" کالے سائے"قسط #2
میری امی اکثر کہتی تھی کہ جو خواب تین بار آئے وہ سچا ہوتا ہے اگرچہ کہ چھوٹی تھی میں تو سوچ کے مطابق میں یہ بات دل میں بٹھا لی کہ دیکھتے ہیں اگر تو یہ آج رات پھر ہوا تو سچ ہوگا۔۔۔ معمول کے مطابق عشاء کی نماز ادا کی ، نماز روزہ کی پابند تھی میں شروع دن سے ہی۔۔۔۔ نماز کے بعد بستر پہ آگئ اور سونے کی کوشش کرنے لگی گھوپ اندھیرا تھا ،گرمیوں کی رات تھی ، کالے آسمان پہ تارے ٹمٹما رہے تھے۔۔۔ میرا دماغ مسلسل وہی بات سوچ رہا تھا یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔
لوگوں کا ہجوم تھا اور میں گھبرائی ہوئی امی کو ڈھونڈ رہی تھی اس دنیا کی صبح کاآغاز ہو چکا تھا۔۔۔۔ امی تو کہیں مل نہیں رہی تھی اک دم آسمان پہ عجیب سی نورانی روشنی سی ہوگئی اور میں نے مغرب کی طرف ایک بادلوں کی ٹولی کو دیکھا ، دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہاتھ نے بدلوں کو ہٹایا اور نیچے سے سونے کی رنگ میں موٹی موٹی آیت کریمہ لکھی ہوئی نمودار ہوئی ۔۔۔۔۔ میرے منہ سے بے ساختہ سبحان اللہ نکلا ۔۔۔ اذان کی آواز میرے کانوں میں پڑ رہی تھی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔۔۔ میں بس یہی سوچ رہی تھی کہ یہ کیا تھا یہ تو بہت الگ تھا مجھے خوف بھی آ رہا تھا اور حیرت کی بات یہ کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے آنسوں اسلئے کہ میں تو اس قابل نہیں پھر ایسا کیوں۔۔۔۔
میں نے نماز ادا کی ، کافی دیر سجدے میں سر رکھ کر روتی رہی۔۔۔میں عمر میں بہت چھوٹی تھی مگر اللّٰہ پاک نے مجھے سمجھدار بنایاتھا۔۔۔میں نے ناشتہ کیا اور روم میں آ گئی میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ امی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں۔۔۔۔کیونکہ انہوں نے ہمیشہ میری بات کا یقین نہیں کیا تھا میں نے خود سے فیصلہ کیاکہ میں دادا ابو کو سناؤں گی۔۔۔ فری ٹائم میں ، میں دادا کے پاس بیٹھ گئی اور تین راتوں کا قصہ انہیں بتا دیا پہلے تو وہ خاموش رہے پھر تھوڑی دیر بعد بولے کہ بیٹا یہ اشارے ہوتے ہیں اللہ کی طرف سے کچھ آنے والے کاموں کے ، کسی مصیبت یا خوشی کا اشارہ۔۔۔۔ اور جو واقع تمھارے ساتھ ہوا ہے اس کا مطلب کچھ بڑا ہونے والا ہے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔ میں نے کہا دادا میں تو دس سال کی ہوں ابھی ایسا مجھے کیوں ؟۔۔۔۔ اس سوال کا جواب نہیں ملا مجھے۔۔۔
