُون کا مالک ہے۔۔۔اللّٰہ کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے ۔۔اس سے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک سکون اتر جاتا ہے کہ وہ زندہ جاوید ہستی ضرور سنے گی۔۔۔وہ تو ہمارے دلوں کے حال بخوبی جانتا ہے ۔۔
استاذہ جی دعا کروا رہی تھی اور عرشیہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے دعا میں زارو قطار رو رہی تھی ۔۔۔
اس کی دعاؤں میں گلہ نہیں ہوتا اللّٰہ سے۔۔ بس خاموش آنسو۔۔اس دنیا میں موجود اپنے ہر اس رشتے کیلیے جو اس کو توڑ کہ ریزہ ریزہ کر دیتے تھے۔۔
اللّٰہ سے رو کے مانگ لیں چاہے زبان سے کچھ نہ بھی بولیں وہ پھر بھی سن لے گا ۔۔ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے .رگ بھی تھوڑی دور ہے گویا
بس صبر اور کامل یقین ہونا چاہئے ۔۔۔
دعا مکمل ہو چکی تھی لیکن وہ ہنوز اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی تھی کے یکایک اسے احساس ہوتا ہے دعا ہو چکی ہے۔ اس نے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھایا اور اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنی ہلکی نیلی آنکھیں رگڑتی ہوئی سب کہ ساتھ باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔
اس نےگیٹ سے تھوڑی دور کھڑے ہو کر اپنے بھائی کو کال ملائی ۔۔۔
دھوپ کی وجہ سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔۔ ایک ہاتھ سے موبائل کان پہ لگایا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ کا چھجّہ بنا کر پشانی پہ رکھا تھا تا کہ آنکھوں میں دھوپ کم جائے ۔۔
"ہیلو السلام علیکم! زوار بھائی کہاں ہیں آپ آئے نہیں لینے ؟"
"صبر کرو! آ رہا ہوں۔۔۔" انتہائی بے رخی سے کہہ کر فون کاٹ دیا  ۔۔
وہ قریب ہی ڈیسک پر بیٹھ گئی۔ یاسیت سے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
گرد میں اَٹّی ماضی کی کئی تلخ یادوں کے سرد تھپیڑوں نے اس کو گھیر لیا۔۔۔
اے اللّٰہ تیری دنیا جینے کیوں نہیں دیتی۔۔ یہ اس قدر ظالم کیوں ہوتی ہے۔۔
"یہ دنیا بند کال کوٹھڑی کہ مترادف ہے   
.. . . . . . . . . . میرے مولا. . . . . . . . . . 
میں اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔۔"
"پر تو صبر دینے پر تو قادر ہے نہ۔۔تو مجھے صبر اور شکر کی توفیق دے دے۔۔ میرے لاڈلے اللّٰہ مائیں تو ہم راز ہوتی ہیں۔
لیکن یہاں تو میری ماں ہی مجھے رسوا کرنا چاہتی ہے۔۔۔آخر کیا گناہ ہوا تھا مجھ سے؟ محبت ہی تو کی تھی میں نے محبت کرنا گناہ تو نہیں ہے۔۔محبت تو دلوں میں تو ڈالتا ہے۔۔"
اس نے اتنا کہہ کے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں کو لگائے۔۔
اور آنسو اسی رفتار سے پھر اس کا چہرہ بھگو رہے تھے ۔۔آنسوؤں کی وجہ سے اس کا سارا نقاب بھیگ گیا تھا۔
یکایک اس کو اپنے کندھے پر بہت نرم گرم سا لمس محسوس ہوا تھا اور وہ یہ لمس کیسے بھول سکتی تھی۔۔اس کو سمجھنے والی ایک وہ ہی تو ہے جس سے وہ دل کی باتیں بلا جھجھک کر لیتی ہے۔۔
عرشیہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور سراعت سے اس سے لپٹ گئی ۔۔
"اقصیٰ آپی۔۔"
"کیا ہوا میری جان۔۔" محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
لیکن وہ کسی کی نہیں سن رہی تھی اس کو رونے کیلیے کندھا چاہیے تھا۔۔
اپنی عزیز از دوست کے کندھے پر سر رکھ کر وہ زاروقطار روتی رہی۔۔
اقصیٰ نے اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھایا اور محبت سے اس کی آنکھوں کو صاف کیا۔۔
"کیا ہوا ہے؟"سنجیدگی سے پوچھا تو اسی ٹائم عرشیہ کا موبائل رنگ ہوا۔۔۔
"اقصیٰ آپی ہم پھر ملیں گیں بھائی آ گئے ہیں۔۔" رونے کے باعث اس کی آواز میں خاصی تبدیلی آ گئی تھی نقاب بھی سارا خراب ہو گیا تھا۔۔
وہ اپنا حجاب صحیح کرتی باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔
