دس دن دور

732 22 6
                                    

باب اول:
دس دن دور

اس کو جیسے کچھ الحام ہوا تھا یا شاید دل گھبرایا تھا،،،اپنے کالج کے فیرویل پہ جانے سے اس نے انکار کر دیا ،،اپنا سامان سمیٹ کر بایر نکل آی امی کو بھی باہر نکال دیا ،،ابو تو ویسے ہی باہر تھے وہ باہر نکل کے گھر کے سامنے کھڑی ہو کر دیکھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر کو آگ لگ گئ اور وہ آگ سے جلتے اپنے گھر کو دیکھتی رہی ،دیکھتی رہی ،دیکھتی رہی آگ کی تپش اس کے اور اسکی امی کہ چہرے پر پڑھ رہی تھی ،،،بال لٹوں کی صورت چہرے پر چپک رہے تھے،،،،وہ خوشی سے اپنی امی کے گلے لگی کہ ہم نے بچا لیا
امی ہم نے بچا لیا
خود کو بھی گھر کو بھی
امی ہم ۔۔۔۔۔
جھکٹے سے اسکی آنکھ کھلی
"امی ہم نہ بچا سکے " زمینی بستر پہ  وہ اٹھ بیٹھی ،،سر کو ہاتھوں پہ گراے وہ سرگوشی میں بولی
جب سے اسکا گھر جلا تھا وہ اسی طرح کہ خواب دیکھتی تھی جس میں یا تو وہ بھی ساتھ جل جاتی یا کبھی اپنے گھر کو بچا لیتی۔۔۔اسی بارے میں سوچتے ہوے سوتی تھی اور اسی بارے میں خواب دیکھ کر جاگ جاتی۔۔۔یہ اسکا ہر مہینہ دو مہینے کے بعد کا معمول تھا
اب بھی وہ اٹھ کھڑی ہوی اپنا زمینی بستر  تہ کیا اور ہاتھ منہ رھو کے شیشے کے سامنے اپنے کندھے سے ذرا نیچے کو آتے بالوں کی چٹیا بنانے لگی
اس کی پسندیدہ فیری ٹیل رپینزل تھی،،،اور اب اسکو لگتا تھا کہ لمبے بالوں کو چھوڑ کر اس کے پاس بھی رپینزل کی طرح کی زندگی تھی وہ سوتیلی ماں کی وجہ سے مینار میں قید تھی اور وہ اپنی ہی وجہ سے اس ملازموں کی زندگی میں۔۔۔
یہی سوچتے سوچتے وہ آہستہ آہستہ اپنے بالوں کو باندھ رہی تھی،وہ جانتی تھی اب اسکو آواز دے کر بلائیں گے تو وہ رات کو ہی شیشے کے سامنے آسکے گی اور اپنے بالوں سے کھیل پاے گی
پیچھے سے اپنے نام کی آواز سن کر بھی اس کے چٹیا باندھتے ہاتھوں میں تیزی نا آی اور وہ اپنے صدا سے وہیں تک بڑھے ہوے بالوں کو حسرت سے  دیکھتی رہی چٹیا کا آخری بل دے کر اسے پیچھے کمر پہ گرنے دیا
اس کے بال بڑھتے ہی نہیں تھے جتنا کھانا پینا اور خوراک اسکی بنیادی ضرورت تھی اسے اس ملازمت میں اس سے بھی کم ملتا تھا کیونکہ وہ اسکی ماں کہ علاج کہ پیسے دے رہے تھے پلٹ کر دوپٹہ اٹھایا ترچھا کر کے داہنے کندھے سے باہنے پہلو پہ باندھ کے اس نے کمرے سے قدم باہر نکالے اور چلی گئ۔
_____________
ہاں یاد آیا ثناء آج مسز فاروقی کی بیٹی اپنا شادی کا جوڑا اٹھانے آے گی اس کو تم خود ڈیل کرنا ورکرز سہی سے اسکو رسپانڈ نہیں کرتیں ،وہ ہماری ریگولر کسٹمر ہیں ،،خیال رکھا کرو "۔حلیمہ احمد اپنی بیٹی کو ناشتے کی ٹیبل پر آج بوتیک میں آنے والی مہمان کا بتا رہی تھیں اور وہ خود کانٹے سے تیز تیز آملیٹ توڑ کر کھاتی رہیں ،،،انہیں کسی بزنس گیدرنگ میں پہنچنا  تھا ،،یوں سمجھ لیں کہ یہ بھی ان کی جاب کا ہی حصہ تھا۔
"ہاں ثناء میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ گارڈ کو چھٹی دے دوں"
ہر بات پہ سر ہلاتی ثناء نے سر اٹھا کر دیکھا "کیوں ممی؟"
"میرا گبرو جوان خوبصورت اور ہر طرح سے جاب لیس بیٹا ہے ناں،اس کی بھی کچھ مدد ہو جاے گی" آخر میں کرسی کھینچ کر بیٹھ چکے تقی کو تپی ہوی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا
"رہنے دیں ممی، کیوں آپ کسی غریب کی روزی پہ ہاتھ ڈالنا چاہتی ہیں،،سب جانتا ہوں آپ کو،،، اپنا پیسہ بچانے کیلیے مجھے جاب کا کہ رہی ہیں اور اندر ہی اندر آپ پلان بنا چکی ہیں کہ ہر دفع کی طرح تقی کو جاب لیس ہونے کا طعنہ مار کے اسے پیسے نہیں دوں گی۔۔ اور یوں آپ کریں گی ایک تیر سے دو شکار" سکون سے کندھے اچکاے
"ہر دفع بہت ڈھٹای سے ماں کو کنجوس کہ دیتے ہو اور سوچتے ہو کہ ماں اس بار میری ڈھٹای سے تنگ آکر مجھ پر مہربان ہو جاے گی تو یہ تمہاری بھول ہے مسٹر تقی، بیس سال کہ بعد اپنے پڑھے لکھے جوان بیٹے کو پیسے نہ دینے کا حق ہے مجھے تا کہ وہ اپنی ضروریات کی لیے ہی سہی  مگر جاب تو ڈھونڈے اور تم بیس سال سے اوپر کہ پانچ سال لگا چکے ہو" کھانا ختم کر کے وہ سکون سے اسکی طرف متوجہ تھیں
"پلیز ممی اب یہ یہ مت کہیے گا کہ یہی حالات رہے تو کوی اپنی بیٹی نہیں دے گا، فلاں فلاں ،یہ سارے لیکچرز حفظ ہو چکے ہیں  مجھے" سر جھٹک کر وہ ناشتے کی طرف متوجہ ہوا
"نہیں میرے بیٹے یہ باتیں آپکو پتہ ہیں اسی لیے آپ ہر وقت عبدلغنی صاحب کے حجرے میں گھسے بیکار کاموں میں لگے رہتے ہیں" وہ پرس بازو پہ لٹکا کر پلٹ گئیں
"بیکار کام نہیں جاب ہے وہ میری" وہ پیچھے سے چیخا کیونکہ وہ داخلی دروازہ عبور کر رہیں تھیں
"اور تم کیا ہر وقت ٹھونستی رہتی ہو یہ نہیں کہ بھای کی سائڈ ہی لے لوں تھوڑی سی" تقی ثناء کی پلیٹ سے آملیٹ کا آخری ٹکرا اٹھا کر کھا گیا جو اس نے مالِ غنیمت کی طرح آخر تک بچا کہ رکھا تھا
"حد ہے تقی  پوری پلیٹ پڑی ہے آملیٹ کی سامنے مگر تم نے میرا ہی کھانا کھانا ہوتا ہے۔۔۔" ثناء چڑ کہ بولی
"ہاں کیونکہ تم میری سائڈ نہیں لیتی ہو"
"لوں گی بھی نہیں مجھے ابھی تک اسائنمنٹ چوری نہ کر کے دینے کا دکھ ھے" من بسور کہ ثناء نے سامنے پڑی پلیٹیں سمیٹیں
"دیکھو میری بدتمیز اور مجھے تقی بھای نہ کہنے والی چھوٹی بہن میری جاب کہ کچھ اصول ہیں"
"رہنے دو تقی یہ اصول کسی اور کو سنانا میں سب جانتی ہوں تمہیں" وہ پلیٹیں اٹھا کہ کچن کی طرف مڑ گئ
"جاو جاو ممی کی چمچی سب جانتا ہوں میں بھی تمہیں ہر وقت بس معصوم بھای کہ پیچھے پڑی رہنا " وہ بلند آواز میں کہتا ناشتہ کرنے لگا
_________
آگئیں تم؟ گھاس پہ قدموں کی وجہ سے چرچراہٹ سن کے طہٰ سعید نے مڑ کر اسے دیکھا
"جی" وہ مختصر سا جواب دے کر بنچ پر بیٹھ کہ پاوں ہلانے لگی
سورج غروب ہو چکا تھا اور رات کے ساۓ پھیل رہے تھے
طہٰ نے معمول کے مطابق شاپر سوحا کی سائڈ پہ رکھا
"طہٰ بھای آج پھر میں نے ویسا خواب دیکھا ہے،،،" وہ سر جھکا کر پیر زمین پہ  رگڑ رہی تھی
ایسے خواب دیکھنے کے بعد مجھے امی اور یاد آتی ہیں" سر ہنوز جھکا تھا مگر پیروں کی جنبش رک گئ
"تو کیا سوچا ہے کب تک اور رکنا ہے؟" طہٰ نے اسے مڑ کر دیکھا
"جلد" پھر سے پیر رگڑنے لگی
"تم پریشان ہو"
"پوچھ رہے ہیں یا بتا رہے ہیں"سوحا نے رخ پھیر کر ایک نظر طہٰ کو دیکھا پھر شاپر سے سینڈوچ نکال کر کھانے لگی
"دیکھو سوحا میں جانتا ہوں تم پریشان ہو،،،مگر اس بات کو مت بھولو کہ تم یہاں سیکھنے آی ہو اور۔۔۔
"ہاں میں یہاں سیکھنے آی ہوں اور ہر طرح سے ان کو نوٹس کروں ،،مت بھولوں کہ بھت جلد میں ہر طرح سے آزاد ہو جاوں گی میرا بینک اکاونٹ پیسوں سے بھرا ہوا ہے۔۔۔بلا بلا ۔۔آپ کی ہر دفع کی کہی گئ باتیں مجھے اب یاد ہو چلی ہیں مگر میرے پاس آگے کا نا تو کوی منصوبہ ہے نا کچھ ہوتا مجھے نظر آرہا ہے،،،میں نے ایک انسان کو ناکو چنے جبوانے ہیں لیکن اسکا مجھے اتا پتی کچھ نہیں ہے"  بے زاری سے کہ کر سوحا نے گہرا سانس لیا اور پھر سے کھانے لگی
"تم یہاں اب خود رہ رہی ہو نکل آو ،،میرے خیال میں جتنا تم۔نے نوٹ کر لیا ہے اتنا کافی ہے۔۔۔ہمم؟" آخر میں تصدیق چاہی ۔
"دیکھا جاے تو میرا گھر تو یہی ہے نا ،،یہاں سے چھوڑ کر کدھر جاوں گی ؟ کراچی میں ابھی جانے کیلیے میں تیار نہیں ہوں" اداسی کے ساتھ بولتی سوحا سینڈوچ ختم کر چکی تھی
"تمہیں کتنی دفع کہا ہے میں نے،،،اکیڈمی میں رہ لینا وہاں کہ لوگ بہت اچھے ہیں اور جو آگے کا منصوبہ میں نے ترتیب دیا ہے،،اس منصوبے کے سارے جوان تمہیں وہیں ملیں گے،،،توڈن کرو اس مہینے کی پہ ملتے ہی بہانہ گھڑ لینا کوی بھی اور میرے ساتھ چل پڑنا۔۔۔میرے خیال میں اب منصوبہ پر عمل کرنا چاہیۓ ہمیں" طہٰ نے کھڑے ہوتے ہوے کہا
"اور آپ نے ابھی تک مجھے پلان نہ بتانے کی قسم نہیں توڑی؟"
"نہیں ،مگر  ابھی ہمارا پلان یہاں سے عزت اور گھر والوں کو مکمل اطمینان اور بھروسہ دلا کر رخصت ہونا ہے"
"جی،میں کر لوں گی،،،" اداسی سے کہتی سوحا بھی جانے کو اٹھ کھڑی ہوی
قیدی کے ملاقات کا وقت ختم ہوا چاہتا تھا وہ مڑ کہ قدم قدم چلنے لگی تو پیچھے سے آواز آی "میں تمہارے بالوں کہ بڑھ جانے کی دعا کرتا رہوں گا" وہ مسکرا کہ چلتی رہی اور پارک کا دروازہ عبور کر گئ،،،یہ سوحا اور طہٰ کی تقریباً پچھلے آٹھ مہینوں کی روٹین تھی ،،وہ کراچی سے سوحا سے ملنے پنڈی آتا تھا اور کچھ دیر کی ملاقات کے بعد یونہی خالی دل لیے چلا جاتا تھا۔
_____________
اسلام علیکم! اکیڈمی کی اوپری منزل پر بنے فلیٹ نما گھر کا داخلی دروازہ بند کر کہ  اس نے سلام کیا جس کا کوی جواب موصول نہ ہوا
"اسغفراللہّٰ کچھ دن غائب کیا رہا یہاں تو دنیا ہی کافر ہو گئ"کانوں کو ہاتھ لگاتا تقی ابیر کے ساتھ والے صوفے پر آبیٹھا
"ہم تو مسلمان ہیں ہی الحمداللہّٰ البتہ آپکی شاگردی میں شاید کوی کمی رہ گئ ہے" ابیر نوٹس بنا رہی تھی ،،ہاتھ مسلسل کاغذ پر قلم سے کچھ لکھ رہے تھے
"یعنی عدالت نے پھر مجھے یاد کیا ہے؟" ایک دم سیدھا ہو کر تقی مسکرایا
