آخری قسط

739 61 45
                                    

" اللّه جی ! اب یہاں آ تو گیا ہوں ۔ اب سوؤں گا کیسے ؟ اف میر کیا ضرورت تھی تجھے ہیرو بننے کی ۔۔" 
میر من ہی من میں کبھی اپنے آپ کو باتیں سناتا تو کبھی اللّه سے مدد کی فریاد کرتا ۔

" بھائی ویسے تو ہمارے گھر میں جنات ہیں لیکن وہ اب ہمارے دوست ہیں اس لئے ہمیں کچھ نہیں کہتے ۔ اگر آپ کو ملیں تو ان کو تنگ نہیں کرئیگا ورنہ ۔۔۔" کچھ دیر پہلے کے مجیب کے کہے الفاظ میر کو ہولا رہے تھے ۔

" ورنہ کیا ؟" میر نے سہمی سی آواز نکالی ۔

"ورنہ کیا بھائی! آپ جنات کو تو جانتے ہی ہیں۔۔ کہاں کسی کا لحاظ کرتے ہیں۔۔ اوکے بھائی good night! "
میر کے شانے تھپکتے مجیب نے میر کی نیند اڑا کر اسے اچھی نیند لینے کا مشورہ دیا ۔

اس نے جلدی سے وضو کیا اور آیت الکرسی کا ورد کرنا شروع کیا ۔  دیوار گیر گھڑی کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھا جو کہ رات کے آخری پہر کے آغاز کا عندیہ دے رہی تھی۔
" ہاۓ ! جنات کے آنے کا ٹائم بھی ہو گیا ۔" میر نے روہانسی آواز میں خود کلامی کی ۔ اس کے چہرے پر خوف کے سایے قابلِ دید تھے۔

" دیکھو پیارے جنات ! میں بس چند دنوں کے لیے رہنے آیا ہوں ۔ میں آپ کو ذرا بھی تنگ نہیں کروں گا ۔۔ سچی ۔۔۔ پکا وعدہ ۔"  اس نے آنکھیں بند کرتے ہراساں آواز  میں جنات کو پیغام ترسیل کیا ۔

"ڈیڈ تو سو بھی چکے ہونگے ۔"  اس نے سوچا  ۔

" چل بھئ میر دوبارہ اللّه کو یاد کرتے ہیں  اور سونے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اب جنات تنگ نہیں کریں گے ۔" وہ بڑبڑایا ۔

"اب اکیلے سونے کا مسئلہ کیسے حل کروں ۔۔۔" ایک اور مسئلہ میر کی نیند کی راہ میں حائل ہوا ۔

"میر تجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔" وہ خود سرزنشی کرنے لگا ۔

تقریباً پانچ بجے تک وہ ڈر ڈر کر سو چکا تھا۔۔ سفر کی تھکاوٹ نے اس کو واقعی تھکا دیا تھا ۔

_________________

" بڑے خوش نظر آ رہے ہو ۔۔ خیر ہے ۔"  زرش نے آبرو اچکاتے مجیب کے چہرے پر لہراتی خوشی کے سایے دیکھتے پوچھا ۔

"بس آپی ! تمہارے ہونے والے میاں جی کو رات میں تارے دیکھاۓ تھے ۔ اسی کی خوشی ہے ۔" اس نے زرش کے گالوں کو نوچتے شریر انداز میں وجہِ مسرت بتائی۔ زرش جو ناشتے کی تیاریوں میں مصروف تھی مجیب کے تنگ کرنے پر جھنجھلا گئی۔

" شرم نہیں آتی؟" زرش نے اپنے گالوں کو آزاد کروانے کے بعد سہلاۓ ۔

"بلکل بھی نہیں ۔" مجیب نے سنجیدگی سے کہا ۔

" یعنی بے شرم ہو  ۔" زرش نے بھی ہنوز سنجیدگی سے اپنی راۓ کا اظہار کیا ۔

" ایسا تھوڑی کہا ۔۔۔ بے شرم اور با شرم کے بیچ والی چیز ہوں میں ۔۔۔"  اس نے کچن میں پڑے سیب کی ٹوکری میں سے ایک سیب اٹھا کر کھاتے اپنے بارے میں اظہارِ خیال کیا ۔

البیلا راہی Completed✔✔Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora