باب چہارم
آگ ،آنسو اور وار (حصہ اول)
قدم آگے چلنے سے انکاری تھے اور وہ بے جان سی ہو کر دروازے پر ڈھے گئ
امی۔۔۔آواز شکستہ اور دکھوں سے لبریز تھی
اتنی مدھم گویا کسی کھای سے آی ہو
ابیر اسے زبردستی اٹھا کہ ماں کی معیت کہ قریب لائ
وہ چیخ نہیں رہی تھی
نا ہی بین کر رہی تھی
بس آنسووں کا سیلاب بہاے اپنی ماں کو بلا رہی تھی
درد اس کہ دل میں محسوس ہو رہا تھا اور وہ تر چہرہ لیے اپنی ماں کہ چہرے کو دیکھتی رہی ،،جیسے ہر نقش تا قیامت حفظ کرنا چاہتی ہو
وہاں بیٹھی عورتیں اسے بار بار اپنے ساتھ لگاتی مگر وہ نا انکی سنتی نا ان کہ پاس بیٹھتی بس خاموش نظروں سے ماں کو دیکھے گئ
آنسو خشک تھے
دل اداس تھا
پھر ایک دم اٹھ کہ باہر بھاگی
"تقی " سوحا دروازے پہ کھڑی تھی طہٰ اور علی بھی اسکہ ساتھ آے دور وہ کسی آدمی کہ ساتھ غنی انکل کو بھی کھڑا دیکھ رہی تھی
وہ ایک خاندان کی طرح اس کہ ساتھ تھے۔۔اس کہ دکھ میں شریک مگر۔۔۔۔
"تقی ابو" بس اتنا کہا اور آنکھیں پھر برسنے لگیں
"انکو یہاں لانا خطرے سے خالی نہیں۔۔اور انکو یہاں لانے کا بہت لمبا مرحلہ ہے اور اس طرح تم ۔۔۔ان کی نظروں میں آو گی جن سے تم نے انتقام لینا ہے"
"مگر تقی ابا ایک آخری دفع تو انہیں دیکھ لیں۔۔۔بھاڑ میں گئیں ساری مصلحتیں"
"سوحا بیٹے سمجھو وہ باہر نہیں آسکتے یہ مشکل ہے" غنی انکل نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا
سارے میں جیسے ایک دم دکھ ہی دکھ بھر گیا تھا
اس کا دل ایک بار پھر رونے لگا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کو گۓ آج دوسرا دن تھا ،،اکیڈمی بھی بند تھی کیونکہ اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز ٹرپ پر تھے
ابھی بھی وہ لاونج میں صوفے پہ بیٹھی تھی،،سر گھٹنوں میں دیے لمبے بال کھلے کمر پہ گرے تھے آنکھیں اور ناک رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں
"سوحا"تقی آہستہ سے اسکے سامنے والے صوفے پہ آبیٹھا
"کیسی ہو
"مجھے خوشیاں راس ہی نہیں ہیں " سر اٹھایا تو چہرہ آنسووں سے تر تھا"مجھے بھی امی کہ ساتھ ہی چلے جانا چاہیے تھا"
"نہیں سوحا ایسے نہیں کہتے" وہ سامنے کہ صوفے سے اٹھ کہ اس کہ سامنے نیچے آ بیٹھا
"کیوں نا سوچوں تقی ،،کیوں نا سوچوں ؟ گیلی سانس اندر کھینچ کہ بال کان کہ پیچھے اڑسے "کیا میرے کوی خواب نہیں ،،میرا زندگی پہ کوی حق نہیں ہے؟ میں کیا سوچ رہی تھی کہ ایک وقت تو ایسا آے گا جب سب کچھ ٹھیک ہوگا،،میں امی اور ابو اکٹھے ایک ساتھ رہیں گے' کبھی تو یہ آزمائش ختم ہوگی ،،کبھی تو مجھے بھی خوش ہونے کا حق ہوگا کبھی تو" وہ جیسے سارے شکوے کر کر کہ تھک گئ تھی ،،،ایک دم پیچھے صوفے کی پشت سے ٹیک لگایا
"مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں کچھ بھی برداشت نہیں کر پاوں گی ۔۔بس میرا دل پھٹ جاے گا ،،میں کچھ بھی برداشت نہیں کر سکتی" سوحا کہ ہر الفاظ دکھ سے لبریز تھے۔۔۔اس کا لہجہ ،،اس کی آنکھیں جیسے اب کچھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں
تقی اس کہ دونوں ہاتھ پکڑے نیچے بیٹھا اسے سن رہا تھا،،شاید اسکا دکھ کم کرنے کی کوشش۔
"پتہ نے تقی، سب سے دکھ والی بات کیا ہے؟" آنکھ سے آنسو گر کہ تقی کہ گھٹنے پہ گرا
"آخری وقت میں امی ابو کہ ساتھ نہیں تھیں اور نا ہی ابو نے انکو آخری بار دیکھا"
"ہاں یہ دکھ میں سمجھ سکتا ہوں میری امی بھی آخری وقت میں یہاں نہیں تھیں ابو کہ پاس" پہلی بار وہ کچھ بولا
دروازہ ایک دم کھلا تھا اور طہٰ اندر آیا ،،سوحا اور تقی کو یوں بیٹھے دیکھ کر وہ اندر تک جل بھن گیا تھا