"جی بلکل اور ساتھ میں کچی نب والا قلم  بھی منگوا لیا ہے تا کہ سزا سناتے وقت زیادہ زور نہ دینا پڑے" سر اٹھا کر آنکھ دبای اور پھر لکھنے لگی
"کیا یار ،،،، غنی انکل تو اب میری ایک نہیں سنیں گے،،اف" تقی ڈھٹای سے مسکراتا سیٹی بجاتا دروازہ کھٹکھٹا کہ اندر آیا
"سلام انکل ،،کیسے ہیں آپ؟" مسکرا کی پورے دانتوں کی نمائش کی جیسے اپنے یاد کیے جانے کا مقصد پتہ ہو
"شدید غصے میں ہوں"
"کوی خاص وجہ ،،،جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنی جاب پر آپکی مقر کردہ حدود سے باہر کوی گستاخی نہیں کی" دوبارہ پھر مسکرایا اور بتیسی دکھای
"ہوں جانتا ہوں اکیڈمی کی حدود میں رہ کر تم نے کسی پر اپنا ہاتھ صاف نہیں کیا یہاں تک کہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا لیکن اکیڈمی کی حدود سے بہت دور تم نے عائشہ کے منگیتر کو اپنے لڑکوں سے پٹوایا کیا یہ درست ہے؟ آخر میں عبدلغنی کی آواز ہلکی سی کرخت ہوی
"دیکھیے غنی انکل میری جاب کہ کچھ اصول ۔۔۔۔
بہت دیکھ لیے تمہارے اصول پچھلی دفع ایک ہفتہ کہ لیے تمہارا داخلہ بند کیا تھا اب کی بار دس دن کیلیے بند ہے ،،،،"اس کی بات کاٹ کہ اپنا فیصلہ سنایا اور دوبارہ کتاب میں گم ہو گۓ جسے وہ تقی کہ آنے پر چھوڑ چکے تھے
"یعنی اس بار بھی آپ میری بات نہیں سنیں گے؟" شرمندگی کہیں نہیں تھی
"تمہیں ابھی بھی شک ہے؟ "عینک کے اوپر سے دیکھ کر اسے کہا
"ٹھیک ہے آپکی بھی اندر کی پلانگز جانتا ہوں میں ،،،یہاں آنا جانا بند کریں گے تا کہ ممی سے گھر میں زلیل ہوں اور یہاں کی قدر آے اور میں مکمل ایمانداری سے کام کرو ،،بہت بہتر" آخر میں سر کو تعظیماً خم دے کر باہر نکل آیا
"ہاں تو برخودار کتنے دن کیلیے بے دخل ہوے ہو" طہٰ  ابھی ابھی آیا تھا شاید اور ابیر سے اسی کی کہانی سن رہا تھا جب وہ آتا دکھای دیا
"پورے دس دن" دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کہ دکھائیں
"گڈ یعنی اگلے مہینے کی یکم سے آو گے،،اچھا ہے تب تک تمہارا نیا پروجیکٹ آجائیگا" طہٰ نے ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور جگ کا پانی اس میں انڈیلنے لگا
"چونکہ میں دس دن تک جاب لیس اور یہاں سے بے دخل رہوں گا جس کہ نتیجے میں مجھے اور بھی کوی چھوٹا موٹا دھندا نہیں ملے گا اور یہاں آنے تک اپنی ساری سیونگز اڑا چکا ہوں گا تو نیا پراجیکٹ لانے والے سے کہیے گا میں اس سے  بھاری مزدوری وصول کروں گا"ہاتھوں کو ہلا کر سنجیدگی سے اپنی تقریر جھاڑی اور اسکی تقریر سن کہ طہٰ کا پانی سے بھرا ہوا گلاس بے اختیار  ہی اسکی طرف اٹھا تو وہ جھٹ سے سائڈ پر ہوا جس کہ نتیجہ میں پانی نوٹس بناتی ابیر کے کاغذوں پر گر گیا
ابیر نے صدمے کی کیفیت سے پہلے کاغذوں کو اور پھر ان دونوں کو دیکھا تو وہاں سے تقی صاحب غائب تھے جس کا مطلب تھا کہ طہٰ کو اکیلے ہرجانہ پورا کرنا تھا
_______________
کل شام تم سے ملنے پھر تمہارا بھای آیا تھا کیا کہ رہا تھا؟ اگلے روز سوحا ناشتہ کہ برتن دھو رہی تھی جب اسکی مالکن نے اس سے پوچھا
"کچھ خاص نہیں بس وہ امی کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے  تو میرے گھر والے میری شادی کا سوچ رہے ہیں ،،اسی سلسلے میں کہنے آے تھے"
ہوں تو پھر شادی کہ بعد کام کرو گی یا تمہیں چھٹی چاہیے ؟ مالکن نخوت سے بولی
"نہیں باجی چھٹی ہی چاہیے اس مہینے بس مجھے فارغ کر دیں" سوحا آخری برتن اسٹینڈ میں لگا کر دوبٹہ سے ہاتھ صاف کرنے لگی
"یہ اچھی کہی بھئ تم نے دس دن پہلے سے بتا رہی ہو کہ فارغ کر دیں اپنی جگہ کوی مجھے دے کہ بھی جاو ،،،دس دن میں میں کہاں ڈھونڈوں گی"
"مجھے تو باجی یہاں کسی کا نہیں پتہ میں تو خود لاہور کہ چھوٹے سے گاوں سے ہوں" سوحا منمنای
"یہ صحیح ہے ' اچھا چلو کرتے ہیں کہکچھ انتظام تمہارا بھی فل حال یہ دس دن تو نکالو" ہاتھ جھاڑتی مالکن وہاں سے چلی گئ اور سوحا بے بس وہیں کھڑی رہیں
انہیں دس دن کیلیے یہیں چھوڑ کر کراچی کہ اس علاقے میں چلتے ہیں جہاں سے تقی ابھی ابھی اپنی بے دخلی کی سزا سن کہ نکلا تھا
"کدھر ہے علی؟ ۔۔ایک کام کر جلدی گھر پہنچ آج پھپھو کہ ساتھ ایک چاے ہو جاے۔۔۔او نہیں یار غنی انکل نے اس بار دس دنوں کی عمر قید دی ہے۔۔ہاں چل سہی ملتےہیں" علی کو گھر بلا کہ تقی اپنی بائک گھر کی طرف لے گیا گھر پہ اس وقت کوی نہیں تھا جانتا تھا کہ ثناء بوتیک میں ہو گی اور ممی کسی گیدرنگ میں علی کہ پہنچتے ہی دونوں گاڑی میں ایک بڑے سے گھر کے سامنے کھڑے تھے علی گاڑی میں ہی رہا جب کہ تقی گھر کی گھنٹی بجاتا رہا ملازمہ نے دروازاہ کھولا اور تقی اندر ۔۔۔
