میں جیسے ہی تولیہ لے کر پاتھ روم کے دروازے کے پاس پہنچا میں دیکھا نورین بلکل ننگی دروازے کے پیچھے کھڑی ہے۔ اور اس کے کھڑے ہونے کا انداز ایسا تھا کہ میں شک ہوئے چہرے کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا۔ انہوں نے اپنا ادھا جسم دروازے سے باہر نکال رکھا تھا۔ ان کا ایک ممہ، پیٹ، اور چوت، اور ایک ہاتھ میری انکھوں کے بلکل سامنے بے لباس اور شفاف۔ ٹھنڈے پانی کی ٹپکتی بوندیں ان کے جسم پر تو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ ان کے ممے زیادہ بڑے تو نہیں تھے لیکن گورے سیڈول جن پر پنک کلر کی نپل انتہائ حوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ نیچے شلوار کے اندر میری للی اکڑ کر جیسے ٹوٹنے والی ہو گئ۔ میں صرف ان کے ممے کو ہی دیکھ رہا تھا۔ جو ادھے کھلے دروازے سے باہر نکل کر میرا منہ چڑا رہا تھا۔ " اووے مانی۔ جلدی آ نہ کیوں اتنا اہستہ چل رہا ہے" میرے کانوں میں باجی نورین کی آواز پڑی اور میں نے جلدی جا کر اب کے ہاتھ میں تولیہ رکھ دیا۔ تولیہ لے کر بھی انہوں نے دروازہ بند کرنا مناسب حیال نہیں کیا اور ادھے کھلے دروازے میِں ہی خود کے بال پونچھنے لگیں۔ باقی جسم تو ہوا نے سکھا دیا تھا۔ صرف بال باقی تھے تو انہوں نے بالوں کے گرد تولیہ باندھا اور دروازے کی طرف چلنے لگی۔ میں بدستور انہی کو دیکھ رہا تھا۔ "توں گیا نہیں واپس؟ چل بھاگ یہاں سے" نورین نے ایسا بولا تو میں جیسے ہوش میں آ گیا۔ "میں تو اس لیئے کھڑا تھا کہ اپ کو کوئ ضرورت نہ ہو"۔ میں نے جلدی سے جواب دیا ۔ وہ بولی نہیں چل جا کر پڑھائ کر۔ اور سن اپنی انکھیں اور زبان دونوں بند رکھنا پلیز۔ تجھے بہت مزہ آئے گا۔ میں ان کی بات کا مطلب سمجھا ہی نہیں۔ میں پوچھا بھی ان سے کیا مطلب اپ کا تو انہوں نے کوئ جواب نہیں دیا۔ بس اتنا بولا راز رکھنا سیکھ جا۔ سمجھ آ جائے گی۔ اور میں جی بول کر واپس آ گیا۔ لیکن میرا دیھان پڑھائ میں تھا ہی نہیں۔ میری انکھوں کے سامنے نورین کا ننگا جسم آ رہا تھا اور میری للی کھڑی ہو جاتی بار بار۔ میں اتنا تو سمجھ گیا تھا یہاں کچھ بھی ہو وہ اسی چار دیواری کے اندر رہے گا۔ کبھی کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ اور جو ہو گا وہ میری تعلیم کا ایک حصہ ہی ہو گا۔
میری شرارتیں بدل گئ تھیں اور سوچنے کا انداز بھی۔ اب مجھے ننگا پن مزہ دینے لگا تھا۔ مجھے لڑکیوں کے ننگے ممے اور ان کا ننگا بدن دیکھنے کی ارزو رہتی تھی۔ میں اتنا سمجھ گیا تھا کہ ننگی عورتیں بہت کشش رکھتی ہیں اپنے اندر۔ جب کبھی میرے گھر میں کوئ عورت یا کوئ لڑکی اپنا ڈپٹہ اتار دیتیں میں بس ان کی چھاتیوں کو دیکھتا رہتا۔ اور تصور میں ان کو ننگا کر دیتا۔ کبھی کبھی تو ان کے برا نظر آ جاتے ان کے باریک کپڑوں سے۔ تو اس بات کا حیال رکھتے ہوئے کہ کوئ مجھے نوٹس نہ کرے میں چوری سے ان کی برا دیکھ لیتا۔ افشاں باجی کے گھر اس دن کے بعد کوئ واقعہ رونما نہیں ہوا سوائے اس کے کہ افشاں باجی کی زبان اب وہ نہیں رہی تھی جو ہمارے گھر آ کر استعمال ہوتی۔ دلی یا کتیہ والے لفظ اب وہ ارام سے بول لیتی تھی۔ اور نورین جو اس چار دیواری کے باہر انتہائ با پردہ ہوتی گھر آتے ہے وہ اپنا نقاب اور چادر اتار کر پھینک دیتی۔ وقت بڑا مزے کا چل رہا تھا۔ کبھی ان کی برا اور کبھی ان کی گانڈ صفائ کرتے ہوئے نظر آ جاتی۔ وہی میرے لیئے کافی غنیمت تھی۔ دن گزرتے گئے اور چھٹیوں کو ایک مہینہ باقی رہ گیا۔