"پہلے میں سوچتی تھی کہ بدلے میں کچھ نہیں رکھا مگر اب میں یہ سوچ رہی ہوں کہ میں بشیر خان کا گھر اپنے ہاتھ سے جلاوں گی"
"ٹھیک ہے نا ؟ تم ساتھ دو گے نا میرا؟" ہاتھ تقی کہ ہاتھ سے چھڑا کہ بال پیچھے کیے پھر دوبارہ ہاتھ اس کہ ہاتھ میں دے دیا ،،تقی اس حرکت پہ خفیف سا ہنسا پھر سر ہلا کہ کہنے لگا
"بلکل میں علی اور ابیر ہم سب تمہارے ساتھ ہیں"
"مجھے تو سب نے منظرِ عام سے ہٹا دیا ہے" طہٰ کب سے خاموش کھڑا تھا تقی کہ جواب پہ بول پڑا
" تقی نے سوحا کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔طہٰ کو مکمل طور پہ اگنور کر کہ اندر غنی انکل کہ پاس چلا گیا
"نہیں طہٰ بھای ہم نے آپ کو نہیں نکالا کہیں سے بھی ،،آپ خود ہم سے دور چلے گۓ ہیں " سوحا نے ہاتھوں کی انگلیاں چٹختے ہوے کہا
"اور تم مجھے بتاے بغیر مری بھی چلی گئیں ،،،ٹھیک ہے اب بھی یہ کہہ رہی ہو کہ میں خود دور ہو گیا ہوں" طہٰ نے بغور دیکھتے ہوے کہا
"طہٰ بھای اس وقت آپ کا یہ سوال مجھے کچھ مناسب نہیں لگ رہا "
"میرے دکھ آپ کہ اس دکھ سے زیادہ ہیں۔۔۔نہیں؟" زخمی نظروں سے سوال کیا
"میں اپنے اور تمہارے زخم جلد بھر جانے کی دعا کروں گا" طنز سے کہہ کہ وہ بھی اندر چلا گیا غنی انکل کہ پاس
اس کہ جانے کہ کچھ لمحوں بعد ہی تقی باہر آیا تھا
"ہمارے پلان شروع ہونے کہ اصول جانتی ہو ناں؟" انداز مسکراتا ہوا تھا وہ بھی مسکرا دی "ہاں جانتی ہوں " مسکرا کہ سر جھٹکا "تین دن بعد ہم ایکشن کریں گے ۔۔اور ان تین دنوں میں ورک کرنا ہے "
"گڈ اور مجھے یقین ہے اس بار تم بلکل منع نہیں کرو گی؟"
"نہیں " وہ پچھلی دفع والی بات یاد کر کہ ہنس دی اور طہٰ باہر آیا
وہ اسے ہنستا دیکھ چکا تھا
(تقی کی تو ساری باتیں مناسب لگتی ہیں۔۔۔ ہوں) سر جھٹکتا باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوحا ،تقی، علی اور ابیر ثناء کی بوتیک میں بنے ویل فرنیچرڈ روم میں بیٹھے تھے ثناء وارڈروب گھسیٹ کہ اندر لا رہی تھی
تقی اور علی لیپ ٹاپ کھول کہ بیٹھے تھے ابیر اور سوحا سائڈ پہ بیٹھیں سنیکس منہ میں ڈال رہی تھیں
"یہ لو سوحا تمہارے سارے ڈریسز تیار ہیں" سوحا ابھی تک لیپ ٹاپ پہ منحمک تھی
"سوحا" اس نے پھر پکارا
"ایک منٹ" ہاتھ کہ اشارے سے اسے روکا ،،وہ بھی سر جھٹکتی انہیں کہ پیچھے آ بیٹھی
"بشیر خان کی دوسری شادی کہ بعد جو بیٹا ہوا تھا،،وہ اتنا بڑا نہیں ہو سکتا ،،،تو یہ تیمور خان کون ہے؟"
وہ الجھن میں تھا
"ہو سکتا ہے یہ بشیر خان کی دوسری بیوی کا نوجوان بیٹا ہو" علی نے تصویر کو زوم کر کہ بیک گراونڈ میں نظر آتی عورت کی طرف اشارہ کیا
"ہاں ۔۔ممکن ہے" تقی نے ای میل باکس کھولا
" اب یہ منال یوسف کو ایک اور اچھی کمپنی سے آفر آنے کی وجہ سے ریجیکٹ کر رہے ہیں " علی نے بتیسی نکال کہ ایک مخالف کمپنی کو بشیر خان کی کمپنی کی طرف سے ای میل کی اور ان کہ ای میل حیک کر کہ جام کر دیا ،،،اب انہیں وہ ای میلز نظر آئیں گی جو علی اور تقی انکو دکھانا چاہیں گے۔۔۔اور ان کی اصل ای میلز ان دونوں کو ریسیو ہونگی
"اور یہ منال یوسف کی طرف سے گئ ان کو میل۔۔۔" سینڈ بٹن دبا کہ اس کہ پہنچنے کا انتظار کیا "وہ اب منال یوسف کا تین دن بعد اپنے آفس میں انتظار کریں گے"مڑ کہ جوش سے انہیں بتایا
"منال یوسف کا پورا وارڈروب یہاں ہے" ثناء نے کندھے کہ اشارے سے پیچھے رکھے ہینگرز کہ طرف اشارہ کیا
"اور سارا پلان یہاں" ابیر نے آئ پیڈ ہوا میں لہرا کہ دکھایا
"مگر پلان ہے کیا؟" سوحا ابھی تک بے خبر تھی
