"Sabar & Shukar"

1 0 0
                                    

اسلام و علیکم! آج ہم بات کریں گے صبر اور شکر کی۔ صبر اور شکر کرنے کا ذکر قرآن پاک میں بہت دفعہ آیا ہے۔
"اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"
~𝐀𝐥_𝐀𝐧𝐟𝐚𝐥:𝟒𝟔
صبر ہے کیا؟ صبر اللہ کی رضا میں راضی ہونے کو کہتے ہیں اس وقت بھی جب آپ کا شدید تکلیف میں ہوں اور چیزیں آپ کی برداشت سے باہر ہو رہی ہوں۔ اب ہم لوگ کرتے کیا ہیں جب کوئی ہمارے ساتھ غلط کرتا ہے تو پلٹ کر ہم بھی اس کے ساتھ غلط کرتے ہیں۔ لوگ بہت سی باتیں کہہ دیتے ہیں ایسی باتیں جو آپ کے دل کو چیر کر رکھ دیتی ہیں لیکن ہم بھی جب پلٹ کر انھیں ان کے انداز میں جواب دے دیتے ہیں تو ان میں اور ہم میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ ہم لوگ اپنے حصے کا لڑ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہم نے تو صبر کر لیا۔جب مشکل وقت ہم پر آتا ہے تو ہم اللہ سے گلے شکووں کے انبار لگا دیتے ہیں، مایوس ہوجاتے ہیں اور پھر کہہ دیتے ہیں ہم تو صبر کئے بیٹھے ہیں دیکھو کب مشکل آسان ہوتی ہے۔جب ہم لوگ اللہ سے کچھ مانگتے ہیں تو پھر انتظار نہیں کرتے اس کے فیصلے کا، بس ضد لگا لیتے ہیں جو جس وقت مانگا ہے اسی وقت مل جائے اور پھر کہہ دیتے ہم کب سے صبر کر رہے ہیں لیکن اللہ نے ہماری سنی ہی نہیں۔ایک طرف آپ اپنی مرضی چاہیں اور دوسری طرف کہتے جائیں ہم صبر کر رہے ہیں تو اسے صبر کرنا نہیں کہتے۔ آپ جو کہتے ہیں نہ کہ آپ نے اتنا صبر کیا لیکن آپ کو کچھ نہیں ملا ایسا اس لئے ہے کیوں کہ آپ نے صحیح معنوں میں صبر کیا ہی نہیں۔ اگر آپ صبر کرتے تو آپ کو اجر ضرور ملتا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی ملے گا کیوں کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے وہ کہتا ہے:
"میں نے صبر کرنے والوں کے لئے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے"
اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اگر آپ کو اس جہاں میں صلہ نہیں ملا تو کوئی بات نہیں اگلے جہاں میں جو صلہ آپ کو ملے گا وہ آپ کی سوچ سے بڑھ کر ہے۔ صبر کرنا آسان نہیں ہوتا اس لئے صبر کرنے پر اجر بھی بڑا رکھا گیا ہے۔ اگر آپ کو صبر کرنا بہت مشکل لگتا ہے تو انبیاء کے قصے پڑھ لیں۔ ہمارے انبیاء نے ہر موقع پر صبر کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء تھے تو ان کے لئے یہ سب آسان تھا ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ بنا کر پیش کی گئی ہے تاکہ ہم سیکھیں۔صبر کرتے وقت بس یہ بات ذہن میں رکھا کریں کہ آپ کا رب سب دیکھ رہا ہے، سب جانتا ہے۔

