گندا حامد (Dirty Hamid) 🔞

119 0 0
                                    

حامد 16 سال کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ نئ نئ جوانی نے اسے پاگل کر رکھا
تھا۔ اس کے کچھ دوستوں کی صحبت ایسی تھی کہ وہ اس کے ساتھ گندی گفتگوکرتے تھے اور سکول سے فارغ اوقات میں وہ آپس میں پیسے ملا کر انٹرنیٹ کیفے جاتے تھے۔ وھاں کیبن میں گھس کر وہ خوب رنگا رنگ گندی فلمیں اور ننگی لڑکیوں کی تصاویردیکھتے اور خوب مزے سے مٹھ لگاتے تھے۔ جب بھی کوئی موقع ملتا تو سب دوست مل کر ایک دوسرے کے گھر پر پڑھائی کے بہانے گندی فلمیں دیکھنے کے منصوبے بناتے رہتےتھے۔ اور تو اور گندی تصاویر والی تاش تک چھپا چھپا کر رکھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ دن مقرر کر کے گھر لے جاتے تاکہ ضرورت پڑے یا دل کرے تو انہی تصاویر کو دیکھ کر مٹھ لگا لیا کریں۔ اسی طرح سب لڑکے خوب مٹھ مارنے اور حوس کے پجاری ھوچکے تھے۔ سب کے سب کوئی آتی جاتی لڑکی نا چھوڑتے تھے کہ جس کو وہ گندی نگاہ سے نا دیکھتے تھے۔ اور اسی لڑکی یا عورت کو زھن میں لا کر ایک دوسرے سے پوچھتے کہ تو نے مٹھ لگائی یا نہی؟ حامد کے امتحان نزدیک تھے۔ اس کے گھر والے پریشان تھے کہ حامد پاس ھوپائے گا یا نہیں۔ وہاں حامد صاحب اپنی ہی موج مستی میں گم رھتے تھے۔ اسے پرواہ ہی نہیں تھی کہ میں کچھ کرلوں یا پڑھائی پر دھیان دوں۔ اس کا اگلے دن امتحان تھا اور اس نے گھر والوں سے مجبوری بےعزتی کروا کر کتابیں لی اور اوپر چھت پر جاکر پڑھائی کے بہانے کتابوں کے ساتھ کھیل میں مصروف ھوگیا۔ وہ عجیب وغریب تصاویر بنانے میں اپنا وقت ضائع کرنے لگا۔ وہ گندی تصاویر بنانے میں خوب مگن تھا کہ ساتھ والی چھت سے ایک لڑکی کی قہقے لگا لگا کر ھنسے کی آواز آرہی تھی۔ حامد نے غور کیا تو آواز مسلسل آرہی تھی۔ حامد کھڑا ھوا اور چلتے چلتے وہ دیوار کے پاس گیا اور اپنے پاوں کو اٹھا کر دیوار کے اس طرف دیکھنے لگا۔ جب اسنے دیکھا تو ساتھ کی پڑوسن لڑکی حباء فون پر اپنے منگیگتر سے گفتگو میں محو تھی۔ حامد خوب غور سے حباء کو دیکھنے لگا کہ وہ کیا گفتگو کر رہی ہے اور اتنا شرما شرما کر بات کر رہی ھے۔ حامد چوری چھپے مسلسل اسے دیکھنے لگا۔ حباء ٹہلتے ٹہلتے گفتگو کر رہی تھی اور خوشگوارموڈ میں تھی۔ اچانک حباء اپنا ہاتھ اپنے مموں پر لے جاتی ہے اور ان کو آہستہ آہستہ رگڑتی ہے۔ فون پر بات کرتے کرتے ایسا محسوس ھوتا ھے جیسے اس کا منگیتر اسے ایسا کرنے کا بول رھاھو۔ حامد یہ منظر دیکھ کر حیران ہوتا ہے وہ اس سے پہلے ایسا منظر دیکھنے سے محروم تھا۔ اور ایک لڑکی کو اپنے سامنے خود کے مموں کے ساتھ کھیلتا دیکھنا حامد کے لئے کسی سیکسی فلم دیکھنے سے کم نہیں تھا۔ اب حباء کا ہاتھ اوپر کی جانب سے اس کی برا کے اندر جا رہا تھا۔ اب وہ اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر اپنے اپنے 34 سائز کےمموں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ یہاں حامد نے اپنا کام شروع کردیا یہ موقع بھی نا جانے دیا۔ اپنا لوڑا پینٹ سے باہر نکالا اور اس کو ہلانا شروع کردیا۔ حباء بہت مزے سے اپنے ممے پکڑ کر دبا رہی تھی وہاں حامد اپنا لن نکالے زورزور سے مٹھ لگا رہا تھا۔ چند لمحوں بعد حامد تیز دھار کے ساتھ فارغ ہوگیا۔ جوں ہی وہ فارغ ہوا اس کی آواز تھوڑی اونچی نکلی "آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ" اس کی آواز اچانک حباء کے کانوں تک پہنچی۔ حباء نے فون ایک دم نیچے کر کہ ادھر ادھر دیکھا مگر کوئی نہیں تھا۔ حامد دیکھ کر ڈر گیا اور فوری اس نے اپنا لن اندر کیا اور دیوار سے نیچے ہوکر چھپ گیا۔ حباء چند قدم چل کراپنے دایئں بایئں نگاہ کرتی ہے پھر نظرانداز کر کے واپس اپنے منگیتر کے ساتھ بات چیت میں لگ جاتی ہے۔ حامد ایک بار تو مکمل گھبرا جاتا ہے۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا ہوتا ھے۔ دل میں سوچتا ہے کہ بال بال بچ گئے ورنہ ساتھ والی پڑوسن تو آج پکڑ لیتی اور شکایت لگا دیتی تو مجھے مار خوب پڑتی۔ حامد پھر سے چھپ کر دیکھتا ہے تو وہ حباء کو ٹہلتا ہوا واپس نیچے کی طرف جاتا ہوا دیکھتا ہے۔ پھر وہ واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اب وہ سوچتا ہے کہ کچھ پڑھ لیا جائے ایسا نا ہو کہ کل ک امتحان میں کچھ بھی نا کر پائے۔ خیر حامد اب سب باتیں اور خیال دل سے نکال کر پڑھتا ہے۔ اگلے دن اسکا امتحان کچھ خاص اچھا نہیں ہوتا مگر اسے پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ کمرہ امتحان سے فارغ ہوکر وہ سب دوستوں کو کل شام کی گزری داستان سناتا ہے۔ سب دوست باتوں کے چسکے لے لے کر سنتے ہیں اور خوب ھنسی مزاق کرتے ہیں۔ یوں ہی وقت ضائع کر کر کہ حامد اپنے امتحان بھی گزار دیتا ہے۔ اسے نہایت خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے امتحانات سے فارغ ہوکر دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کے نئے نئے منصوبے بناتا ہے اس کے لئے یہ ایسا عالم ہوتا ہے جیسے کوئی قیدی جیل سے آزاد ہوا ہو۔ اب حامد دوستوں کے ساتھ خوب وقت گزار رہا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی یاد ہوتا ہے ک کب حباء فون سننے چھت پر آتی ہے۔ حامد اس کے علاوہ بھی گھر پر ہوتے ہوئے چھت پر وقتا فوقتا چکر لگاتا رہتا ہے کہ حباء کے شام کے علاوہ بھی آنے جانے کے اوقات جان سکے۔ اسے اب پتہ چل جاتا ہے کہ حباء کا چکر کسی بھی وقت لگتا ہے۔ وہ صبح میں اور دن میں تقریبا چار سے پانچ چکر تو لگا ہی لیتی ہے۔ اور چھت پر ہی کپڑے بھی ہفتے میں تین بار دھونے آتی ہے۔ حامد اب حباء کے اپر چھت پر آنے کے اوقات مکمل طور پر جان چکا تھا۔ اور اب اس نے آ نا جانا شروع کر دیا تھا اس کے پاس چھت پر رکنے کا بہترین بہانہ اس کی کتابیں تھی۔ حباء جب جب چھت پر آتی حامد بھی کوئی موقع اسے دیکھنے کے لئے جانے نا دیتا۔ اور زرا سا بھی حباء کا ننگا جسم کا حصہ نظر آجاتا تو حامد صاحب کی چھت پر اسے دیکھتے ہوئے مٹھ پکی ہوجاتی۔ کئی بار حامد ایسا کر چکا تھا اور اب اس کا دل چاہنے لگا تھا کہ وہ حباء کو ننگا دیکھے یا اس کو ہاتھ لگائے۔ وہ اسے اب نہایت خوبصورت لگنے لگ گئی تھی۔ گوری رنگت، پتلی کمر، گول گول بڑے ممے، کمال گانڈ اور چمکتی ہوئی چہرے کی جلد دکھنے میں ہی حباء بڑی ملائم سی لگتی تھی۔ اب حامد کا گزارا مشکل ہوگیا تھا وہ جلد سے جلد اب اپنی تمام تر حسرتیں پوری کر لینا چاہتا تھا۔ ایک دن حباء چھت پر اپنے دھلنے والے کپڑے رکھنے آئی حامد بھی چھت پر موجود تھا حباء نے دو الگ ٹوکریاں رکھی تھیں ایک میں وہ کپڑے اور دوسری میں وہ اپنی استعمال شدہ برا اور پینٹیاں رکھتی تھی اور جب بھی کپڑے دھونے کا وقت آتا تو نکال کر دھو لیتی۔ وہ چھت پر آکر کپڑے الگ الگ کر کے رکھ رہی تھی کہ حامد سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ حباء فوری کپڑے اوپر رکھ کر کام کے لئے نیچے چلی گئی۔ وہاں گندے حامد کو شرارت سوجھی وہ حباء کے جانے کے بعد فوری دیوار پھلانگ کر حباء کی چھت پر چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ دبے پیر چل کر جہاں حباء نے کپڑوں والی ٹوکری رکھی تھی پہنچتا ہے۔ ٹوکری کھول کر وہ حباء کی استعمال شدہ کالے رنگ کی جالی نمہ پینٹی نکالتا ہے اور اسی کے ساتھ مموں کی برا نکالتا ہے اور حسرت سے اس کو دیکھتا اور حباء کو ان میں تصور کرتا ہے۔ اسے حباء کے اوپر دوبارہ آجانے کا ڈر ہوتا ہے وہ فوری برا اور پینٹی لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتا ھے اور دیوار پھلانگ کر واپس اپنی چھت پر آجاتا ہے۔ پھلانگنے کے بعد وہ پیچھے نگاہ کرتا ہے کی کسی نے اسے دیکھا تو نہیں۔ حامد چھت پر بنے چھوٹے سے برآمدے میں جاتا ہے۔ وہاں جیب سے حباء کی برا اور پینٹی نکال کر سمنے رکھتا ہے۔ پہلے وہ اس کی برا کی خوشبو اپنے منہ کے قریب لا کر سونگھتا ہے اور آنکھیں بند کرکے مزہ لیتا ہے۔ پھر وہ اس کی کچھی یعنی اس کی پینٹی پکڑ کر اسے کھولتا ہے اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر اپنے منہ پر پھیلا لیتا ہے اور سونگھتے ہوئے اسی لمحے اپنا لوڑا نکال لیتا ہے اور پینٹی کی بھینی بھینی خوشبو جو اسے حباء کی پھدی کا احساس دلا رھی ہوتی ہے مٹھ مارنے کے لئے بے قرار کرتی ہے۔ وہ پینٹی کو خوب جوش اور حسرت سے سونگھ رہا ہوتا ہے۔ کبھی سامنے دونوں برا اور پینٹی بچھا لیتا ہے اور کبھی بے قرار ہو کر منہ پر رکھ کر سونگھنا شروع کردیتا ہے۔ وہ خوب کھوکر مدہوش ہوکر مٹھ لگاتا ہے۔ حباء کی پینٹی سے آنے والی پھدی کی مہک اس کے دماغ پر چھا جاتی ہے۔ اسے نشہ سا ہونے لگتا ہے وہ چند ہی منٹوں میں اب فارغ ہونے لگتا ہے۔ جوں ہی وہ فارغ ہوتا ہے پینٹی اپنے لن کے آگے رکھ لیتا ہے اور ساری کی ساری منی حباء کی پینٹی پر نکال دیتا ہے۔ اور ایک لمبی آہ کے ساتھ فارغ ہوجاتا ہے۔ پھر وہ پینٹی سے ہی اپنا لن پونچھ کر برآمدے میں ہی پینٹی اور برا کو چھپا دیتا ہے۔ اور لن اندر پینٹ میں کر کے پھر باہر آکر ادھر ادھر دھیان کر کے نیچے چلا جاتا ہے۔ اسے ہر وقت اب حباء کا خیال ستانے لگتا ہے۔ وہ اب موقع ہی تلاش کرتا رہتا ہے کے کب حباء اوپر آئے اور وہ اسے دیکھے اور اپنا ٹھرک پن نکالے۔ اسی طرح حامد حباء کی طاق میں ہوتا ہے اچانک حباء اوپر آتی ہے اور کپڑے باسکٹ میں رکنھے کے لئے کھولتی ہے تو پریشان ہو جاتی ہے کہ اس کی کالے رنگ کی برا اور پینٹی۔ باسکٹ میں موجود نہیں ہوتی وہ تھوڑا پریشان ہوتی ہے۔ حامد اسے چھپ کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ خیر وہ ایک اور غلابی رنگ کی برا اور پینٹی رکھ جاتی ہے اور سوچتی ہے کے کل اب کپڑے دھونے آوں گی۔ وہ کپڑے رکھ کر نیچے چلی جاتی ہے۔ وھاں حامد پھر سے موقع دیکھ کرچھت پھلانگتا ہے اور حباء کی چھت پر جا کر اس کی اس بار غلابی رنگ کی برا اور پینٹی بھی چرا کر اپنے پاس چھت پر لا کر رکھ لیتا ہے وہ پھر سے سونگھتا ہے اور پینٹی پر لگے پھدی کے پانی کے ہلکے ہلکے نشانات جو غلابی رنگ کی پینٹی پر واضح نظر آتے ہیں دیکھتا ہے اور جوش میں آکر اب تو اپنی زبان لگا کر چکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ متح لگا کر وہ اس غلابی پینٹی کے ساتھ صاف کرتا ہے۔ پھر برا کو دیھکتا ہے۔ خوبصورت برا اوپر خوبصورت کڑھائی اور جالی نمہ لیس نہایت دلکش لگتی ہے۔ وہ حباء کے ممے اس میں تصور کر رہا ہوتا ہے۔ اور سوچ سوچ کر آہیں بھرتا ہے کہ کاش اس کی حسرتیں پوری ہوجایئں مگر اسے یہ ناممکن ہی لگتا ہے۔ حامد اب تک بے چاری حباء کی پانچ سے چھ برا اور پینٹی مختلف رنگوں میں چرا چکا ہوتا ہے۔ حباء بے چاری پریشان ہتی ہے کہ آخر کون ہے سب اس کے ساتھ کر رہا ہے۔ وہ اپنی امی اور بہن سے بھی پوچھتی ہے مگر ان کے علم میں بھی یہ بات نہیں ہوتی۔ وہ بے چاری کپڑے دھونے جب بھی آتی توادھر ادھر نگاہ کرتی کی شاید کسی بلی وغیرہ کی سرارت ہو۔ وہ بہت زیادہ پریشان ہوتی ہے کے آخر کون کر سکتا ہے؟ اس کے پاس اب برا اور پینٹی کی کمی بھی ہوتی ہے۔ وہ چند بازار سے بھی لے آتی ہے۔ اور اب کیا ہوتا ہے کہ اس کے ایک نئے برا اور پینٹی کے جوڑے میں سے بھی ایک غائب ہوجاتا ہے۔ اب حباء تنگ آکر سوچتی ہے کہ لازمی کوئی اس کے ساتھ شرارت کر رہا ہے۔ اب کی بار جب وہ کپڑے چھت پر رکھنے آتی ہے تو اسی طرح وہ کپڑے الگ اور برا پینٹی کو الگ باسکٹ میں ڈال دیتی ہے۔ اور اب ادھر ادھر دیکھ کر فوری اپنے برآمدے میں چھپ جاتی ہے۔ حامد کو لگتا ہے کہ وہ اب جا چکی ہے۔ وہ اسی طرح ہوشیاری سے چھت پھلانگ کر کھڑا ہوتا ہے۔ حباء کو اس کے قدموں کی دھمک محسوس ہوتی ہے اور وہ ٹوکری پر نظریں جمائے ایک دم چوکنا کھڑی ہوتی ہے۔ حامد آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور جوں ہی ٹوکری کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ حباء اسے دیکھ رھی ھوتی ہے اور حیران ھوتی ہے آخر یہ لڑکا کیا کرنا چاہتا ہے۔ حامد برا اور پینٹی نکال کر فوری پیچھے ہوکر دیوار کی طرف بڑھتا ہے اور جوں ہی دیوارپھلانگنے لگتا ہے تو حباء فوری لپک کر اسے اس کے کپڑوں سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیتی ہے۔ حامد زور سے زمین پر گر پڑتا ہے اور حباء کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔
حباء: بدتمیز، نالائق، بےغیرت انسان تو تو تھا جو یہ حرکت کر رہا تھا۔ اتنا پریشان کر رکھا تھا تو نے مجھے۔ بول بے غیرت اب بولتا نہیں؟ (حباء اس کو جھنجھوڑتی اور دو زور دار تھپڑ لگاتی ہے)
حامد: آپی معاف کردو مجھے پلیز ہاتھ جوڑتا ہوں۔
حباء: بے غیرت یہ بتا کرتا کیا رہا تو میرے کپڑوں کے ساتھ؟ آج نہیں چھوڑوں گی تجھے بھونک کتے انسان۔ (ایک دو اور زور دار تھپڑ لگاتے ہوئے)
حامد: ارے آپی معاف کردو میں آئندہ نہیں کروں گا۔ ( ہاتھ جوڑتے اور گھبراتے ہوئے)