"پلان یہ ہے کہ تم منال یوسف بن کہ جاو گی،،،تیمور سے انفارمیشن لوگی اور کام ختم ہونے کہ بعد سارا مواد لے کر انکا کانٹریکٹ ریجیکٹ کر کہ آجاو گی" ابیر نے ایک سانس میں ساری پلاننگ سنای
"یہ اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔جتنا تم بنا رہی ہو" سوحا پریشان ہوی
"اتنا ہی آسان ہے۔۔۔بس کسی طرح انکا سارا ڈیٹا چرانا ہے کہ کون کون سی پراپرٹی بشیر خان کہ نام ہے۔۔اس میں ٹائم۔لگ سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ ممکن نا ہو
"ہوں" اس کا پھیکا سا جواب آیا
"مگر ایک بات تمہارے پھپھا تمہیں پہچان تو نہیں لیں گے؟" علی کے دماغ میں ایک دم آیا
"نہیں۔۔۔انہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہوا۔۔میں بہت چھوٹی تھی جب پھپھو کا طلاق ہوی پھر کبھی دوبارہ سامنا نہیں ہوا تھا" جواب دے کر گہری سانس لے کر اٹھی اور گہری سوچوں میں گم کپڑے دیکھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کہ ہوٹل میں سوحا ٹی پنک کلر کا کوٹ پینٹ پہنے تیار ہو رہی تھی تقی اسے بار بار منال یوسف بن کہ کی جانے والی گفتگو کہ بارے میں بتا رہا تھا
تیمور اور اسکا سوتیلا باپ بشیر (سوحا کی پھپھو کا شوہر) ایک ایسی کمپنی چلا رہے تھے جو مارکیٹ میں بننے والی دکانوں اور پلازوں کا ٹھیکہ لیتے اور بعد میں اس زمین کا آدھا حصہ خرید کر اس پہ انویسٹ کرتے ۔۔کوی بھی بکنے والی دکان خریدتے اور اسکو آگے کراے پر دیتے اور یہ سب کام پروفیشنلی ہوتا تھا۔۔اس کہ علاوہ ڈیکوریشن پیسز بنانے والی دو فیکٹریز بھی اس کمپنی کہ انڈر تھیں جو ابھی فلحال انہی کی ملکیت تھی۔۔۔
"تم پوری طرح سے امیر منال یوسف بننے کیلیے تیار ہو،؟"،سوحا بیگ بازو پہ ڈالے باہر ہی نکل رہی تھی جب تقی نے روکا
"پوری طرح" گلاسز آنکھوں پہ چڑھاے اور قدم آگے بڑھا دیے
ابیر نے گہری سانس لی اور ایک دم سے بیڈ پہ گر گئ
"کیا خیال ہے کتنی دیر تک چل پاے گی ہماری محنت؟"
تقی نے جواب میں بس شانے اچکاے
سوحا لمبے لمبے قدم چلتی لفٹ میں داخل ہو رہی تھی
(سوحا اب اس شو کا وقت شروع ہوا ہے جس کی ریحرسل تم نے اس سارے وقت میں کی ہے"""" تقی کی آواز کی بازگشت سنای دے رہی تھی )
اس نے لفٹ پہ گراونڈ فلور کا بٹن دبایا
(فکر نا کرو میں تیار ہوں اور تمہاری امیدوں پر پورا اتروں گی ۔۔مجھے یقین ہے،،،وہ پر عزم تھی) لفٹ تیزی سے نیچے اترنے لگی
(امیر لڑکیوں کو جان گئ ہوں میں'مغرور اکھڑ۔۔ایک جگہ مشکل سے نظریں ٹکانے والی) لفٹ سے باہر ڈرائیور اس کہ انتظار میں تھا
(ہر چیز سے بے نیاز لا پرواہ سی لڑکی) آفس میں داخل ہوتے ہی ایک لڑکا اس کی رہنمای کرتا لفت میں لے آیا ،،لفٹ سے نکلتے ہی ایک ملازم نے اسے پھولوں کا گلدستہ پکڑایا جسے اس نے سیدھے ہاتھ سے لے کر الٹے ہاتھ سے ساتھ چلتے ملازم لڑکے کو پکڑایا
(بے رحم۔بدتمیز اور منہ پھٹ قسم کی لڑکی) راہداری لمبی تھی اور دونوں اطراف میں بنے چھوٹے چھوٹے کیبنز میں لوگ ڈیزائینز کو ڈسکس کر رہے تھے جب ایک ملازم کسی بلڈنگ کا اسکیچ پکڑے لا رہا تھا اس سے ٹکرایا تو وہ ناگواری سے"ایڈیٹ" کہتی اس کہ نقصان کو اگنور کر کہ چلی گئ
(میں اچھی طرح سے اس کردار میں ڈھلنے کو تیار ہوں)
ساتھ چلتے ملازم نے آفس کا داخلی، شیشے سے بنا دروازہ کھولا تو اسے دوبارہ تقی کی آواز کی بازگشت سنای دی
(تو انتظار کس بات کا ہے۔۔۔لائٹس، کیمرہ، ایکش) دروازہ بنا کسی آواز کہ کھلا تھا اور دروازہ کھلتے ہی اندر کا منظر واضح ہوا ،،سامنے ٹیبل کہ اس پار پچیس سے تیس سال کا ایک جوان بیٹھا کام میں مصروف تھا اس کو دیکھتے ہی کھڑا ہوا
