^٭؀"پیا مخلصی میری"؀*^

44 5 2
                                    

"میں ملک فیض پورے ہوش و حواس میں حور ابرار آج تمہے طلاق دیتا ہوں"الفاظ تھے گویا کوی پہاڑ جو اس پر ٹوٹ پڑا ہو اس کا وجود سکتے میں آ گیا ۔یہ کیا کہہ دیا تھا اس دشمن جان نے ۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے محبوب کو دیکھ رہی تھی ۔اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کسی نے اس کے جسم سے روح کھہنچ لی ہو،اس کا وجود ختم ہوگیا تھا ،اس کے سینے میں دڑھکتا دل بند ہو گیا تھا ،اس کے جذبات سب ختم ہو گیےتھے،
اس کی آنسو سے تر آنکھیں خشک ہو گئ تھی،اس کا وجود حرکت کرنا بند ھو گیا تھا،صرف ایک لفظ "طلاق" نے اس کی زندگی بدل کے رکھ دی تھی ،صرف ایک لفظ نے اس کا کیا کچھ نہیں چھین لیا تھا۔"طلاق"چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ دو دلوں کو دور کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے،گہرے سے کہرے رشتے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
"اٹھو اپنا سامان باندھو،طلاق نامہ تمہے تمہاری کرتوتوں کے ساتھ گھر مل جاے گا"وہ ایک قہر آلود نظر اس پ ڈالتا کمرے سے باہر نکل گیا
وہ اس بند دروازے کو دیکھنے لگی"کیا سب کچھ اتنی جلدی ختم ہو جاے گا ؟اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا
وہ تھکے وجود کے ساتھ اٹھی اور اپنا سامان باندھنے لگی،یہاں سے وہ ہمیشہ کے لیے جا رہی تھی لیکن بہت کچھ ایسا تھا جو اس کے وجود کا حصہ نہیں تھااور بہت کچھ اپنے وجود کے حصے میں سے چھوڑ کر جا رہی تھی۔
وہ ایک "عورت "تھی اسے ان حالات میں کمزور نہیں پڑنا تھا،اگر وہ کمزور پڑ گی تو یہ دنیا والے اسے جینے نہیں دیں گے اسے اپنے اپ کو مضبوط کرنا تھا اپنے لیے ،ان حالات سے مقابلا کرنے کے لیے،دنیا والوں کا سامنا کرنے ُ۔  
لۓ............
گھر سے نکلتے وقت اس ایک نظر گھر کی طرف دیکھا ،اہک آنسو خاموشی سے اس کے رخسار سے نکل کر اس کے گال پر بہ گیا............اس نے اپنے گال بےدردی سے رگڑے اور وپس پلٹ گئ
اس نے زندگی کی تلخیوں کو خوش آمدید کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا............اپنے کردار کی بے گناہی کا فیصلہ اس نے اپنے رب کے سپرد کر دیا تھا ............"آپ مہری بے گناہی ثابت ہونے کے بعد میرا چہرہ دیکھنے کے لیے تڑپیں گے فیض"اس نے آسمان کی طرف چہرہ کر کےاپنے رب سے کچھ ایسا مانگ لیا تھا جس کی اذیت کا شاید اسے خود اندازہ نہیں تھا ...............
٭۔ ٭۔ ٭
"عالی بیٹا جلدی اٹیں آج دیر ہو گئ ہے"وہ اس کا کمبل کھینچتے ہوے بولی۔
عالی جو گہری نیند میں سو رہی تھی ہلکا سا کسمسائ۔
"عالی میں کہ رہی ہوں اٹھ جائں سکول سے دیر ہو جاے گی،۔میری آنکھ بھی آج دیر سے کھلی ہے ،تیار بہی ہو نا،ناشتہ بھی تیار کرنا ہے"عالی کو اٹھتا دیکھ کر فکرمندی سے بولی۔
"آنی آپ کو پتہ ہے میں صرف ۱۰منٹ لیتی ہوں تیار ہونے مہں"عالی منہ کے آگے ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی۔
زرتاشا نے سکھ کا سانس لیا اور کچن مہی چلے گئ۔
زرتاشا نے ایک نظر ناشتا کرتے ہوے علیزے کو دیکھا جو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی زرتاشا علیزے کو پیار سے "عالی"کہتی تھی،اور عالی زرتاشا کو "آنی"کہتی تھی ۔
عالی عام بچوں سے بلکل ہٹ کر تھی احساس کرنے والی،ذمہ دار عالی پانچ برس کی تھی لکن اپنے ہم عمر بچوں سے بڑی لگتی تھی وجہ اس کا قد اور اس کی ذہانت تھی وہ بعض دفعہ زرتاشا سے ایسے سوالات کرتی تھی کے زرتاشا بھی حیران رہ جاتی تھی۔
"آنی میں نے ناشتہ کر لیا ہے"وہ جو سوچوں میں گم تھی اس کے پکارنے پہ حوش میں آئ۔
"چلیں آپ بیگ پہن کر باہر چلیں ہم دروازہ بند کر لیں"زرتاشا نے اٹھتے ہوے کہا۔
