رات کے اندھیرے نے چاروں طرف ایک پراسرار سا خوف پھیلایا ہوا تھا۔۔وہ ایک بوسیدہ سی عمارت تھی جس کی بیرونی حالت تعمیر ہونے کی لیے ترس رہی تھی۔ رات کی تاریکی اور سنسان ماحول اس جگہ سے گزرنے والے ہر فرد کے دل میں ایک عجیب سی وحشت اور خوف پیدا کردیتا تھا۔۔اسی بوسیدہ عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں سو کے قریب بچھے گھبراۓ ہوئے سمٹ کر دیوار سے ٹک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں اب زندگی کی کوئی نوید نہیں رہی تھی۔ آج دسواں دن تھا انہیں اپنے گھر سے غائب ہوئے۔۔ نا انہیں ان دس دن تک کچھ کھانے کو دیا گیا تھا اور نا ہی پینے کو۔۔ نیم بیہوشی اور نڈھال وجود لیے اس کمرے میں موجود تمام بچوں کی حالت قابل رحم تھی۔ مگر افسوس ان پر ترس کھانے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک دم سے ان تمام بچوں کو کمرے کے بند دروازے سے آنے والی آوازوں نے خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ نیم بیہوشی کے باوجود وہ ان ظالم لوگوں کے خطرناک ارادے سن کر پوری جان سے کامپ گئے تھے۔۔۔
"یس باس۔ جی جی ہم آج ہی ان میں سے پچاس کو آپ کے ڈیرے پر روانہ کر دیتے ہیں۔"
ببلو بغیر کسی شرم اور لحاظ کے ان معصوم بچوں کو بھیجنے کا کہہ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے باس۔۔ میں ابھی ہی ان کو بھیجتا ہوں۔"
اس نے کہتے ساتھ ہی اپنے دو آدمیوں کو ایک مخصوص اشارہ کیا تھا جسے وہ فوراً ہی سمجھ گئے تھے۔۔اب اس کمرے میں بہت دل خراش سسکیاں آہیں اور چیخیں گونجنی تھیں۔۔۔ جو مسلسل کئی روز سے ہو رہا تھا۔ وہ روز پچاس کی تعداد میں چھوٹے بچوں کو اپنے باس کے ڈیرے کی جانب روانہ کر دیتے تھے۔۔یہ سچ تھا کہ پیسے کی حوس نے ان سے خوفِ خدا تک چھین لیا تھا۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"اوئے اسلم ذرا اس حسینہ کو تو میرے کمرے میں بھیج۔۔۔ آج اس سے ذرا ملاقات کر لیں۔۔"
ببلو نے شرم بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا تھا اور اس کے ساتھ موجود اس کا ویسا ہی بےشرم آدمی اسلم جو فوراً اس کی بات مانتے ہوئے اس نئی لڑکی کو لینے چلا گیا تھا۔ وہ روز ننھے ننھے بچوں کے ساتھ ساتھ جوان لڑکیوں کو بھی اغوا کرتے اور پھر اغوا شدہ تمام لوگ ان کے رحم وکرم پر ہوتے تھے۔۔ روز کبھی کسی کی عصمت لوٹی جاتی۔۔۔ کبھی کسی کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کی جاتی۔۔۔ اپنی درندگی کا کارنامہ دکھایا جاتا۔۔۔۔ اور کبھی کسی کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا جاتا۔۔ وہ لوگ یہ بلکل بھول بیٹھے تھے کہ کوئی خدا بھی ہے جو ان کے تمام اعمال پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔
وہ سگرٹ ہونٹوں پہ جمائے اپنی کرسی سی ٹیک لگائے بڑا مست ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے آگے ایک چھوٹی سی میز تھی جس میں تمام طرح کی شراب اور دوسرے نشے والے مشروب رکھے ہوئے تھے۔۔۔
"ببلو بھائی یہ رہی وہ۔۔۔"
