تیری یاد کے پل

207 8 7
                                    


"ارے دھیان سے، گِر مت جانا" اُس نے تیز ہوا کی رفتار سے بھاگتی ہوئی چھوٹی بچی کو آواز دی تھی ۔ لیکن وہ تھی کہ تھم جانے کا نام نہ لے۔ "امائرا بیٹا رُک جاؤ____ امائرا"۔ اُن نازک ہاتھوں میں اٹھائے شاپنگ بیگزکے ساتھ بھاگنے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ لیکن کچھ قدموں کے فاصلے پر وہ اسے روکنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ بائیں ہاتھ کا بوجھ بھی دائیں میں تھام کر دوسرے سےاس شرارتی بچی کو اپنی گرفت میں لیا تھا ۔ "دیکھو مال میں یوں نہ بھاگا کرو،  سمجھی؟ کہیں کھو جاؤ گی۔____اب سیدھی طرح چلو ورنہ آئندہ شاپنگ کے لئے نہیں لے کر آؤنگی"۔ اُس جھوٹی دھمکی کا بچی پر نمایاں اثر ٹھہرا تھا۔ اور وہ خاموشی سے مُنہ بنائے اس کے ہمراہ چل پڑی تھی۔ جس کو دیکھتے ہی اسنے بچی کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی۔  "اچھا میری جان کیا کھائے گی؟"۔ یہ سنتے ہی کسی دوسری سوچ کے بغیر امائرا نے ایک ہی چیز کا نام لیا تھا "آئسکریم"۔ ہر بچے کی طرح امائرا کی یہ فرمائش سُن کر وہ بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔ "آؤ !! اپنی جان کو آئسکریم کھلاتے ہیں"۔ اسنے امائرا کے  کندھوں کو سہلاتے ہوئے اسکے ماتھے پہ ایک بوسہ دیا تھا ۔۔

"وہ والی"۔ بچی نے ڈیپ فریزر میں موجود کولیکشن میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا۔
"بچے یہ چاکلیٹ ہے ساری، آپ سے نہیں کھائی جائے گی۔ آپ یوں کرو یہ والی لے لو، ہاں؟"
اور اسُ نے مسکراتے ہوئے آئسکریم کا وہ پیک اپنے دو چھوٹے ہاتھوں میں رکھ لیا تھا۔ "ساتھ رہنا۔۔۔ میں پے کر لوں"۔ اُس نے شاپنگ بیگز کو کاؤنٹر ٹیبل کے ساتھ ٹیک لگوا کر بائیں ہاتھ میں موجود سیاہ کلچ سے پیسے نکالنے کے لئے اسکو کھولا تھا ۔

"بچے یہ چاکلیٹ ہے ساری________آپ سے نہیں کھائی جائے گی ____"۔

یہ آواز سُنتے ہی ایک لمحے میں اسکا مکمل جسم لرز گیا تھا، اسکی روح کانپ اٹھی تھی، آنکھیں سٓکتے میں اور ہاتھ اُسی بیگ کا ہو کر رہ گیا تھا۔ اسکی سانسیں گہری ہو چکی تھیں۔ جیسے کسی اچھے خاصے شخص کی اچھی بھلی حالت اچانک غیر ہو جائے۔

پلٹ کر ڈیپ فریزر کی طرف دیکھنے کی سکّت نہیں تھی اس میں۔ جینز ٹی شرٹ اور لیدر جیکٹ میں ملبوس ایک شخص بچے کو ساتھ لئے اسُ کے قریب سے ہوتے ہوئے کاؤنٹر پر آ رُکا تھا۔  جس کو دیکھ کر اس کی خوبصورت آنکھیں ہلکی نٓم، اور الفاظ کہیں کھو چکے تھے۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے کندھے کو چھونا چاہا، مگر بازو اٹھا تو صحیح پر منزل نہ پا سکا۔ اچا نک کاؤنٹر پہ موجود لیڈی نے اُس کی طرف بِل کی ایک چِٹ بڑھاتے ہوئے اس کو متوجہ کرنا چاہا۔
"میم !!! یور پیمنٹ پلیز"۔
جس کو سُنتے وہ شخص پیچھے کی طرف پلٹا کہ اُس کے ہونٹوں پہ بے ساختہ ایک نام آیا۔ "مہین؟" ___ اور حالت تو اس کی بھی مہین سے مختلف نہیں تھی۔۔۔ سانس میں سانس تو اس کے بھی نہیں رہی تھی۔ دھرکن تو یہاں بھی حد رفتار سے آگے نکل چکی تھی۔۔ جانے کیوں خوشی کی آڑ میں دونوں کی آنکھوں میں بے پناہ اداسی اور کچھ نمایاں سوالات تھے۔

تیری یاد کے پلUnde poveștirile trăiesc. Descoperă acum