چلو" اپنا تعارف ميں خود ہي کرا دوں ميں آئزہ جہانگير خان ہوں" يہ سن کر وہ آدمي کچھ تذبذب کا شکار ہوا۔ لیکن پھر لاپرواہی سے بولا "ہاں نام سنا ہے میں نے تمہارا کافی بہادر اور جیدار لڑکی ہو!"۔اس پر آئزہ کاٹ کھانے والے لہجے میں بولی "میں آئزہ جہانگیر خان ، پاکستان سیکریٹ سروس کی ممبر اور ان تین ایجنٹس میں سے ایک ہوں جن سے ساری دنیا کے سیکریٹ ایجنٹ خوف کھاتے ہیں اس لیے اگر کسی کو موت کی تمنا ہو تو آۓ آگے!"۔ آئزہ کی اس بات پر انم نے بیقینی سے اسے دیکھا جیسے اسے یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ آئزہ کراۓ کے غنڈوں کو بھی یہ بات بتا سکتی ہو" آئزہ تم کیسے۔۔۔۔۔؟" آئزہ نے انم کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ان کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔چند لمحے وہ غنڈے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے اور پھر سرغنہ یکایک اپنی جگہ سے اچھلا اور لٹو کی طرح گھومتے ہوۓ اس کی لات پوری قوت سے دیوار سے ٹکرائ کیونکہ عین اسی وقت آئزہ اپنی جگہ سے اچھلی اور قلابازی کھاتے ہوۓ اس کے پیچھے جا پہنچی اور ایک زوردار لات اس کی کمر پہ ماری کہ وہ اچھلا اور اس سے پہلے کہ وہ نیچے گرتا آئزہ نے الٹی قلابازی کھائ اور ایک بھرپور فلائنگ کک اس کے بائیں پہلو پر ماری اور وہ چیختا ہوا پوری شدت سے دیوار سے جا ٹکرایا۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھتا آئزہ نے اسے دونوں ہاتھوں پر لیا اور سر سے بلند کرتے ہوۓ دیوار پہ دے مارا۔ وہ شخص دیوار سے ٹکرانے کے بعد چند لمحے تڑپا اور پھر ساکت ہو گیا۔
یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئ آئزہ کو اس کی اجازت کے بغیر ہاتھ لگاۓ۔
آئزہ نے ایک طائرانہ نظر اپنے اردگرد ڈالی اور پھر انتہائ سرد لہجے میں کہا"اگر کسی اور کو بھی مرنے کا شوق ہو تو۔۔۔آؤ آگے آؤ"۔۔۔ اچانک ان میں سے ایک نے ریوالور نکال لیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا اس کے ہاتھ پر آئزہ نے کراٹے کا بھرپور وار کیا اور ریوالور اس کے ہاتھ سے نکلا اور اڑتا ہوا دور جا گرا ۔"تمھاری یہ ہمت کہ تم میرے ہی گھر میں کھڑےہو کر مجھ ہی پر ریوالور نکال رہے۔۔۔۔۔" اور پھر آئزہ اور اس کے درمیان ایک ہولناک جنگ شروع ہو گئ۔
اسی وقت ایک اور آدمی نے اپنا ریوالور نکالا اور آئزہ پر یکے بعد دیگرے دو فائر کیے لیکن مسلسل حرکت میں ہونے کی وجہ سے وہ بچ گئ۔ اس سے پہلے کہ وہ تیسرا فائر کرتا پیچھے سے دو فائر ہوۓ اور وہ آدمی چیختا ہوا زمین پر گرا اور چند لمحے تڑپنے کے بعد ساکت ہو گیا۔"اوہ ہاورن ! شکر تم آ گۓ۔۔ ورنہ میرے تو دماغ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔" انم نے گہرا سانس لیتے ہوۓ کہا۔" سب ٹھیک ہے بیگم۔۔۔۔ اور آئزہ خاتون آپ کب سے میرے گہر میں براجمان ہیں؟" ہارون نے پہلے انم اور آئزہ سے بیک وقت مخاطب ہوتے ہوۓ کہا۔"کیا ہارون بھائ آپ بھی نا بس ۔۔۔۔۔اگر آپ نے اپنی حرکتیں درست نہ کیں نا تو میں نے آپ کو جنرل ہارون اقبال خان کہ کر مخاطب کرنا شروع کر دینا ہے" آئزہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔۔تو اس کی بات پر جنرل ہارون نے ایک بےساختہ قہقہہ لگاتے ہوۓ آئزہ کے ماتھے پر پیار کیا۔
٭٭٭٭٭٭
عمران اس وقت بلیک زیرو کے قائم کردہ نۓ کیفے "ایکسٹو کیفے" میں بیٹھا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ کوئ مسلسل اسے ہی دیکھ رہا ہے۔ اس نے کن اکھیوں سے اپنی بائیں طرف دیکھا تو اسے وہی شخص نظر آیا جسے وہ پـچھلے تین گھنٹے سے اپنے ساتھ ہر جگہ پر دیکھ رہا تھا۔ اب اس کو اس بات پر پورا یقین ہو گیا کہ اس کا تعمقب کیا جا رہا ہے۔
YOU ARE READING
عمران سيريز بليک ڈاٹ
Actionڈاکٹر داور۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے مايہ ناز سائنسدان بليو ريز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر داور کي ايجاد بليو ريز۔۔۔۔۔۔۔جس کا فارمولا حاصل کرنے کے ليے اسرائيل کي سب سےطاقتور ايجنسي کو ميدان ميں لايا گيا بليک ڈبٹ۔۔۔۔۔۔۔اسرائيل کي سب سے طاقتور ايجنسي جس کا اب تک کوئ بھي...