قسط نمبر 2

19 1 0
                                    

ہاسپٹل سے اسکی گاڑی سیدھا Couture کے سامنے رکی۔Couture اسنے انتھک محنت کے بعد کھڑا کیا تھا۔ وہ اندر آئ۔گڈ مارننگ میم۔۔ سارہ نے اسے خوش آمدید کہا ۔آفس میں داخل ہونے کے بعد سارہ نے کہا میم میں پولیس کو کال کر دوں ہمارے پاس مسٹر فیاز کے خالف ثبوت ہے۔ انہوں نے ہی ہمارے ڈیزائنز خوفیہ طور پر Style کو سیل کر دیے۔ نہیں ابھی نہیں،مجھے اس سے پہلے بات کرنی ہے۔ اسکو میرے آفس بہجو اس نے اپنی سن گلاسز اتارتے ہوئے کہا۔ اوکے میم جیسے آپ کہیں۔
مسٹر فیاز اندر آیے لہجہ نارمل تھا۔ وہ اندر ایا کرسی پر بیٹھ گیا جب الیکس نے بولنا شروع کیا مسٹر فیاز آج میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے، میں چاہتی ہوں آپ ان ڈاکومنٹس کو ریڈ کریں اونچی آواز میں۔ فیاز کو تھوڑا عجیب لگا بارہال اس نے ان ڈاکومنٹس کو اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا ۔ می۔ میم۔۔۔۔۔ اسکی جان نکل گئی ۔۔ اب اسے الیکس سے کؤی نہیں بچا سکتا ،وہ اک جھٹکے سے کھڑا ہوا اسکے پاس ثبوت تھے اب مکرنے کا کوئی فاہدہ نہیں تھا۔ الیکس یوں ہی بیٹھی رہی مسٹر فیاز Couture کو کھڑا کرنے میں مجھے کتنے سال لگ گے کتنی جدوجہد کرنی پڑی شاہد آپ کو اسکا اندازہ نہیں یے تب ہی آپ یہ سب اس نے غصے سے ان ڈاکومنٹس کو اٹھا کر اس کے سامنے لہرایا کرتے رہے۔
میم۔۔ میم پلیز پلیز I'm sorry, I'm really sorry. خدا کے لیے پولیس مت بلوایں میں آیندہ ایسا کرنے کا کبھی سوچوں گا بھی نہیں ۔ میرے جھوٹے چھوٹے بچے ہیں آپ کی دی جانے والی سیلری سے میرا گزارا نہیں ہوتا۔ میری پوری فیملی پاکستان ہوتی، میری ماں کا علاج، بچے، میں لالچ میں آ گیا تھا خدا کے لیے مجھ پر رحم کریں میں ساری زندگی آپکا احسان مند رہوں گا وہ ہاتھ جوڑے کہتا گیا۔ الیکس نے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر بولی ۔۔۔ میں اپنے غداروں کو معاف نہیں کرتی اس لیے میں تمہیں معاف نہیں کر رہی مگر میں اب تم پر نظر رکھوں گی اور اسکو آخری موقع یا جو بھی سمجھو اسکے بعد میں رحم بھی نہیں کروں گی۔ جا سکتے ہو تم اب فیاز نے اسکا شکریہ ادا کیا اور آفس سے نکل گیا۔ ایلکس نے گہری سانس لی اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی، آنکھیں موند لیں ۔ منظر روشن ہونے لگا
تو پھر آپ کو کس کی چاہ ہے؟؟
"قرب الٰہی " ۔۔۔۔۔ مجھے اللّٰہ کے لیے جینا ہے، اسی کے لیے مرنا ہے۔۔ کون اللّٰہ ؟ وہ بے ساختہ بولی، یہ کون سی ہستی ہے جس کے لیے آپ میری کروٹوں کی رقم جھٹلا رہیں ہیں۔ کون ہے اللّٰہ ؟
زاہرہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری پھر کہا
He is Allah the one. He is eternal and absolute None is born of him and nor was he born And there is no one like him. He is unique He is أَحَدٌ ...
الیکس پر سکتا طاری ہو گیا اس نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا کچھ سنا نہیں تھا۔
آنکھیں کھلیں منظر دھواں ہوا، " اللّٰہ" اس نے زیرے لب دھرایا۔
.......................

