آغاز نئے سفر کا

31 2 0
                                        

ایک ماہ بعد آج صبح پھپھو کا فون آیا تھا کہ وہ آج آئیں گئی
اور کھانے کے لیے اچھا انتظام کرنے کی خاص تاقید تھی
صالح نے تو پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ آج پھر برتن ٹوٹیں گے ابا کے ھاتھوں
پھپھو کی تاقیدوں سے تو زیست کو بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا
************
خدا خدا کر کے شام ہو ہی گئی اور پھپھو اپنے سسپنس کے ساتھ وارد ہو گئی
مگر وہ مہمان جن کے لیے پھپھو نے اتنی تیاری کروائی تھی اور کوئی نہیں خالہ فاخرہ تھیں
زیست جہاں خالہ کو دیکھ کر خوش تھی وہیں اسے اب ڈر لگنے لگا تھا کیوں کہ ابا گھر ہی تھے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ جو رشتے اتنے سالوں بعد ٹھیک ہوئے ہیں ابا کی تلخ مزاجی کے می وجہ سے ایک مرتبہ پھر سے خراب ہو جائیں
اور اسکو اور بھی زیادہ ڈر لگنے لگا جب خالہ نے ابا کے متعلق پوچھا اور زیست کے بتانے پر کہ وہ کمرے میں ہیں وہ پھپھو کے ساتھ سیدھا ان کے کمرے میں چلی گئیں
ان کو اندر گئے ہوئے گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا نہ کوئی اندر سے باہر آیا تھا اور نہ ہی کوئی خبر آئی تھی
وہاں زیست صالح اور رحما کے سانس خشک ہو رہی تھے
وہ خالہ اور پھپھو کے کیے محافظت کی دعا پڑھ رہی تھی کہ آخر کار ابا کے کمرے کا درواذہ کھل ہی گیا
پھپھو باہر آئیں تو توقع کے برعکس ان کے چہرے پر خوشی تھی انھوں نے باہر آتے ہی زیست کو گلے لگالیا اور پیار کرنے لگیں ان کے پیچھے ہی خالہ بھی تھیں انھوں نے بھی زیست کو بہت پیار کیا اور پھر اسے لے کر پاس موجود صوفے پر بیٹھ گئیں
خالہ نے اپنے پرس میں سے کچھ پیسے نکالے اور زیست کی ہتھیلی پر رکھ دئیے اسے اھبی تک سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہو کیا رہا
اتنے میں ابا باہر آگئے ان کی انکھیں کچھ دھواں دھواں تھی خالہ فاخرہ ابا کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولی "بھائی حیدر جیسے ہی ٹرینگ سے واپس آئے گا ہم منگنی کر لیں گے اور پھر فورا ہی شادی گھر کی ہی تو بات ہے وہی لوگ براتی اور وہی لوگ آپ کی طرف سے بس اب میں زیست کو جلد از جلد اپنے گھر لے کے جانا چاہتی ہوں "
اب تو سب کچھ اور بھی زیادہ الجھ گیا تھا یا پھر کچھ زیادہ ہی سلجھ گیا تھا وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے ہاتھوں میں موجود ان پیسوں کو دیکھ رہی تھی جو اس کو ایک نئیی زندگی کی نوید سنا رہے تھے
بے یقینی سی بے یقینی تھی وہ اپنے ادرگرد سے بے خبر اپنے اندر کے بھور میں الجھی تھی اور اسے ہوش تب آیا جب وہ سارے دن کے بعد عشاہ کی نماز کہ لیے جاہ نماز پہ تھی اسکے ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے مگر اس کے پاس الفاظ نہیں تھے اور پھر جو اس نے سنا وہ تھا
"۔ اللہ۔ اللہ۔ اللہ۔ "اور نمکین پانی کی باڑ ٹوٹ چکی تھی آج سے پہلے بھی بےآواز یہ باڑ بہت بار ٹوٹی تھی پر آج ایک عجیب سا احساس تھا جس نے اسے اپنی گرفت میں لیا تھا اور پھر وہ جائے نماز پر ہی اسے سکون اور نیند نے کب اپنے غلبے میں لے لیا اسے پتا ہی نہیں چلا