اسلم نے ایک خوبصورت جوان لڑکی کو اس کے سامنے تقریباً گراتے ہوئے کہا تھا۔۔جس کے کپڑے اس وقت گرد آلود تھے۔۔ اور وہ اس بے حس انسان کے اس سلوک پر بس ترحم بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"ہاں پھر انمول سلطان؟؟؟ یہاں میرے پیارے سے گھر میں گھٹن ہو رہی ہے تجھے ہاں؟؟؟؟ یہاں سے بھاگنے کی غلطی کرنے والی تو ہی ہے نا؟؟؟"
وہ اس لڑکی کا چہرہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے اوپر کی جانب کرتے ہوئے بولا۔۔
"نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہیں۔۔تو"
وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی تھی۔
"جھوٹ بولتی ہے۔۔۔۔"
ببلو نے اس لڑکی کے بال اپنے ہاتھوں میں جکڑے تھے۔۔۔ اور اس پر دھاڑا تھا۔۔۔
"تجھے تیری اس غلطی کی ایسی سزا دوں گا یاد رکھے گی تو۔۔۔"
وہ اس کے ہاتھ کو زبردستی پکڑ کے اس کمرے میں رکھی ہوئی چھوٹی سی چارپائی کے قریب لے گیا۔ اور مڑ کے اسلم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔جو دل میں آنے والی حوس کو فراموش کر کے ببلو کا حکم مانتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ بہت سنسان راستہ تھا جس پر آرمی کی گاڑیاں رواں دواں تھیں۔۔رات کی تاریکی کی وجہ سے اس علاقے میں حد سے زیادہ خاموشی تھی۔
"سر آپ اتنے بہادر کیسے ہیں؟"
کیپٹن فراز کے اس عجیب سے سوال پر میجر تابش حیران ہوا تھا۔ اور سنجیدہ تاثر لیے چہرے سے اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"مم۔۔۔میرا مطلب سر کہ آپ کیسے اتنی بہادری سے ہر دشمن کا مقابلہ کر لیتے ہیں؟؟؟ کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا؟؟؟"
وہ اپنے سوال کی خود ہی وضاحت کرنے لگا۔
"ڈر ہی تو ہے جو مجھے اپنے تمام دشمنوں کو خاک میں ملا دینے کا حوصلہ دیتا ہے۔۔۔ پر جینٹل مین تم اس ڈر کا غلط مطلب مت لو۔۔۔ یہ ڈر اللہ کا ڈر ہے۔۔ جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں کسی مظلوم کی مدد کروں۔۔۔ اور ظالم کا نام و نشان اس دنیا سے مٹا ڈالوں۔۔۔"
میجر تابش سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
"سر آپ کی بات نے تو مجھے لاجواب کر ڈالا۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
"برخوردار ہم امن کے محافظ ہیں اور امن قائم کیے رکھنا ہی ہمارا فرض اول ہے۔۔۔ ہم اس لیے صبح کے اجالے سے لے کر رات کی تاریکی تک کام میں لگے ہوتے ہیں تاکہ ہماری قوم سکون سے رہے۔۔۔ وہ اپنا کام کرے۔۔ اور اس ملک کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔۔۔امن تب ہی قائم ہوتا ہے جب قوم کے دلوں میں محبت ہو۔۔ امن اس جگہ قائم ہی نہیں ہو سکتا جہاں نا انصافی ہو، ظلم ہو، زیادتی ہو۔۔۔"
میجر کی اس بات پر فراز نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔۔ فراز کچھ بولنے والا تھا جب میجر تابش کے کان میں لگے ہوئے بلوتوتھ ڈیوائس میں سے آواز آئی۔ اور وہ کرنل سے بات کرنے ممشغول ہو گئے
"سر کیا بات ہے؟"
ان کی بات کے اختتام پر فراز فوراً بولا۔
"Captain, we don't have enough time!!
