" کالے سائے"
قسط#1
زندگی کا سفر جب ہوا شروع تب اتنا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنا کھٹن ہوگا اور کن دشوار گزار راستوں سے گزر نا پڑے گا منزل تک پہنچ بھی پاؤگی کہ نہیں ۔ پیدا ہوئی تو ناسمجھ تھی نازک دل تھی لیکن اللہ پاک نے مختلف سوچ سے نوازا تھا چیزوں کو دیکھتے رہنا اور پھر خود سے سوال کرنا ، ہر دن ایک نئے سوال سے شروع ہوتا تھا ایسے سارا دن گزار جاتا تھا اور میں نیند کی آغوش میں چلی جاتی۔۔ پھر ایک اور دنیا کی صبح ہو جاتی تھی جو ہماری ساری رات چلتی تھی۔۔ وہ دنیا اس دنیا سے بہت الگ تھی۔۔۔ الگ سے چہرے ، الگ ماحول ، الگ سی باتیں عجیب طرزِ زندگی۔۔۔ شروع شروع میں بہت شور کرتی تھی میں ، پریشان ہو جاتی تھی۔۔۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ مجھے عادت ہوئی۔۔ میرا اس دنیا میں دل سا لگ گیا تھا ا اپنائیت محسوس ہونے لگی۔۔ ان کے وقت کا تعین کچھ اس طرح سے تھا کہ ہماری صبح ان کہ رات ہوتی تھی اور ہماری رات ان کی صبح ہوتی تھی۔۔۔ پر کبھی کبھی کچھ زیادہ ہی عجیب ہوتا تھا کہ ان کی صبح بھی رات جیسی ہی ہوتی تھی۔۔ خیر یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب پہ پانچویں کلاس میں تھی۔۔۔ میری پہلی ملاقات وہاں ایک بہت بڑے دیو قامت انسان سے ہوئی اس کے ایک قدم کےنیچے میرا آدھا گاؤں آسکتا تھا مجھے اپنا آپ اس کے سامنے چیونٹی جتنا لگ رہا تھا وہ ایک گدھے کے ساتھ تھا جس پہ اس نے دو پانی والی بلٹیاں لٹکائی ہوئیں تھی اور شاید پانی بھرنے آیا تھا زیادہ کچھ نہیں جان سکی، نہ ہی چہرہ دیکھ پائی وہ جنوب سے آیا اور شمال کی طرف چلا گیا اور اس دنیا کی صبح ہوگی۔۔۔ میں نے اپنی امی کو بتایا میری امی نے یہ کہ کر بات کو گھما دیا کہ وہم ہوگا تمھارا بچوں کو خیال آتے رہتے ہیں ایسے۔۔ میں خاموش ہوگی سارا دن ایک ہی بات سوچتی رہی کہ ہماری دنیا کے تو لوگ بہت چھوٹے چھوٹے سے ہیں وہ تو اتنے بڑے نہیں اور جانور بھی تو چھوٹے چھوٹے ہیں اور اتنے بڑے قد والے لوگ تو پچھلے وقتوں میں ہوا کرتے تھے جب حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا دور تھا۔۔۔ کیونکہ گھر میں پچھلے وقتوں کی کہانیاں اور قصے ہوتے رہتے تھے گرمیوں کی راتوں میں جب ہم۔چھت پہ سویا کرتے تھے تب بابا اور امی روز رات کو ہمیں پچھلے وقتوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔۔۔ چونکہ چھوٹی سی بچی تھی کوئی دس سال کی ہونگی اس لئے اتنا ہی سوچتی رہتی تھی۔۔۔ ڈر بھی لگتا تھا لیکن پھر سوچتی تھی کہ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ اس دن بھی سارا دن یہ سوال دماغ میں گھومتا رہا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔۔۔