زری کا اپنی پھوپھو کے گھر بہت کم جانا ہوتا تھا۔ اس دفعہ وہ کوئى دو سال بعد ان کے یہاں جا رہی تھی۔ تب وہ کلاس 7th کی طالبہ تھی۔ اور عید کے تیسرے دن اسے اپنے چاچو کے بچوں کے ساتھ ادھر جانا تھا۔ سب خوش تھے اور سب کی طرح زری بھی بہت خوش تھی۔
آخر عید کے تیسرے روز وہ لوگ پھوپھو کے گھر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ تب ہی اس کی نظر پھوپھو کے اکلوتے بیٹے پر پڑی جو بہت شرمیلا سا لگ رہا تھا۔ شاید وہ تھا ہی ایسا۔ چاچو اور پھوپھو کے بچوں کی آپس میں خوب بنتی تھی کیوں کہ وہ سب پہلے بھی اسی طرح کبھی کبھی اکٹھے ہوتے رہتے تھے۔ لیکن زری اپنی فیملی کے ساتھ اپنے ننیھال میں رہتی تھی۔ اس لیے اسے کچھ خاص مزہ نہیں آ رہا تھا۔لیکن ایک دو دن میں وہ سب کے ساتھ خاصی گھل مل گئ تھی۔زری یہ دیکھو پھوپھو کی تیسرے نمبر والی بیٹی افشاں آپی اسے موبائل پر اک مےسج دکھاتے ہوے مخاطب ہوئیں جس میں کوئى اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔
ارے یہ تو بھائى کا نمبر ہے زری حیرانگی سے بولی۔ یہ آپ کا موبائل ہے آپی۔؟
ہاں زری اور یہ تمہارے بھائى کا ہی میسج ہے۔زری مسکرانے لگی۔ کیوں کہ زری کی فیملی میں سب کی خواہش تھی کہ افشاں کو زری کے بڑے بھائى کی دلہن بنایا جائے۔ اور اس سے چھوٹی حرا کو چھوٹے بھائى کی اور یہ بات خاندان کے سبھی لوگ جانتے تھے۔
زری تم جانتی ہو نہ ہمارے بڑے کیا چاہتے ہیں۔؟
جی آپی میں جانتی ہوں۔
زری پتہ ہے جب عینی(چاچو کی سب سے چھوٹی بیٹی) پیدا ہوئى تو ایک دن ہم نے سنا کہ علی کا رشتہ عینی کے ساتھ کیا جائے گا لیکن ہم نے کہا نہیں یہ جوڑ نہیں بنتا عینی تو بہت چھوٹی ہے۔ اس لہاظ سے زری ٹھیک ہے۔ اور اب مستقبل میں تم میری بھابھی بنو گی۔
زری کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
زری تم بنو گی نہ۔؟ آپی نے اسے چھیڑتے ہوے شرارتاً پوچھا۔۔
زری کے چہرے پر مسکان پھیل گئ۔
لیکن دےکھو تم ابھی مائینڈ مت بنانا ۔ ابھی اپنی پڑھائى پر دھیان دو۔ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ افشاں سمجھانے کے انداز میں بول رہی تھی۔
زری نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں مسکرانے لگیں۔
سفید رنگت ، شرمیلا چہرہ وہ پسند تو کسی کو بھی آ سکتا تھا۔ بس اسی طرح زری کو بھی بڑوں کے اس فیصلے پر کو اعتراض نہ تھا بلکہ وہ خوش تھی لیکن آپی کی نصیحت پر عمل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت وہ میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہو چکا تھا۔ اور اب اسے کالج میں ایڈمیشن لینا تھا۔ ان کا گاؤں شہر سے کافی فاصلے پر تھا روز کا آنا جانا خاصا مشکل تھا۔ آخر کار زری کے ابو جان کے کہنے پر یہ تہ پایا کے علی ننیھال میں رہے گا اور اپنی آگے کی تعلیم وہیں حاصل کرے گا۔
زری کو یہ سن کر خوشی ہوئى کیوں کہ وہ اسی سال اپنے ددھال شفٹ ہوئے تھے۔
واہ ! اب علی ہمارے ساتھ ہمارے گھر رہے گا۔
وہ لوگ خوشی خوشی علی کو ساتھ لیے واپس آ گئے۔ علی کی سب کے ساتھ اچھی دوستی ہو گئ۔ زری کا چھوٹا بھائى علی کا بیسٹ فرینڈ بن گیا۔ دن کے وقت تو سب اپنے اپنے سکول کالجز چلے جاتے۔ لیکن رات میں جب سب آگ ک گرد اکٹھے ہوتے تو خاصا شغل لگاتے۔
