امتحان کی تیاری
عمران اور ارم بہت اچھے دوست تھے وہ دونوں اکٹھے ایک یونیورسٹی میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ دونوں خوبصورت تھے اور ایک دوسرے کو تھوڑا بہت پسند بھی کرتے تھے مگر کبھی بھی ان میں ایسی ویسی بات چیت نا ہوئی تھی۔ دونوں اکٹھے پڑھائی کرتے اور یونیورسٹی میں بھی اکٹھے وقت گزارتے تھے۔ عمران دوسرے شہر سے آیا ہوا تھا اور ارم لاہور ہی کی رہنے والی تھی اور اس کی اپنی رہائش لاہور ہی کی تھی۔ عمران لاہور میں یونیورسٹی کے قریب ہی کرائے کے ایک فلیٹ میں اکیلا رہتا تھا۔ ارم اکثر پڑھائی کے سلسلے میں عمران کے فلیٹ پر چلی جاتی اور وہ دونوں اچھے سے پڑھائی کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ عمران بہت لائق طالب علم تھا اور ارم اس سے سیکھنے یا کوئی بھی اسائینمنٹ میں بہترین مدد پاتی تھی۔ اب امتحان قریب تھے ارم اور عمران خوب محنت کر رہے تھے تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ حاصل کرسکیں۔ کل صبح اکاؤنٹنگ کا امتحان تھا۔ اس وقت رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ عمران تو اپنے گھر میں امتحان کی تیاری کر رہا تھا اور ارم بھی اپنے گھر میں تیاری کر رہی تھی۔ ارم کو کچھ سوالات سمجھ نہیں آرہے تھے جن میں وہ کنفیوز تھی۔ اس نے بہت بار کوشش کی کہ ان سوالات کا حل نکال سکے لیکن وہ ایسا نہ کرسکی۔ ارم نے تنگ آ کر قلم کو اپنی کاپی پر پٹک دیا۔ اور دونوں ہاتھ اپنے بالوں میں پھنسا کر سر پر رکھ لئے اور سوچنا شروع کر دیا کہ جو سوالات اس سے حل نہیں ہو رہے اگر وہی صبح امتحان میں آ گئے تو وہ کیا کرے گی کس طرح سے ان کا حل نکالے گی۔ چند منٹ سوچنے کے بعد اس نے اچانک گھڑی کی طرف نظر کی اور وقت دیکھ کر سوچا کہ عمران سے رابطہ کیا جائے ابھی اتنا وقت نہیں ہوا۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید اس کے والدین اس کو اس وقت عمران کے پاس امتحان کی تیاری کے لیے نہ بھیجیں۔ وہ فوراً کھڑے ہو کر اپنے کمرے میں ادھر ادھر چہل قدمی کرنا شروع ہوگئی اور سوچنا شروع ہوگئی کہ وہ کیا کرے۔ پھر وہ اپنی ایک انگلی کا ناخن دانتوں میں پھنسا کر چباتے ہوئے سوچنا شروع ہوگئی کہ اسے جا کر اپنی امی سے ایک بار پوچھ لینا چاہیے شاید اسے اجازت مل جائے اور یہ امتحان کی پریشانی تو کم سے کم دور ہو اسے یقین تھا کہ عمران اسکی مدد لازمی کرے گا اور اس کے پاس اس کا حل ضرور ہوگا۔ پھر فورا اپنا فون پکڑ گئی ہے اور عمران کو کال کرتی ہے۔
ارم: ہیلو عمران کیسے ہو تم کیا کر رہے ہو؟
عمران: کچھ نہیں بس میں بھی امتحان کی تیاری کر رہا تھا سوچ رہا تھا کہ بس تھوڑی دیر میں سو جاؤ کافی تیاری ہوگئی۔
ارم: یار عمران مجھے کچھ سوالات بہت پریشان کر رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کہاں پر غلطی کر رہی ہوں کیونکہ مجھ سے ان کا حل نہیں نکل رہا۔
عمران: اچھا کیوں کیا ہوا کیوں نہیں حل نکل رہا ہاں میں کچھ مدد کروں؟
ارم: ہاں عمران مجھے تمہاری مدد چاہیے لیکن میں کس طرح سے تمہاری مدد لے سکتی ہوں میرا مطلب کہ میں اگر تمہارے گھر آوں تو کوئی مسئلہ تو نہیں؟