Hurry up! It's time for attack"
میجر تابش کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
"مگر سر اٹیک تو ہم کل کرنے والے تھے نا؟"
کیپٹن نے تنے ہوئے نقوش اور سنجیدہ چہرے لیے میجر تابش کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ آج پھر ایک بہن کی عزت سے کھیلنے لگا ہے۔۔ بس اب ہماری اور کوئی بہن یا بیٹی اس ظالم کے ظلم کا نشانہ نہیں بنے گی"
"پر سر ہمیں ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات نہیں"
فراز گویا ہوا۔
"ان کا پتہ معلوم کر لیا گیا ہے"
میجر کہتے ہوئے جیپ سے اتر گئے تھے۔ان کی منزل آ گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"دیکھو پلیز ایسا مت کرو۔۔ میرے باپ اور بھائی کبھی سر اٹھا کر چل نہیں سکیں گیں"
انمول اس کے پیر پکڑتے ہوئے منت سماجت کرتے ہوئے بولی۔تھی۔مگر مقابل کو اس پر ذرا رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک شراب سے بھرا ہوا گلاس پیتا چلا جا رہا تھا۔۔ انمول نے اس چھوٹے سے کمرے میں موجود ہر کھڑکی اور دروازہ کھولنے کی بے حد خوشش کی تھی مگر بے سود۔۔۔
"دیکھو۔۔۔۔۔ میری طرف۔۔۔۔ آگے مت۔۔۔ بڑھنا۔۔"
وہ مضبوط لہجے میں بولی۔۔
"کیا کر لے گی تو۔۔ہاں؟؟؟"
ببلو کا انداز تمسخرانہ تھا۔
"میرے محافظ مجھے اور میرے ساتھ کے تمام مظلوموں کو بچانے ضرور آئیں گیں دیکھنا تم۔۔۔۔"
اس کے لہجے میں اب چٹان کی سی سختی تھی۔۔ کچھ دیر پہلے والا خوف اور ڈر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے وہ جان کی بھی پروا نہیں کرے گی۔۔۔
"کون ہیں تیرے محافظ؟؟"
وہ اب نشے میں ہونے کی وجہ سے ٹک کر صحیح سے کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
"وہی جن کو اللہ نے میرا اور میری قوم کا محافظ بنایا ہے۔۔۔ وہ جو امن کے محافظ ہیں۔۔۔"
اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔۔
اس کے اس انداز پر ببلو نے حیران ہو کر دیکھا تھا۔
"تجھے اب میرے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔"
وہ بے شرمی سے کہتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔۔ عین اس لمحے اس کے کمرے کا دروازہ گولیوں کی دھر دھر کرتی آوازوں سے ٹوٹ کر نیچے گرا تھا۔ ببلو نے یہ منظر ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔ جو ابھی ابھی ہوا تھا اسے اس پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔
"کس نے پتہ دیا تم لوگوں کو یہاں کا؟"
وہ بغیر خوف کے بولا۔۔
ہم ظالموں کی ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں پتہ لینا کونسا مشکل ہے۔۔"
میجر تابش کے لہجے میں انتہا کی سختی تھی۔۔
"میرا پتہ تو معلوم کر لیا ہے۔۔۔مگر میرے باس کا ٹھکانہ کبھی معلوم نہیں کر سکو گے تم۔۔۔۔۔"
اس کا انداز صاف مزاق اڑانے والا تھا۔
"تمہارا یہ جو باس والا ناٹک ہے نا۔۔۔۔ اس کی اصل حقیقت ہم سب کو معلوم ہے۔۔۔ اس لیے زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"
میجر تابش نے غصے سے کہا تھا۔۔
"کونسا ناٹک؟؟" وہ ہکلاتے ہوئے بولا
"ارے ببلو صاحب تمہیں یہی نہیں پتا؟؟ تم اپنے بندوں میں اپنے باس کا ڈر ڈالتے ہو۔۔۔ درحقیقت تمہارا کوئی باس ہے ہی نہیں۔۔۔ اور تم خود ہی ان گنہونے کاموں میں ملوث ہو۔۔۔"
فراز نے سخت لہجے میں کہا۔
"تو تم لوگوں کو معلوم ہو ہی گیا۔۔"
وہ نشے میں بولا تھا۔
"ببلو بھائی مجھے لگتا ہے ہمارے ٹھکانے کا کسی کو معلوم ہو گیا ہے۔۔۔ دروازہ کھولو جلدی۔۔۔۔"
