وہ بوکھلایا ہوا باہر کی طرف بھاگا تھا۔ سامنے علیزے کی گاڑی دوسری کار کی ٹکر کی وجہ سے روڈ سائیڈ پہ لگے ایک درخت سے جا ٹکرائی تھی۔ وہ علیزے کا نام پکارتا ہوا گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔ دوسری گاڑی سے ایک آدمی نکل کر اُس کی حالت دریافت کرنے کے لئے آگے بڑھا تھا کہ رامس نے گزرتے ہوئے غصے سے اس کو دھکا مارا تھا۔ گاڑی کا بونٓٹ درخت سے ٹکرانے کی وجہ سے آدھا مڑا اور کھلا ہوا تھا۔ اُس سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ علیزے کا سر تو سٹیئرنگ سے ہلکا سا ٹکرایا تھا لیکن سیٹ بیلٹ لگے ہونے کی وجہ سے کوئی سیریس انجری نہیں ہوئی تھی۔ وہ آدھی بے ہوش لگ رہی تھی۔ رامس نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولنا چاہا لیکن اندر سے لاک لگے ہونے کی وجہ سے وہ کھول نہیں سکا تھا۔ اُس نے بھاگ کر دوسرا دروازہ دیکھا لیکن وہ بھی لاک تھا۔ وہ اس کو آوازیں دئے جا رہا تھا۔ اُس نے ہاتھ مار کر کانچ توڑ دینا چاہا لیکن ساتھ والی سیٹ پہ بے ہوش علیزے کو دیکھ کر رُک گیا تھا کہ اگر کانچ توڑا تو وہ علیزے کو نہ لگیں۔ اُس نے فوراً گاڑی کے بائیں طرف پچھلے دروازے کے کانچ کو ایک مکا مرا جس پر کانچ میں دڑاڑیں پڑ گئی تھی۔ ایک اور کوشش کے بعد کانچ ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے آدھے ٹوٹے کانچ کے اوپر سے بازو اندر ڈالتے ہوئے لاک کھولا اور پچھلے دروازے سے اندر جاتے ہوئے علیزے کو تھپتھپایا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے ڈور کو انلاک کیا۔ گاڑی سے دھواں نکل رہا تھا۔ اِسی لئے وہ جلد از جلد علیزے کو وہاں سے نکال لینا چاہتا تھا۔ وہ تیزی سے گاڑی سے نکل کر علیزے کے پاس آیا اور اسکا سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے اُس کو باہوں میں اٹھا کر گاڑی سے دور لے گیا تھا۔ اُس نے علیزے کے گال تھپتھپائے۔ وہ پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ وہ کبھی دونوں ہاتھوں میں اُس کا خوبصورت چہرہ تھامتا اور اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا۔ اچانک علیزے نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ یہ دیکھ کر رامس کی جان میں جان آئی تھی۔
علیزے نے جیسے ہی اپنے سامنے رامس کو دیکھا تو یوں اچھل کر پیچھے کی طرف ہٹی تھی کہ جیسے ڈر گئی ہو کسی چیز سے۔ وہ اُس سے دور ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ "ایلی، ایلی __ اٹس اوکے بیبی, اٹس می__ میں ہوں رامس""رامس دور ہٹ جاؤ ، چھوڑ دو مجھے میرے حال پہ" وہ دوبارہ رونے لگ پڑی تھی۔ "مجھ، مجھے معاف کر دو، میں نے شک کیا تم پر__ میں ، میں دوبارہ ایسا نہیں کرونگا" وہ علیزے کے ہاتھ پکڑنا چاہ رہا تھا۔ "رامس نہیں چاہئے مجھے اب کچھ بھی، چھوڑ دو مجھے، مجھے جانے دو" وہ بھڑکی ہوئی تھی۔
"ایلی، ایلی مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دو ہاں ، میں نے غلط سمجھا تمہیں__ کیا کرتا میں؟ ارے میں برا نہیں تھا سچوئیشن بری تھی، سب دِکھ ہی ایسا رہا تھا، __ تم غائب تھی، اور مجھ سے چھپ رہی تھی۔ میرے فون کرنے پہ تم فون نہیں اٹھا رہی تھی۔ __ ہو گیا بس یار، مجھے تم سے ایک بار پوچھنا چاہیے تھا۔ مجھے کم از کم ایک بار تم سے ہوچھنا چاہئے تھا، مجھے تم سے بات کرنی چاہئے تھی__ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ اُسی الجھن میں راستے میں جب ، ،،، جب میں تمہیں کال کر رہا تھا اور تم نہیں اٹھا رہی تھی تو میں نے اپنا موبائل بھی پل سے نیچے پھینک دیا تھا__ مجھے معاف کر دو"
YOU ARE READING
دیمک
Short Storyجانے کتنے ہی رشتے جانے کتنی ہی محبتوں کو چاٹ لیا اِس دیمک نے۔۔۔لیکن ہم نہیں کرتے بات۔۔