"گڈ مارننگ مس یوسف امید ہے آپکا سفر اچھا گزرا ہوگا"؟
"اتنے سفر کیے ہیں میں نے اب تو لگتا ہی نہیں کہ پلین میں بیٹھی ہوں یا اپنے روم میں" بے نیازی سی بے نیازی تھی۔۔پرس ٹیبل پہ رکھا اور ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کہ اسے دیکھا ۔۔۔
("صحیح جا رہی ہو۔۔میں تمہیں سی سی ٹی وی سے دیکھ رہا ہوں۔۔تم اکیلی نہیں ہو ہم ساتھ ہیں تمہارے) کان میں لگے آلہ میں آواز گونجی
"کیا لیں گی آپ۔۔چاے کافی؟ وہ مسکرا کہ مہمان نوازی کہ اصول نبھا رہا تھا
"فریش جوس۔۔میں اصلی اور کھری چیزوں کو پسند کرتی ہوں" ہلکا سا مسکرای
"گڈ۔۔تبھی آپ نے ہماری کمپنی کو اپنا پراجیکٹ دینے کیلیے منتخب کیا ہے" ہاتھ باہم ملاے اور مسکرایا
منال یوسف ہلکا سا مسکرای اور ایک ادا سے بال کان کہ پیچھے اڑسے"آپکی کمپنی اتنی کھری اور اصل ہے(کرسی کی پشت چھوڑ کہ آگے ہوی) یہی بات جاننے کیلیے میں یہاں آی ہوں"
"امید ہے آپکا سٹے (stay) اچھا رہے"
(بیٹا ہمارا اسٹے تو اچھا ہی رہے گا اپنی خیر منائیں آپ) کان میں لگے آلہ میں تقی کی آواز گونجی تو سوحا خفیف سا مسکرائ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوس آگیا تھا اور ملازم باری باری گلاس ان کہ سامنے رکھ رہا تھا
"آپ اکیلی آی ہیں ...میرا مطلب کوی بزنس پارٹنر کوی سیکرٹری ۔۔۔کیونکہ میرے ساتھ جتنی بھی کمپنیز نے کام کیا ہے وہ پورا وفد آتا ہے"
منال یوسف نے جوس کا سپ لیا ،اسے اندر تک اتار کہ اسکا ذائقہ محسوس کیا ،،،قدرے مسکرای
"مجھے اس دنیا میں لانے کہ بعد آج تک میرے ڈیڈ کو کسی دوسرے کی ضرورت نہیں پڑی،،،تو یہ بزنس کیا چیز ہے"مسکرا کر شانے اچکاے اور ایک اور سپ بھرا " اور جہاں تک بات بزنس پاٹنر کی ہے تو وہ میں آپکو بنا کہ جاوں گی" مسکرا کہ دوبارہ سپ لیا
"اور سیکرٹری؟"
تیمور خان جیسے اسکی گفتگو کو انجواے کررہا تھا
"آپ میری مہمان نوازی میں مجھے ایک سیکرٹری نہیں دے سکتے" جواب فوراً تھا وہ کھلکھلا کہ ہنس دیا ۔۔۔
"آپ کافی حاضر جواب واقع ہوئ ہیں" سوحا نے بس مسکرانے پہ اکتفا کیا
(نشانہ ٹھیک لگ رہا ہے۔۔۔موصوف کافی دل پھینک واقع ہوے ہیں" کانوں میں تقی کی آواز ایک بار پھر گونجی)
"آپکو میری مہمان نوازی یقیناً پسند آئیگی۔۔۔" تیمور خان نے فون اٹھا کر کچھ ہدایات دینے لگا اور سوحا شیشے سے بنے اس آفس کا جائزہ لینے لگی(مزید کتنی اوور ایکٹنگ کرنی ہوگی ،،اس نے سوچا)
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اس وقت سوا نیزے پہ تھا،،یہ آفس کا کوی تیسرا فلور تھا،،ایک سائڈ کی دیوار شیشے کی بنی تھی اور اس سے دھوپ اندر چھن کہ آتی تھی
سوحا تیمور کی معیت میں چلتی اس طرف آئ تھی جہاں کمپنی کہ دوسرے پراجیکٹس کہ ماڈلز تیار کر کہ رکھے گۓ تھے
"تم لوگ کون سے فلور پہ ہو؟" تقی کی آواز کان میں لگے آلہ میں گونجی۔۔
"تھری" وہ بنا ہونٹوں کو ہلاے آہستہ سے بولی اور ایک دم جھک کہ ایک پراجیکٹ میں انٹرسٹڈ سی نظر آنے لگی
"یہ لڑکی اچھا کر رہی ہے" آلہ میں سے ابیر کی آواز آئ،،وہ سوحا کی ایکٹنگ انجواے کر رہی تھی
"ہاں مگر مجھے ڈر ہے ہم پکڑے نا جائیں" سوحا آہستہ سے کہنے لگی
تیمور خان اس طرف متوجہ نہیں تھا ،،سوحا گھوم گھوم کہ سارے پراجیکٹس دیکھنے لگی اور وہ اپنے ورکرز کو سوحا کی طرف دیکھ کہ اشارہ کر رہا تھا
"نہیں پکڑے جائیں گے،،ہمارا زیادہ دن کا کام نہیں ہے۔۔ایک دفع ساری انفارمیشن مل جاے ان لوگوں کہ بارے میں۔۔انکا گھر کس کہ نام ہے ۔۔بشیر خان کہ کتنے شیرز ہیں۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔اس کہ بعد بس ختم" تقی اسے حوصلہ دینے لگا
