اس سے پہلے کے کوئی اور ہٹا دے مجھکو۔
اپنے پہلو سے کہیں دور بٹھا دے مجھکو۔
احمد نگر پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ اور تحصیل وزیر آباد کا ایک گاؤں ہے جو گوجرانوالہ اور وزیر آباد سے تقریباً تیس منٹ کی ڈرایونگ کے فاصلے پر واقع ہے۔گاوں کے تمام لوگ پڑھے لکھے اور اعلی اخلاق کے مالک ہیں، یہاں کے لوگ نہ صرف اپنے بچوں کو بلکے بچیوں کو بھی تعلیم دینے پر زور دیتے ہیں۔گورئمنٹ ہائی سکول احمد نگر جیسے تعلیمی مرکز کی ایک گاوں میں ہونے کے باوجود کامیابی اس بات کا ثبوت تھی کہ لوگ تعلیم کی افادیت سے بخوبی واقف تھے۔مارچ کے مہنیے کا آغاز اور ساتھ ہی جاتی سردی کی بارشوں کے سبب اوپر نیچے ہوتی جوان شدت سے ہونے والی شام گاوں کے سیر سپاٹے اور مستیاں کرتے بچوں کے چہروں پر خوشی سجا چکی تھی۔کہیں مفرر اور کہیں اونی ٹوپیوں اور سوئیٹروں میں ماوں کے لپیٹے سپوت کھیت کھلیانوں میں شام کے اس وقت پورے جوش و خروش سے بیڈ بال،گلی ڈنڈا اور ایسے کئی اور کھیل کھیلتے دیکھائی دے رہے تھے۔موسلا دار مسلسل بارشوں کے سبب ہوتی سکول کی چھٹیوں کے فوری بعد اسکی سکول میں تقرری تھی،مگر ہمیشہ سے شہری شور اور ذہنی اذیت و دباو والی زندگی جینے کے باعث وہ دو دن پہلے ہی احمد نگر آ چکا تھا۔کچی سڑک پر جاتی سردی کی نم شام کا وقت تھا جب ایک سزوکی میزان بڑی سی گاڑی عین سکول کے مرکزی دروازے کے پاس آن رکی تھی،گاوں کی سرحدی مسجد میں درود و سلام و نعت خوانی شام گئے ہی شروع تھی کیونکہ آج رمضان المبارک کے چاند نظر آنے کی پوری پیشن گوئی کی جا چکی تھی،گو فضائیں اک سرور و وجد میں مبتلا تھیں۔۔
"سرکار یہ ہے سکول آپکا،یہیں ہیڈ ماسٹر لگے ہو آپ"
کان میں ذمہ دار اور علم میں اضافہ کرتی بھلی مانس آواز سنتے ہوئے اس پروقار وجود میں جنبیش ہوئی تھی۔ سیاہ گاگلز آنکھوں پر سجائے،گندمی سپید رنگت اور بھینچے لبوں والا گردن ترچھی سی موڑے گاڑی کا شیشہ ہٹا کر ایک نظر سکول کی سمٹ ڈال کر سر ہلا چکا تھا۔
"کل فرصت سے چکر لگاوں گا طفیل،فی الحال حویلی چلو۔تھکن سے برا حال ہے۔کتنی دور ہے حویلی"
لیے دیے لب و لہجے میں جی بھر کر اکتاہٹ تھی،گہری بھوری ڈریس شرٹ کے ہمراہ سیاہ فٹ جینز پہنے ہوئے، اوپن زیپڈ جیکٹ جمائے،لگ بھگ تیس سال عمر،جاندار اور رعب دار وجاہت سے لبریز خاصے سنجیدہ مزاج ہیڈ ماسٹر معلوم ہوتے تھے۔
چہرے پر اگلی سیاہ داڑھی اور بل کھاتی گھنی مونچھ جسے وہ زیادہ نہیں،پر ہونٹوں کی حدود سے پرے رکھنے کی حد تک نرم سا تاو دینے کا عادی تھا اور صاف شفاف گندمی نکھرا رنگ،پھر دھاڑی کی آخری حدود یعنی جا لائن پر بنتا گڑھا اسکی وجاہت میں اک نمکین سا گرہن تھا،ممکن تھا قد کاٹھ بھی جاندار ہوتا کیونکہ بیٹھے ہوئے جناب بھی پچھلی جانب پورے قافلے کا گماں دے رہے تھے۔
طفیل نے فرمابرداری سے تاکید پر رکی گاڑی سٹارٹ کر دی۔
"سرکار بس دو تین منٹ،چوہدری کرم داد صاحب نے خاص آپکے لیے اپنی آبائی حویلی کے بلکل ساتھ والی چھوٹی حویلی میں ٹھہرنے کا انتظام کروایا ہے۔ تعلیم کی افادیت سے آگاہ ہیں ناں تبھی، اور پھر تعلیم دینے والے معلم کو تو یہاں پیر مانا جاتا ہے اوپر سے آپ انکے جگری یار کے اکلوتے پتر۔۔آئے ھائے ھائے۔ یہاں آپکو کوئی تکلیف نہیں ہوگی بس اس گاوں کی ایک خطرناک شے ہے جس سے بچ کر رہیے گا،فر نہ کہیے گا میں نے دسیدا نہیں"