حباء: معافی کے بچے تجھے میں دیتی ہوں معافی اچھے سے۔ اب بول کہاں سے آیا ھے؟ یہ ساتھ والا گھر تو انکل انور کا ہے۔ ان کا بیٹا ھے نا تو؟ پہچان گئی میں تجھے بے غیرت کہیں کے۔ اب دیکھ تیرا میں حال کیا کرتی۔ تیرے گھر بھی بتاوں گی اور پولیس کے حوالے کروں گی وہ ہی تجھے سبق سکھائیں گے۔
حامد: (روتے ہوئے آنسووں کے ساتھ) آپی مجھے معاف کردو پلیز میں نے غلطی کی ہے سوری میں آئندہ نہیں کروں گا۔ آپ کے سارے کپڑے واپس لا کر دوں گا ابھی۔
حامد بہت گھبرا گیا تھا اور ڈر گیا تھا اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس سے بہت غلط حرکت ہوئی ہے۔ اس نے بہت ترلے کئے اور معافی مانگی مگر حباء کو شدید غصہ تھا وہ چاہ رہی تھی کے اسے سبق سکھائے۔
حباء: بے غیرت انسان میں تجھے آج معافی نہیں دینے والی اب سب سے پہلے بتا میرے سارے کپڑے کہاں کئے تو نے تیرا کیا کام میرے کپڑوں سے لعنتی انسان۔
حامد: اچھا آپی بتاتا ھوں وہ اوپر میرے چھت کے برآمدے میں ہی رکھے ہیں میں لا دوں گا ابھی کے ابھی مجھے پلیز چھوڑ دو کسی سے کچھ مت کہنا آپی مجھے ورنہ بہت مار پڑے گی۔
حباء: وہ تو میں دیکھتی ہوں تیرا کیا حل نکالنا ہے۔ اب میرے کپڑے لا کر دے چل شاباش اٹھ جلدی سے۔ ارے ارے نہیں!!! تو ایک منٹ رک سیڑھی لا وہ سامنے سے میں تیرے ساتھ جاوں گی تیرا کیا اعتبار تو بھاگ جائے بے غیرتی کر کے۔
حامد: نہیں آپی کہیں نہیں جاوں گا۔ آپ ساتھ آجاو۔
حامد سیڑھی لگاتا ہے اور حباء اس کے پیچھے پیچھے سیڑھی پر چڑھ کر حامد کی چھت پر چلی جاتی ہے۔ اور حباء نے زور سے حامد کو پکڑ رکھا ہوتا ہے۔
حباء: چل دکھا کہاں رکھے میرے کپڑے تو نے؟
حامد: آپی ادھر ہی برآمدے میں چھپائے ہوئے ہیں۔
حباء: چل آگے ہو نکال کہاں رکھے؟
حامد: جی میں نکالتا ہوں ایک منٹ چھوڑ تو دیں۔
حامد پریشانی کی حالت میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور جہاں کپڑے چھپا رکھے ہوتے ہیں نکالتا ہے اور ایک ایک کر کے سارے سامنے رکھتا جاتا ہے۔ حباء کمر پر ہاتھ رکھے اپنے سارے چوری ہوئے برا اور پینٹی دکھ رہی ہوتی ہے حباء کو ایک دم ہنسی آتی ہے مگر وہ حامد کو ظاہر نہیں کرتی کہ وہ سوچے کے وہ بچ گیا وہ اس کے دل میں خوف رہنے دینا چاہتی تھی۔ حامد اب سارے کپڑے نکال کر سامنے رکھ چکا ہوتا ہے۔
حباء: اب بول کمینے کیا کام تھا تیرا میرے کپڑوں سے؟ کھینچوں تیرے کان ؟ بولتا نہیں اب۔
حامد: کچھ نہیں کرتا تھا بس سوری مجھے معاف کردو آپی جی۔
حباء: اچھا چل میں آرام سے پوچھ رہی ہوں کیا کیا تو نے میرے کپڑوں کے ساتھ؟ تجھے کیا ضرورت تھی؟ تو نے میری برا اور پینٹی پہننی تھی کیا؟
حباء اپنے کپڑے دیکھتی ہے اور ان کا زرا معائنہ کرتی ہے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ حامد اس کے کپڑوں پر مٹھیں لگاتا رہا ہے۔ اور لن پونچھ پونچھ کر اس نے کپڑے گندے کر رکھے تھے۔ حباء منی کے نشانات دیکھ کر تھوڑا کراہتی ہے۔
حباء: گندے غلیظ انسان تو یہ کرتا رہا تھا تو میرے کپڑوں کے ساتھ؟ اور بتا کیا کیا کرتا تھا؟ بتا؟ ورنہ تیرا حشر ہوگا۔
حامد: نہیں پلیز! ایسا نا کہو میں بتاتا ہوں۔ میں بس سونگھ کر کگا بس وہ لگا لیتا تھا۔
حباء: کیا؟ کیا بولا؟ سونگھتا تھا؟ اور کیا لگا لیتا تھا تو؟
حامد: اور وہ بس مٹھ لگا کر صاف کر لیتا تھا۔
حباء اندر ہی اندر مسکرا رہی تھی کہ بچہ کتنا پسند کرتا ہے کتنا پاگل پن سوار ہے اس پر.