عمران: ارے نہیں مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے میں تو تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں مگر تم دیکھ لو کہ کیا تمہاری امی تمہیں آنے کی اجازت دیں گی؟
ارم: ہاں میں وہی سوچ رہی ہوں کہ جاکر ان سے پوچھو اگر وہ مجھے آنے دیں تو۔
عمران: ہاں دیکھ لو ان سے پوچھ لوں اگر اجازت ملتی ہے تو تم آ سکتی ہو جو کوئی بھی سوال حل کرنے ہیں میں تمہاری مدد کروں گا۔
ارم: ہاں میں بس یہی سوچ رہی ہوں کہ ان سے جاکر اجازت لوں ورنہ میں تو پریشانی سے مر جاؤں گی۔
عمران: ہاں تم ضرور ان سے پوچھ لو لیکن کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہم ویڈیو کال پر بھی بات کر سکتے ہیں میں کسی بھی طرح مدد کر سکتا ہوں جو بھی تمہارے لئے آسان ہو۔
ارم: یار عمران تم بہت اچھے ہو تمہارا بہت شکریہ لیکن میرے خیال سے کہ ساتھ بیٹھ کر اگر سمجھا جائے تو اچھے سے سمجھ بھی آئے گا اور تیاری پکی ہو جائے گی۔
عمران: میں نے پہلے بھی کہا مجھے کوئی مسئلہ نہیں تم بس اپنی آسانی دیکھو جو تمہارے لئے آسان ہے وہ کرو جاؤ اور جا کر اپنی امی سے اجازت لو اور فوری بتاؤ۔
ارم: ہاں میں تمہیں تھوڑی دیر بعد کال کرکے بتاتی ہوں میں جا کر ایک دفعہ کوشش کرتی ہوں شاید اجازت مل جائے۔
عمران: جاؤ پوچھو جاکر میں انتظار کرتا ہوں۔
ارم: چلو ٹھیک ہے کرتی ہوں کال۔
ارم فون بند کرتی ہے اور اپنے کمرے سے باہر اپنے امی ابو کے کمرے کا رخ کرتی ہے۔ اس کے ابو سوئے ہوتے ہیں۔ ارم کو کچن میں برتن چھیڑنے کی آواز آتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں چلی جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کی امی کچن میں پڑے ہوئے تھوڑے برتن دھو رہی ہوتی ہیں۔
ارم: امی آپ برتن کیوں دھو رہی ہیں؟
امی: بیٹا صبح بھی اٹھ کر دھونے ہی تھے مجھے ایسے گندے برتن رات بھر کچن میں پڑے اچھے نہیں لگتے سوچا دھو کر سو جاؤں گی۔
ارم: اچھا ٹھیک ہے میں دھع دیتی امی مگر امتحان ہے تو بس اس کی پریشانی کھائی جا رہی ہے۔
امی: کیوں بیٹا تم نے تیاری نہیں کی کیا؟
ارم: تیاری تو کی ہے امی جی مگر کچھ سوالات ہیں وہ سمجھ نہیں آر ہے اور اگر انہی سوالوں میں سے کوئی سوال آگیا تو میں تو مر ہی جاؤں گی۔
امی: تو بیٹا اس کی تیاری کرو نا اچھے سے سمجھنے کی کوشش کرو اور حل کرنے کی کوشش کرو۔
ارم: امی میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ میں کہاں غلطی کر رہی ہو وہ کسی کی مدد کے بنا حل نہیں ہوسکتے۔
امی: پھر اب کیا کرنا ہے؟ اپنی کسی ٹیچر سے کال پر پوچھ لو۔
ارم: ارے نہیں نا امی جی میں کسی بھی ٹیچر سے نہیں کہہ سکتی اور ایسے سمجھ نہیں آئے گا۔
امی: تو بیٹا پھر ان کا حل اس طرح کرو گی؟
ارم: امی میں نے آپ کو عمران کے بارے میں بتایا تھا نا جو کہ میرا دوست اور ہم جماعت بھی ہے وہ بہت لائق ہے اور یونیورسٹی کے قریب ہی ہاسٹل میں رہتا ہے۔ میں نے اسے کال کی ہے وہ میری مدد کرنے کے لیئے تیار ہے۔ اگر آپ اجازت دو تو میں چلی جاؤں اور چند گھنٹوں کی بات ہے تیاری کرکے فوری واپس آ جاؤں گی۔
امی: بیٹا اس ٹائم ٹائم دیکھ لو تمہارے بابا سو رہے ہیں کہیں وہ پھر غصہ نہ ہو اگر تم گھر پر موجود نہ ہوئی تو۔