"اسلام علیکم پھپھو ،،کیسی ہیں آپ کیا ہے نا آپ کی یاد اتنی ستای کہ بس رہا نہیں گیا" جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے تقی قدم قدم چلتا انکے ساتھ والے صوفے پر بیٹھا اور ہاتھ صوفے کی پشت پہ پھیلا لیے
"تقی تم بعض نہیں آو گے ،،تمہارا یہاں آنا ہر دفع بے کار ہوتا ہے پھر بھی آجاتے ہو ،،تمہاری کوی سیلف ریسپیکٹ ہے بھی کہ نہیں؟"پھپھو اس کہ سامنے کھڑی ہو کر تنبیہ کرنے لگیں
"اور اگر یہی سوال میں آپ سے پوچھوں تو ؟؟آپ کہ اندر کوی سیلف ریسپیکٹ ہے کہ نہیں؟ کیوں اپنے سے آدھی عمر کی خوبصورت لڑکے سے بے عزتی کرواتے ہیں آپ لوگ۔۔اپنا کیس واپس لے کر سیدھے طریقے سے مجھے میرے باپ کی جائداد کا حصہ دیں ورنا آپ تو صرف کیس کر سکتی ہیں جبکہ میں بہت کچھ کر سکتا ہوں"" سکون سے لفظ لفظ کہتا کھڑا ہوا وہ سامنے سے آتی شزا کو دیکھ چکا تھا
"کیا کر سکتے ہو تم۔۔کورٹ کچہری کہ دو چکروں کی مار ہے یہ کیس اور یہ جس حصے کی تم بات کر رہے ہو نا یہ میرا ہے میرے باپ کا ہے تم اور تمہاری ماں کا اس میں ایک دھیلا نہیں ہے۔۔۔اور آخری بار ،آخری بار کہ رپی ہوں مجھے دھمکیاں مت دیا کرو" نعیمہ پھپھو سخت طیش میں آییں
"ناں! مای ڈیر پھپھو دھمکی کس نے دی۔۔ میں تو کچھ دن پہلے فلم کا ٹریلر لانچ کر چکا ہوں" اطمینان سے کہ کر کندھے اچکاے اور مڑ گیا"خیر میں تو چاے پینے آیا تھا ،،اوہ شزا کیسی ہو تم؟ ایک دم سے شزا کی جانب مڑا جیسے اسے ابھی دیکھا ہو
"تقی کیوں اذیت دے رہے ہو مجھے مان لو بابا کی بات ۔۔۔میں تم سے بہت  محبت۔۔
"ایک منٹ۔۔پھپھو چیخیں "فائز کی ہاتھا پای کی بات کر رہے ہو تم" پھپھو بے یقینی  سے انکھیں پھاڑ کہ قریب آییں
"آں ہاں ،، اسے ہاتھا پای نہیں دھلای کہتے ہیں  بٹ ہاں ناٹ بیڈ  آپ نے ٹپورے دو منٹ بیس سیکنڈ لیے ہیں سمجھنے کیلے۔۔۔تو سنیے پھپھو وہ دھلای میں نے ہی کروای تھی الحمداللہّٰ"۔۔۔پھپھو ابھی تک بے یقین تھیں اور شزا آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھی
"پھپھو دس دن،،،صرف دس دن ہیں آپ کہ پاس اس کہ اندر اندر میں اپکو اپنا حصہ لے کہ دکھاوں گا" ہاتھ کو ماتھے تک لیجا کہ سلام کیا اور باہر نکل گیا اور پیچھے سے شزا تقی تقی کرتی رہ گئ
_______
"تقی تم پھر آج نعیمہ کے پاس گۓ تھے؟" ممی گھر آتے ہی اس پر برس پڑیں
"کون نعیمہ ؟ موبائل میں گھسے تقی نے محض اتنا ہی جواب دیا
"تمہارے مرحوم باپ کی بہن"
" میرے مرحوم باپ کی اکلوتی اور حد سے زیادہ چالاک بہن جس پہ مجھے شک ہے کہ اسی نے ہی بابا کو مروایا  ہے اور وہ رشتے میں اپکی نند شریف لگتیں ہیں شاید اسی کی بات کر رہی ہیں آپ ؟؟ اطمینان سے کہنے کہ بعد وہی ڈھیٹوں والی مسکراہٹ
"استغفراللہّٰ تقی کبھی کبھی میرا دل چاہتا تمہیں گھر سے ہی نکال دوں پھر جا کہ رہنا اپنی پھپھی کے پاس بہت شوق ہے نا وہاں جانے کا تمہیں"حلیمہ نے افسوس سے اسے دیکھا
"ابھی مت نکالیے گا ممی کیونکہ موصوف دس دنوں کیلیے جاب سے بھی نکال دیے گۓ ہیں" ثناء نے اپنی ٹانگ اڑانا ضروری سمجھا
"کیا تم چپ نہیں کر سکتیں ؟" تقی نے اسے گھورا
"اور کیا تم اپنی پھپھو کو تنگ کرنا نہیں چھوڑ سکتے کیوں فضول میں پیچھے پڑے ہو اس چیز کہ جس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ۔۔بڑا کرم ہے اس پاک ذات کا  اچھے بھلے حالات ہیں ہمارے عیش و آرام میں رہ رہے ہیں ہم۔۔" جواب حلیمہ کی طرف سے آیا تھا
"ممی ضرورت ہمیں نہیں  ہے تو انہیں بھی نہیں ہے۔۔۔اگر اس وقت پھپھو کہ حالات خراب ہوتے  تو چھوڑ دیتا میں یہ چکر ،،مگر میری پیاری ماں" تقی نے ساتھ بیٹھی ماں کہ دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے"بات یہاں ہمارے حق کی ہے اگر ہم پڑھ لکھ کر بھی ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے تو اس سے بڑے ظالم ہم خود ہوتے ہیں ۔۔۔آپ جانتی ہیں۔۔اور وعدہ ہے میرا اس پیسے سے ایک روپیہ ہم اپنے پاس نہیں رکھیں گے غریبوں اور ضرورت مندوں کو دیں گے،، وعدہ" آخر میں مسکرا کہ تسلی دی
"تقی بیٹا وہ کورٹ کچہری کہ چکروں میں پڑھ کہ تم کو زلیل کروا دے گی۔۔۔میں بس تمہارا بھلا چاہتی ہوں"
"ممی ٹرسٹ می اس دس دن کہ ٹارگٹ کو پورا کر لینے دیں ان شاہ اللہّٰ ،،اللہّٰ ہمارے ساتھ ہے۔۔فکر نا کریں"
