پہلی قسط

1K 63 28
                                    

*شروع اللّہ کے نام سے جو میرا وکیل ہے اور میرا مالک*
"چلو بھئی پیکنگ کر لو ہم ایک ہفتے کے لئے لاہور جا رہے ہیں۔"خاور شاہ نے اپنی گرج دار آواز میں نرمی لاتے لاؤنج میں بیٹھے نفس کو چوکنا کیا۔

"ک۔۔۔کک۔۔کیا؟؟؟"ہکلاتے اس نے بولنے کی سکت کی ورنہ جھٹکا بھرپور شدت کا تھا ۔

"تیاری پکڑو،ہم لاہور تمھارے چچا کے گھر جارہے ہیں۔"انہوں نے پُر مسرت لہجے میں مان شاہ عرف میر شاہ سے کہا جس پر اس کے ہاتھ میں موجود آئی فون زمین کی نذر ہوا، اور دم توڑ گیا۔ اس کا مطلب آئی فون سٹیو جابز کے Apple کا نہیں بلکہ محلے کے پپو کا تھا۔۔دو نمبر۔

"مم۔۔میں نہیں جارہا۔"میر نے سہمی سی آواز نکالی۔ اس کی آواز خزاں رسیدہ درخت کی مانند لرز رہی تھی۔

"کیوں جی؟؟"خاور صاحب نے آنکھوں کو چھوٹا کر کے میر شاہ کو دیکھا جو کہ ناراض بیٹھا کڑھ رہا تھا۔ان کے ایسے دیکھنے سے میر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔۔۔یعنی جب خاور شاہ آنکھوں کو چھوٹا کر لیں تو مطلب غصے کا آتش فشاں پھٹنے کے دہانے پر تھا
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔" میر شاہ کا دل پسلیاں توڑنے کے درپے ہوا۔اگر خاور شاہ مزید اپنی آنکھوں کو اپنی سابقہ نارمل حالت میں نہ لاتے تو کوئی عجب نہیں تھا کہ میر شاہ آنسوؤں سے رونے لگ جاتا۔

"ڈیڈ! وہ سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔" وہ خاور شاہ کے پیروں میں  گر گیا، نہیں نہیں ۔۔کوئی آشیرواد نہیں لے رہا تھا بلکہ وہ منت کرتے وقت پیروں میں گر جاتا تھا ۔

"میر تم کب بڑے ہو گے۔" وہ بیزار ہوئے۔

"جب وقت آئے گا" اس نے دوبدو جواب دیا۔

"میر اب تم پچیس سال کے ہوگئے ہو۔۔کچھ تو شرم کرو۔۔کہاں سے تم جوان لگتے ہو، ابھی بھی 10 سال کے بچے لگتے ہو۔۔"وہ میر کی حرکتوں پر سر پکڑ کر رہ گئے۔ میر کی عادت تھی کچھ معاملات میں وہ بچہ بن جاتا تھا نازک دل کا ضدی بچہ جو زمانے سے ڈرتا ہے ، جو ماں باپ کی چھاؤں میں سکون پاتا ہے۔ تو بعض معاملات میں پتھروں سا مضبوط جو سنگ اندازی ( مشکل حالات ) سے بھی لڑ جاتا ہے ۔

"میں جتنا بھی بڑا ہو جاؤں آپ کا تو بچہ ہی رہوں گا نہ"اس نے اپنے ڈیڈ کے بال محبت سے کھینچے، جس پر وہ بھی مسکرا دیے ۔

"لیکن بیٹا جی آپ جوان ہو، آپ کو ڈرنا نہیں چاہیے۔۔۔ڈرانا چاہیے۔۔اتنے بڑے بزنس کے مالک ہو پھر بھی بچوں کی طرح behave کرتے ہو۔ " وہ اس کی گہری بھوری آنکھوں میں اپنی سیاہ آنکھیں گاڑتے  بولے۔

"ڈیڈ۔۔جانتا ہوں۔۔لیکن مجھے ان سے ڈر لگتا ہے۔۔آپ چلے جائیں میں ادھر ہی ہوں۔۔"اس نے خفگی سے منہ موڑا۔

"تم سے اکیلے کمرے میں تو سویا نہیں جاتا اکیلے گھر میں سو جاؤ گے؟ "انھوں نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔

"ڈیڈ! آپ بھی نہ جائیں" اس نے شرمندہ ہوتے حل پیش کیا۔

"میں 15 سال سے اپنے بھائی کے گھر نہیں گیا ہمیشہ وہ ہی آتا ہے۔۔اب میں جانا چاہتا ہوں اور تم بھی ساتھ جاؤ گے اور سن لو۔۔تمھارے بھی ہاتھ پیلے کرنے کا ارادہ ہے۔۔کوئی چوں چراں نہیں چاہیے مجھے ۔"انھوں نے جو دھماکہ کیا اس کی تاب نہ لاتے ہوئے میر شاہ اپنے ہوش و خروش سے بیگانہ ہوتا زمین بوس ہو چکا تھا۔
"اللّہ میرے بیٹے کو پوری بیٹی ہی بنا دیتے۔۔شکل لڑکوں والی ہے اور حساس پن لڑکیوں والا ۔۔"انھوں نے تاسف سے دل میں سوچا اور ملازم کو آواز دیتے اس کو کمرے میں لے جانے لگے ۔
                _______________________
                   
"زرش اور مجیب کہاں ہو؟"عادل شاہ کی پکار پر دونفوس نے کمرے میں بے ہنگم انداز میں انٹری دی۔
"یہاں ہیں ابی۔" چہکتی نسوانی آواز گونجی۔

البیلا راہی Completed✔✔Where stories live. Discover now