ارم: امی جی میں کونسا روزہ جاتی ہوں گھر پر ہی ہوتی ہوں اور اب تو مجبوری ہے امتحان کی تیاری بھی کرنی ہے مجھے پریشانی سے نیند نہیں آئے گی۔ عمران سے بات ہوگئی تھی وہ میرا انتظار کر رہا ہے اس نے تو مجھے کال پر بھی تیاری کرنے کے لیے کہہ دیا تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ پاس بیٹھ کر جس طرح سے سمجھ آئے گی اور تیاری پکی ہو گی اس طرح سے کال پر سمجھ نہیں آئے گی اس لیے میں آپ کو جانے کا بول رہی ہوں۔
امی: اچھا بیٹا چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں مگر جاؤگی کیسے؟
ارم: جاؤں گی کیسے کیا؟ ابو کی گاڑی پر جاؤں گی۔
امی: اچھا بیٹا چلو ٹھیک ہے چلے جاؤ دھیان سے جانا اگر کوئی مسئلہ پریشانی ہو تو فون کر لینا۔
ارم: ارے امی جی کچھ نہیں ہوتا زیادہ دور نہیں ہے۔
امی: اچھا چلو ٹھیک ہے بیٹا پھر بھی دھیان سے۔
ارم: ٹھیک ہے امی جی میں پھر نکلتی ہوں۔
امی: جاتے ہوئے دروازہ باہر سے لاک کر دینا اور چابی ساتھ لے جانا تھا کہ واپس آ کر کھول کر آرام سے اندر آجاؤ۔
ارم: ٹھیک ہے۔
ارم اپنے کمرے میں واپس جاتی ہے اور اپنے کتابی چھوٹے بیگ میں ڈال لیتی ہے۔ وہ اپنے نائٹ ڈریس میں ہوتی ہے اس نے پتلی سی ٹی شرٹ اور پتلا ٹراؤزر پہن رکھا ہوتا ہے۔ ٹی شرٹ کے نیچے نیچے اس نے برا۔ ہیں پہنی ہوتی جس سے اس کے نپل کا ابھار ٹی شرٹ سے صاف نظر آتا ہے۔ اور تھوڑا سا بھی ہلنے سے اس کے ممے جھولتے ہوئے ٹی شرٹ میں محسوس ہوتے ہیں۔ بس اپنے ٹراوزر کے نیچے اس نے پینٹی پہن رکھی ہوتی ہے۔ وہ بھی بس جالی نما اور پیچھے سے باریک تنی والی ہوتی ہے جو ارم کی گانڈ کی لکیر میں پھنسی ہوتی ہے۔ اس پر بس ڈھیلا ڈھالا ٹراوزر پہنا ہوتا ہے۔ ارم سوچتی ہے کے وہ کپڑے بدل لے مگر وہ وقت ضائع کیئے بنا جلد عمران کے پاس تیاری کے لیئے جانا چاہتی ہے۔ وہ بس ایسے ہی ایک پتلی چادر اپنے اوپر لپیٹ کر کر اپنا بیگ پکڑ کر اور پیروں میں جوتی پہنتی ہے اور سیدھا ٹی وی لاؤنج سے گھر اور گاڑی کی چابی لے کر باہر نکل جاتی ہے۔ پھر وہ گاڑی سٹارٹ کرتی ہے اور عمران کو کال ملاتی ہے۔
ارم: ہاں عمران میں گاڑی میں بیٹھ گئی ہوں اور تمہاری طرف نکل پڑی ہوں۔
عمران: چلو ٹھیک ہے تم آ جاؤ اور باہر آ کر کال کرنا میں لینے آ جاؤں گا۔
ارم 15 سے 20 منٹ میں عمران کے ہاسٹل پہنچ جاتی ہے۔ نیچے آکر وہ فون کرتی ہے عمران نیچے آکر اسے لے جاتا ہے۔ دونوں اندر آتے ہیں اور آرام سے بیٹھ جاتے ہیں عمران ارم کے لئے پانی لے کر آتا ہے اور پھر سامنے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے۔
عمران: اور بتاؤ کیا مسئلہ پیش آ گیا تم تو سچ میں پریشان لگ رہی ہو۔
ارم: عمران صاحب میں تمہیں کیا بتاؤں میرا دل ڈرا ہوا ہے اور ڈرا رہا ہے کہ میں صبح کس طرح سے امتحان دوں گی۔ کافی کچھ آتا بھی ہے مگر کچھ رہ نا جائے اور جو رہ جائے کہیں وہی امتحان میں نہ آجائے ورنہ گریڈ کم ہوجائے گا۔
عمران: اچھا چلو ٹھیک ہے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم آرام سے پانی پیو تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے مجھے امید ہے کہ میں تمہاری مدد کر پاؤں گا حل نکال لیں گے۔
ارم: ہاں بس بنا وقت ضائع کیے میں چاہتی ہوں کہ ان سوالات کی پریکٹس کر لی جائے۔
عمران: کر لیتے ہیں پریشان مت ہو۔
ارم: شکریہ عمران میں تو سوچ رہی ہوں کہ اگر تم نا مدد کرتے تومیرا کیا حال ہوتا۔
عمران: ارے بابا کوئی بات نہیں ان باتوں کو چھوڑو چلو آؤ ہم بھی کرتے ہیں۔
ارم: ہاں چلو ٹھیک ہے۔
ارم اور عمران نیچے ہی فرش پر پر کتابیں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ارم اپنی چادر کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیتی ہے تاکہ اسے لکھنے یا سمجھنے میں دقت نا ہو۔ عمران کی نظر اچانک ارم کے مموں پر پڑتی ہے۔ عمران نے اس سے پہلے ارم کے ممے اس طرح سے نہیں دیکھے تھے اور جب بھی کبھی اس کی نظر پڑی تو اس نے ہمیشہ نیچے برا پہنی ہوتی تھی مگر آج اسے ارم کے ممے بنا برا کے اور تھوڑے تھوڑے جھولتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ جس طرح ارم کی شرٹ اس کے مموں کے ساتھ لگتی تھی تو اس کے نپل کا منظر بھی تھوڑا واضح ہوتا تھا۔ عمران نے بھی گھر میں ڈھیلا ڈھالا ٹراوزر پہن رکھا تھا اور نیچے کوئی انڈر ویئر نہیں پہنا تھا۔ عمران کا دل ارم کے ممے دیکھ کر ایک دم تیز دھڑکا اور اسے اپنے لولے پر تھوڑی گدگدی محسوس ہوئی اس کے لولے نے تھوڑی ہوش پکڑی تو عمران کو بے چینی ہونا شروع ہوگئی۔ اس نے اپنے آپ کو تھوڑا کنٹرول کیا اور اپنا دھیان بٹانے کے لیئے ارم کو سوالات سکھانا شروع کیئے۔ ارم نے چند سوالات اس کو نکال کے دکھائے جس میں اسے مشکل درپیش تھی اور عمران نے اسے چٹکی میں حل کر دکھایا اور اس نے ارم کو اس کی غلطی بھی بتائیں جو وہ کر رہی تھی اور اس کو ان سوالات کا حل نہیں مل رہا تھا۔ ارم فوری خوش ہوگئی اور عمران خان کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ ارم نے عمران سے کہا کہ اسے ایک گلاس پانی کا پلا دے۔ عمران اٹھا اور کچن سے جا کر اس کے لیے پانی کا گلاس لا رہا تھا کہ عدالت کا علم کی نظر اس کے ٹراؤزر پر پڑی رہنے ٹراؤزر کے کے اوپر سے عمران کے تھوڑے تھوڑے کھڑے ہوئے لولے کو دیکھا تو وہ بھی خوب واضح ہورہا تھا۔ ارم نے نظر پھیر لی اور پھر عمران آکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ ارم نے پانی لیا تو پانی پیتے ہوئے وہ باتیں کر رہی تھی کہ اچانک اسے پانی سے غوطہ لگا اور پانی اس کے منہ سے نکل کر سارا اس کی ٹی شرٹ پر گر گیا عمران جلدی سے اٹھا اور اس نے ارم کی کمر پر ہاتھ مارا اور کہا۔
عمران: آرام سے پی لو نا پانی غوطہ لگوا لیا۔
ارم: معافی چاہتی ہوں۔
ہمیں پانی پی کر گلا سائیڈ پر رکھ دیا۔ اس کے منہ سے پانی نکلا تھا وہ اس کی ٹی شرٹ کے اوپر اس کے مموں پر پڑگیا۔ اپنی شرٹ کے نیچے سے ممے واضح ہونا شروع ہوگئے۔ نپل کے اوپر تو ٹی شرٹ جیسے چپک گئی اور نپل صاف نظر آنا شروع ہوگئے۔ پانی ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے نپل میں زرا تھوڑی سختی آگئی تھی۔ اور نپل اب پہلے سے زیادہ تنے ہوئے لگ رہے تھے۔ ارم نے اپنی ٹی شرٹ پر غور نا کیا بلکہ عمران بہانے بہانے سے ارم کے گندمی نپل کو دیکھ رہا تھا۔ ارم جب تیز تیز لکھتی تھی تو مموں میں ہلکی ہلکی تھر تھراہٹ سے ممے ہل کر اور بھی خوبصورت لگتے تھے۔ اب ارم نے عمران کے سامنے سب سے مشکل سوال رکھا۔ عمران نے سب سوالات کی پریکٹس کر رکھی تھی اور اس نے اس سوال کو بھی جھٹکے میں حل کر دیا۔ ارم نے جب دیکھا اسے سمجھ آگئی اور سوال حل ہوگیا تو اس نے پرجوش ہو کر عمران کے اوپر جھپٹ کر اسے زور سے گلے سے لگا لیا۔ ارم کے ممے سیدھا عمران کی چھاتی کے ساتھ چپک گئے اور دب گئے۔ عمران نے اپنی چھاتی پر ارم کے مموں کی گولائی تناؤ اور گرمائیش محسوس کی۔ ارم نے جھٹ سے عمران کے گال پر کس کردی۔
ارم: تم نے میری ساری ٹینشن ریلیز کردی مجھے سب آسان لگ رہا ہے۔ کل تو اب اچھے گریڈ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عمران بس مسکراتا ہوا ارم کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن خوب تیز تھی۔ اسے اپنا لوڑا بے قابو سا لگنے لگا۔
ارم: اب میں ریلیکس ہوں اب کوئی مسئلہ نہیں خیر میں زرا ایک دو بار نظر مار لوں کچھ پوچھنا ہوا تو پوچھ لیتی ہوں۔
عمران: ہاں ہاں ضرور۔
ارم آرام سے بیٹھ کر کتاب کے سوالات پر آہستہ آہستہ نشان لگا رہی تھی کہ جو اس نے حل کر لیے تھے۔ منظر تو رہی تھی کہ اگر کچھ پوچھنا باقی رہ گیا ہو تو وہ بھی کرلے۔ اسی دوران وہ تھوڑا جھک کر بیٹھی ہوئی تھی اس کی ٹی شرٹ پانی میں گیلی ہونے کی وجہ سے تھوڑی سی لٹک گئی تھی اور اس کے مموں کے درمیان کی لکیر بھی اب واضح ہونا شروع ہوگئی تھی۔ عمران ٹیک لگا کر اسے دیکھنا شروع ہوگیا۔ ارم کی نظر چوری عمران پر پڑی تو اس نے نوٹ کیا کہ عمران اسکے ممے دیکھ رہا ہے۔ اس نے اس بات کی پروا نہ کی لیکن وہ کتاب میں سوالات پر نشان لگاتی گئی۔ اب کی بار ارم نے دو سے تین دفعہ یہ بات نوٹ کی کے عمران مسلسل اس کے مموں کو دیکھ رہا ہے اور اس کے چہرے کا انداز بھی بدلا بدلا ہے۔
ارم: کیا دیکھ رہے ہو؟
عمران: ارے کچھ بھی تو نہیں۔
ارم: تم جہاں دیکھ رہے ہو مجھے پتہ ہے۔
عمران: ارے میں بس ویسے ہی وہ بس نظر چلی جاتی ہے تمہارے کپڑوں پر پانی جو گر گیا ہے۔
ارم: اوہ ہاں پانی تو گر گیا ہے اب کیا کر سکتی ہوں؟
عمران: خیر کوئی بات نہیں۔
ارم: تم نے کچھ دیکھا تو نہیں؟
عمران: ارے نہیں دیکھا تو نہیں۔
ارم فوری اپنی ٹی شرٹ اٹھا کر اپنے بڑے بڑے 36 سائز کے ممے یکدم باہر نکال کر کہتی ہے۔
ارم: نہیں دیکھا تو دیکھ لو۔ یہ ہی دیکھنا چاہ رہے تھے نا؟
عمران: ارے!!! یہ کیا؟
عمران ارم کے مموں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کردیتا ہے وہ ان کی گولائی اور سخت ہوئے نپل اور ان کے گرد بھورے بھورے گول داغ غور سے دیکھنا شروع کردیتا ہے۔
ارم اپنے مموں پر ہاتھ رکھتی ہے اور آہستہ سے اچھالتی اور دباتی ہے اور کہتی ہے۔
ارم: کیسے ہیں؟
عمران: (گھبرا کر) اااا اچھے ہیں۔ گورے ہیں پیارے ہیں۔
ارم: ممممم اچھا آج تم نے مجھے خوش کیا میرا کام آسان کیا تو میں نے سوچا تمہیں آج خوش کردوں تم بھی تھک گئے ہوگے تو آج زرا سکون کی نیند سوگے۔ اپنا دودھ پلاوں گی تو صبح تازہ دم ہوکر اٹھو گے۔
عمران: ارم!! ااااا دیکھ لو تم نے گھر جانا ہے۔