"ہوں" وہ بد دل ہوی تھی
پھر موڈ ایک دم فریش اور ویسا ہی کر لیا۔۔وہ سامنے سے چل کہ آتے تیمور کو دیکھ سکتی تھی
"ڈیڈ فلحال ملک سے باہر ہیں۔۔مگر پرسوں تک انکی واپسی ممکن ہے،،پرسوں آپ ڈنر ہمارے ساتھ کیجیے گا"تیمور مسکراہٹ سجاے کہہ رہا تھا
"اوکے،،پھر ملتے ہیں پرسوں اور پراجیکٹ کی باقی ڈسکشنز بھی تب ہی کر لیں گے" وہ نزاکت سے پراجیکٹ پہ ہاتھ پھیرتی کہہ گئ
سوحا نے قدم باہر کی جانب بڑھاے تو وہ بھی منال یوسف کہ اعزاز میں اس کہ ساتھ چلنے لگا
"ہمارا ڈرائیور آپکو ہوٹل تک ڈراپ کر دے گا" تیمور نے ایک بار پھر مہمان نوازی نبھائی
"مجھے فلحال اپنے پلازہ کیلیے اچھی سائٹ اور آرٹیٹیکٹ کہ کانٹریکٹ کی ضرورت ہے۔۔۔باقی یہ چھوٹی موٹی فیورز سے میں امپریس نہیں ہونگی" انداز ایسا تھا کہ تیمور کہ قدم باہر ہی رک گۓ،،اور سوحا اسی شان سے چلتی لفٹ میں داخل ہوگئ
"آیا بڑا ہیرو" لفٹ بند ہوتے ہی سوحا نے منہ بنایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آگئ تم ؟" ہوٹل روم کہ دروازہ کھلنے پر علی پکارا
"کیوں ٹیکسی میں کوی کیمرہ نہیں لگا تھا؟" وہ تیزی سے بولتی قریب رکھے صوفہ پہ بیٹھ گئ
"کیسا رہا دن؟"
"بہت اچھا سارا دن پول میں بیٹھ کہ چِل کیا میں نے۔۔۔خوب ساری چاکلیٹس کھائیں ساری فیری ٹیلز دیکھیں اور ۔۔۔
"ویٹ ۔۔۔سانس لو" تقی اس کہ سامنے رکھے بیڈ پہ آبیٹھا
"اتنی تپی ہوئ کیوں ہو؟ کیا دن اچھا نہیں تھا؟ ابیر بھی ساتھ آبیٹھی
"نہیں" اس نے کندھے ڈھلکا دیے
"میں نا کوی ایکٹریس ہوں نا کوی اسکامر نا میرے اندر تم لوگوں کی طرح کوی ایجینٹ والے کیڑے ہیں اور نا ہی میرے اندر کوٹ کوٹ کہ کانفیڈنس بھرا ہوا ہے۔۔۔ میں ایک عام سی لیس کانفیڈنٹ لڑکی ہوں۔۔میں یہ سب بہت مشکل سے کر پائ ہوں۔۔۔میرا دل بار بار دھڑک رہا تھا۔۔مجھے بس یہں ہو رہا تھا کہ میں پکڑی نا جاوں اور۔۔۔۔"
بس بس۔۔ابیر اس کہ ساتھ آبیٹھی اور اسے گلے لگا کہ پیچھے کیا
"ریلیکس۔۔۔تم کونسا وہاں اکیلی تھی ہم سب تمہارے ساتھ تھے ہر قدم پہ نظر تھی ہر آواز سن رہے تھے۔۔۔تم اکیلی نہیں تھی" وہ اسے دلاسہ دینے لگی
"ابیر مگر بہت مشکل ہے یہ میرے لیے" سر ہاتھوں پہ گرا لیا
"تم فرسٹ ٹائم کچھ کر رہی ہو اس طرح سے اس لیے نروس ہو۔۔زیادہ سوچ رہی ہو ورنہ ایسا کوی نہیں سوچتا۔۔اور تم تو ویسے بھی ان کہ بزنس کو منافع دینے والی ہو وہ چاہ کر بھی تم کو کچھ نہیں کہیں گے بلکہ تمہاری کڑوی کسیلی بھی سن لیں گے" تقی بھی اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں تھا
"ہوں"سوحا کی ہلکی سی آواز نکلی
"اسنے تمہیں ڈنر پہ انوائٹ کیا ہے؟"
"پرسوں "علی توقف کہ بعد دوبارہ بولا"اس کا مطلب ہمارے پاس وقت ہے"
"وقت ہے؟ "وہ ایک دم سے چیخی "یہ تمہیں وقت لگ رہا ہے علی۔۔۔۔۔میں تیار نہیں ہوں"
"تم تیار ہو۔۔ہم سب جانتے ہیں" اس نے باری باری تینوں کی طرف دیکھا۔۔۔وہ صوفے پہ بیٹھی تھی اور وہ تینوں سامنے بیڈ پہ
"تم تیار ہو ۔۔آج بھی تم نے خاصا اچھا کیا اور ایک دفع اور یہ بات بھول جاو کہ تم پکڑی جاو گی۔۔۔کبھی کوی پکڑا بھی جایگا۔۔۔ تو ہم سب پکڑے جائیں گے۔"
علی خاموش ہوا تو ابیر بول پڑی
"اور "ہم" کبھی پکڑے نہیں جاتے۔۔اگر کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو ہم بچ جاتے ہیں کیونکہ ہم ساتھ ہیں۔۔کوی اکیلا نہیں ہے رائٹ؟" اس نے دوبارہ سوحا کا ہاتھ دبایا
"اور اب بس۔۔یہ موٹیویشنل کلاس بند کرو اور اٹھو آج ایک اور ایکشن مووی دیکھنی ہے ہمیں" تقی اٹھ کہ،،محفل برخاست کرنے کا کہنے لگا
"ناٹ اگین۔۔۔جب سے یہاں آی ہوں ایکشن ہی دیکھے جا رہی ہوں۔۔یہ کیسی سزا ہے" وہ الجھن کا شکار ہو رہی تھی
"اور ہر دفع بعد میں ہم جو رپینزل دیکھتے ہیں،،وہ کیسی سزا ہے" ابیر نے رخ پھیرے اونچی سرگوشی کی جو ظاہر ہے سوحا نے سن لی
"رپینزل تم لوگوں کی اس مار دھاڑ سے بہت بہتر ہے۔۔۔"ایک کشن اٹھا کہ اسے مارا
"پتہ بھی ہے یہ کوی دو سو پچاسوی ایکشن مووی ہوگی جو ہم دیکھیں گے " سب اٹھ کر اپنے کاموں میں لگ گۓ تھے بس وہ ہی بولے جا رہی تھی
"اور رپینزل کی کیا گنتی ہوگی کچھ اندازہ بھی ہے؟؟ آج نہیں دیکھنی یہ بچوں والی رپینزل" علی سخت بے زار ہو کہ بولا
"وہ بیگ میں جھکی کپڑے نکال رہی تھی علی کی بات پہ تپ کہ شکل بنای
"زیادہ زبان نہیں چل رہی تمہاری " ساتھ پڑا ابیر کا سکارف اٹھا کہ اسے مارا "ہم آج رپینزل ضرور دیکھیں گے۔۔بلکہ دو دفع دیکھیں گے۔۔پہلے رپینزل پھر ایکشن مووی پھر دوبارہ رپینزل" وہ مگن سی بول کہ واشروم میں جانے ہی لگی تھی جب ان تینوں کی ایک ساتھ آواز آئ
"کیا کسی کہ پاس سر درد کی گولی ہے؟" چند لمحے خاموشی رہی پھر فضا میں دروازہ مارنے کی گرج دار آواز گونجی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
اگلی صبح باقی دنوں سے قدرے گرم تھی ،،صبح کی دھوپ اس ہوٹل کہ شیشے والے دروازوں سے چھن کہ اندر آتی قریب رکھی ٹیبلز پر گررہی تھی
سوحا اور تقی بھی درمیان میں رکھی ٹیبل پہ ابھی آ کر بیٹھے تھے
"کیا یہاں سے تیسری ٹیبل پہ بیٹھا شخص تیمور خان ہے؟" سوحا نے قدرے آواز میں پوچھ کہ کنکھیوں سے اسے دیکھا
"بلکل ہم اس کی وجہ سے یہاں آے ہیں"تقی نے سر پہ رکھی پہ کیپ کا رخ پلٹا جس سے آگے والا حصہ پیچھے چلا گیا
"اور میں سمجھ رہی تھی یہ ایک ڈیٹ ہے"سوحا نے رخ پھیرا
اس نے آج دوبارہ برگنڈی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا
"ہاں ہمارے لیے یہ ڈیٹ ہی ہے مگر اس کہ لیے نہیں ہے" ویٹر کو آرڈر دے کہ وہ دوبارہ اسکی طرف متوجہ ہوا جو دلچسپی سے گال ہتھیلی پہ رکھے اسے دیکھ رہی تھی
"سوحا ایسے مت بیٹھو وہ ہمیں سٹاک کر رہا ہے اسے شک ہوگا" سوحا کہ ایسے بیٹھنے پہ اسکو بھی ہنسی آی مگر وہ دبا گیا
"تو پلیز ایکسپلین وہ ہمیں کیوں سٹاک کر رہا ہے"
وہ ویسے ہی بیٹھی رہی
"ظاہر ہے تم اس کہ ساتھ اتنا بڑا کانٹریکٹ کرنے والی ہو اور اس نے تمہیں اپنے گھر بھی بلایا ہے وہ تمہاری کریڈیبیلیٹی چیک کرنا چاہتا ہے"
وہ اسی طرح بیٹھی رہی ۔۔تقی اسے دیکھ کر ایک بار پھر زیرِ لب مسکرایا
" اب تو اس نے دیکھ ہی لیا مجھے،،اب ؟" دوبارہ دلچسپی سے مسکرا کہ اسے دیکھنے لگی البتہ اس بار ہتھیلی سے چہرہ اٹھا لیا تھا
تقی نے گہری سانس لے کہ ادھر ادھر دیکھا "سوحا" جیسے اسے وارن کیا ہو
"بھئ میں ٹھہری اس فیلڈ کی جونئیر آرٹسٹ ،، اور آپ ایک منجھے ہوے کھلاڑی ،،،،آپ ہی بتا دیں کہ میں اسے کیا کہوں گی؟" وہ پورے طریقے سے بھگو بھگو کہ مارنے کا کام سر انجام دے رہی تھی
"ایک منٹ" آئ برو اٹھا کہ مشکوک انداز میں اسے دیکھا "تم مجھ پہ طنز کر رہی ہو؟"
"ناٹ بیڈ۔۔پورے دو منٹ لگے آپکو پہچاننے میں" اسکی بات کہ دوران ہی ویٹر جوس اور باقی چیزیں ٹیبل پہ رکھ رہا تھا۔۔اپنی بات ختم کر کہ سوحا نے جوس اٹھایا اور مزے سے پینے لگی
"کیوں برا لگا؟,,,مجھ پہ طنز نہیں کرتے تھے تم۔۔یاد کرو جب پہلی بار میرے ساتھ کافی پی تھی ٹیرس پہ کیسے کس کس کہ طعنے مارے تھے ۔۔۔اف"جھرجھری لے کہ دوبارہ جوس پینے لگی
"آپ کی دفع ختم ہو گئ ہو تو میں کچھ عرض کروں"
"دیکھا پھر طنز" سوحا نے ناک سکوڑی
