نیم اندھیرے میں واحد آواز گھڑی کی ٹک ٹک کی تھی۔ وہاں موجود دونوں نفوس ایسے تھے گویا جسم میں جان نہیں، منہ میں زبان نہیں۔
بستر پر پڑے مریض نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا تھا۔ آنکھوں میں پچھتاوے کی گہری چھاپ، دکھ اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر گالوں پر لڑھکتا تھا۔
ادھوری محبت کے پورے دکھ۔
خاموشیوں کی چنگھاڑتی آوازیں۔ کمرہ لبا لب خاموشی سے بھرا ہوا تھا۔ اتنا کہ اسے اندیشہ تھا کہ اس کی ایک سسکی سے یہ بھرا ہوا پیمانہ چھلک جاۓگا۔ اس نے اپنے سارے آنسو اندر اتار لیۓ۔
آدمی نے گہرا سانس بھر کر بے بسی سے اسے دیکھا جو نمک کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔
"تمہیں جان بوجھ کر کھویا میں نے، شائد کوشش کرتا تو کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتا۔ دیکھو، کیسی سزا ملی ہے تمہارے مجرم کو"
"وہ محبت ہی کیا جو معاف نہ کرسکے۔"
عورت نے تڑپ کر سر اٹھایا تو کھڑکی سے جھلکتی روشنی میں اس کا چہرہ واضح ہوا۔ اس کے ایک ایک نقش میں ایک داستان رقم تھی، احتساب کی، ماضی کی بے وفائیوں کی، ہجر و فراق کی۔
میں تو بھول گئی تھی۔ ریٹائرمنٹ سے تین ہفتے پہلے تیس سال کے واقعات مت یاد دلاؤ مجھے۔ لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل" نہیں۔" اس کی آنکھ میں تارہ چمکا تھا یا شائد پھر وہ آنسو تھے، وہ اندازہ نہ کرسکا۔
"ابھی تک اکیلی ہو اور کہتی ہو کہ بھول گئ ہو۔" اس نے طنزیہ ہنس کر سر جھٹکا تو پورے جسم میں درد کی ٹیس اٹھی، بیماری کی وجہ سے ہلنا بھی محال تھا۔
"اکیلی کہاں ہوں، گھر بھرا پڑا ہے۔" گلے میں موجود کھردرے پتھر کو نگلتے وہ گویا ہوئ۔ یہ نہیں بتایا کہ گھر کس سے بھرا تھا اس نے۔
تنہایئوں سے۔ وحشت سے۔ یادوں سے۔
دنیا سے بےنیاز وہ اپنے سود و زیاں کا حساب کر رہے تھے۔ جب ساتھ رہنا ممکن تھا تو کم ہمتی نے کمر توڑی، اب ہمت آئی تو حالات نے دغا دے دیا۔
ان دونوں کے بالوں میں اترتی سفیدی اس قیمتی وقت کے ہاتھ سے پھسل جانے کا پتا دیتی تھی۔
"تم۔۔۔۔۔ تم یقیناً میرے آخری مریض ہو۔ شائد تمہارے بعد میں کسی اور کا علاج نہ کروں۔" وہ اپنے کپکپاتے ہاتھ صوفے کے ہتھوں پر جماتی اٹھی تھی۔ کینسر کے آخری درجے کا مریض اسے دیکھ کر رہ گیا۔
"کیا ہو گیا یہ، کیوں ملاقات ہوئ آج ہماری۔ کاش ایسے نہ ہوتا۔ کاش یہ ہوتا ہی نہ۔"
وہ اپنا اوورآل ٹھیک کررہی تھی، اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
"میں مر رہا ہوں، معاف نہیں کروگی؟"
"کر دیا ہے معاف۔ مجھے بس اتنا بتاؤ کہ میں کیسے زندہ رہوں؟"
"ان ہی کے ساتھ جن سے تمہارا گھر بھرا ہوا ہے۔" کیسا طنز کیا تھا اس نے کہ وہ اندر تک چھلنی ہو گئ۔
اس کا دل چاہا کہ وہ اس کے زرد اور کمزور ہاتھ پکڑ کر اتنا روئے کہ اس کے آنسو دنیا کو بہا لے جائیں۔ اتنے بین کرے کہ طوفان تھم جائیں۔ اس کو بتائے کہ وہ تو اب بھی یادوں کے سہارے بیٹھی ہے۔
"چلتی ہوں، کل سے ڈاکٹر خاور تمہارا کیس لیں گے۔"
بغیر پلٹے، بغیر کسی الوداع کے وہ باہر نکلی۔ یہ بھی نہ کہ سکی کہ آج وہ طبیب بن کر نہیں، عشق کی مریض بن کر آئی تھی۔
آدمی کی تھکی ہوئ بےجان نگاہوں نے دروازے تک اس کا پیچھا کیا اور دروازے کے نیلے پردے پر ٹکیں تو ٹکی رہ گئیں۔
ڈاکٹر خاور کو کیس لینے کی ضرورت نہ پڑی۔
کینسر کے آخری درجے کے مریض کو ادھوری محبت کے پورے دکھوں نے مار ڈالا تھا۔
*******************