ارم: ارے چلی جاوں گی کافی وقت ہے یار۔
ارم آرام سے اپنی ٹی شرٹ اتاردیتی ہے اور اسے پاس صوفے پر رکھ دیتی ہے۔ وہ اوپر سے ننگی ہوتی ہے۔ اس کے ممے گول گول اب کھلے اور عمران کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ عمران انہیں گھورتا چلا جاتا ہے۔ پھر ارم اپنے مموں کو دباتے اور ہلاتے ہوئے اپنی ایک ٹانگ کو پھیلا کر سامنے بیٹھے عمران کی طرف بڑھاتی ہے اور سیدھا اپنا ایک پیر اس کے پجامے کے اوپر سے لن پر رکھتی ہے اور آہستہ سے اپنا پیر اوپر رکھ کر اسے پھیرنا شروع کردیتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کے عمران کا لن پہلے ہی بہت سختی پکڑ چکا ہے اور اپنے پورے تناو میں ہے۔ وہ اپنا پیر عمران کے لن پر پھیر کر آہستہ سے نیچے لاتی ہے اور اس کے ٹٹوں پر پھیر کر اپنے دانتوں میں نچلے ہونٹ کو لیتی اور شرارتی انداز میں عمران کی طرف دیکھ کر ہنستی ہے۔ عمران بھی دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔
ارم: لولا تمہارا مجھے کافی تگڑا لگتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کے لولا مال سے بھرا ہوا ہے۔
عمران: ہاں تمہیں پسند آئے گا۔ بہت بار میرا دل کیا تم سے کچھ کہوں مگر چوری چھپے دیکھتا رہا کہا نہیں کچھ بھی مگر آج تو ایک خواب پورا ہوگیا۔
ارم: اب دیکھ کیا رہے ہو؟ آو میرے پاس۔ میری گود میں سر رکھو۔
عمران اٹھ کر سیدھا ارم کے پاس جاکر اس کی گود میں سر رکھ لیتا ہے. ارم اپنے ایک ہاتھ سے ممہ پکڑ کر عمران کے منہ میں ڈال دیتی ہے۔
ارم: لو چوسو مزہ لو دودھ پیو جان بناو بہت محنت کی تم نے ٹھنڈک والا دودھ پیو۔
عمران: دودھ مزے کا ہے اور کتنے مزے کے ایسے جیلی کی طرح جھل ملاتے ممے ہیں۔
ارم: لو پیو آرام سے مزہ آئے گا اور لاؤ میں تمہارے لولے سے کھیلتی ہوں دکھاؤ میں بھی دیکھوں اس اچھہ دھاری ناگ کو۔
ارم اپنا ہاتھ سیدھا عمران کے پجامے میں ڈال دیتی ہے اور ہاتھ سے اس کا پجامہ پیچھے ہٹا دیتی ہے۔ عمران خود تھوڑا اٹھ کر اپن پجامہ دونوں ہاتھوں سے ہٹا کر اتار دیتا ہے۔ پھر عمران کا لن جھولتا ہوا باہر آجاتا ہے۔ ارم عمران کے لن کو دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے۔
ارم: ارے واہ تمہارا لولا تو بہت پیارا ہے اففففف کمال ہے۔ مجھے اندازہ ہے کے یہ کم سے کم 7 سے 8 انچ کا تو لازمی ہے۔
عمران: واہ بڑا اندازہ ہے۔
ارم: ہاں میں زرا اس سے اچھے سے کھیل لوں۔ اس کو دیکھ کر تو سب کچھ بھول گئی میں تو۔ ہائے لولا اتنا بڑا والا۔ مجھے اس کو جی بھر کے دیکھنا ہے کھیلنا ہے اور پھر چوسنا ہے۔
عمران: ہاں ہاں جو دل چاہے وہ کراو جی آپ میں منع نہیں کروں گا۔
ارم: اففففف لولا ہاتھ میں پکڑا کتنا مزے کا لگ رہا ہے۔ مممممم اور دیکھو اس کی ٹوپی کی خوبصورتی مممممم۔
ارم عمران کا لولا فوری منہ میں لے کر چوس کر باہر نکالتی ہے تو وہ گیلا ہوا ہوتا ہے۔ پھر اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر اس کی ٹوپی کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ کر چومتی ہے۔