"بس بھی کرو بھئ سینٹی ڈراموں سے مجھے سخت چڑ ہے " ثناء ان کی گفتگو سے بور ہو رہی تھی اسی لیے ٹوک دیا
"تقی غنی صاحب نے پھر تمہیں نکال دیا"حلیمہ کو ایک دم ہی یاد آیا
"ہاں نہیں وہ ممی۔۔سنیں"تقی کہ پاس کوی بہانہ نہیں تھا
"ممی انکل کی بات تو ایسے مانتا ہے جیسے کوی رن مرید سسر کی مانتا ہو ،،سر جھکا کہ بس جی حضوری کرتا ہے یہ تقی انکی" ثناء نے کہتے ساتھ ہی اپنے بچاو کہ لیے کشن اٹھایا اور تقی کہ پاس بھی کوی جواب نہ تھا تو دوسرا کشن اٹھا کہ وہ پیچھے پیچھے اور ثناء اس کہ آگے آگے
_________
رات لمحہ بہ لمحہ گہری سے گہری ہوتی جا رہی تھی اور اس گھر کے داییں جانب درخت کے ساے تلے کوی سیاہ چغہ پہنے کسی کا منتظر تھا
دفعتاً گھر کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکل کہ سنبھل سنبھل کہ چلنے لگا
سیاہ چغہ پوش بھی کچھ فاصلے پر اس کہ پیچھے ہوا نوجوان پیدل ہی دور ایک چھوٹے علاقے کی طرف بڑھ رہا تھا پارک کہ نزدیک وہ نوجوان کسی سے کوی چیز پکڑ کہ واپس چلنے لگا
تقی فائز کو دیکھ چکا تھا ،اس کا شک صحیح تھا ،،اس کا کزن نشے کی لت میں پڑ رہا ہے۔۔
"گڈ" چغہ کے ہڈ سے وہ مسکریا
فائز واپسی کیلیے مڑا تو تقی درخت کی اوٹ میں ہو گیا
فائز نے جس سے سامان لیا تھا وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا پھر کچھ اور لوگ آے اور انہیں بھی اس نے کچھ دیا اور ادھر دیکھ کہ چل پڑا ،تقی اس کہ پیچھے ہوا ،،دیکھتے دیکھتے وہ ایک گلی میں مڑنے لگا تو تقی نے آواز نکالی
"سنو" وہ شخص پھرتی سے پلٹا
"کیا مجھے بھی کچھ پر سکون مواد مل سکتا ہے؟
"کون ہو تم ہاں اور یہاں کیسے آے؟ وہ شخص تیزی سے تقی کا گریبان پکڑ کہ بولنے لگا
"مجھے کسی نے بتایا ہے!"
"کس نے؟ہاں ؟کس نے بتایا ہے تمہیں؟
"فائز نے" اس شخص نے تقی کا گریبان جھٹ سے چھوڑ دیا
"کتنا چاہیے؟"
"اتنا کہ ایک مہینہ یہاں نا آنا پڑے ،،میں نہیں چاہتا میری بیوی کو شک ہو" تقی مسکینیت طاری کرتے ہوے بولا
ہوں ،،کل مل جایگا اور پیسے  بھی اتنے ہی لے کر آنا کہ مجھے مہینہ پیسوں کہ بارے میں سوچنا نہ پڑے جاو اب"ہاتھ سے جانے کا اشارہ کر کہ آگے گلی میں مڑ گیا اور تقی پیچھے اپنے بناے بہانے پرخود ہی ہنس رہا تھا۔
______
"یہ لو ثناء آج صابرہ نے اتنا لذیذ انڈا بنایا ہے اف،،، کھاو مزہ آجایگا تمہیں"تقی ناشتے کی ٹیبل پہ اسے انڈے کی آفر کر رہا تھا
"کوی نئ بات نہیں ہے تقی ،،جب جب تمہیں کوی کام ہوتا ہے تب تب صابرہ کچھ نہ کچھ لذیذ بناتی ہے "ثناء بھی کہاں باز رہنے والی تھی
"ہاں بے شک یہ ایک حسین اتفاق ہے"وہی تقی کی ڈھیٹ مسکراہٹ
"تقی کب سدھرو گے،،مجھے دیکھ کہ ہی کچھ شرم کر لو چھوٹی ہوں تم سے اور جاب کر رہی ہوں پیسے کما رہی ہوں انڈیپینڈنٹ ہوں"
"ہوں اود یہ بھی ایک حسین اتفاق ہے کہ جب جب مجھے تمہاری فیور چاہیے ہوتی ہے تب تب مجھے تمہاری ساری فضولیات سننا پرتی ہیں"سر جھٹک کہ تقی نے خاموشی اختیار کی کیونکہ سامنے سے حلیمہ آرہی تھیں
"اسلام علیکم بچوں ! امیں ہے آپ کو دس دن والی ڈیڈ لائن کا یاد ہوگا جس کا ایک دن آپ کل ضائع کر چکے ہیں " حلیمہ نے تقی کو دیکھتے ہی اسے یاد دلایا
"ہاں اور جس کہ بعد آپ غنی انکل کا حجرہ چھوڑ کر ایک اچھے بچے والی نوکری کریں گے ،،پھر ہم آپ کیلیے لڑکی ڈونڈیں گے جگہ جگہ جاییں گے، چاے پئیں گے ،،لڑکی میں نقص نکالیں گے ،،،آپ کی جھوٹی اور کبھی نا پاے جانے والی خصوصیات کہ قصیدے پڑیں گے ۔۔واو "ثنا انگلیون پہ اپنے کام گنتی اینڈ میں ایکساٹمنت کے ساتھ بولی
"،شیخ چلی اور اسکے انڈے"تقی نے منہ بنا کہ طنز کیا
"ثناء کو چھوڑو، اور مدعے پہ آو ،،،"حلیمہ نے دونوں کو اگنور کیا
"ہاں ممی ،،اس کہ بعد چھوڑ دوں گا یہ کام" تقی نے اس بار ایمانداری سے کہا تھا ،،کیونکہ وہ بھی اب تنگ آگیا تھا لوگوں کہ اکاونٹس حیک کر کر کہ،،لوگوں کیلیے جاسوسی کر کہ۔۔وہ اب واقعی اچھے شہری کی طرح ایک اچھی جاب اور ارینج میرج چاہتا تھا،،لیکن اس کو کیا پتہ تھا کہ اس کہ سارے منصوبے پانی کی زد میں آجائیں گے
کیرنگ انگلیوں پہ گھماتا تقی باہر نکل گیا آج اسے ساری منصوبہ بندی کرنی تھی
__________
اگلے روز رات کہ اسی پہر وہ علی کہ ساتھ وہاں آیا تھا اور فائز سے پہلے ہی اپنا سامان لے کر نکل گیا ،،،اور ظاہر ہے اس کہ پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے اسی لیے اسے ثناء کو بھی یہ بات بتانی پڑی جس کا کوی بھروسہ نہیں تھا کہ وہ ممی کہ سامنے کسی بھی وقت نیوز بریک کر دے اور ممی اسکا گھر سے آنا جانا بند کر دیں اسی مصلحت کے تحت وہ علی کے گھر تھا