تقی نے سر پہ ہاتھ مارا "یقین جانو آج مجھے بلکل بھی ثناء کی کمی محسوس نہیں ہو رہی"
"حلیہ دیکھو ذرا اپنا ایسے لگ رہا کسی سکول بواے نے اسکول بنک کیا ہو" وہ تقی کو اگنور کیے بس بولے جا رہی تھی،،،اور اس بار نشانہ تقی کا گیٹ اپ تھا جس نے ٹی شرٹ ،،شارٹس اور پی کیپ الٹی کر کہ پہنی تھی
"ایک تمہاری بہن ہے ۔۔ میرا وارڈروب کتنا اچھا ڈیزائن کیا ہے اور ایک تم۔۔" اس نے جھرجھری لی
"اسی لیے کہتی ہوں بنا کہ رکھا کرو اس کہ ساتھ" وہ اسی طرح کہتی اب پاستہ کھانے لگی
تقی نے والٹ اٹھایا اور اٹھ کھڑا ہوا
سوحا نے آئ برو سے اشارہ کیا جیسے کہا ہو "کدھر"
"تم اور تمہارے طعنے خوش رہو میں جا رہا ہوں" تقی نے تپ کہ جواب دیا
ایک دم سے ہنسی پھر احتیاطاً ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں تیمور دیکھ نا رہا ہو پھر اٹھ کہ اسے بازو سے گھسیٹ کہ واپس لائ
"میں مذاق کر رہی تھی تقی" ہنس کہ واپس کرسی پہ بیٹھی
"سیریسلی یہ مزاق تھا" تقی نے دونوں ہاتھوں کو ہلا کہ پوچھا
"ہاں تو اور منہ نا کھلواو میرا تم تو جیسے کہتے نہیں کچھ مجھے " وہ بھی واپس پاستہ کھانے لگی البتہ تقی اسے گھورے جا رہا تھا
"اچھا ناں"سوحا کا انداز ایسا تھا جیسے کوی چھوٹا بچہ غلطی کرنے کہ بعد کسی کو قائل کر رہا ہو
"ویسے تو میں ناراض ہوں ۔۔مگر بتا دیتا ہوں۔۔کہ میں تمہارا کوی پرانا دوست ہوں اور اب تم سے ایک فیور مانگنے کیلیے آیا تھا۔۔۔اوکے" آخر میں اسے دیکھتے ہوے پوچھا جو پاستہ میں مصروف تھی اس نے کوی جواب نہیں دیا تو دوبارہ بولا "اوکے؟"
"تم مانو گے کیسے؟ (پاستہ کو منہ میں ڈال کہ چبایا)"نہیں مطلب ناراض تھے ناں"اور دوبارہ کانٹ سے پلیٹ میں رکھا پاستہ توڑنے لگی
تقی نے گہری سانس لے کہ اسے دیکھا اور پھر اپنا ان چھوا پاستہ اور جوس پینے لگا جسے وہ اسے سمجھانے کہ چکر میں بھولا بیٹھا تھا۔۔
"بتاو نا " سوحا مصروف سی پلیٹ میں جھکی دوبارہ بولی
"تم نے میری بات کا جواب دیا ؟ جو میں دوں؟" جواب ایک دم آیا ،،سوحا کا منہ تک جاتا ہاتھ رکا تھا۔۔۔غور سے تقی کو اور اسکی پلیٹ کو دیکھا
"اس سے پہلے کہ میں تمہارا سارا پاستہ ختم کر دوں تم یہ لڑائ ختم کردو" اسے دھمکی دے کہ دوبارہ کھانے لگی
تقی نے پہلے اپنی پلیٹ دیکھی جو اوپر تک بھری تھی پھر ایک نظر سوحا کی پلیٹ پہ ڈالی جسے وہ آخری نوالے لے کر ختم ہی کرنے والی تھی۔۔۔
"بھوکی کہیں کی" اس کہ منہ سے بے اختیار نکلا
"میں نے سن لیا ہے" ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوے اس نے آگاہ کیا
"تو ؟" اسے جیسے کوی فرق ہی نہیں پڑا تھا
"تو یہ کہ معاف کیا۔۔۔جاو کیا یاد کرو گے کس سخی سے پالا پڑا تھا" وہ اب گھونٹ گھونٹ جوس پینے لگی
"ہاں بتایا نہیں کیسے مانو گے؟ یا شاید مان گۓ ہو؟" وہ آگے کو ہوی اسے دیکھنے لگی
"یہ بہانے بہانے سے آگے ہو کہ میرے پاستہ پہ بری نظر نا ڈالو" تقی نے ہاتھ سے پاستہ کی پلیٹ چھپانے کی بےکار سی کوشش کی
"اور یہ بات بھی سن لو میں کوی نہیں مانا ۔۔ناراض ہوں تم سے اور ایک زبردست سی ڈنر ڈیٹ پہ ہی جا کہ مانوں گا"
"تیمور خان اور اس کے خریدے ہوے ابا جی کو اپنے جال میں پھنسا لیا نا تو اتنے پیسے تو چرا ہی لیں گے کہ ایک اچھی سی ڈنر ڈیٹ پہ جا سکیں" دونوں ہتھیلیاں ٹیبل پہ جماے،،مسکرا کہ کہتی وہ ایک دم کھڑی ہوئ
"مگر میری جاب کہ کچھ اصول ہیں"
"ناٹ اگیں تقی ۔۔۔یہاں تمہارے اصول نہیں چلیں گے"اس نے بےزاری سے کہ کہ ٹیبل پہ پڑا اپنا ہینڈبیگ اٹھایا
"ہاں مگر آپکو یہ اصول پتہ ہونا چاہئے کہ کسی کہ ساتھ ہوٹل جا کر پوری پلیٹ پاستہ کھانے کہ بعد جھوٹی ہی صحیح مگر بل پے کرنے کی صلح تو مارنی چاہیے۔۔۔نہیں؟" آخر میں دوبارہ لہجہ طنزیہ ہوا
