آغاز

108 4 0
                                    


ایک زور دار آواز ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ہاتھ کپڑے کو تہ لگاتے وہیں روکے تھے
"یہ پھوپھو کو بھی کوئ اور کام نہیں ہر بار آ جاتی آپنا پٹارا اٹھا کے "صالح کی آواز آئ تھی
"پر وہ تو ہمارا بھلا ہی چاہتی ہیں "رحما نے بہن کو تسلی دی
"پر انھیں سمجھ کیوں نہیں آتا کہ وہ خود تو چلی جاتی ہیں اور ابو کہ عتاب کا نشانہ ہم بنتے ہیں "پھر سے صالح بولی تھی
"باجی وہ ابا نے ایک اور پلیٹ توڑ دی "باہر سے چھنو آئ تھی
"کوئ بات نہیں تم اٹھا کہ پھنک دو اور جو کھانا گرا ہے چھت پہ پرندوں کہ برتن میں ڈال آو "اب کہ بولنے والی زیست تھی جو پہلے پورا وقت کپڑے تہ کرنے میں مصروف تھی وہ تو ایسی ہی تھی سب کچھ چپ کر کے سننے والی کچھ نہ بولنے والی اور امی کے جانے کے بعد تو وہ ویسے ہی کسی سے کچھ نہیں کہتی تھی صالح اور رحما تو بول بھی لیتی تھی ایک دوسرےسے بات کر کے اپنا غسہ نکال لیتی مگر زیست کے لیے صرف اس کی ماں ہی تو تھیں جو بنا اس کے کچھ کہے ہی سمجھ جاتی تھی
وہ چھنو کہ پیچھے ہی کمرے سے نکل کہ باورچی خانے میں آگئ تھی وہ اور اس معضوع پہ کوئ بات نہیں سن سکتی تھی
وہ کبھی بھی اس گھر کے سکون کی بربادی کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی مگر ہمیشہ نا چاہتے ہوے بھی بن جاتی تھی پہلے تو پھپھو چھ ماہ بعد کوئ رشتہ لے کے آتی تھی اور ابا کا غسہ دیکھ کے چھ ماہ کے لیے غائب ہو جاتی تھیں مگر جب سے انکی اپنی بیٹی کی شادی پکی ہوئ تھی تب سے زیست کے لئے ان کی کوشش میں زیادہ تیزی آ گئ تھی مگر ہر مرتبہ ان کو ابا کا وہی غسہ دیکھنا پڑتا تھا
اب تو زیست کے ساتھ ساتھ صالح اور رحما بھی تنگ آ گئ تھی
پھپھو کی بیٹی فاطمہ کی شادی تھی کچھ دنوں میں وہ زیست سے چھ ماہ چھوٹی تھی اسکی زیست اور صالح سے بہت بنتی تھی مگر امی کے بعد ابا کی لگائ گئ کئ پابندیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کے کسی کہ گھر آنے جانے کی کوئ ضرورت نہیں اور ابا کے روکھے اندا ز اور غسے کی وجہ سے اسنے بھی انا جانا چھوڑ دیا اور فون پہ لڑکیوں کا بات کرنا تو ویسے ہی ابا کو پسند نہیں تھا تو آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے
فاطمہ کی شادی کے لیے کپڑے تو پھپھو لے کے دے گئ تھیں مگر جانا ہے یاں نہیں ابا نے ابھی تک نہیں بتایا تھا اور تابوت میں آخری کیل تو پھپھو آج خود ٹھونک گئ تھی
******************
"آپی کتنی پیاری لگ رہی ہے نا "رحما پھپھو کی لائ ہوئ فاطمہ کی شادی کے لئے فراک پہنے ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی خوش ہو رہی تھی
"بہت پیاری !"زیست جو کہ بیڈ پر بیٹھی تھی چہرے سے کتاب ہٹا کے بولی
"ہاں اسی طرح پہن کے شوق پورا کر لو شادی پہ تو ابا نے جانے نہیں دینا "اب کی بار تبصرہ صالح کا تھا
"کیوں ؟اتنے عرصے کے بعد تو کوئ ایسی شادی آئ ہے کہ لگا ابا اجازت دے دیں گے "رحما رونی سی ہو گئ
"کوئ بات نہیں کسی اور شادی پہ چلے جائیں گے "زیست نے تسلی دی تھی
"پر کب ؟"رحما کا سوال تھا
"اچھا چلو چھوڑو آپی اپ بھی پلیز اپنا ڈریس پہن کے دیکھائیں آپ کا ڈریس سب سے پیارا ہے "صالح نے بحث ختم کی تھی
"جی باجی مجھے بھی اپکا ڈریس اچھالگا ہے " چھنو جو کب سے چپ بیٹھی تھی پہلی مرتبہ بولی تھی
"اچھا !!تم پہلے مجھے یہ بتاو کہ ابا کو دودھ دے دیا تم نے ؟" زیست نے چھنو کی کلاس لینی چاہی
"جی باجی کب کا اب تو ابا سو بھی چکے ہوں گے "چھنو نے بہت سکون سے جواب دیا
وہ ایسی ہی تھی چھوٹی سی تھی جب اسکی امی اسے ان کے گھر چھوڑگئ تھی تب سی یہیں تھی اپنے گھر تو وہ مہمانوں کی طرح ہی جاتی تھی اب یہ اس کا گھر تھا اور وہ مانتی بھی تھی زیست صالح اور رحما کے لیے بھی وہ چھوٹی بہنوں کی طرح ہی تھی ئ
"اچھا چھوڑیں نا اپی آپ ڈریس ٹرائ کریں نا "اب صالح سے صبر نہیں ہو رہا تھا
******************

muqadar ki peshwai Where stories live. Discover now