14 July 2001
Afghanistan (Kabul)

اب نازک دور آ چکا ہے کے آج کل لوگ کہتے ہیں کے ہم نبوت کی معقولیت کے خلاف ہیں اور شیطان نے ان کے ذہن میں یہ ڈالا ہے کہ جو رسول گزر چکے ہیں انہوں نے کچھ باتیں کہی ہیں۔ تو امریکہ کی ایک چھوٹی سی جماعت یہ اعتراض کرتی ہے "کہ یہ تو ایک مالخیولیا کے اللّٰہ کی کلام ایک انسان پر نازل ہو" یہ تو غلط ہے۔ جرگہ میں خاموشی چھا گئی ۔ عبد الرحمن الشافیی نے تبلیغی مسئلہ جرگہ میں پیش کیا۔
عبد العزیز المقتفی نے اس مسلے کو سننے کے بعد بولنا شروع کیا کیا نبی کی بات مالخیولیا ہے؟ تو نعوذباللہ پھر تو سب نبی غلط ہوۓ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بٹے بڑے فلاسفروں کا ان کے دین میں شامل ہو جانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل تمام انسانوں سے بہتر واعلی ہے  اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے ک تمام لوگوں سے عیسیٰ علیہ السلام کا عقل زیادہ تھا۔اور ہمارا عقیدہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لیکر رہتی دنیا تک تمام مخلوقات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن مبارک سب سے اعلیٰ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ وحی کے الفاظ جبرائیل علیہ السلام کے اندر منتقل کر کے اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر منتقل کیے۔ یہ ہے نبوت ۔ اور یہ کہتے ہیں کے یہ غلط ہے۔ نبوت کے معاملے میں ہمیں یہ یقین کرنا پڑے گا کہ پہلے یہ الفاظ جبرائیل علیہ السلام میں منتقل ہوئے اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ تو ان کو منتقل کرنے والا کون ہے؟ وہ ہے اللّٰہ تعالٰی ۔تو انتقال کا عمل اللّٰہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ دور حاضر نے پیغمبروں کی صداقت کو سورج کی طرح چمکا دیا ہے۔
وہ کیسے عبدالمنان جو کم عمر لڑکا تھا اس نے پوچھا
دیکھو کہ انسان کو یہ قوت و طاقت حاصل ہوئی کہ وہ اپنے الفاظ کو ایک بےجان آلہ ٹیپ ریکارڈر میں منتقل کر سکتا ہے۔ تو کیا اللّٰہ تعالیٰ ایک جاندار میں اپنے الفاظ منتقل نہیں کر سکتا ؟ اور جاندار میں ایک ذات جبرائیل علیہ السلام کی ہے اور دوسری ذات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو آلات وغیرہ تو درکنار جو سب سے ارب ہا درجہ اعلیٰ وارفع ہے۔ کیا یہ منتقل ہونے کے قابل نہیں ہیں ؟
معقولیت کے متعلق کہ انسانوں کے لئے اللّٰہ نے ایسا کیوں کیا۔ بس انسان ایسے کھڈے میں رہ جاتے اللّٰہ کہتا کہ وہ جانتیں یا جہنم جانے میرا کیا ۔ مگر یہ اللّٰہ تعالٰی کی حکمت کے خلاف تھا کہ پہلے قانون بتلا دیا جائے اور قانونی کارروائی بعد میں ہو تو قانون بتلانے کے لیے ایک رکاوٹ تھی کہ اللّٰہ تعالٰی بہت بلند اور انسان کی پستی یہ دونوں آگ اور پانی کی طرح ایک دوسرے کی ضد ہیں تو چاہا کہ ایک درمیانی واسطہ ہو جو ایک حثیت سے اللّٰہ سے ملے اور ایک وجہ سے انسان سے تعلق رکھتا ہو۔ پیغمبر یہ کام کرتا ہے۔
مگر پیغمبر کا تعلق اللّٰہ سے کیا ہے؟ اسنے دوبارا پوچھا۔ اللّٰہ تعالٰی نے پیدائشی عتبار سے بعض انسانوں کو ایسا پیدا کیا کہ انہیں روحانی لحاظ سے بشر سے جوڑ ہے۔
عبدالمنان کی سمجھ میں نا آیا۔ جس پر عبرل العزیز  المقتفی نے اسکو اپنے پاس بلایا۔ عبد المنان ادب سے اٹھا اور ان کے پاس میں دوزانوں بیٹھ گیا
آگ پر ہم نے چاۓ پکانی ہے معنی یہ کہ آگ کی گرمی پہنچی تو چاہے کا پانی ابلا۔ اب ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ آگ کی گرمی کا فیض پانی کو پہنچے تو یہ دونوں آپس میں ضد ہیں اگر یہ کام براہِ راست کیا جائے تو آگ بجھ جاۓ گی۔ تو انسان نے غور وفکر کی کہ ایسی چیز استعمال کی جائے جو ان کے درمیان ذریعہ بن جائے اور چاہے تیار ہو جائے تو اسے پتیلہ کہتے ہیں ۔
اسی طرح پیغمبر بھی اللّٰہ سے انسانوں تک پہنچاتے ہیں ۔ عبدالمنان کو اب سمجھ انے لگا۔ انہوں نے اسکو تھپکا پھر رخ جماعت کی طرف کیا اور اپنی بات مکمل کی بعض بزرگوں نے بتلایا کہ انسان کے اندر ایک حصہ ہڈی ، ایک حصہ گوشت اور ایک پٹھہ ہوتے ہیں تو تشریح الابدان کے علماء نے لکھا ہے کہ اس پٹھے کی جز کو اللّٰہ نے کیوں پیدا کیا؟ فرمایا کہ اللّٰہ یہ چاہتا ہے کہ ہڈی اور گوش کی پرورش ہو ان کی پرورش خون کے بغیر نہیں ہو سکتی مگر خون نرم ہے اور ہڈی سخت چیز ہے تو اللّٰہ نے اس پٹھہ کو پیدا کیا کہ ہڈی سے مل کر اس میں خون پیدا کرے یہ ہے پیغمبر کا اللّٰہ تعالٰی سے تعلق ۔۔۔۔۔۔۔ عبدل الرحمن الشافیی نے ادب سے سر ہاتھ دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر سر جھکا لیا۔ جماعت کا وقت ختم ہو گیا۔ سردار ہبتہ اللہ ابو مرزوق نے یہ گفتگو خاموشی سے سنی جماعت کے اختتام پر عبد العزیز المقتفی سے کہا امریکہ کی جاہریت اور بربریت بڑھتی جا رہی ہے ۔ اسلام دشمن تنظیموں کو تشکیل دینا، مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا ہمیں کوئ جواب دینا چاہیے ۔ ابلیس نے انگریزوں کو ایک تدبیر بتلائی کے مسلمان کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے تو اسے دین سے دور کر دو۔ اس کے دل سے علماء کی قدرو منزلت ختم کر دو۔ بس پھر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔ سردار نے عبداالعزیز کی بات توجہ سے سنی اور آئندہ کا لائحہ عمل پر پھر گفتگو شروع کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محملWhere stories live. Discover now