مسجد کا رخ تھا اور ہم لوگ دین، ایمان کی باتیں کرتے ہوئے چلتے جا رہے تھے۔۔ آدھے میل کے فاصلے پر ایک مسجد تھی، ہم چلتے ہوئے وہاں پہنچے۔۔۔ خوبصورت اور عجیب سا سماں تھا۔۔۔ لوگ حلقے بنائے بیٹھے تھے اور اپنی دینی گفتگو میں محو تھے۔۔۔ کہیں دین کے ارکان پڑھائے جا رہے تھے تو کہیں عقائد۔۔ اور کہیں قرآن پڑھا جا رہا تھا اور کہیں لوگ احادیث کے نور سے منور ہو رہے تھے۔۔ میں تو اسی نظارے میں کھو گیا تھا۔۔۔ ابھی نماز میں کچھ وقت تھا۔۔۔ میں اپنے ساتھ نور الدین کو لے کر عقائد اسلام کی محفل میں بیٹھ گیا۔۔۔ کافی ساری دیر میں بیٹھا رہا اور اپنے قلب کو اسلام کے خوبصورت ستارے سے منور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر یہ ستارہ دل میں جگمگاتا رہا تو اسکی روشنی کبھی ماندھ نہیں پڑے گی اور میں تا قیامت اس کی عظیم الشان روشنی سے اپنے روح و قلب کو منور کرتا رہوں گا۔۔ انہی سوچوں کے بازار میں اچانک سے اذان کی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی اور دل سے بے ساختہ عشق کی لذت کی روشنی نکلنے لگی اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔ میرا دل موم ہو چکا تھا اور میں ایک عجیب کیفیت میں محو ہو چکا تھا۔۔۔ ساتھ میں نور الدین بھائی انہی لمحات میں کھو کر اپنے دل کو سکون میں پا رہا تھا۔۔ کہ اتنی دیر میں نماز کی اقامت شروع ہو گئی اور لوگ صف بند ہو گئے۔۔ منظر ایسا ہی تھا کہ کسی بادشاہ کا لشکر جنگ کے لیے روانہ ہونے لگا ہے اور بس صرف آواز کا انتظار ہے۔۔ حقیقت میں تو ہم ہی اللہ تعالیٰ کے سپاہی تھے مگر ہمارے ہاتھ میں سے تیغ لڑکھڑا جاتی ہے اور بوقت ضرورت ہم استعمال کرنے کے بجائے اسکو واپس نیام کے اندر رکھ لیتے ہیں۔۔۔ خیر، نماز ختم ہونے کے بعد ہم دونوں باہر نکلے۔۔۔ نور الدین کے چہرے پر رونق آ گئی تھی۔۔۔ میں نے پوچھا "اب تمہاری حالت کیسی ہے؟" تو کیا عجیب جواب دیتا ہے "واہ بھئی۔۔۔ میں تو اللہ کی قدرت اور رحمت میں محو ہو چکا ہوں۔۔۔ مسجد میں بیٹھے ہوئے سکون آ گیا ہے اور میں اپنے آپ کو اور اپنے رب کو سمجھنا شروع ہو گیا ہوں اور عشق کی انتہا کو سمجھ رہا ہوں۔۔"
میں نے خوشی بھرے انداز میں کہا "میں یہی بات پہلے کر رہا تھا کہ جب رب کے ساتھ تعلق مضبوط ہو تو حالات بدل جاتے ہیں، تنہائی اور ہجر کا روگ نہیں رہتا، محبتیں پھیلتی ہیں اور عشقِ حقیقی کا رنگ زندگی میں ابھر آتا ہے جیسے کہ مولانا جلال الدین رومی کہہ گئے۔۔
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
تو بھائی کوشش میں رہو کہ رب کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط رکھو" نور الدین بولا "شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ مجھے شرف الدین جیسا ایک دوست ملا جو کہ زندگی کے فلسفے کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے حقیقی عشق رکھتا ہے۔۔۔ اگر میں اس وقت اُس جگہ پر موجود نہ ہوتا تو شاید مجھے تمھارے جیسا ایک دوست نہ ملتا" یہی باتیں کرتے ہوئے ہم نور الدین کے گھر کے سامنے تک پہنچ گئے۔۔ نور الدین نے آخری الفاظ کہے "بھائی کل جب مسجد آنا تو اپنے ساتھ کوئی کتاب لے کر آنا دینی جو کہ مجھے مزید رہنمائی فراہم کرے.." میں نے بولا "ضرور کیوں نہیں"... مجھے کیا معلوم تھا کہ اگلے دن میں نور الدین کی رحلت کی خبر سنوں گا۔۔۔ مسجد میں اعلان ہوا کہ نور الدین والد جمال الدین فوت ہو گیا ہے۔۔ میرا دل یہ سن کر تڑپ اٹھا۔۔ میرا دل خون کے آنسو رو پڑا مگر جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب وصال فرما گئے تو اس وقت بھی اُن کے قریبی لوگوں نے صبر سے کام لیا اور ان لوگوں نے ہی انکو روضہ مبارک میں اتارا جو کہ اُن کے قریبی لوگ تھے۔۔۔ یہی خیال دل میں برجمان تھا اور میں چلتے ہوئے نور الدین کے گھر روانہ ہو گیا اور روتے ہوئے اس کے گھر میں داخل ہو گیا۔۔۔