حباء: توبہ! شرم نہیں آئی؟ سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی اس طرح کر سکتا ہے۔
حباء چند سیکنڈ سوچ میں پڑ گئی اور حامد اس کے سامنے گردن جھکائے کھڑا تھا۔ حباء کے دل میں آیا کے اس کو کیا سزا دی جائے۔
حباء: چل اٹھ میرے ساتھ یہ سارے گندے کئے ہوئے کپڑے بھی تو پکڑ کر چھوڑ کر آئے گا۔
حامد اٹھتا ہے اور حباء کے ساتھ ہی اسی سیڑھی سے اتر کر اس کی چھت پر چلا جاتا ہے۔ نیچے جاتے ہی حباء اس کے سامنے کھڑی ہو کر کہتی ہے۔
حباء: اب کیا کیا جائے تیرے ساتھ؟ سزا تو ملنی ہے تجھے خود بول اپنے لئے سزا؟
حامد ایک دم گٹھنوں پرہوکر حباء سے لپٹ جاتا ہے اورآنسووں سے روتا ہے کے مجھے معاف کردو۔ اس کا منہ حباء کی پھدی کے بالکل سیدھی سمت میں ہوتا ہے۔ حباء کو اب بچے پر ترس آتا ہے وہ معاف تو کر چکی ھوتی ہے مگر ڈرا رہی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ ساتھ لپٹ کر رو رہا ہوتا ہے حباء کو کچھ اور ہی محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کا زہن کچھ اور ہی کہ رہا ہوتا ہے۔ وہ حامد کو چپ کرواتی ہے اور کھڑا کرتی ہے۔ اب وہ چپ ہوجاتا ہے اوراجازت چاہتا ہے کہ وہ  جائے۔ مگر حباء اسے کہتی ہے بیٹا سزا تو ضروری ہے۔ چل ادھر آ۔
حامد: ہاں آگیا جی؟
حباء: نیچے بیٹھ جا۔
حامد اس کے کہنے کے مطابق نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں اب حباء کی چھت کے برآمدے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ حباء اپنی قمیض پیٹ تک اٹھاتی ہے اور شلوار کے اوپر سے ہی گٹھنوں کے بل بیٹھے ہوئے حامد کو پھدی کے قریب لاتی ہے۔ سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرتی ہے اور اپنی پھدی پر شلوار کے اوپر سے ہی حامد کا منہ ٹانگوں میں گھساتی ہے۔ حامد ایک دم سے چوکنا ہو جاتا ہے کہ یہ کیسی سزا شروع ہوگئی جس میں مزہ آنا شروع ہوگیا۔ حامد جب دیکھتا ہے۔
حباء: تیری سزا ہے یہ، شوق تھا نا سونگھنے کا؟ لے سونگھ میری پھدی اور سونگھ یہ لے بیٹا۔
حامد منہ مارنا شروع کر دیتا ہے اور سونگھنا شروع کر دیتا اس کا تو جیسے خواب پورا ہوگیا ہو۔ حامد اب حباء کی ٹانگوں میں منہ دے کر اس کی پھدی کی مہک سونگھتا ہے۔ اب حباء بڑے آرام سے اپنی شلوار نیچے کرتی ہے اور تقریبا آدھی شلوار گٹھنوں تک اتار لیتی ہے اور زبردستی کے انداز میں حامد کا منہ ٹانگوں میں دے مارتی ہے۔ حامد فوری زبان باہر نکال لیتا ہے اورتیزتیز پھیرنا شروع کر دیتا ہے۔ حباء نے اس کے بالوں سے پکڑھ رکھا ہوتا ہے اور اپنی پھدی پر زور زور سے منہ کا دباو ڈالتی ہے۔ حامد پاگلوں کی طرح چاٹے لگاتا ہے سونگھتا ہے اور چوستا نھی ہے۔ حباء کی پھدی جوں ہی گیلی ہوتی ہے اسے مزہ آتا ہے اس کی پھدی سے ہلکی ہلکی لیس سی نکل رہی ھوتی ہے جو حامد ساری کی ساری چوس اور چاٹ کر نگل رہا ہوتا ہے۔ اس کا سارا منہ بھیگ جاتا ہے۔
حباء: آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ !!!!!!! اف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف !!!!!! س س س س س س س س س س س  س!!!!!! چاٹ! اور چاٹ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ!!!! مزہ آرہا ہے۔ زرا اندر کر کے زبان پھیر بیٹا سزا ہے تیری آہ ہ ہ ہ ہ!!! اچھے سے پوری کر۔
حامد پھدی چاٹتا چلا جاتا ہے اور حباء جب تک فارغ  نہیں ہوتی وہ حامد سے خوب پھدی چسواتی اور چٹواتی رہتی ہے۔ حامد خوب مزے سے چوستا رہتا ہے۔ کبھی وہ پھدی کی تھوڑی باہر نکلی جلد کو منہ میں لیتا اور آہستہ سے چوس کر ہونٹوں میں دبا کر باہر تھوڑا کھینچ کر نکالتا۔ جب بھی وہ ایسا کرتا حباء ک تو کانپ ہی جاتی اور مزے میں حامد کے بال زور سے پکڑتی اور سر کو اپنی پھدی کی طرف دھکیلتی۔ مزے مزے میں اس کے اپنے ہونٹ خودبخود دانتوں تلے دب جاتے۔ ایسا مزہ کے وہ بس ہمیشہ کے لئے اس میں کھو جائے۔ اب حباء کے فارغ ہونے کا وقت آتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ آواز بلند کرتی ہے۔
حباء: آہ آہ آہ آہ آہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ممممممممممم م م م م م م س س س س س س س س اف اف ہاں! ہاں! ہاں! ہاں! یہاں! ہی ہاں اور کر کرتا جا کرتا جا ھائے ھائے اف ف ف ف ف ف ف ف آو و و و وو و و و و و وئچ میں فارغ ہونے لگی آ ہ ہ ہ ہ ہ میں فارغ ہونے لگی ہائے اف ف ف ف ف حباء دونوں ہاتھوں سے حامد کا سر اپنی ٹانگوں میں دئے ہوتی ہے اور پھر تھوڑے تھوڑے جھٹکے اور کپکپی سے حامد کے منہ میں ہی فارغ ہوجاتی ہے۔ حامد کا سارا منہ پھدی کی لیس سے بھر جاتا ہے اور پھدی سے ہی نکلی ہوئے پا نی کی رالیں اس کی ٹھوڑی سے ٹپک ٹپک کر نیچے گر رہی ہوتی ہیں۔
حباء حامد کو پیچھے کر کے اس کا منہ دیکھ کر مسکرا دیتی ہے
حباء: مزہ آیا؟
حامد: ہاں آپی بہت زیادہ آپ کی پھدی کی مہک قریب سے اور بھی زیادہ حسین ہے۔ سچ میں کمال کا مزہ آگیا۔ پھدی ایسے منہ میں محسوس ہو رہی تھی جیسے شبنمی گل۔
حباء: اچھا؟ بس تمھاری گندی گندی حرکتوں نے میرا دماغ خراب کردیا۔ مجھے تو چسکا ہی چڑھا رہتا ہے بس۔
حامد: گندا تو میں بہت ہوں مگر آپی آپ کو اس دن فون پر سیکس کرتے دیکھا بس تب سے پیچھے تھا آپ کے کچھ کر تو سکتا نہیں تھا تو میں نے آپ کے کپڑے لے کر ان پر مٹھ مارنے کا سوچا اور وہی کتا رہا۔
حباء: چل کوئی بات نہیں اب تو مجبوری ختم ہوگئی ہے نا؟
حامد: ہاں جی اب تو کوئی مجبوری نہیں۔
حباء: اچھا چل اپنا لولا دکھا نکال باہر جلدی سے۔
حامد: یہ لو آپی دیکھ لو نکال دیا۔
حباء: اف توبہ تو لگتا ہے بہت مٹھ لگاتا ہے کیسا سجا کر اور خوب کھینچ کھینچ کر لمبا کر رکھا ہے تو نے چل اس کا فائدہ بھی ہے۔ اور ہاں ایک بات آج دھیان سے سن لے مٹھ مت لگایا کر لن جوانی میں ہی جواب دے جائے گا۔ آج کے بعد تو میری پھدی لے گا بھی سونگھے گا بھی چاٹے اور چوسے گا بھی۔ سب کچھ دوں گی خوب مزہ کریں گے اور جب بھی کبھی تیرا دل کرے تو اپنی آپی کو چود لینا جتنا تیرا دل کرے ٹھیک ہے؟
حامد: ہاں ٹھیک ہے آپی۔
حباء: اور میں نے سنا ہے تو نالائق ہے پڑہائی میں تیری پڑہائی ٹھیک ہونی چاہئے ورنہ میرے ممے، پھدی، گانڈ ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
حامد: ارے نہیں نہیں! میں پڑہوں گا وعدہ۔
حباء: ممممممم شاباش میرا شہزادہ، چل اب آ میں تجھے پھدی دوں۔ پہلے لی کبھی کسی کی؟
حامد: نہیں کبھی نہیں لی۔
حباء: چل یہ لے میں گھوڑی بن گئی اب ڈال اندر۔