صبح ہوتے ہی دونوں اس کہ پھوپھا کے سارے اکاونٹس ہیک کیے کہ کوی چابی ہاتھ لگ جاۓ ،،،تب ہی تقی نے اپنے پھپھا اور دوسرے کسی فیکٹری کی مالک کی چیٹ پڑی
اسی وقت اس بندے کا اکاونٹ ہیک کیا جو کرنا ہر گز آسان نہیں تھا سو انکو شام ہو گئ اور اس وقت تو وہ اسکو میل نہیں کر سکتے تھے اسی لیے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔۔۔
تقی کو اپنا تیسرا دن بھی چلے جانے کا افسوس تھا لیکن اس بات کی طمانیت بھی تھی کہ کم۔ازکم اکاونٹ ہیک ہو گیا اس طرح وہ آسانی سے کل ان کو ای-میل کر سکتا تھا
______
صبح ہوتے ہی اسے ای۔ میل کرنے کی جلدی تھی اسی لیے عامر کاظمی کے لیپ ٹاپ کا ای میں جام۔کر کے فائز کو ای میل کی
اسلام علیکم فائز
امید ہے خیریت سے ہوگے ،میں جانتا ہوں کہ آنے والے ہفتے میں آپ کہ والد صاحب کی سالگرہ ہے اور وہ میری فیکٹری کہ شیرز لینے میں بھی کافی دلچسپی لے رہے ہیں ،،،چونکہ ہماری دوستی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے تو کیوں نا انکا دوست اور انکا لختِ جگر انہیں اس فیکٹری کی کنفرم ڈیلینگ کا تحفہ دیں۔
میں چاہتا ہوں یہ کام مکمل رازداری کہ ساتھ کیا جاے تا کہ سالگرہ کا تحفہ دینے کا لطف آے
عمر کاظمی
ای میل لکھ کہ سینڈ کی اور پھر سارا دن اسکہ جواب کا انتظار کیا،،اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ انتظار ہمیشہ جان لیوا ہوتا ہے چاہے محبوبہ کا ہو یا محبوب چیز کا۔
ان دنوں وہ ثناء اور ممی سے چھپ چھپا کہ زیادہ وقت علی کہ پاس ہوتا تھا تا کہ وہ کچھ کہ نا سکیں
شام کہ کسی پہر میں ای میل کا جواب آیا تھا جس میں فائز نے اس آفر میں کافی دلچسپی لی تھی
تقی نے اسکو کل کی فلائٹ سے دبئ بلوایا تھا جس پر وہ مکمل طور پہ رضا مند تھا
"کتنا بے وقوف ہے یہ ،،اسکو یہ ہی نہیں پتا کہ اسکا باپ پیپر ورک کے ذریعے شیرز لے چکا ہے"علی نے اسکی بے وقوفی پہ ماتم کیا
"اچھا ہے نا ہمارا کام آسان کر رہا ہے"
___________
اگلے روز  یعنی تقی کی ڈیڈلائن کے پانچویں دن ،فائز کی شام کی فلائٹ تھی  فائز اپنا بیگ سنبھالے بورڈنگ کیلیے جا رہا تھا جب اس کا کسی سے ٹکراو ہوا
علی نے مہارت سے اسکا اور اپنا بیگ آپس میں چینج کیا جو دونوں سیاہ تھے بس تھوڑا ہی فرق تھا اور اس سے دور کھڑا ہو گیا لائن میں پیچھے ہو کر اور آنکھ کہ اشارے سے ایک اہلکار کو کچھ کہا اور تھوڑی ہی دیر میں فائز اسمگلنگ کہ جرم میں ائیر پورٹ کہ کمرے میں بیٹھا اپنی صفائیاں دے رہا تھا ۔۔۔اور پیچھے اس کہ گھر میں اس کہ گھر والے اس کی پریشانی میں نہال ایر پورٹ کو نکلے اس بات کو بھلاے کہ کوی ان کے جانے کہ انتظار میں ہے جیسے ہی وہ لوگ باہر نکلے تقی پیچھے سے اندر گیا کمروں میں گھسا اور جلدی جلدی فائل ڈھونڈنے لگا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اگر ائیر پورٹ والا زیادہ پیسوں میں پگھل گیا تو وہ لوگ جلدی بھی آسکتے ہیں اسی لیے بس اندھا دھن فائل ڈھونڈتا رہا۔
ایک سیف کہ پیچھے لاکر میں اسے وہ فائل مل گئ تھی اگرچہ اس پر لاک تھا لیکن کراچی کہ جانے مانے ہیکر کہ لیے یہ بچوں کا کھیل تھا۔۔
اس نے جاتے جاتے کسی بھی چیز کو سیٹ کرنے کی زہمت نہیں کی تھی باہر گاڑی میں علی اسکا منتظر تھا
"کسی کو شک تو نہیں ہوا"تقی نے بیٹھتے ہی پوچھا
نہیں، عمر سنبھال لے گا تو یہ بتا تمہیں کورٹ کا نوٹس کب تک آنا تھا؟ علی نے گاڑی دوڑاتے ہوے پوچھا
"پرسوں تک شاید"
" تو کیا وہ کل تک واپس لے لیں گے کیس" علی پریشان ہوا
"ان کے تو ابا جی بھی لیں گے واپس" گاڑی تیزی سے وہاں سے نکل گئ
_____
وہ واپس گھر آیا تو ثناء جاگ رہی تھی
"مسٹر تقی ،،یہ وقت ہے گھر آنے کا؟" پہلوں پی بازو ٹکاے ثناء سخت تیوریوں سے اسے گھور رہی تھی
"واہ کیڑی کہ بھی پر نکل آے ہیں" ایک آئ برو اٹھا کہ سکون سے کہ کر وہ صوفے پی پھیل کہ بیٹھ گیا
"اب یہاں کیوں بیٹھے ہو ، جاو اور سو جاو" وہ پھر غصے سے بولی
تقی نے پلٹ کے صوفے کی آڑ سے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا پھر دوبارہ سے موبائل کھول کہ بیٹھ گیا
مجھے ابھی پھپھو کی کال آنے والی ہے ۔۔۔ٹھیٹر دیکھنا ہے تو چپ چاپ آکر بیٹھ جاو ورنہ اپنے روم کا راستہ تم جانتی ہو
"ایییں" ثناء منہ بناتی اس کہ ساتھ آبیٹھی
اور یہاں سے دور اس بنگلے میں فائز اپنے گھر والوں کے سوالوں کی جواب دے رہا تھا جس پہ اس کہ والد کو ایک فیصد یقین نہیں تھا
