#ایمان
#ازقلم_اریبہ_شاہد
#قسط_نمبر_1
***رافع بس کر یار بہت پی لی تو نے آج گھر چل رات کے ایک بجے وہ اسے شراب خانے سے باہر لے کر جارہا تھا بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ اسے گھسیٹ رہا تھا.............
تو جا یہاں سے رافع نے اسے دھکا دیا اور خود لڑکھڑا کر گر گیا........
ٹھیک سے کھڑا تو ہوا نہیں جارہا ہے اور باتیں کر رہا ہے اس نے پھر سے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا........
چل میں تجھے گھر چھوڑ دیتا ہوں انکل بھی پریشان ہورہے ہوگے تجھے کوئی فکر نہیں ہیں اس نے اسے سہارا دے کر کار میں بیٹھایا اور خود نے کار ڈرائیو کرنے لگا.......
مجھے نہیں جانا گھر رافع نشے سے دھت آواز میں بولا......
اچھا پھر کہاں جانا ہے اس نے اس کی جانب دیکھا ........
مجھے تو یہاں چھوڑ دے رافع باہر کی طرف اشارہ کیا جہاں کچھ لڑکے بیٹھے نشہ کررہے تھے......
اچھا میں وہاں سے تمہیں اس لیے لایا ہوں تاکہ تمہیں یہاں چھوڑ دوں اس نے رافع کو گھورا اور نظرے سامنے جما لی.......
رافع نے آنکھیں موند لی اسے پتہ تھا وہ نہیں مانے گا اسے گھر چھوڑ کر ہی دم لے گا کچھ دیر کے سفر کے بعد وہ ایک عالیشان گھر کے سامنے کھڑے تھے وہ گھر اور کسی کا نہیں بلکہ رافع صاحب کا تھا.........
اس نے رافع کو گاڑی سے سہارا دے کر باہر نکالا اور اندر لے گیا اندر احمد صاحب رافع کے منتظر تھے احمد صاحب کو دیکھ کر رافع چھپنے لگا.....
رافع احمد صاحب کی آواز گونجی......
ہیلو پاپا رافع نے کہا رافع کی آواز سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اس وقت کہاں سے آرہا ہے.......اور احمد صاحب کے لیے بھی یہ سب نیا نہیں تھا.........
اپنے کمرے میں جاوُ ہم صبح بات کرے گے احمد صاحب نے کہا......
شکریہ علی بیٹا جو تم اس کو یہاں لے آتے ہو احمد صاحب نے کہا....انکل بیٹا بھی کہتے ہیں اور شکریہ بھی علی نے خفگی سے کہا......
ارے نہیں بیٹا تمہیں میں صرف بیٹا کہتا نہیں مانتا بھی ہوں احمد صاحب نے علی کے سر پر ہاتھ پھیرا.....
اچھا پھر آئندہ یہ شکریہ نہیں کہنا آپ ورنہ پھر میں ناراض ہوجاوُنگا آپ سے علی نے کہا تو احمد صاحب ہنس دیے ٹھیک ہے نہیں کہتا.......
چلے اب میں چلتا ہوں علی نے کہا.....
ٹھیک ہیں بیٹا خیر سے جاوُ احمد صاحب نے کہا اور اندر کو چل دیے ....
***
صبح کے آٹھ بجے رافع کی آنکھ کھلی رافع کو اپنے سر میں درد محسوس ہوا وہ اٹھ کر بیٹھا اسے رات والا واقع یاد آیا تو سر پکڑ لیا اب تو میری خیر نہیں رافع نے خود کلامی کی پھر اس کی نظر گھڑی پر گئی تو جلدی سے اٹھا اور شاور لینے بھاگا.......
آج تو دیر ہوگئ رافع جلدی سے تیار ہوا اور اپنا بیگ اٹھا کر نیچے بھاگا.......
گڈ مارننگ پاپا رافع کرسی کھینچ کر بیٹھا ......
السلام وعلیکم احمد صاحب نے کہا رافع نے کوئی جواب نہیں دیا....
رافع، احمد صاحب کی آواز تھوڑی سی بلند ہوئی.......
وعلیکم السلام رافع نے بے زاری سے کہا اور جگ سے گلاس میں جوس نکالا......
رافع بیٹے یہ سب کب تک چلے گا احمد صاحب نے تاسف سے اسے دیکھا.......
کیا؟ وہ انجان بنا.......
کب چھوڑوں گے یہ سب بیٹا ہمارے مذہب میں یہ سب حرام ہے احمد صاحب نے نرم لہجے میں اسے سمجھایا.......
اچھا میں جارہا ہوں دیر ہورہی ہیں مجھے رافع نے کہا اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا.....
احمد صاحب اسے تاسف سے جاتا دیکھتے رہے.....