حامد فوری اپنا لن نکال کر اندر ڈالتا ہے مگر اسے سمجھ نہیں لگ رہی ہوتی کہ کس طرح ڈالے سوراخ اسے پہلی دفعہ ڈھونڈنے میں زرا دقت ہوتی ہے۔ حباء تھوڑا ہنستی ہے اور ہاتھ پیچھے لے جا کر حامد کا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ کے عین اوپر رکھتی ہے۔
حباء: چل اب لگا زور
اس بار جب حامد زور لگاتا ہے تو اس کا لولا ملائی جیسا پھسل کر اندر چلا جاتا ہے۔
حباء: ارے باپ رے تیرا لن س س س س س س س س س ا ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف گرم بھی ہے اور موٹا بھی ہے لمبا بھی ہے مزے دار بھی مجھے زیادہ تنگ کرنے والا نہیں ہے۔ اب میرا پکا دوست بن گیا ہے آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ حامد میری گانڈ زور سے پکڑ تھپڑ مار اور زور سے میری گانڈ لال کر تھپڑ مار مار کر لن مار کر پھدی سجا دے اور تھپڑ مار کر گانڈ لال کردے انگریزی گندی فلمیں تو تو نے بہت دیکھی ہوں گی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ممممممممممم لے لے اور لے جھٹکے مار دم لگا بچے انگریزوں کی طرح کے تھپڑ مار زور سے جیسے مرضی آہ ہ ہ ہ مممممم اف ف ف ف ف ف ف ف ف ف
حامد: آہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف ف ف
حباء: بتا کیسی لگ رہی ہے پھدی مزہ آرہا ہے؟
حامد: آہ ہ ہ ہ ہ ہ آپی کمال سوچتا تھا ا ہ ہ ہ ہ ہ آج لے رہا ہوں گرم، گیلی، نرم خوشبو والی پھدی کیا کیا بتاوں اب اف ف ف ف بس مزہ ہی مزہ۔ خوشبو نے پاگل کر رکھا ہے اس کی لگتا ہے خوب پرفیوم لگاتی ہو۔
حباء: اااااااا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہاں نا لگاتی ہوں چود مجھے اور چود پھاڑ دے آج زور سے جھٹکا لگا۔
حامد: آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ آپی میں فارغ ہونے والا ہوں ہائے۔ گیا کام سے میں تو۔
حباء: اور تیز کر ہوجا فارغ کر کر اور کر۔
پھر حامد تیز تیز کرتا ہے اور اگلے ہی لمحے حباء کی پھدی کے اندر ایک کپکپی کے ساتھ فارغ ہوجاتا ہے۔ حباء نے پیچھے ہاتھ لا کر اس کو کمر سے اپنے ساتھ اس طرح لگایا ہوتا ہے کہ حامد کا پورا لن اندر اور پیٹ حباء کی گانڈ کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ پھر حامد آرام سے لولا باہر نکال لیتا ہے اور حباء کی پھدی سے حامد کی منی قطرہ قطرہ ٹپک ٹپک کر باہر گرتی ہے۔
حباء: مزہ آگیا اف لگا نہیں پہلی بار لی تو نے۔
حامد: مجھے بھی مزہ آیا پھدی بڑی تنگ اور مزے دار تو بہت ہی ہے۔
حباء: اچھا جی؟ چل آج کے لئے کافی ہے کل میں کام کرنے آوں گی اوپر پھر کھیلیں گے ٹھیک ہے؟
حامد: ہاں جی ٹھیک ہے
حباء: رات کو دو گلاس دودھ پی کر سونا کل کے لئے مال تیار ہوگا۔
حامد: ہاں ایسا ہی کروں گا۔
حباء: میں بھی خوب صفائی اور تیاری سے آوں گی چل اب کوئی آ نا جائے اوپر کافی ہوگیا۔
حامد: ہاں میں بھی جاوں کوئی میری چھت پر بھی نا آجائے۔
حباء: چل اب جا بائے بائے
حامد: اوکے بائے۔
حباء اور حامد موقع ملنے پر مزے لوٹتے اور حامد کی پڑھائی میں بھی حباء نے اس کی مدد کی۔ حامد حباء کی ہر بات مانتا اور کافی بدل گیا تھا۔ پھدی کا پجاری بن کر وہ اب موجوں میں تھا۔  

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: Mar 17 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

گندا حامد (Dirty Hamid) 🔞Donde viven las historias. Descúbrelo ahora