زرتاشا پروفیسر تھی سکول اور کالج کی لڑکیہں کو پڑھاتی تھی،سکول کے ساتھ ہی کالج ہونے کی وجہ سے باسانی چلی جایا کرتی تھی،عالی بھی اسی سکول کے جونئر کیمپس میں پڑھتی تھی۔
زرتاشا اور عالی اسمبلی کے وقت پہنچے تھے،عالی کو کلاس مہں بیٹھانے کے بعد زرتاشا اپنے لیکچرز لینے چلی گئ۔
سکول سے لیکچرز لینے کے بعد زرتاشا ابھی کالج جا ھی رہی تھی ک اچانک آواز پر رک گئ۔
"مس زارشا"سر عباس گ آواز پر اس کے تہز چلتے قدموں کو بریک لگا ۔
زرتاشا نے پیچھے مڑ کے دیکھا جاو اسے روکنے کے لیے تقریباؔ دوڑتا ہوا آیا تھا۔
زرتاشا کو ویسے ھی اس انسان سے کوفت محسوس ہوتی تھی جو اسے بلا وجی کی ہمدردیاں دیکھاتا تھا،اور اس کے اس طرح پورے گراونڈ میں اس کو پکارنا زرتاشا کو سخت ناگوار لگا تھا ۔لیکن ضبط کر گئ۔
"اسلام علیکم"سر عباس نے گرم جوشی سے اس کی آنکھو میں دیکھتے ہوے کہا۔
اور ساتھ ہی اس کا جائزہ لینے لگا جو کالے رنگ کا عبایا پہنے ساتھ ہم رنگ حجاب کیے اس کا چہرہ پر نور لگ رہا تھا عباس کے لیے اس کے اوپر سے نظریں ہٹانا مشکل لگ رھا تھا ۔
"وعلیکم السلام"زرتاشا نے اس کی ایکسرے کرتی آنکھوں سے جزبز ہوئ تھی ۔
"آپ کالج جا رہی تھیں؟"عباس ابھی بھی اس کو ایسے ہی دیکھی جا رہا تھا۔
زرتاشا جو کہ سکول کہ اس راستے پر موجود تھی جہاں سے صرف یہ راستہ کالج کو جاتا ہے۔اس کے ایسے سوال پر اس کا پارہ ہائ ہو گیا تھا۔لیکن غصہ ضبط کرتے ہوے بولی۔
"جی!یہ راستہ کالج کو ہی جاتا ہے اور میں کالج ہی جا رہی ہوں۔آپ کو کوئ کام تھا؟"۔اس نے راستے کی طرف اشارہ کر کے بولا اور ساتھ طنز کرنا نہ بھولی۔
"نہیں کوی کھاس کام نیہں تھا بس آپ سے میتھس کا ایک سوال پوچھنا تھا دراصل میں نے اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جواب درست نہیں آرہا تھا سوچا آپ سے پوچھلوں"عباس کتاب اس کے سامنے کرتے ہوے بولا۔
زرتاشا کالج میں میتھس ڈپارٹمنٹ میں کی ہیڈ تھی اسی لیے کالج یا سکول میں بھی کسی کو اگر میتھس میں کوئ مسئلہ ہوتا تو زرتاشا سے مشورہ کیا جاتا تھا ۔زرتاشا ایک قابل ٹیچر کے ساتھ ساتھ ایک اچھی انسان بھی تھی۔اور سر عباس اسے ویسے ہی نالائق لگتے تھے ہر وقت اس کے سر پر سوار رہتے۔اس لیے اب بھی اس نے مروتاؔ ہی مدد کرنے کی ہامی بھرلی۔
"ٹھیک ہے کسی فری لیکچر میں آپ کو سمجھا دوں گی"زرتاشا نے ایک نظر کتاب پہ ڈالی اور جان چھڑانے والے انداز میں کہتی آگے نکل گئ۔
اس کا اس طرح جان چھڑانا عباس کے چہرہ پر دلکش مسکراہٹ پھیر گیا۔
"بہت شکریہ آپ کا"عباس اونچی آواز میں اس کے پیچھے سے بولا ۔پتہ نہیں کیوں اسے یہ لڑکی بہت منفرد لگتی تھی باقی عام لڑکیوں سے ہٹ کے۔اس کا پل میں غصہ ہونا،شگفتگی سے بات کرنا،لڑکیوں کے ساتھ بات کرتے ہوے ہمیشہ اس کا لبولہجہ نرم رہتا لیکن لڑکوں کے ساتھ بات کرتے ہوے اس کے چہرہ سپاٹ ہو جاتا لہجہ خود بخود سخت ہو جاتا۔خاموش طبیعت کی مالک یہ لڑکی ہمیشہ اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔اور اس کا مخصوص لباس عباۓ اور حجاب میں ہمیشہ پر نور لگتی تھی۔وہ اس کی سوچوں میں اس قدر محو تھا کے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اس کی سوچوں کا تسلسل تب چھوٹا جب ایک چڑیا اس کے سر کے اوپر سے گزری۔اس نے فورا اپنے ہاتھ پہ بندھی گھڑی دیکھی اسے یہاں کھڑے دس منٹ ہو گۓ تھے لیکن اسے احساس تک نہ ہوا۔عباس نے اپنی اس حرکت پر ہلکی سی چت لگائ"آپ کے لیے تو پوری زندگی بھی حاضر ہے"ایک دل نشین مسکراہٹ اس کے چہرے پر دوڑ گئ۔




از میر❤️


اسلام علیکم ،
کیسے ہیں آپ سب؟۔۔۔۔۔۔۔۔امید کرتی ہو اپ کو میرا ناول پسند آۓ گا ابھی فلحال یہ شروع ہوا ہے آپ لوگ ساتھ دہں گے تو انشا ءاللہ ھم اپنا ناول پورا کریں گے......اور کوی بھی غلطی ہو تو ضرور بتائں😊

Piya mukhlasi meriWhere stories live. Discover now