"بابا میرا یقین کریں عمر کاظمی نے خود بلایا تھا مجھے"
"خاموش ،ایک دم چپ کرو تم ،،عمر کے ساتھ خود میری پیپر ورک کہ ذریعے اس فیکٹری کی ڈیلینگ ہو گئ ہے تمہیں اپنے نشے سے فرصت ملے تو پتہ چلے کہ گھر اور آفس میں کیا چل رہا ہے ،،ایڈیٹ۔۔۔۔پھپھا سخت غصے میں تھے اور پھپھو اپنے بیٹے کہ پاس بیٹھیں بار بار اس کی صفائیاں دے رہی تھیں،،،شزا اس سارے میلو ڈرامے سے تنگ آکر اوپر گئ اس کا روم ماسٹر بیڈروم سے گزر کے آتا تھا۔۔ماسٹر بیڈروم کا دروازہ کھلا دیکھ کہ اس نے ڈر کہ بابا کو آواز دی
"بابا ،ماما آپ کہ روم کا دروازہ کھلا ہے اور اندر سارا سامان بکھرا پڑا ہے" وہ ریلنگ سے جھانکتی ہکابکا سی بول رہی تھی
"ڈیم اٹ ،مجھے لگ رہا تھا یہ تمہارے بھتیجے کی کاروائ ہے"وہ چیختے ہوے اوپر بھاگے
کمرے کا حال ایک الگ ہی کہانی پیش کر رہا تھا
"فون ملاو اسے اور پوچھو کیا چاہتا ہے وہ" پھپھا دھاڑے
اور اس بیلوں سے ڈھکے گھر کہ صوفے پر بیٹھے تقی نے فون آتے دیکھ کر فاتحانہ نظروں سے ثناء کو دیکھا
"ہیلو' جی کون ؟ تقی انجان بنا
"تقی ،،کیا طریقہ ہے یہ؟
اوہ پھپھو کیسی ہیں آپ؟ "وہی ڈھیٹ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا گیا
پھپھو نے غم و غصے سے اس کو ڈانٹا تو پھپھا نے ان سے موبائل کھینچا
"بچے کیا چاہتے ہو تم؟ "
"یہ کی نا پھپھا آپ نے مردوں والی بات ،،اور میں کیا چاہتا ہوں وہ آپ جانتے ہیں" ثناء لاوڈ اسپیکر سے ساری بات سن کہ مسکرا رہی تھی
"ہاں ٹھیک ہے تم فائل کو بحفاظت رکھو ہم کیس واپس لے کر تمہیں تمہارا حصہ دے دیں گے،خدا حافظ"
جھٹ سے کہ کر فون بند،،،
یہ کیا کیا آپ نے آپ جانتے ہیں وہ جو چیز مانگ رہا ہے ،،،وہ چیز کتنی عزیز ہے ہمیں،،آج ہمارا سارا جاہ و جلال اسی کی وجہ سے ہے"
"اس قسم کی اولاد کیلیے میں وہ سب کر رہا تھا۔۔۔ساری جائداد اور دولت بنا رہا تھا کہ میرا بیٹا میرے نقشِ قدم پر چلے گا لیکن تف ہے ایسی اولاد پر اور تمہارے بھتیجے کے باپ کو فخر ہوگا اس پہ ۔۔۔اسکی عقلمندی پر اور وہ اپنے باپ کی ہرچیز کا حقدار ہے۔۔اور جہاں تک بات رہی اس فیکٹری کی جس کہ کاغذات اس کہ پاس ہیں تو میرے اور تمہارے بڑھاپے کو  کافی ہے۔۔۔شزا کی شادی ہو جائگی اور یہ بدبخت سوچ لے اپنا۔۔۔ایک ہی لمحے میں پھپھا سارے فیصلے کر کے چلے گۓ تھے پھپھو اور انکی پریشان اولاد بس یونہی دیکھتی رہ گئ
اور وہاں تقی اور ثناء خوشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر ایک دم ثناء اچھل اچھل کہ چیخنے لگی
تقی نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو "دماغ ہل گیا ہے"
تقی کیا تم خوش نہیں ہو رہے؟ وہ حیران ہوی
"نہیں کیونکہ مجھے دکھ ہے کہ یہ کام میں بہت پہلے کر سکتا تھا ایویں دیر کر دی"وہ سر جھٹکتا افسوس سے کہتا سیڑھیاں چڑھ گیا اور اوپر سے دیکھتی حلیمہ نے بھی سرد آہ بھر کہ دروازہ بند کیا۔۔۔
________________________
اگلے دن کی آغاز میں جہاں تقی کو پھپھا نے وکیل کے ساتھ ملاقات کیلیے بلایا تھا وہیں فیصل آباد کہ اس علاقے میں سوحا طہٰ کے ساتھ باہر نکل رہی تھی
"تم تھک تو نہیں جاو گی گاڑی تھوڑا سا آگے ہے " طہٰ نے اسکا بیگ اٹھا کرچلتے ہوے کہا
"مجھ سے پوچھ رہے ہیں جس کو مدت ہو گئ تھکن محسوس کیے" وہ سر جھٹک کہ ہنس دی
اس علاقے سے نکل کہ کچھ دود وہ ایک مال کے چینجنگ روم سے باہر نکل رہی تھی جینز ٹی شرٹ اور گلے میں اسکارف آنکھوں پہ چشمہ اسکا حلیہ بلکل بدلا ہوا تھا اور سیاہ بال کھلے تھے
گاڑی ایک ریسٹورانٹ کہ باہر رکی ۔۔اور وہ دونوں ایک ریزروڈ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے
"آو میاں خوب انتظار کروایا تم نے "وہ طہٰ سے مخاطب ہوے
"اسلام علیکم!" سوحا منمنای
"وعلیکم اسلام! جیتی رہو"
"طہٰ بھائ بہت تعریف کرتے ہیں اپکی"
"شکریہ"عبدالغنی نے طہٰ کو دیکھتے ہوے کہا
"کہو بچے کیا ہوا تمہارے ساتھ",
سوحا نے پہلے طہٰ کو دیکھا پھر آہستہ سے بولنا شروع کیا تین سال پہلے کی بات ہے جب میں اپنے کالج کے فیرویل سے واپس آی تھی تو میرا گھر آگ کی لپیٹ میں تھا،،،لوگ وہاں کھڑے پانی مار رہے تھے جو یقیناً فائر بریگیڈ کے تھے میں نے چیخیں مارنا شروع کی تو مجھے میری محلے کی آنٹی نے بتایا کہ پہلے کچھ لوگ آے اور گھر کا دروازہ بجایا میری ماں باہر آیں تو ان پہ تیزاب پھینک کہ چلے گۓ جب اماں ابا ہسپتال گۓ تو گھر کو آگ لگا دی میں اپنے چچا زاد بھای کہ ساتھ ہسپتال میں گئ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں کس بات پہ دکھ مناوں ،،،ہسپتال میں امی کی چیخیں اس قدر دلخراش تھیں کہ مجھے لگتا تھا میرا دل پھٹ جائیگا،،،،، ابو گھر کو دیکھنے گۓ تھے جب مالک مکان نے ابو پر انکا گھر جلانے کا مقدمہ کر کے اندر کروا دیا۔۔وہ دن اور آج کا دن ابو جیل میں ہیں اور امی"سوحا نے باہر نکلتے آنسووں کو پیا
