duty call

34 1 0
                                        

رحما کی سالگرہ تھی اور حیدر کی خصوصی ہدایت تھی کہ بہت اچھے سے سالگرہ منائی جائے گی وہ صبح سے ایک پل کو بھی چین سے نہیں بیٹھا تھا کھانا وغیرہ بھی باہر سے بنوایا تھا زیست کی کل سے طبیت کچھ خراب تھی اس لیے حیدر کی طرف سے اسے مکمل آرام کی سخت ہدایات تھیں صالح حیدر کی مدد کر رہی تھی اور ابا اپنے بچوں کو اس طرخوش دیکھ کر بہت پر سکون تھے
سب مہمان آچکے تھے رحما کیک کاٹنے کے لیے کھڑی تھی کہ حیدر کا فون بجا
وہ فون اٹھا کر رحما کو ہاتھ سے carry on کا اشارہ کرتےباہر کی طرف چلا گیا
زیست اس کے پیچھے آئی تھی "خیریت ہے ؟"
"ہیڈ کوٹرز سے کال تھی مجھے واپس جانا ہو گا "بہت مصروف سے انداز میں جواب آیا تھا
"کسی کو کچھ مت بتائے گا اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں it just a duty call "زیست کی پریشانی کو بھانپ کر اسے نارمل کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی
زیست اسکے ساتھ ساتھ تکریبا بھاگتے ہوئے گاڑی تک آئی تھی
"زیست ۔۔"وہ رکا تھا بہت تہمل سے اسنے زیست کو دونوں شانوں سے پکڑا تھا
"Everything is fine "وہ رکا اور اسکی انکھوں میں دیکھا
"آپ ایک فوجی کی بیوی ہیں اور ایک مضبوط عورت ہیں آپ اس طرح پریشان نہیں ہو سکتی آپ کو زیب نہیں دیتا یہ "وہ اسکی انکھوں میں دیکھ رہا تھا
"اپنا خیال رکھیے گا اور کل ڈاکٹر کے پاس ضرور جائے گا "اسنے تصدیق چاہی تھی جس پر وہ صرف سر ہلا سکی تھی
"Now go and enjoy "وہ ہنسا تھا
"And one more thing "
وہ مڑی تھی
"Be brave soldier!!"
اور وہ گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا تھا
وہ وہیں کافی دیر کھڑی رہی تھی
****************
شکرنے کے نوافل ادا کر کے اب وہ دعا میں ہاتھ بلند کیے بیٹھی تھی پر اس کریم ذات کا شکر ادا کرنے کو الفاظ ناپید تھے
پر کیا وہ انسان کے جذبات جاننے کے لیے الفاظ کا محتاج ہے ؟وہ تو دلوں کے حال اور سوچوں کے محور جان لیتا ہے تب عطا کرتا ہے جب وہم وگمان میں بھی نہ ہو اسے بھی تو اس ذات نے نوازہ تھا
اسے مکمل کر دیا تھا اس پہ اپنا کرم کر دیا تھا
اس وقت زیست کے آنسوں رواں تھے اور وہ اس عظیم ذات کے حضور سجدے میں تھی
آج صبح ہی وہ خالہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی اور اسے ڈاکٹر یہ نوید سنائی تھی
خالہ بہت خوش تھیں صبح سے میٹھیاں بانٹ رہی تھیں
اور جس کا اس خبر پر پہلا حق تھا وہ اس سب سے بے خبر سرحد پر ملک و قوم کی حفاظت کر رہا تھا
****************
"کیسی ہیں سولجر !!"اسکی جاندار آواز نے زیست کی سماتوں کو روشن کیا تھا اسکا بس چلتا تو عمر بھر خاموشی سے صرف اسے سنتی رہتی
"ہہم ۔۔۔الحمداللہ ۔۔آپ کیسے ہیں ؟"زیست کو پتا تھا کہ وہ اس کے سوالوں کا کیا جواب دے گا
"آپ اپنا خیال رکھ رہی ہیں نا ؟آپ کو پتا ہے مجھے تو پہلے بھی غفلت برداشت نہیں تھی اور اب تو میں انیس بیس بھی برداشت نہیں کروں گا "اسے پسند تھا کہ وہ اسکی اتنی فکر کرتا تھا اسے ناز تھا میجر حیدر ذشان کی بیوی ہونے پر
"آپ کب آئیں گے ؟"اسے پتا تھا اسکا جواب بھی
"جب فرض نے اجازت دی "حیدر کے جواب پہ زیست نے زیر لب دھرایا تھا
***************
حیدر آپریشن تھیٹر کے باہر کاریڈوڑ میں چکر لگا رہا تھا ڈاکٹر گھنٹا پہلے زیست کو اندر لے کر گئے تھے
