پچھتاوا

565 25 18
                                    

کھانا کھانے کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ اچانک کچھ یاد آنے پر فوراً موبائل کی طرف لپکی۔۔۔۔۔ موبائل پر ڈھیروں ڈھیر msgz  دیکھ کر کچھ ٹائپ کرنے لگی۔۔۔ اسے کھانے کی ہوش نہ رہی۔ رنگ فق ہو چکا تھا۔ آنکھیں ضبط سے لال ہو رہیں تھیں۔۔ آنسو بہ مشکل آنکھوں میں چھپا رکھے تھے۔۔ماں کے پاس سے اُٹھی چلنا چاہا پر ٹانگوں میں ہمت نہ تھی۔۔ بہ مشکل چل کر کرسی تک پہنچی اور وہیں بیٹھ گئ۔۔ اس کی آنکھوں سے پانی چھپے نہ چھپتا تھا۔۔
وہ چیخ چیخ کر رونا چاہ رہی تھی۔ یہ مجھ سے کیا ہو گیا۔ میں کیا کیا نہ کر گزری تھی۔ قریب تھا کہ آنسو ندی کی صورت بہ نکلتے۔ وہ فوراً اُٹھی اور سب سے نظریں چراتی واش روم  تک پہنچی۔۔۔
شیشے میں ایک نظر خود کو دیکھا کم گندھمی رنگت ،کندھوں سے تھوڑے نیچے تک بال ، وہ اتنی خوبصورت تو نہ تھی لیکن اُس میں کشش تھی۔۔بڑھی بڑھی رول پلکوں والی گہری دلکش آنکھیں جن سے اب ندی کی صورت آنسو بہ رہے تھے۔۔وہ چاہ کر بھی ان آنسوؤں کو نہ روک سکی۔
کاش میں سمبھل جاتی۔
کاش میں خود کو روک پاتی اس بری خسلت سے۔۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔
میں مر کیوں نہ گئ یہ سب کرنے سے پہلے۔ میں تو عورت کہلانے کے قابل ہی نہیں۔ عورت کی عزت کا بھی اندازاہ نہیں مجھے تو۔ عورت کی عزت تو ایک سفید چادر کی طرح ہوتی ہے جس پر اِک مٹی کا زرہ بھی ہو تو نہیں چھپتا اور اگر یہی چادر مٹی میں میلی ہو جائے تو اس کی زرہ برابر قدر نہیں رہتی۔
اور اگر یہ معاشرہ میری حقیقت جان جائے میرا اصلی روپ اس کے سامنے آجائے تو یہ مجھے قطعاً قبول نہ کرے گا۔میں تو خود اپنی ہی نظروں میں گِر چکی ہوں پھر میں اس معاشرے سے کیوں کر کوئى توقع رکھتی۔ میں تھک چکی ہوں بس اب اور نہیں۔۔
مزید برداشت کی سکت نہیں مجھ میں۔ میں اپنی جان بھی دے دوں تو مجھے میری محبت نہیں مِل سکتی۔ میں سب کچھ کھو بیٹھی ہوں۔ سب سے پہلے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا۔
لیکن عزت ذلت تو الله کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔۔۔

بس یہی ا.ِک امید باقی تھی۔ بس آج کے بعد رونا نہیں۔ محبت کا مزاق اُڑانے والے لوگوں کے لیے تو بلکل نہیں۔ وہ رو رہی تھی ۔ ٹوٹ چکی تھی اسی شخص کے ہاتھوں۔ وہ اپنے ہی عشق کی آگ میں جل کر راکھ ہو چکی تھی۔ لیکن اب اسے ہمت نہیں ہارنی تھی۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا تھا۔۔
وہ آج اپنے کیے پر پچھتا رہی تھی۔
اسے سب سے پہلے اپنے الله کو راضی کرنا تھا۔ اپنے آنسوؤں کو دھونے کے لیے وضو کیا۔ماں کی آواز کانوں میں گونجی زرنش بیٹا تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔۔
  امٌی جان پہلے میں نماز پڑھ لوں۔ رب کی بارگاہ میں حاضری دی توبہ کی اور کھانا کھانے لگی۔
شاید یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ۔
رات کو سونے کے لیے لیٹو تو دنیا بھر کی ہونے والی ذیادتیاں ہمیں یاد آ جاتی ہیں۔۔
کاش میں راہ راست پر چل پڑتی۔کاش میری عقل نے تھوڑا تو میرا ساتھ دیا ہوتا۔ کاش میں سب جانتے ہوئے بھی کسی سے اتنی امیدیں نہ لگاتی۔
غلطی تو آخر کو میری ہی ہے۔۔ برا تو اس معاشرے معاشرے میں عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور پھر اس سے بڑھ کر برائى بھی کیا ہو گی۔۔ اسے میرے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

نہ جانے ایسی کون سی بات تھی ان msgz میں جس نے زری کو اتنا پریشان کر دیا تھا۔۔








یہ جاننے کے لیے عشق آتش کو پڑھنا جاری رکھیں۔۔شکریہ

عشق آتشWhere stories live. Discover now