"ایلی !! پاس می دیٹ ساس پلیز" رامِس نے علیزے سے یہ کہا تھا۔ اور علیزے نے چِلی ساس کی وہ بوٹل رامس کو دیتے ہوئے بچوں کو ناشتے پہ آنے کیلئے آواز دی تھی۔ رامِس اکثر کچن میں اپنی بیوی کی ہیلپ کیا کرتا تھا۔ اور وہ دونوں اِس چیز کو بہت انجوائے بھی کیا کرتے تھے۔
رامِس اور علیزے ۔ ایک ایسی کپل جو کہ نہایت ہی سلجھی، پڑھی لکھی، سمجھدار اور ایک دوسرے سے پیار کرنے والی تھی۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔ رامِس اپنی بیوی کو پیار سے "ایلی" پکارتا تھا۔ اور علیزے ہمیشہ ہی اِس نام کو سن کر کھِل اٹھتی تھی۔ تھکن اتر جاتی تھی اُس کی رامِس کے منہ سے یہ نام سُن کر۔ اور اگر کام کی بات کی جائے تو رامس پیشے کے لحاظ سے ایک بہت بڑی پرائیویٹ کمپنی میں لیگل ایڈوائزر کے عہدے پر فائز تھا۔ اور علیزے پڑھی لکھی تو تھی لیکن انکو کبھی اِس چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی کہ وہ دونوں ہی جاب کریں۔ اسی لئے علیزے گھر سمبھالتی تھی اور اُس کے ساتھ ساتھ اُنکے دو بچے جن میں سے لڑکے کا نام شہیر اور لڑکی کا نام عریشہ تھا۔ اُن کے پاس الله تعالی کا دیا سب کچھ تھا۔ شہیر اور عریشہ ایک بہت ہی اچھے ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ میں پڑھ رہے تھے۔ اور خود رامس اور علیزے نے بھی آج تک کسی قسم کی معاشی تنگی نہیں دیکھی تھی۔
میاں بیوی کے چھوٹے موٹے جھگڑے تو معمول کی بات ہے۔۔ لیکن یہ بات بہت ہی حیران کُن اور سمجھ کے پیمانوں سے باہر کی تھی کہ جِس دِن سے اُن دونوں کی شادی ہوئی تھی، تب سے لیکر آج تک اُس گھر کی دیواروں نے اُنکا کوئی جھگڑا نہیں سُنا تھا۔ کبھی ایسا وقت نہیں گزرا تھا، جب اُن دونوں میں کسی بات پر کوئی بحث ہوئی ہو یا اُن دونوں نے ایک دوسرے سے کسی بات پہ ضد کی ہو۔
"السلامُ علیکم" عریشہ اور شہیر نے کچن کے ساتھ ڈائننگ روم میں آتے بلند آواز اپنے ماما پاپا کو سلام کہا تھا۔ اور اُن دونوں نے بھی ایک آواز سلام کا جواب دیا تھا۔ رامِس نے فرائی پین کو گیس سٹوو پہ رکھتے ہوئے مسکراہٹ لئے پلٹ کر اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا تھا۔
"اوہ سینڈوچز بن گئے" علیزے نے سینڈوچ میکر سے نکلتے سینڈوچز کی طرف بڑھتے ہوئے یہ کہا۔ "رامِس وہ ایگز دیجئیے گا" اور رامِس نے پاس پڑے فرائیڈ ایگز کو دو الگ الگ پلیٹوں میں رکھتے ہوئے علیزے کو دئیے تھے۔ علیزے نے ڈائینگ روم میں داخل ہوتے ہی ہاتھوں میں پلیٹیں اٹھائے دونوں بچوں کے سروں پہ باری باری بوسہ دیا تھا۔ "مومی !! یو آر روئننگ مائی ہیئر" (ماں آپ میرے بال خراب کر رہی ہیں) شہیر نے پیارے سے انداز میں اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے اپنی ماں سے شکایت کی تھی۔ اور عریشہ پاس بیٹھی یہ دیکھ کر ہنس پڑی تھی۔
"ایلی!!! فُل فرائیڈ اور دا ہاف؟" کچن میں کھڑے رامِس نے اپنی بیوی کو آواز دی تھی۔ "میں ہاف فرائیڈ لونگی" اور پلیٹیں رکھنے کے بعد اُس نے گزرتے ہوئے شرارت سے دوبارہ شہیر کے بالوں کو چھیڑا تھا جِس پہ وہ دوبارہ ویسے ہی چِلایا تھا۔ جسے دیکھ کر علیزے اور عریشہ دوبارہ اُس پر ہنسی تھیں۔
YOU ARE READING
دیمک
Short Storyجانے کتنے ہی رشتے جانے کتنی ہی محبتوں کو چاٹ لیا اِس دیمک نے۔۔۔لیکن ہم نہیں کرتے بات۔۔