یہ اگست کا مہینہ ہے۔ اور ہمارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ حسب معمول عروج پر ہے۔ اس دن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ موسم میں بہت حبس تھی۔ اور پسینہ نہلا دینے والا۔ میں اپنا رجسٹر لیئے اس پر املاح لکھ رہا تھا۔ باجی افشاں میرے سامنے چرپائ پر بیٹھی تھیں۔ اور انہوں نے حود کو اچھی طرح سے ڈھانپ رکھا تھا۔ کیونکہ چاچا ہمارے سامنے بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ اور مجھ سے میرے بابا کا پوچھ رہا تھا۔ باجی نے چادر پورے سر پر اوڑھ رکھی تھی اور پیٹ تک اس کو کور کیا تھا۔ اور پسینہ ان کے ماتھے سے ان کے گالوں تک بہہ رہا تھا۔ کاپی سے حود کو ہوا دیتے ہوئے انہوں نے اہستہ سے بولا، "پین چود بجلی کب آئے گی۔ گرمی نے بونڈ بند کی ہوئ" یہ الفاظ انہوں نے بہت اہستہ کہے تھے لیکن میں قریب تھا تو میرے کانوں میں یہ الفاظ پہنچے۔ میں نے فورآ سے پہلے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ اس بار انہوں نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا مجھ سے۔ بس مسکرا کر نیچے والا ہونٹ اپنے دانتوں میں لے کر مجھے ششش کہا اور لکھنے کو کہا۔ میں اب ان باتوں کو مزے سے سنتا تھا۔ اب مجھے ان سے حیرت نہیں ہوتی تھی۔ نہ یہ لفظ ہی نئے تھے میرے لیئے۔ میں جان گیا تھا کہ کس حصے کو دنیا والوں نے چسکے لینے کی حاطر کیا نام دے رکھا ہے۔ اور ان ناموں میں انتہائ لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ میں اج بھی جب انگلش میں لڑکیوں کی زبان سے جب بھی گالیاں سنتا ہوں مجھے کبھی ان گالیوں میں وہ لطف محسوس ہی نہیں ہوا جو میری اپنی زبان میں سن کر ہوتا ہے۔ جب بھی کوئ لڑکی یا صنف نازک اپنی میٹھی زبان سے لن، پھودی یا لوڑا، چوت جیسے لفظ نکالتی ہے تو خون میں وہ تازگی محسوس کرتا ہوں جو ان انگلش والیوں کی زبان سے میسر نہیں آتی۔
چاچا جی نے ناشتہ حتم کیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ہاتھ دھو کر آیا اور باجی سے بولا۔" پتر دروازہ کٹ کے بند کر لے میں چلاں ہن ہٹی تے۔" باجی نے جی ابو بولا اور چاچا جی کے پیچھے چلنے لگیں۔ چاچا کے جانے کے بعد انہوں نے دروازہ بند کر کہ کنڈی لگائ اور وہی پر چادر اتار کر کپڑے سکھانے والی تار پر ڈال دی۔ اور اندر آ کر پھر سے املاح کروانے لگیں۔ اور پھر لائٹ آ گئی. افففف شکر ہے۔ باجی نے اتنا بولا اور اپنی قمیض میرے سامنے ہی اتار دی۔ ان کی لال رنگ کی برا کا ہک کھول دیا لیکن مموں سے الگ نہیں کیا اور چارپائ پر لیٹ گئی۔ میں کچھ نہیں جانتا اور سوائے اس کے کہ میری للی پوری طرح اکڑ چکی تھی اور میرے سامنے باجی افشاں ادھ ننگی حالت میں لیٹی تھیں۔ ان کا پیٹ سانسوں کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ اور نیچے شلوار۔ میں تو اس نظارے سے پوری طرح لطف اندوز ہوا بھی نہیں کہ نوریں بھی دروازے سے باہر نکلی۔ اور مجھ پر جیسے بجلی سی گر گئی۔ نورین کا بالائ جسم بلکل ننگا گے تھا۔ اور نیچے شلوار نے صرف پھودی کے بالوں تک جگہ چھپا رکھی تھی۔ میرے قریب سے گزرتی ہوئ مجھے بولی" کیسے ہو مانی" اور میں بس مسکرا کر رہہ گیا۔ میرے الفاظ تو کھو گئے تھے۔ اج پھر سے زبان سوکھ گئی۔ دھڑکن بے ترتیب اور تیز۔ دونوں بہنیں اپنی تمام تر حوشربائیوں اور حشر سامانیوں کے ساتھ میرے سامنے ننگی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
پرانی یادیں ۔
Fantasyانسان جتنا بھی چاہے اپنے ماضی سے بھاگے لیکن اس کا ماضی ہمیشہ اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ ہم جتنا بھی کر لیں لیکن ہماری پرانی یادیں ہمارا دامن نہیں چھوڑتیں۔ انسان باتیں بھول جاتا ہے لیکن یادیں ہمیشہ یاد آتی ہیں۔ کچھ حوشگوار احساس لیئے اور ساتھ بہت ساری...