"امی اسٹیبل ہو گئ تھیں اور ہسپتال میں کبھی میرے ساتھ کوی ہوتا تھا کبھی کوی لیکن یہ ساتھ بھی کچھ دن کا تھا میری ممانی نے مجھے مشورہ دیا کہ کراچی جاوں وہاں علاج اچھا ھوگا میں اپنے ماموں زاد بھای کہ ساتھ کراچی آی تو انہوں نے امی کو اولڈ ہاوس میں داخل کروا کہ مجھے ایک گھر میں ماسی کے طور پہ لگا دیا کیونکہ وہ ماموں کا ہمارا خرچہ اٹھانا مزید برداشت نہیں کر سکتی تھیں "
سوحا گہری سانس لے کر خاموش ہو گئ
"ایک مالک مکان نے مجھے مال کے پارکنگ لاٹ میں بند کر دیا تھا اور تبھی وہاں طہٰ بھای آۓ تھے"
اپنی کہانی ختم ہوی تو وہ تینوں بھی خاموش ہو گۓ
"تم بابا سے نہیں ملیں اب تک؟ غنی انکل نے سوال یا
"ملی تھی ایک دفع طہٰ بھای ہی لے کر گۓ تھے" سر جھکا کہ وہ انگلیوں کو جھٹک رہی تھی
"وہ لوگ کون ہیں؟ جانتی ہو تم؟"سوال پھر غنی انکل کی طرف سے آیا تھا
"نہیں میں بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ بہت امیر لوگ ہیں ممانی نے ہی بتایا تھا اور میں ان سے  بدلہ لینا چاہتی ہوں اسی لیے میں فیصل آباد میں بڑے گھر میں تھی تا کہ انکا رہن سہن اور طور طریقے دیکھ سکوں کیونکہ میں ایک نچلے طبقے کی عام سی لڑکی ہوں اور یہ بھی طہٰ بھای کا مشورہ تھا"
اس کی آخری بات پر غنی انکل نے طہٰ کو دیکھا
"تقی نے کہا تھا " اور طہٰ نے فوراً سمجھ کہ جواب دیا
" بہت دکھ ہے مجھے جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا تم ہمارے ساتھ رہ سکتی ہو ،،،میں ایک اکیڈمی چلاتا ہوں اور اس کہ ساتھ ضرورت مندوں اور وکٹمز کو سہارا دے کر ان کی شادیاں اور نوکریاں لگواتا ہوں،مجھے امید ہے تم ہمارے ساتھ رہ کر اچھا محسوس کرو گی اور ہمارے جوان تمہارا ساتھ دیں گے"
آخر میں طہٰ کو دیکھ کر تصدیق چاہی
"بہت شکریہ ،میں آپ کی احسان مند رہوں گی" سوحا عاجزی سے بولی
"اس کی ضرورت نہیں تم جب چاہے وہاں آسکتی ہو"
"انکل ابھی ہمیں اولڈ ہوم جانا ہے ان شاء اللّٰہ کل سوحا آجائگی
"ٹھیک جو تمہیں بہتر لگے"غنی انکل مسکراے
________
تقی کو اس کہ والد کا حصہ مل چکا تھا،کیس بھی واپس ہو گیا تھا اور دس دنوں کہ اندر اندر وہ اپنے حصے کو صحیح جگہ پہنچا چکا تھا ایک بار پھر اس نے دوسرے کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ کہ اپنا مقصد نکلوایا تھا
"کیا خیال ہے تقی میاں آج اپکی ڈیڈلائن کہ دن ختم ہو کر گیارواں دن ہے کوی جاب ڈھونڈنی ہے یا عاق کر دوں گھر سے؟" حلیمہ حسبِ معمول ناشتہ کی ٹیبل پر اس کو لتاڑ رہی تھیں
"نہیں ممی آج نہیں آج میں اپنی جاب کا استعفیٰ دے آوں ذرا پھر " جوس کا گھونٹ بھر کہ تقی نکل گیا اور اسکی ممی جانتی تھیں کہ یقیناً وہ غنی انکل کہ حجرے میں ہی جا رہا ہے۔
_______
اکیڈمی کی اوپری منزل کا دروازہ کھلا تو منظر آج بدلا ہوا تھا
لاونج کہ درمیان والے ڈبل صوفہ پر بیس بائس سال کی گوری رنگت والی ایک لڑکی بیٹھی تھی ،،جس نے جینز کہ اوپر پھولی ہوی سی ٹی شرٹ پہنی تھی،،،ہاتھ میں کپ تھا شید وہ چاے پی رہی تھی اور روی روی شکل اور سرخ ناک کہ ساتھ طہٰ کو سن رہی تھی
"یہ ابیر ہے،،ہمارا سب سے پڑھاکو بچہ یہ پڑھتی بھی ہے اور پڑھاتی بھی ہے ،،،اور ہمارے سارے کرائم پلانز کو یکجا کرتی ہے،یہ علی ہے ہمارا لیفٹ ہینڈ اس کو بھیس بدلنے میں مہارت حاصل ہے ،،اود یہ تقی ہے ۔۔۔
"ان سب کا central processing unit میرے بغیر ان کہ منصوبے نہ بنتے ہیں اور نا ہی تشکیل پاتے ہیں"اس سے پہلے طہٰ کو کچھ بولتا تقی نے اپنا تعارف خود کروانا بہتر سمجھا
سوحا نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑے  لمبے  خوبصورت نوجوان کو دیکھا تو اس کہ تعارف پہ مسکرای
"یہ CPU کے ساتھ ساتھ اسپیکر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں" ابیر نے اسکی شان میں اضافہ کیا
"تقی تمہارا نیا پراجیکٹ آگیا ہے ،کب سے کام شروع کرو گے" طہٰ نے مسکرا کہ پوچھا اور تقی نے فوراً اپنے استعفیٰ پر لعنت بھیجی اور طہٰ کے ساتھ آبیٹھا
______
جاری ہے

آتشِ جنون (مکمل✔️)Where stories live. Discover now