خالہ فاخرہ زیست کے لیے اور آنے والے بچہ کی خیریت کے لیے تسبیح کر رہیں تھی رحما اور صالح بھی دعا کر رہی تھیں اور ابا دور ایک بنچ پر بیٹھے تھے
ڈاکٹر باہر آئیں "مبارک ہو بیٹا ہوا ہے "یہ آواز حیدر کی سمات میں زندگی کے کئی نئے رنگوں کی نوید سنا کر گئی تھی "مگر ابھی ہم بچہ کو کچھ گھنٹوں کے لئی انڈر ابزرویشن رکھیں گے نرسری میں اور بعد میں آپ اس سے مل سکیں گے اور پیشنٹ کو ہم ابھی روم میں شفٹ کر دیں گے "
"کیا کوئی پریشانی کی بات ہے ؟"اب انے والی پریشان آواز خالہ کی تھی
"نہیں نہیں پریشانی کی بات نہیں روٹین چیکاپ کے لیے "حیدر نے دیکھا تو آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور نرس زیست کو باہر لا رہی تھی وہ سب کچھ بھول کر اسکی طرف لپکا "زیست زیست آپ ٹھیک ہیں "پریشانی اسکے ایک ایک لفظ سے چھلک رہی تھی "ہہم ۔۔۔حیدر "وہ اس وقت بےہوشی کی دوا کے عصر میں تھی
حیدر کی خوشی کی انتہا نہ تھی ناصرف کہ وہ باپ بن گیا تھا بلکہ اسکے بچہ کی ماں اسکی زیست بھی بلکل ٹھیک تھی
اسے کمرے میں منتقل کر دیا گیا
************
زیست سامنے بستر پہ لیٹی تھی اور حیدر ازلان کو گود میں اٹھائے کھڑا تھا زیست باغور اسکا چہرا دیکھ رہی تھی اس پہ ایک عجب سی خوشی تھی اور اسکی انکھوں میں ایک چمک تھی جو اسکے دل کے حال کی چغلی کھا رہی تھی
دروازہ کھلا اور ابا اندر آئے وہ پہلے بھی کافی دیر زیست کے سرہانے بیٹھ کر گئے تھی مگر وہ ہوش میں نا تھی اور جب وہ ہوش میں آئی تو وہ شکرانے کے نوافل ادا کرنے گئے تھے
وہ آ کر زیست کے سرہانے رکے اور اسکے ماتھے پر بوسا دیا "بیٹا آپ ٹھیک ہیں ؟"زیست نے انکھیں بند کی اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا
دوازہ کھلا تو اب کی مرتبہ پھپھو صالح کی ہونے والی ساس کے ساتھ اندر آئی وہ ابھی تھوری دیر پہلے زیست کی تیمارداری کے لیے آئی تھیں
زیست نے باغور ابا کے چہرے کو دیکھا وہ کچھ تھکے سے لگ رہے تھے اور رنگت بھی کچھ پیلی سی تھی چہرے پر خوشی کا عنصر نمایا تھا مگر بشاشت نہ تھی وہ دن بادن کمزور ہو رہے تھے اس ہی لیے انھوں نے جلد از جلد شادی کی تاریخ کا مطالبہ کیا تھا صالح کے سسرال والوں سے ابھی یہ بات زیرغور ہی تھی کہ زیست کی طبعیت خراب ہو گئی تھی
***************
زیست کو ھسپتال سے واپس آئے ہوئے چوتھا دن تھا ابا نے صالح کے سسرال والوں کو کھانے پر بلایا تھا وہ شاید چاہتے تھے کے حیدر کی چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے  صالح کی شادی کی تاریخ تہ ہو جائے
اگلے مہینے کے ۲۵ تاریخ پہ پائی تھی سب بہت خوش تھے ابا نے رات کو زیست اور حیدر کو گھر ہی روک لیا تھا ابا کمرے میں چلے گئے تھے اور زیست ازلان کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی وہ ھال میں ازلان کو اٹھائے ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی
حیدر صالح اور رحما کے ساتھ لڈو کھیل رہا تھا
کہ اچانک ابا کے کمرے سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی
"آج ابا کو کیا ہوا ؟"صالح نے حیرانی سے کہا اور ابا کے کمرے کی طرف گئی
صالح نے دروازہ کھٹکھٹایا تو جاوب ناپید تھا اسنے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی
اس کی چیخ سن کر باقی سب بھی کمرے میں آئے
گلدان کی کرچیاں پوراے کمرے میں بکھری تھیں اور ابا زمین پر اندھے بےسد پڑے تھے
***************

muqadar ki peshwai Where stories live. Discover now