ارم: ٹوپی کتنی لال اور مزے دار ہے۔ لگ رہا ہے کے کیلے پر اسٹابری اگ آئی ہے لال سرخ اور کٹھی میٹھی اسٹابری ممممم اور ایسا بھی لگ رہا ہے کے کسی افسر نے خوبصورت ٹوپی پہن رکھی ہو لوڑا تو فل انگلش ہے۔ اور کبھی تم نے دیکھا ہے عمران اس کے گلے کی گانی افففف کتنی مزےدار لگ رہی ہے۔ ایسے جیسے راہ طوطا ہے اس کی موٹائی اور لمبائی کمال ہے اور ہری ہری شریانوں کا جال جو اس پر نظر آرہا ہے اس کی طاقت اور مظبوطی کی علامت ہے۔ ایسا لگتا ہے اندر جائے گا تو پھدی کی دیواروں کو پیچھے دھکیلتا ہوا جلد کو چیرتا ہوا منزل مقصود تک پہنچے گا۔ کیا ہی مزہ آئے گا جب یہ اپنے اندر کا لاوا اگلے گا اور اس کے مال کی دھاریں پھدی کی کیاریوں میں بہتی ہوئی اندر بہیں گی اور منی اپنی گرمائش محسوس کرواتی اور پورے جسم میں آگ سی لگاتی ہوئی پھدی میں رہ جائے گی۔
عمران: اففففف ایسی تعریف کبھی سوچی بھی نہیں تھی جو آپ نے بیاں کی ہے۔
ارم: میں نے تو سچ بولا ہے جو دیکھا ہے وہ بیاں کیا ہے۔ اور ٹٹے دیکھو نا کیسے اوپر کو چڑھے ہوئے ہیں اپنے اندر سارا مال قید کیئے ہوئے ہیں۔ ان کو ہاتھ میں لوں زرا۔ مممممم اففففففف یہ تو آگ جیسے گرم ہیں اور لال لال ٹٹے کمال کے ہیں۔ زبان بھی لگا کر دیکھتی ہوں۔
ارم ٹٹوں کو زبان لگا کر عمران کا ٹٹہ باری باری منہ میں لیتی ہے۔ اور انہیں خوب مزے سے چوستی ہے۔ عمران پورا ننگا ہوتا ہے ارم بھی اب بنا انتظار کیئے فوری اٹھ کر اپنا بھی پجامہ اتار دیتی ہے۔ اور تھوڑی سی ٹانگیں کھول کر اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر پھیر کر پھدی کا نکلتا ہوا پانی ہاتھ پر لگا کر عمران کو دکھاتی ہے۔
ارم: یہ دیکھو عمران افففف کتنا پانی نکلا میری پھدی سے۔
عمران بنا کچھ بولے یا کہے اس کا پھدی سے بھیگے ہوئے پانی والا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ کے قریب لا کر اسے سونگھتا ہے۔
عمران: افففف مممممم پھدی کی مہک قاتلانا ہے۔
پھر عمران اس کا وہی ہاتھ اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے اس کی ساری انگلیاں منہ میں لے کر چوس لیتا ہے پھدی کا سارا پانی جو ارم کی انگلیاں چمکا رہا ہوتا ہے سارا چوس لیتا ہے۔
عمران: مممممم مزے دار نمکین پانی اففففف لاو اور نکالوں اور چوسوں سیدھا منہ لگا کر۔
ارم: نہیں پہلے میں تمہارا لولا چوسوں گی۔
عمران: نہیں یار پہلے پھدی کا شیرا پینا ہے مجھے۔
ارم: نہیں پہلے میں۔
عمران: نہیں پہلے میں۔
ارم: نا زد کرو دو لولا چوسنے دو مجھے۔
عمران: ارے یار چوس لینا پہلے مجھے کرنے دو نا۔
ارم: ایک کام کرتے ہیں۔ نا تمہاری نا میری۔ ہم دونوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے اعضاء چوستے ہیں۔
عمران: اچھا جی وہ کیسے؟
ارم: میں تمہارے اوپر آتی ہوں اور پھدی تمہارے منہ پر رکھتی ہوں اور میرا منہ تمہارے لن پر ہوگا۔ میں تمہارا لن چوسوں گی اور تم میرا پھدا چوسنا دونوں کو ایک ساتھ مزہ آئے گا۔ یعنی ہم دونوں 69 والا طریقہ کرتے ہیں۔
عمران: ارے واہ چلو آجاؤ پھر کرتے ہیں۔
ارم: لو آگئی۔
