پہلی قسط

79 5 20
                                    

کمپیوٹر کی بورڈ پر اُسکی نازک مخروطی اُنگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں۔ وہ کچھ نوٹس ٹائپ کر رہی تھی جب فون کی بجتی تیز گھنٹی نے اُسکا تسلسل توڑا۔ وہ رولنگ چئیر کو گُھماتی فون کی طرف متوجہ ہوئی۔
"یس سر؟" دوسری طرف رومان آفندی تھا
"میرے کمرے میں آئیے پلیز۔" عُجلت میں کہا گیا
"جی سر۔" فون بند کرتے ہی وہ اُٹھی، اپنے ٹیبل کے سائیڈ پر رکھا لیٹر پیڈ اور پین اُٹھا کر وہ اُن کے کمرے کی جانب بڑھ گئی

"مے آئی کم اِن سر(May I come in Sir)؟" وہ دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اِجازت طلب کرنے لگی

"یس پلیز آئیے۔ ہیو آ سیٹ(Have a seat)۔" فائلز میں اپنا دھیان لگائے وہ بولے
"تھینکس۔" وہ ایک کُرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ پھر انھوں نے کل میٹنگ میں ہونے والے کچھ اہم پوائنٹس ڈسکس کئے اور جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوگئے تب ارسلہ سے پوچھا۔

"تو مس ارسلہ اآپ نے کیا سوچا؟" وہ بڑی اپنائیت سے سوال کر رہےتھے

"کس بارے میں سر؟" وہ اُلٹا اُن سے سوال کرنے لگی

"آپ اچھی طرح جانتی ہیں میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں۔ وہی بات جسکا جواب سوچنے آپ نے تین دن کا وقت مانگا تھا۔ تو بتائیے آپ نے کیا سوچا؟" وہ اُسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہے تھے۔

"میرا جواب وہی ہے سر جو تین دن پہلے تھا۔" وہ اعتماد کے ساتھ بولی

"وہاٹ؟؟" کچھ دیر بے یقینی سے اُسے دیکھتے رہے پھر اپنی سیٹ سے اُٹھ کر اُسکی برابر والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے

"اتنا سمجھانے کے بعد بھی آپکی سمجھ نہیں آئی؟ پھر وہی بات؟"

"سر پلیز! میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ ابھی یہ ممکن نہیں ہے۔ میری مجبوری ہے۔" وہ بے بسی سے اُنھیں دیکھ رہی تھی

"کیا مجبوری ہے آپکی؟ بتانا پسند کریں گی؟" وہ کچھ دیر اُسے دیکھتے اُسکے جواب کا اِنتظار کرتے رہے۔پر اُسکی خاموشی کو محسوس کرکے اپنائیت بھرے لہجے میں بولے۔

"دیکھئے مس ارسلہ! یہ سب میں آپکو اپنی طرف سے عنایت ہرگز نہیں کر رہا بلکہ کمپنی کی پالیسی کے مُطابق آپ کے کام سے خوش ہوکر یہ گھر اور گاڑی دی جارہی ہے۔ یہ آپکا حق ہے۔"
"اور مجھے تو اپنا حق کبھی لینا نہیں آیا۔" وہ بے ساختہ کہہ گئی
"کیا مطلب؟" وہ اُسکے نازک چہرے کو دیکھے گئے جہاں اِس جملے کے ساتھ ہی تکلیف کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر جب بولی تو پہلے والا اطمینان لوٹ چُکا تھا۔

"سر میری پوزیشن اِسوقت ایسی نہیں ہے کہ میں گاڑی یا گھر کی قستیں نکال سکوں۔ میں نہیں افورڈ کرسکتی فالحال۔"

"ارسلہ میں نے اُسکا حل بھی آپکو دیا تھا۔ آپ جب افورڈ کرسکیں تب قستیں پوری کرلیجئے گا، ابھی آپ اِسکواپنی بہترین کارگردگی کا تحفہ سمجھ کر رکھ سکتی ہیں۔"
"میں ایسا نہیں کرسکتی سر۔ پلیز ٹرائی ٹو انڈراسٹینڈ!(Please try to understand!)" وہ جیسے تھک گئی تھی اپنی بات سمجھاتے سمجھاتے۔

"اِسکا مطلب آپ پروموشن لینے سے اِنکار کررہی ہیں؟" وہ اسے بغور دیکھ رہے تھے

"نو سر۔۔ مجھے پروموشن چاہئیے، آئی نیڈ اِٹ(I need it) لیکن میں گھر اور گاڑی ابھی نہیں لے سکتی۔ میں یہ اُسوقت لونگی جب مجھے اِنکی ضرورت ہوگی اور مجھے اُس اچھے وقت کا اِنتظار ہے۔ وہ اچھا وقت۔۔"

"اور وہ اچھا وقت کب آئیگا؟" ہلکی سی مُسکان کے ساتھ وہ بولے

"پتا نہیں۔ یہ تو میں بھی نہیں جانتی۔ ۔جن قدرت مجھ پر مہربان ہوجائے۔۔اور قدرت مجھ پر کبھی مہربان نہ ہوئی۔۔" آخر کا جُملہ وہ بس سوچ کر رہ گئی اور اِسکے ساتھ ہی اُسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں۔ماضی کی بھولی بھٹکی یادیں اُسکے ذہن میں چپک کر رہ گئی تھیں اور اِس سے پہلے کہ اُسکا ضبط جواب دیتا وہ وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"اوکے سر اب میں چلوں۔ مجھے کل کی میٹنگ کیلئے کچھ پیپرز ریڈی کرنے ہیں۔"

"اوکے ارسلہ! یو مے گو ناؤ(You may go now)" اُن کے چہرے کی مُسکان اب بھی قائم تھی۔ ارسلہ اُنھیں کچھ لمحے دیکھتی رہی پھر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ رومان آفندی کی آنکھوں نے دور تک جاتی ارسلہ کا تعاقب کیا تھا۔

"ارسلہ! اپنے دُکھ درد کیوں نہیں بانٹ لیتی مجھ سے۔ کیا تمھیں میری آنکھوں میں اپنا عکس نظر نہیں آتا؟" وہ ایک لمبی سانس کھینچ کر واپس اپنے سامنے رکھی فائل میں گُم ہوگئے۔ ارسلہ اپنے کیبن میں واپس آکردوبارہ اپنی توجہ کام میں نہ لگا پائی۔ اور ایسا اُسکے ساتھ اکثر ہوا کرتا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے کھو جاتی تھی۔

"میں خود کو آزماؤنگی۔ آخر وقت تک آزماؤنگی دانیال علی یہاں تک کہ میری برداشت جواب دے جائے۔" اُسنے اپنا آپ کرسی کی پُشت پر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ایک بار پھر اُسکے زخم تازہ ہوگئے تھے۔۔ اور اُن زخموں سے خون آج بھی رِستا تھا۔۔ ماضی کی خوفناک اور تلخ یادیں اُسے تنہائی میں آکر ڈسا کرتی تھیں۔

**************************

محبت بے زُباں ٹھہریWhere stories live. Discover now