اقصیٰ کی شفقت سے بھری نظروں نے اس کا دور تک تعاقب کیا۔اور واپسی کیلیے قدم بڑھا دیے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجد انصاری نے اپنے بیٹے کا نکاح اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی سے پڑھوایا تھا۔۔اس نکاح کے لئے زاویار بلکل بھی راضی نہیں تھا ۔۔البتہ اس کے دادا کے کہنے پہ اس نے عرشیہ سے نکاح تو کر لیا لیکن نکاح کو دو سال ہو گئے تھے زاویار نے نہ تو اس موضوع پر کوئی بات کی اور نہ ادھر کا رخ کیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کی نیلاہٹ آہستہ آہستہ پگھل کر رات کی سیاہی میں ڈھل رہی تھی۔۔موسمِ بہار کی دلکش ہوا ہر سو چل رہی تھی۔۔
آلودگی سے پاک اس خوشگوار ہوا میں اس عورت کے زہریلے لفظوں کا تناؤ رفتہ رفتہ مخلوط ہو رہا تھا۔۔
"کیا تم برسوں پہلے ہوا واقعہ بھول گئی ہو۔کیسے ہم نے اس کہانی کا اپنے طریقے سے انجام کیا تھا ۔اور تمہیں کیا لگتا ہے میں اسے یہ کہانی دہرانے دوں گی۔۔اور اگر ایسا ہوا تو میں دوبارہ قتل کرنے سے گریز نہیں کروں گی۔۔"
وہ اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑی ایک ہاتھ ریلنگ پر جمائے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل کان پر لگائے مصروف تھی۔۔
اس جگہ کی ہوا گھٹن زدہ ہو گئی تھی۔۔ہر چیز ساکن ۔۔اس ماحول میں کسی ذی روح کا سانس تک لینا مشکل ہو سکتا تھا۔۔۔
وہ رابطہ منقطع کر کہ سفاکی سے مسکرائی تھیں۔۔۔
گناہ کی عمر دراز نہیں ہوتی بس اللّٰہ ان کے گناہوں میں ان کو ڈھیل دیتا ہے اور ایک دن ان کی سخت پکڑ ہوتی ہے اور وہ گناہگار کا آخری دن ہوتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن عرشیہ النور سے واپس آئی جیسے ہی لان عبور کر کہ لیونگ روم میں داخل ہوئی سامنے بیٹھے دو نفوس کو دیکھ کہ لمحے بھر کو ٹھٹھک گئی۔۔
پھر اپنی اڑی ہوئی رنگت کو بحال کرتی ان کے پاس چلی آئی۔۔
ان کا گھر خاصا شاندار تھا۔۔ویل فرنشڈ اور رینوویٹ کیا ہوا جدید طرز کا بنگلہ پوری آن سے کھڑا تھا۔۔۔عرشیہ کو اپنے گھر میں ہر آسائش میسر تھی اگر اس کی زندگی میں کمی تھی تو وہ ایک چیز کی، محبت کی۔۔۔سامنے بیٹھے دو نفوس اس کے ساس سسر تھے۔۔
"السلام علیکم!" اس نے اپنے تایا ابّو کے سامنے سر جھکا کے پیار لیتے ہوۓ کہا۔۔
ساجد صاحب نے نرمی سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔
ہاں البتہ! مسز ساجد نے آبرو سکیڑ کر اس کے سراپے پہ نظر ڈالی ۔۔
اس نے سرمئی رنگ کا کھلے گھیرے والا عبایا پہنا ہوا تھا اور سرمئی رنگ کے سٹولر سے نقاب کیا ہوا تھا۔۔۔
"تم نے یہ ڈھکوسلے بازیاں چھوڑی نہیں ابھی تک؟" ان کے لب و لہجے میں تحکم اور رعونت کہ ملے جلے تاثرات شامل تھے۔۔
مسز ساجد نے ایک ناگوار نظر اس کے سراپے پر ڈالتے ہوئے کہا۔
"تائی امی میں یہ نہیں چھوڑ سکتی۔۔" انتہائی سنجیدگی سے جواب دیتی وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ تہمینہ کی سخت آواز پر وہ وہی ساکت ہو گئی اور اس کے جسم میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی۔۔
"کیا کہا تم نے ۔۔ تمہاری اتنی جرأت کہ تم نے مجھے جواب دیا؟"
تہمینہ ساجد کو تو مانو بہانہ چاہیے تھا اس پر بہتان بازی کرنے کیلیے۔ وہ اپنی ہرزہ سرائی سے باز کب آتیں تھیں۔۔۔
"تائی امی میں آپ کو جواب نہیں دے رہی میں محض یہ کہہ رہی ہوں میں اپنے اللّٰہ کی اپنائی ہوئی راہ کسی صورت نہیں چھوڑ سکتی۔دین کو سیکھنا اور آگے پہنچانا میرے اللّٰہ کی طرف سے حکم ہے۔"
نرم اور شہد سے تر لہجے میں جواب دیا۔۔۔
" کیا حکم ہے کیا نہیں یہ تم مجھے نہ ہی بتاؤ تو بہتر ہے لڑکی۔ تمھاری حرکتوں سے اچھے سے واقف ہوں میں ۔۔
یہ جو نقاب میں تم لوگ خود کو چھپاتی ہو نا۔۔ان کے لچھن کیسے ہوتے ہیں میں اچھے سے جانتی ہوں"۔۔عرشیہ کا اوپر سے لے کر نیچے تک جائزہ لیتی ہوئی بولی۔۔
اس جملے پر عرشیہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔یہ الفاظ اسے کرچی کرچی بکھیر دیتے تھے۔۔اس کہ حلق میں آنسوؤں کا ایک سیلابی ریلا اٹکا.۔۔
ساجد صاحب اپنی بیگم صاحبہ کے تبصرے پر ساکت کھڑے تھے۔۔
تہمینہ بیگم نے اس کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کیلیے لب وا کیے ہی تھے کہ کسی کی گھمبیر مردانہ آواز پر سب نے چونک کر لیونگ روم کے دروازے کی طرف دیکھا۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کو پسند آئے تو رائے دینا مت بھولیے گا۔۔۔

خاموش آنسوDonde viven las historias. Descúbrelo ahora