میں نے سوچا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور میں کہاں اتنی ۔۔۔بچوں کو ایسا نہیں ہو سکتا ... ایسے ہی وہم ہیں ایسا ہوتا نہیں ، حقیقت میں۔۔۔۔ مگر میں غلط اس واقع کے کچھ دن بعد میری چھوٹی بہن بہت زیادہ بیمار ہو گئی اور وہ موت کے منہ میں تھی ڈاکٹرز نے جواب دے دیا لیکن وہ معجزاتی طور پر بچ گئی وہ تو ٹھیک ہوگئی پر میری پریشانی شروع ہوگئی۔۔۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی مجھے رات سے خوف آنے لگا گیا تھا میں رات کے تین بجے تک خود کو سونے نہیں دیتی تھی لیکن میں بے بس تھی میں کچھ نہیں کر سکتی تھی یہ اس دنیا کا سلسلہ میرے ساتھ چل پڑا تھا اور یہ میری زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔۔۔۔ اکثر راتیں تو ایسی تھی جو میں نے جگاتی آنکھوں سے گزاری تھیں اور صبح بھی نہیں سوتی تھی۔۔۔ کچھ راتیں ایسے گزارنے کے بعد پھر اک دن ایسے میری آنکھ لگ گئی۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ پیتل کے گھر ہیں اور پیتل بھی بہت خوبصورت رنگوں میں۔۔۔۔ وہ عجیب سے لوگ تھے اور عجیب سی دنیا تھی وہ۔۔۔ بھوت پریت کی کہانیاں سنی ہوئی تھی لیکن ان کے گھروں میں جا کر ملنا ان سے ، وہ بھی خود، یہ تو پہلی بار ہو رہا تھا۔۔۔ وہ انسانی شکل میں تھا اور اس کے سر پر ٹوپی تھی اس نے اپنی ٹوپی سر سے اتاری اور ہوا میں گھوما کر سامنے پھینکی۔۔۔ ٹوپی گھومنے لگی اور ایک محل نما کمرا نمودار ہوا جس میں ریشم اور شنیل کا ایک پلنگ تھا اور وہ خوبصورت رنگوں کے پیتل کا بنا ہوا تھا اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارا کیا میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔وہ اپنا تعارف کروانے لگا۔۔۔ میں ارطاس ہوں میں کوکاف سے آیا ہوا ہوں تمھارے گھر میں بچپن سے رہتا ہوں تمھاری دنیا میں لوگ مجھے ثقلین حیدر بولتے ہیں اور سنو تم پریشان نہیں ہو میں مسلمان ہوں۔۔۔ تمھیں بہت پسند کرتا ہوں تمھارے گھر کے منجھلے کمرے میں رہتا ہوں بلے کے روپ میں۔۔۔ تم مجھے اپنے گھر میں رہنے دو میں کوئی نقصان نہیں دوں گا تم جو کہوں گی میں کروں گا۔۔۔۔ میں بہت حیران ہو رہی تھی میں نے پوچھا تو تم مجھ سے کیاچاہتے ہو ؟ اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔۔۔۔۔ میں بس یہ چاہتا کہ تم مجھے اپنے گھر سے نہ نکالو مجھے تم سے ڈر بھی لگتاہے۔۔۔۔ امی کہ آواز نے میرا تسلسل توڑا۔۔۔۔۔
میں اٹھ کر بیٹھ گئی کہ یار یہ کیا اس ٹاٹم مجھے ڈر نہیں لگا لیکن صبح ہوتےہی خوف آنے لگا گیا۔۔۔ مجھے اپنے گھر سے ڈر لگنے لگ گیا میں نے امی سے پوچھا امی ہمارے گھر میں کوئی سایہ ہے کیا؟ امی نے پہلے مجھے غور سے دیکھا پھر کہتی ہیں کے یہ جو بڑا درخت ہے نہ گھر کے کونے میں اس پہ ہے۔۔۔ تبی تو روکا ہوا کے ہم نے وہاں جانے سے۔۔۔اور وہ منجھلا کمرا بھی آسیب زیادہ ہے تب میرا دل کی دھڑکن رک سی گئی میرے پاؤں تلے زمین نکل گی اور میرا دماغ سن ہو رہا تھا کہ کیا واقعی ہی ایسا ہے وہ جو میں نے دیکھا وہ سچ اور حقیقت ہے ؟ اس کا مطلب تو جو بھی میں آج کل دیکھ رہی ہوں وہ حقیقت ہے کوئی بھی وہم یا خیال نہیں ہے۔۔۔۔ کیا ہو گیا کس سوچ میں پڑ گئی امی نے مجھے پکڑ کر ہلایا۔۔۔۔ میں نے بولا کچھ نہیں ایسے ہی بس میں سوچ رہی تھی کہ اگر وہ یہاں رہتے ہیں تو ہمیں نقصان کیوں نہیں دیتے ؟ ہم تو اتنے سالوں سے یہاں ہیں پھر ہمیں نظر کیوں نہیں آتے ؟ نہ ہی ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں امی یہ وہم یا جھوٹ بھی تو ہو سکتا ہے ؟ اور میں تو یقین نہیں کرتی ان چیزوں پہ۔۔۔۔ آپ گاؤں والی ہیں اس لئے آپ کو یقین ہے۔۔۔ تم بہت بڑی باتیں نہیں کرنے لگ گئ ؟ امی نے ڈانٹا مجھے اور بولا کہ اٹھو صفائی کر لو۔۔۔ یہ لڑکی بہت سوال کرتی ہے پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہے۔۔۔ امی بربڑائی جا رہی تھی اور میں اٹھ کر کمرے میں آ گئی۔۔۔۔ اللّٰہ خیر کرے اب یہ کیا مصیبت ہے ؟ اب اس کا میں کسے بتاؤں یہ تو اگر سچ میں جنات ہیں تو میرے پیچھے پڑ گئے ہیں اور وہ ارطاس تو مجھے پسند بھی کرتا ہے رمل بھی کہ رہی تھی جنات کو جو لڑکی پسند آتی ہے اسے لے جاتے ہیں وہ اس دن جو کہانی پڑھی تھی اس میں بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ میں مسلسل خود سے باتیں کر کے رو رہی تھی۔۔۔ میں نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نفل ادا کئے اور بہت روئی کہ اب تو جن بھی میرے پیچھے پڑ گئے ہیں اب کیا ہوگا یا اللّٰہ مجھے بچا لو۔۔۔ یہ کوئی عام بات نہیں۔ تھی میری عادت تھی چھوٹی سے پریشانی پہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ جاتی تھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ کوئی بھی سہارا نہیں اللّٰہ کے سوا۔۔۔۔۔خیر اگلا دن سکون سے گزرا میں کیونکہ رات کو بہت تسبیح اور پڑھائی کر کے سوئی تھی۔۔۔۔صبج اٹھی ، نماز ،ناشتہ سے فری ہو کر تیاری کی اور سکول چلی گئی اب میں 6th کلاس میں ہوگئی تھی اور میری ایک ہی بیسٹ فرینڈ تھی رمل اسے میں ہر بات بتاتی تھی۔۔۔۔ ہم دوستوں کی عادت تھی ڈروانی کہانیاں پڑھنے کی۔۔۔۔۔ ہمارے سکول کے گیٹ کے سامنے چچا رمضان کی دکان ہوتی تھی۔۔۔وہ ہر ہفتے نئی کہانیاں لاتے تھے۔۔۔۔اور ایک کہانی کا کتابچہ دس روپے کا دیتے تھی پورا ہفتہ کی پاکٹ منی ہم کہانیوں کے لئے ہی جمع کر کے رکھتی تھی۔۔۔۔ آج وہ ایک نئی کہانی لائے تھے " بارہ دری کی چڑیل " مجھے نام سے دلچسپ لگی میں نے پانچ روپے رمل سے لئے اور پانچ روپے اپنے ڈالے اور کہانی خرید لی۔۔۔۔ میں نے رمل سے بولا کہ آج میں لے جاؤں گی اور پڑھ لوں گی کل تم کے جانا اور تم پڑھ لینا۔۔۔ وہ راضی ہوگئی اور میں کہانی گھر لے آئی۔۔۔۔۔To be Continued.......
YOU ARE READING
حقیقی کہانی " کالے سائے " 🌚 ازقلم انیلہ نیک
Horrorیہ کہانی ایک نئی دنیا کی ہے جس سے ہم بالکل بے خبر ہیں ، اور یہ کہانی حقیقت پہ مبنی ہے 🔥🌚