زندگی کے کچھ پہلو ایک ایک کرکے منظر پر ابھرتے ہیں ، کچھ دیر ٹھہرتے ہیں اور پھر یوں ختم ہوجاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہ۔ خوشیاں اپنا اثر اتنا نہیں چھوڑتی جتنا غم اثر انداز ہوجاتے ہیں، چپک کر رہ جاتے ہیں۔
حنا جلیل۔۔ ایک بہو تھی! جو سارا دن گھر کے کام کاج کرنے کے باوجود بھی شام کو ساس سے کوئی تلخ جملہ سن لیتی تو ڈھیر ہو کر بیٹھ جاتی، تعریف تو دور ، اس کے کام کو نظروں سے سراہا بھی جاتے تو اس کے لئے کافی ہوتا لیکن روز ایک ہی معمول پر چلتی زندگی اور باتوں نے دھیرے دھیرے اسے توڑنا چھوڑو کردیا تھا۔ مایوسی تھی جو اس کو اپنے گھیرے میں لینے لگی تھی، دل تھا جو اب کاموں میں نہ لگتا تھا۔ کبھی سوچتی کہ رکھ کر الٹا جواب دے اور ہر کام سے ہاتھ کھینچ لے لیکن والدین کی تربیت آڑے آجاتی۔علی عادل۔۔ اپنے گھر کا بڑا بیٹا، نیا سربراہ ، باپ کا بازو۔۔ گریجوئشن کے مکمل ہوتے ہی نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے والا وہ ہزاروں نوجوانوں میں سے ایک تھا۔ ابو کے بیمار پڑنے جانے کے بعد سے ہر ایک کی امید بھری نظر اس کی طرف آتی تھی۔ اچھی نوکری مل نہیں رہی تھی، سفارش کا دور دورہ جو تھا۔ روزی روٹی کے لیے معمولی سی دکان میں دہاڑیاں لگانی شروع کردی۔ کچھ پیسہ آ تو جاتا لیکن جب وہ گھر لوٹتا تو اپنے کمرے میں موجود اس کاغذ کو دیکھتا جسے ڈگری کہا جاتا تھا، اتنا پیسہ،اتنی محنت لگا کر اسے ملا کیا؟ کس کام کی تھی یہ ڈگری؟ بھاڑ میں جائے ایسی ڈگری جو زندگی نہ تبدیل کر سکے، جو آپ کو آپکی پسند کی نوکری نہ دے سکے۔ چڑچڑاہٹ اور غصہ اسے اپنے گھیرے میں لے رہا تھا۔ دن بدن مایوسی اس پر چھا رہی تھی۔
حنا ہمایوں۔۔ اپنے گھر کی middle child ، جس کی عموماً کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی (کچھ معملوں میں) ۔ پڑھنے کا بہت شوق تھا، محنتی تھی، ذہین بھی، لیکن خود دار بھی۔ مڈل کلاس فیملی سے تعلق تھا جہاں گھر بھائی باپ چلاتے تھے، اور ایسے میں اسے اپنی فیسوں کا بوجھ ان پر ڈال کر پڑھائی سے انکار کروانا منظور نہ تھا۔ گھنٹوں ٹیوشن دے کر جوڑے گئے پیسوں سے اپنے اخراجات مشکل سے پورے کرنا اس کا واحد ذریعہ تھا۔ لیکن ہاتھ سے جاتا یہ ذریعہ اسے پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ کیا کرے گی؟ کس طرح آگے بڑھے گی؟ کیا اس کے goals کے آگے فل سٹاپ ابھی لگ جائے گا؟ یہ بات سوچ سوچ کر اس کے دماغ کا بتنگڑ بن چکا تھا۔
اشرف۔۔ اس کے اپنے الفاظ میں ایک معمولی سا کریانے کی دکان کا مالک، بڑھتی ہوئے عمر لیکن کنوارا۔ کنوارا کیوں؟ کیونکہ معمولی سی شکل و صورت تھی اوپر سی چھوڑی سی دکان کے مالک کے ساتھ لڑکی خوش کیسے رہے گی۔ جگہ جگہ سے ہونے والے انکار نے اسے احساسِ کمتری میں دکھیل دیا تھا۔ اسے لگتا تھا یہی اس کا نصیب ہے، وہ معمولی ہے اور کچھ بھی اچھا اس کے حصے آ نہیں سکتا۔ اور جب کچھ اچھا اس کے حصے نہیں آسکتا تو وہ خوش کیوں رہے، اسے خوش رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