**************
رات کے دوسرے پہر جب اسکی انکھ کھلی تو وہ وہیں تھے جائے نماز پر مگراس پر کمبل تھا
اسنے مڑ کر دیکھا تو اسے کمرے سے باہر جاتے ابا کی کمر دیکھائی دی وہ اٹھی اور انکے پیچھے چل دی وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے وہ انکے کمرے میں گئی تو وہ آرام کرسی پہ بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے
زیست بے اختیار بھاگ کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور انکی گود میں سر رکھ کر رونے لگی
ابا شاید پریشان ہو گئے "زیست میرا بچہ تم ٹھیک ہو کیا ہوا ہے "
وہ کوئی جاوب نہیں دے رہی تھی بس بے اختیار روئے جارہی تھی ابا کا دل بیٹھ رہا تھا "زیست میری طرف دیکھو مجھے بتاو ہواکیا ہے کیا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو "ابا نے اسکا چہرا اٹھایا "بتاو مجھے کیا تم کو حیدر پسند نہیں"
وہ بس بے یقینی سے ابا کو دیکھ رہی تھی اسنے ابا کو اس طرح تو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا وہ اس سے اتنی محبت کرتے تھے اسکے لیے اتنے پریشان تھے
وہ صرف نفی میں بامشکل سر ہلا سکی تھی ابا نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا "تم جانتی ہو میں اپنی زندگی میں سب زیادہ خوش کب تھا جب پہلی مرتبہ تمہیں اپنے ہاتھوں میں لیا تھا تم چھوٹی سی تھی بہت معصوم "ابا کے ہاتھ ہوا میں تھے جیسے ابھی بھی انھوں نے اسی چھوٹی سی زیست کو ہاتھیں میں اٹھا رکھا ہو اور انکھوں میں نمی تھی چہرے پہ والہانہ مسرت تھی
زیست انکھوں میں بے یقینی لئیے زمیں پہ بیٹھی ابا کو دیکھ رہی تھی اسنے نے اس سے پہلے ابا کو ایسے کبھی نہیں دیکھا تھا
"تم نے جب اپنی ان بڑی بڑی انکھوں سے مجبھے دیکھا تو میں نے خود سے وعدہ کیا کہ ان انکھوں میں کبھی انسو نہیں آنے دوں گا "ابا کی کفیت عجیب تھی وہ وہاں موجود نہیں تھی اپنے کسی ماضی کی یاد میں کھو چکے تھے
"مجھے تمہاری ہسی بہت عزیز ہے زیست میں تمہارے انسو برداشت نہیں کر سکتا "انکا ہاتھ زیست کے سر پہ تھا "جب میں نے تمہیں تمہاری ماں کی موت پہ روتے دیکھا تھا تو مجھے اپنا غم بھول گیا تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ تم لوگوں کی انکھوں میں کسی کی بھی وجہ سے ایک بھی انسو آئے تو تم کو زمانے سے بچانا چاہتا تھا "وجہ اب زیست کو دیکھ رہے تھے
"تم یہ کبھی مت سوچنا کہ میں تم سے غافل ہوں میں تمہارے لیے اس دنیا کی سب سے بہترین چیز چاہتا تھا مجھے تمہارے معاملے میں تھوڑا سا کمپرومائز گوارا نہیں تھا "ان کا چہرا لال ہو رہا تھا
"تم حیدر کے ساتھ خوش رہو گئی اور تمہارا بہت خیال رکھیں گی "ان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی
"تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے نا ؟"ابا نے پوچھا تھا
زیست کی نظر اپنے ہاتھوں پہ تھی اور اس نے صرف سر کو ہاں میں ہلایا اور اٹھ کے وہاں سے چل دی وہ دروازے کے پاس روکی "ابا آپ بہت اچھے باپ ہیں اور ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں "وہ یہ کہ کر رکی نہیں کمرے سے باہر نکل گئی
ابا نے کرسی سے سر ٹکا لیا اوران کے چہرے اطمئنان کے سوا کچھ نہ تھا