دوسری دنیا شروع ہوچکی تھی میں پیدل چل رہی تھی کوئی پتھریلا علاقہ تھا اور میں وہاں تیز تیز قدموں سے اوپر پہاڑ پہ چڑھ رہی تھی وہ رستہ ایک پرانے روڈ کی طرح تھا وہاں لوگ کالے لباس میں تھے کچھ سفید لباس میں تھے جیسے عربیوں کا لباس ہوتا ہے روڈ پہ مختلف دوکانے تھی جہاں سے لوگ کھانے۔پینے اور دوسری چیزیں خریدتے ہونگے زیادہ سمجھ نہ آسکی مجھے کیونکہ میں نے اپنی دنیا میں ایسا پہلے کچھ نہیں دیکھا تھا۔۔ ہاں ایک بہت عجیب و غریب بات وہاں سفر کے گھوڑے اور پرندے استعمال ہوتے تھے گھوڑے ایسے جیسے تانگہ ہوتا ہے اور پرندے سفید رنگ کے بہت بڑے بڑے اتنے بڑے کے چھ سات فٹ کا بندہ آسانی سے بیٹھ کر سواری کر سکتا ہے پر میں بہت حیران تھی کہ وہاں کے لوگوں کے چہرے میں ابھی بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔ خیر میں نے سوچا کہ میں واپس اپنی دنیا میں جاؤ کیونکہ مجھے وہاں کوفت سی محسوس ہو رہی تھی میں نے ایک تانگہ لیا اور وہاں پہ سوار ہو گئی لیکن یہ کیا ؟ تانگہ تو الٹا ہی چلنے لگا اور گھوڑا اتنا تیز پچھلے قدموں پہ بھاگ رہا تھا کی مجھے لگتا تھا کہ میں کسی پہاڑ ی میں جا کر لگوں گی اور کچلی جاؤگی میں زور زور سے چیخنے لگی کہ کوئی روکوں اسے مجھے اس عالم۔میں اور تو کچھ یاد نہ آیا پرانی نے کہاں تھا کہ جب بھی کوئی پریشانی ہو تو آیت لکرسی پڑھ لینا پھر تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ میں چیخنا بند کیا اور زور زور سے آیت لکرسی پڑھنی شروع کردی میرے دل کی دھڑکنے کی رفتار اس گھوڑے کے بھاگنے کی رفتا کے بالکل برابر تھی ۔۔۔پر وہ مسلسل پیچھلے قدموں پہ بھاگ رہا تھا اور اس روٹ پہ پچھلے سائیڈ پہ کوئی رستہ نہیں تھا ایک بہت بڑا پہاڑ تھا اب میرا اور اس پہاڑی کا صرف دو قدموں کا فاصلہ رہ چکا تھا کہ اچانک سے ایک سفید بگلے کے جیسا پرندہ آیا اور مجھے اپنے چونچ سے پکڑ کر میرے گھر میں پھینک دیا۔۔۔۔ میں نے شکر کا کلمہ پڑھا یہ سب اس آیتِ الکرسی کا کمال تھا ورنہ آج تو میں قبر میں کیڑوں کی خوراک کی نظر ہو چکی ہوتی۔۔۔
یہ میرا دوسرا دن تھا جو مزید پریشانی میں گزرا آدھا دن تو میں خاموش اور نارمل رہی لیکن جیسا کہ مجھے پچپن کی عادت ہے کوئی بھی بات میرے پیٹ میں نہیں رہتی اور فوراً سے بابااور امی کو بتا دیتی تھی اس لئے عادت سے مجبور ہو کر میں نے سارا واقعہ امی کو بتا دیا امی کچھ دیر تو خاموش رہیں لیکن معمول کے مطابق پھر سے وہی لائن دوہرا دی " تمھارا وہم ہے بچّوں کو خواب خیال آتے رہتے ہیں " ۔۔۔ پر ایک نئی لائن کا اضافہ بھی کیا کہ تم اتنا سوچتی ہو اس لئے ایسا ہے۔۔۔۔To be Continued......
YOU ARE READING
حقیقی کہانی " کالے سائے " 🌚 ازقلم انیلہ نیک
Horrorیہ کہانی ایک نئی دنیا کی ہے جس سے ہم بالکل بے خبر ہیں ، اور یہ کہانی حقیقت پہ مبنی ہے 🔥🌚