زری گاہے بگاہے علی پر اک پیار بھری نظر ڈال لیتی اور پھر نہ چاھتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکان چھا جاتی۔ وہ اس سے ڈائیریکٹ تو کم ہی مخاطب ہوتی لیکن پھر بھی اس سے بات کرنے کا کوئى نہ کوئى بہانہ ڈھونڈ ہی لیتی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی وہ زری کے مسکرانے کی وجہ بنتا جا رہا تھا۔ویکینڈ پر گھر جاتا تو زری اداس ہو جاتی۔
چاچو کی بیٹی نمرہ آپی علی کی ان سے بہت اچھی دوستی تھی وہ نمرہ آپی سے ہر بات شیئر کرتا تھا۔
زری کو کبھی کبھی تو ان سے جیلسی فیل ہونے لگتی۔
آمنہ مجھے کسی کے لیے گفٹ لینا ہے کیا تم میری ہیلپ کر سکتی ہو۔؟ زری کلاس میں اپنی فرینڈ سے مخاطب تھی۔
آمنہ مجھے کوئى آئیڈیا نہیں اس لیے کہ رہی ہوں۔میرے کزن کی سالگرہ ہے اور مجھے اسے گفٹ دینا ہے۔اب تم بتاؤ کہ گفٹ میں کیا ٹھیک رہے گا۔؟
نہ جانے کب ان کی باتیں کسی تیسری لڑکی نے سن لیں۔ اب زری سب کی نظر میں آچکی تھی۔
اچھا تو یہ تمہارا کون سا کزن ہے زری ہمیں بھی تو بتاؤ...ہاہاہاہا
ایک بات کرتی تو باقی سب اس کی بے تکی بات پر کھلکھلا کر ہنس دیتیں۔۔۔
نہیں ایسی کوئى ات نہیں ہے وہ تو بس کزن ہے میرا۔۔
جی جی جانتی ہیں ہم سب کے ایسے ہی ہوتے ہیں کزن۔۔ہاہا
کتنی عجیب ہیں یار یہ لوگ ۔ وہ جنجھلا کر آمنہ سے مخاطب ہوئى..
تو پاگل تم خد بھی تو سوچو کیوں کزن کی سالگرہ کے لیے اتنی excited ہو۔ وہ اسے چھیڑنے کے انداز میں بولی۔ آخر کچھ تو سپیشل ہے نہ۔۔
ہاں نہیں۔۔مم۔۔۔وو۔۔۔وہ مم۔۔۔ میری پھوپھو کا بیٹا ہے۔۔
اور پھر زری شرمیلا سا مسکرا دی۔۔
گھر میں سکول کی کوئى بات یاد نہ آتی۔۔ گھر میں تو بس ان سب کی شرارتیں تھیں اور ہنسی خوشی دن گزر رہے تھے۔۔
زری اموشنل تو شروع سے ہی تھی نانی، خالہ اور ماموں نے تو اسے ہتھیلی کا چھالہ بنا رکھا تھا۔ اور ان کے لاڈ پیار نے ہی اسے اتنا sensetive بنا دیا تھا۔ تھڑا سا ڈانٹ دو تو آنسو ایسے بہتے جیسے پہلے سے ہی رونے کو تیار بیٹھی ہو۔زدی تو یہ انتہا کی تھی۔ اور اکلوتی ہونے کا اسے یہ فائدہ حاصل تھا اسے کوئى روتا نہ دیکھ سکتا تھا۔لیکن یہ لاڈ تو صرف نانی کے گھر تک تھے۔ اور بڑی بات یہ بھی تھی کہ وہ نانی کے گھر کو بہت یاد کرتی تھی اور چھوٹی چھوٹی بات پر رو کر اپنی اداسی نکال لیتی۔۔
اس دن بھی کسی بات پر بڑے بھائى نے ڈانٹ دیا اور زری رونے لگی۔ آنسو تو جیسے رکنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ روتے روتے وہ علی کے پاس سے گزری وہ نہیں جانتی تھی کہ علی وہاں بیٹھا ہے۔ ورنہ وہ وہاں سے کبھی نہ گزرتی کیوں کہ اسے اپنی انسلٹ سے زیادہ سیلف رسپیکٹ کی پرواہ تھی۔
زری کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو۔؟
کچھ بول نہ سکی بس نفی میں سر ہلا کر کچن میں چلی گئ۔
واپسی پر بھی علی وہیں بیٹھا تھا۔ وہ چپ چاپ وہاں سے گزر جانا چاہتی تھی۔
لیکن جب وہ علی کے پاس سے گزری تو علی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ دھنگ رہ گئ اس کے جسم میں کرنٹ کی سی لہر دوڑ گئ۔ جیسے کچھ انہونی ہو گئ ہو۔ تبھی اس خاموشی کو علی کے الفاظ نے توڑا۔
بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔؟
جیسے اس سے زری کا رونا نہیں دیکھا جا رہا تھا۔ وہ زری کے رونے سے پریشان تھا۔ورنہ کسی کو کیا پرواہ تھی کہ وہ رو بھی رہی ہے یا نہیں۔
کچھ نہیں۔ چھوڑو تم
نہیں جب تک تم نہیں بتاؤ گی میں نہیں چھوڑوں گا۔
ڈانٹا ہے بھائى نے۔ چھوڑو اب
اوہ تو پاگل اس میں رونے کی کیا بات ہے چلو چپ کرو شاباش۔۔
اچھا۔
وہ فقظ اتنا کہ کر چلی گئ۔