اب بات کریں اگر شکر کی۔

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں مزید دوں گا"
~𝐈𝐛𝐫𝐚𝐡𝐢𝐦:𝟕
شکر تین طرح کا ہوتا ہے:
1- شکر بلسان (زبان سے)
2- شکر بلقلب (دل سے)
3- شکر بلجوارح (جس میں زبان اور دل کے علاوہ باقی اعضاء شامل ہوتے ہیں)
ہم لوگ زبان سے تو شکر ادا کر دیتے ہیں لیکن دل سے اور اپنے اعمال سے نہیں کرتے۔ ہم دن بھر ان چیزوں کا رونا روتے رہتے ہیں جو ہمیں حاصل نہیں ہوئیں۔ ہم اپنے حالات سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ کبھی اگر بیمار ہوجائیں تو اس کا غم نہیں جاتا۔ اسے شکر کرنا نہیں کہتے۔ شکر کرنا ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہنے کو کہتے ہیں۔ شکر گزار لوگ اللہ کے دیے میں راضی رہتے ہیں اور کبھی کچھ چھن جائے تو بھی اللہ کی مرضی سمجھ کر شکر ادا کرتے ہیں۔
شکر گزار لوگ زبان سے بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور دل سے بھی اور اپنے اعمال سے بھی۔ زبان سے شکر ادا کرنا آپ سب کو آتا ہے لیکن دل سے اور عمل سے شکر ادا کرنا کیا ہوتا ہے؟ دل سے شکر ادا کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ دل سے اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔ آپ کے دل میں یہ بات نہ ہو کہ آپ کو کم نوازا گیا ہے یا جو چیز ملی وہ تو آپ کو چاہیے ہی نہیں تھی یا پھر جو نہیں ملا اس کے بارے میں سوچتے رہیں کہ یہ مل جاتا تو اچھا ہوتا۔ اور اگر بات کریں عمل سے شکر ادا کرنے کی تو اس میں نعمتوں کا غلط استعمال یا پھر ان پر اکڑ جانا ہے۔ جیسے آپ کے پاس دولت ہے تو آپ اپنے سے کم والوں کو صدقہ اور زکوة دیں جب آپ کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو اور اس وقت بھی جب ضرورت سے زیادہ پیسہ نہ ہوں، اسے کہتے ہیں تنگی اور خوشحالی میں شکر ادا کرنا۔ شکر بلجوارح میں اللہ کی عطا کی گئی نعمتوں پر عاجزی اختیار کرنا بھی ہے اگر آپ اکڑ جائیں تو اسے شکر ادا کرنا نہیں کہتے۔ سب کچھ اللہ کا عطا کیا ہوا ہے آپ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ جہاں نعمتیں ہوں وہاں آزمائش بھی ضرور ہوتی ہے۔ اس آزمائش پر آپ کا گلہ شکوہ کرنا یا مایوس ہوجانا بھی ناشکری کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ نا شکروں کو کبھی نہیں نوازتا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان نا شکرا کب بنتا ہے؟
جب وہ اپنے سے زیادہ والوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے جیسے کسی کوٹھی اور بڑی کار والے کو، انھیں جو روز روز باہر کا کھانا کھاتے ہیں اور برانڈ کے کپڑے پہنتے ہیں پھر آپ ایسے لوگوں کو دیکھ کر خواہش کرتے ہیں کہ آپ کے پاس بھی یہی سب ہو اور پھر جو آپ کے پاس ہوتا ہے وہ آپ کو بہت تھوڑا لگتا ہے اور آپ اس پر شکر ادا نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو اولاد سے محروم ہوتے ہیں کسی صاحب اولاد کو دیکھ کر ان کے دل میں شدید خواہش جاگتی ہے کہ ان کی بھی اولاد ہوتی اور وہ غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہ بھی نہیں سوچتے کہ اللہ کا فیصلہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
اب شکرگزار کیسے بنا جائے؟
جب کبھی آپ کو لگنے لگے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ بہت تھوڑا ہے تو اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ لیا کریں جیسے جھونپڑی میں رہنے والوں کو۔ ان کے پاس رہنے کے لئے عالیشان بنگلہ نہیں ہوتا، پہننے کے لئے برانڈڈ کپڑے نہیں ہوتے اور کھانے کے لئے تین وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی، پھر آپ کو احساس ہوگا جو آپ کے پاس ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ آپ لاکھوں لوگوں سے بہتر ہیں۔ اگر آپ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں تو ان لوگوں کو دیکھیں جن کے پاس اولاد تو ہے لیکن اس کا سکھ نہیں ہے ان کی اولاد پیدائشی طور پر mentally ya physically کمزور ہے اور ہو سکتا ہے انھوں نے ضد کر کے اللہ سے اولاد تو لے لی لیکن وہ ان کے لئے آزمائش بن گئی یا پھر ان لوگوں کو دیکھا کریں جن کو اللہ نے بہت سال بعد اولاد دی۔ جیسے حضرت زکریاؑ کو حضرت یہیٰیؑ کی اور حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسحٰقؑ کی پیدائش کی خبر بہت سال بعد سنائی گئی تھی۔ میں نے صرف دولت اور اولاد کی مثال اس لئے دی ہے کیونکہ انسان ان دو چیزوں کی سب سے زیادہ خواہش رکھتا ہے اور نہ ملنے پر ناشکری کرتا ہے۔ ہر معاملے میں positive پہلو ڈھونڈنا شکر گزار بناتا ہے اور negative پہلو ڈھونڈنا نا شکرا۔ اس لئے کبھی ناامید نہ ہوا کریں۔ اس طرح آپ شکر گزار بن جائیں گے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا کریں اللہ شکر کرنے والوں کو نوازتا ہے۔
جو لوگ ہر حال میں صبر اور شکر کرتے ہیں وہی لوگ کامیاب ہیں۔
جزاک اللہ ❤

~ 𝐙𝐨𝐡𝐚 𝐅𝐚𝐭𝐢𝐦𝐚𝐡

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 09, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

Sabar & ShukarWhere stories live. Discover now