******************
"آپی جلدی کریں پلیز پارلر کا ٹائم ہوگیا ہے "صالح صبح سے بہت مصروف تھی کیوں کہ پہلے تو سارے کام زیست سنبھالتی تھی مگر اب تو وہ دلہن تھی
آج زیست کی منگنی تھی اور ایک ہفتے بعد شادی خالہ فاخرہ چاہتی تھیں کہ حیدر کی چھٹیوں کے دوران ہی جلدی جلدی شادی ہو جائے
رحما اور فاطمہ زیست کو لے کر پارلر چلی گئی تھیں وہیں سے انھوں نے میرج ھال پہنچنا تھا اور رحما پھپھو کہ ساتھ گھر کے کام سنبھال رہی تھی ابا میرج ھال میں انتضامات دیکھنے چلے گئے تھے
فاخرہ خالہ نے تو منع کیا تھا مگر ابا اپنے سارے ارمان پورے کرنا چاہتے تھے
*****************
دلہے والے آگئے تھے اور اب بس دلہن کا انتضار تھا حیدر کریم کلر کی شلوار قمیض میں سٹیج پر کھڑا کسی سے بات کر رہا تھا
جب ارد گرد شور ہوا کہ دلہن آگئی وہ آج پورے تین ماہ اور چھ دن بعد اسے دیکھنے والا تھا اور آج وہ اسکے نام سے منسوب ہونے والی تھی
وہ ہلکی فیروزی رنگ کی کامدار میکسی میں پاؤں سے لے کر سر تک بلکل گڑیا لگ رہی تھی وہ اندر داخل ہوئی تو سب نظریں صرف اس پر تھیں اسکے ایک طرف فاطمہ اور دوسری طر ف رحما تھی
اور وہ بلکل سامنے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے سٹیج پر کھڑا تھا زیست تھوری ڈری سہمی سی چل رہی تھی اور آج حیدر کی نظر صر ف اس پر ٹیکی تھی
تو میری رات میں ملتی صحر کے اجالے سا لگے
تو میرے انگن میں کھلتی پھول کی ڈالی سا لگے
زیست آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سٹیج کے پاس پہنچی حیدر نے ہاتھ آگے بڑھایا اور زیست نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا
میں نےخواب کی ہر تعبیر میں تجھے سوچا
میری سوچ کی ہر روانی کو تجھے سونپا
زیست اور حیدر سٹیج پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اسکی پلکیں شرم کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں اور حیدر کی نظر اسکے جھکے ہوئے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں
تیری ہر دھج مجھے نرالی سی لگی
تجھ کو جانا تو مجھے بے مثالی سی لگی
فاطمہ نے دونوں کو انگوٹھی دی زیست نے اپنے کانپتے ہوئے ھاتھوں سے حیدر کو انگوٹھی پہنائی اور حیدر نے زیست کو انگھوٹھی پہنائی
تیرے ہر حق کو میں نے خود سے منسوب کیا
اپنے حق کی محاروں کے تیرے سپرد کیا
وہ دونوں سٹیج پہ ایک ساتھ بیٹھے تھے مگر زیست میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے ساتھ بیٹھے اس شخص کو دیکھ سکے جس کو وہ اپنا ہم سفر چن چکی ہے
مگر اسکی نظر سٹیج کی ٹائیلز میں نظر آتے حیدر کے عکس پر مرکوز تھیں اس کی ہر سانس سے خدا کا شکر نکل رہا تھا
**************
"زیست شاہجہاں ولد شاہجہاں خان آپ کو حیدر ذیشان خان ولد ذیشان خان سے نکاح قبال ہے ؟"زیست کے کانوں میں مولوئی صاحب نے ایک نئی زندگی کی نوید سنائی تھی وہ زندگی جس کے خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے اور آج یہ خوشی زیست کے حیسے آئی تھی
"قبول ہے۔ "زیست کو خود بھی اپنے الفاظ اور آواز پہ بے یقینی تھی
اور اس طرح آج وہ میجر حیدر ذیشان خان کہ نام سے ہمیشہ کے لئے جڑ گئی تھی
***************

muqadar ki peshwai Where stories live. Discover now