اس کے کمرے کے نزدیک بھاگ کر آتے ہوئے اسلم کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جن کی وہ بات کر رہا ہے وہ ببلو کے کمرے میں ہی موجود ہیں۔۔۔
"یہ تو بہت برا ہوا۔۔۔"
کیپٹن فراز نے کہتے ساتھ ہی اس کی سینے پر فائر کیا تھا۔
وہ ایک ہی سیکینڈ میں زمین بوس ہوا تھا۔ اسی پل شاطر ببلو نے بھی موقع دیکھ کر اپنے جیب میں رکھی ہوئی گن نکال کر فراز پر فائر کر دیا تھا۔۔۔ تابش اور فراز چونکہ اس اسلم کی طرف متوجہ تھے اور اسی باات کا فائدہ ببلو نے اٹھایا تھا۔ ببلو کی جانب فراز کی پشت تھی اس لیے گولی سیدھی اس کی ریڑھ کی ہڈی پر لگی تھی۔ فراز بھی ایک ہی لمحے میں زمیں پر گرا تھا۔۔۔
"فراز؟ ؟؟؟؟"
تابش نے بے یقینی سے خون میں لت پت ہوتے اپنے ساتھی کو دیکھا تھا۔۔۔اور اگلے ہی لمحے اس نے ببلو کے سینے پر فائر کھول دیا تھا۔۔۔۔ وہ کمرا خون میں نہا گیا تھا۔۔۔ انمول نے روتے ہوئے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔ امن کے محافظ ہمارے لیے کتنا کچھ کرتے ہیں۔۔۔ کیا ہم کبھی ان کی محبتوں کا قرض چکا پائیں گیں؟؟؟ ایک ہی سوال اس وقت اس کے دماغ میں گردش کر رہا تھا۔۔۔۔
"سر ایریہ سیکیورڈ۔۔"
کیپٹن علی نے آ کر میجر تابش کو آگاہ کیا تھا۔۔۔جو نم آنکھوں سے فراز کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
"وہ بچے جو اس نے بھجوائے تھے ان کا کیا ہوا؟ "
تابش لمبا سانس لیتا ہوا بولا۔۔۔
'سر ہمارے جن آفیسرز کی چیک پوسٹ پر ڈیوٹی تھی انہوں نے بچوں کو خیر و عافیت سے بچا لیا ہے۔۔۔"
اس کی بات پر تابش نے سر ہلایا۔
"سر۔۔۔۔۔فراز۔۔۔۔"
علی نے فراز کے وجود کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
"فراز کی قربانی کبھی بھلائی نہیں جائے گی۔۔۔ اس کا نام ہمارے شہیدوں کی فہرست میں ہمیشہ چمکتا رہےگا۔۔۔۔ اس کی باڈی لے جانے کا انتظام کرو۔۔۔"
تابش ایک نظر فراز پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
معزز قارعین۔۔۔ یہ صرف آج یا کل کی بات نہیں ہے۔۔۔ بلکہ روز کتنے ہی ظالموں اور اس پاک وطن کے دشمنوں کو بھیانک سزائیں دی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ س کے دوران ہمارے بھی کتنے محافظ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں؟؟؟ہمارے ماضی کی کتاب ایسے کئی ہزار شہیدوں اور غازیوں سے بھری ہوئی ہے۔۔۔ مسلہ صرف یہ ہے کہ ہم کبھی غور نہیں کرتے۔۔۔۔1965، 1971، اور آئے دن کئی حملے کبھی فرنٹ لائن پر کبھی دشمن ملک اہنے طیارے بھیجتا ہے۔۔۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج ہم جو اس ملک میں سکون بھرا سانس لیتے ہیں اور پر امن زندگی گزارتے ہیں اس کے لیے کتنے شہیدوں نے اپنی جان قربان کی ہے؟؟؟۔۔ آئیں ہم شہیدوں کا قرض تھوڑا سا اتارنے کی کوشش کریں۔۔ اپنے ملک کو خوشحال بنائیں۔۔۔ اور ان امن کے محافظوں کو گالیاں دینے کی بجائے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔۔۔ تاکہ یہ لوگ اور مضبوط اور بہادر بنیں۔۔۔انہیں یقین ہو کہ ان کی قوم ہر سرد و گرم میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔یہ امن کے محافظ ہیں۔۔۔۔ آئیں امن قائم کرنے میں اپنا بھی حق ادا کریں۔۔۔ اور اپنے پیارے ملک پاکستان کو خوشحال بنائیں۔۔۔خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔۔زوہا آصف
Share your feedback in Comments💚
YOU ARE READING
محافظ امن کے ہم ہیں
Short Storyپاک افواج کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی کاوش