ارم عمران کے اوپر آجاتی ہے اور اپنی پھدی سیدھا اس کے منہ پر رکھتی ہے اور آگے سے اپنا منہ جھکا کر اس کے لن پر لیجاتی ہے اور لولا گلپ گلپ گلپ کی آواز سے بنا رکے فوری چوسنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ اس کا لولا پورا پورا منہ میں اپنے حلق تک لیجاتی ہے۔ اور عمران ارم کی پھدی پر اپنی زبان نکال کر پھدی سے بہتا ہوا پانی چاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ اپنی زبان کی نوک پھدی کے دانے پر لگا کر اس کے دانے کو سہلاتا ہے اور پانی کا قطرہ قطرہ پی جاتا ہے۔ وہاں ارم بھی لولا چوسنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی وہ لولے کو زبان لگا لگا کر سہلاتی ہے اور چوس چوس کر اسے اور مزید لال کرتی ہے۔ کافی دیر تک دونوں اس مزے میں مگن رہتے ہیں۔ پھر ارم اٹھتی ہے اور اٹھ کر کہتی ہے۔
ارم: اب چدائی کا وقت آگیا ہے۔
عمران: ہاں میں بھی اسے انتظار میں تھا۔
ارم: مجھے چودے گے نا اچھے سے؟
عمران: ہاں جی چودوں گا جیسا آپ چاہوگے۔
ارم: چل میرے شیر اب مجھے چود میں اوپر آگئی تیرے ڈال دے لولا اب پھدی اتنی مار کے پھدی کا قطرہ قطرہ بہہ نکلے اور خشک ہوجائے۔
عمران: ہاں ایسا ہی کروں گا۔
ارم اوپر آتی ہے اور عمران کا لولا آرام سے پکڑ کر اپنی پھدی پر رکھ کر اندر لیتی ہے۔ لولے کے اوپر بیٹھ کر وہ اوپر سے نیچے کو زور لگاتی ہے تو لولا گیلا ہونے کی وجہ سے پھسلتا ہوا اس کی پھدی میں جلدی سے گھس جاتا ہے۔
ارم: آہہہہہہہہہہہ اگففففففففف ممممممممممممم توبہ لولا اندر گیا تو محسوس ہوا ہے کے کچھ گیا ہے اندر چیرتا ہوا۔ اب آرام آرام سے جھٹکے مارنا۔ پھر جب کام رواں ہوجائے تو بے شک تیز مارنا۔
عمران: ٹھیک ہے میری جان۔ اففففف پھدی تو اندر سے تنور بنی ہوئی ہے۔ افففففف کتنی گرم ہے تمہاری پھدی۔
ارم: ہاں گرم ہے آگ ہے بھجا دو آج اس کی ساری آگ۔
عمران آہستہ کرنے کے بعد زور دار جھٹکے مارتا ہے اور ارم کی گانڈ کو ہاتھ ڈال کر خوب چودتا ہے۔
ارم: اااااہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ افففففف ہائے مر گئی!!!! میری پھدی گئی اففففف چد گئی آج تو میں ااااہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اہہہووووووو اففففف ممممممم چودو اور چودو مجھے۔ لو میری لو اور لو میری لولا اندر جاکر میری بچہ دانی ہی پھاڑ دے ایسا جھٹکا مارو۔ افففففففف ہائے آج سے پہلے کسی نے نہیں چودا اففففف مممممم۔
دونوں خوب مختلف انداز میں چدائی کرتے ہیں۔ پھر عمران ارم کی پھدی کے اندر ہی اپنا سارا مال نکال دیتا ہے۔ پھر وہ اٹھ کر اپنے پیروں کے وزن پر بیٹھ جاتی ہے اور پھر اس کی پھدی سے عمران کا مال قطرہ قطرہ کرکے ٹپک جاتا ہے۔
ارم: مزہ آگیا آج تو کل کے امتحان کی بھی پریشانی نہیں رہی۔ اب میں چلتی ہوں کل پھر ملیں گے اور جب جب دل کرے گا چدائی کروگے نا؟
عمران: ااففففف بہت مزہ آیا نیند اچھی آئے گی مجھے تو اور ہاں اب تو چدائی ہوا کرے گے۔
ارم: اب میں چلتی ہوں کل امتحان کے بعد ملیں گے۔
عمران: اچھا چلا ٹھیک ہے میں نیچے چھوڑ آتا ہوں۔تو جناب کیسی لگی آپ کو ارم اور عمران کی چدائی کی کہانی؟ ضرور بتایئے گا۔ آپ کے کمنٹس کا انتظار کروں گا۔
YOU ARE READING
امتحان کی تیاری (Exam Preparation) 🔞
Short StoryTwo class mates plan to study together but it turns into steamy romance and endless pleasure.