"تمہارا یہ والا اصول بھی باقی اصولوں کی طرح مجھے کچھ خاص پسند نہیں آیا"بے نیازی سے کہتی وہ ہنسی دبا کہ مڑ گئ اور پیچھے وہ بس اسے بے بسی سےدیکھ ہی سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات قطرہ قطرہ آسمان پہ اتر رہی تھی،،،آسمان پہ دیکھو تو ایسے لگتا تھا جیسے خوبصورت موتیوں کی ایک لڑی ہاتھ سے چھلک کہ ٹوٹ گئ ہو اور اس لڑی کہ سارے موتی آسمان پہ بکھرے ہوں
ایسے میں بڑے سے خان ولا کہ دروازے سے سفید شیشوں سے بھری شلوار قمیض پہنے اور دوپٹہ پٹی کی صورت گلے میں لیے ،،وہ اندر داخل ہو رہی تھی تیمور خان کو دیکھتے ہی اسے پھولوں کا گلدستہ اور ساتھ لائ تحفے پکڑانے لگی
"اس کی ضرورت نہیں تھی " وہ تحفے پکڑ کہ کہنے لگا
وہ بس مسکرا گئ ۔۔۔اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔گھر کافی بڑا اور خوبصورت تھا۔۔۔گیراج سے آگے نکل کہ دائیں طرف روش سی بنی تھی جس کہ دونوں طرف گھاس تھی۔۔۔بائیں طرف والی گھاس پہ کرسیاں اور ایک بڑا سا جھولا رکھا تھا ۔۔۔وہ محتاط سی نظریں گھما کہ دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ تیمور کہ پوچھے جانے والے رسمی سوالات کا مسکرا کہ جواب دیتی رہی
مسکرا کر اسکی بات کا جواب دیتی جب وہ کچھ آگے نکلی تو اس کہ کھسوں میں مقید پاوں پہ پانی کاچھینٹا پڑا۔۔وہ دو قدم آگے آئ
اور۔۔۔
اور اسے ایسا لگا جیسے وہ ٹھنڈی پڑ گئ ہو
"یہ کون ہے؟" سوحا بے اختیار بولی
"کون؟"
کان میں پریشان سے تقی کی آواز آئ
"شِٹ،، اب یہ کس کی انٹری ہے؟ علی بھی ایک دم چیخا
"یہ کون ہے یار ،،،،اور تو ہمیں کوی ان کی چھان بین میں نہیں ملا تھا۔۔اف یہ کیسی نئ مصیبت ہے اب" ابیر ایک دم سے کمرے کہ چکر لگانے لگی
سوحا کہ کان میں ان کی آوازوں کی ہلچل مچی تھی مگر وہ کالی سیاہ آنکھوں سے وہاں دیکھ رہی تھی جہاں روش کہ دائیں جانب گھاس کہ بلکل درمیان میں ایک گول دائرے جیسا سوئمنگ پول تھا ۔۔۔نیلی ٹائلوں سے بنا درمیانے سائز کا پول۔۔۔۔۔۔
اور اس میں ایک بیس پچیس سال لڑکا شارٹس اور سیاہ ٹی شرٹ پہنے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔۔پول کی دیوار سے ٹیک لگاے ایک ہاتھ کنارے پہ لمبا کر کہ رکھا تھا جیسے تھک کہ سانس لینے رکا ہو۔۔۔سوحا کی آنکھیں اسی پہ ٹھہری تھیں اور تیز تیز سانس لیتا وہ شخص بھی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
سوحا نے گہری سانس لے کر تیمور کو دیکھا
"یہ میرا بھای سعد ہے" تیمور اس کہ حلیہ پہ شرمندہ تھا
سوحا نے دوبارہ اس کو دیکھا ،،سعد پول سے باہر نکل کہ تولیے سے چہرے اور سر کہ بالوں کو رگڑتا ہوا ان کہ قریب آرہا تھا جو اسے دیکھ کہ وہیں رک گۓ تھے
وہ قدم قدم چلتا عین اس کہ سامنے آکھڑا ہوا
"آپ کو دیکھ کہ اچھا لگا مس یوسف" کہہ کہ دوبارہ بال رگڑتا ان کہ پاس سے ہو کر گزر گیا
"کیسا دکھتا ہے وہ؟" تقی ایک بار پھر بولا
"حسین" نا محسوس انداز میں بغیر ہونٹ ہلاے سوحا نے اسے جواب دیا اور زیرِ لب مسکرا کہ آگے چلنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کہ اندر داخل ہوتے ہی اسے بشیر خان نظر آیا
"اسلام علیکم مس منال" خوشگوار انداز میں کہتا وہ قریب آیا "بہت تعریفیں سنی ہیں آپکی تیمور سے" چلتے ہوے بات جاری رکھی
"صرف تین دن میں؟" اس نے ادا سے نظریں پھیر کہ پوچھا
"انسان کا پتہ تو ایک جھلک میں چل جاتا ہے ،، اگر دیکھنے والی کی نظریں ہوں تو" جانے سعد کہاں سے ایک دم اس کہ پیچھے آکھڑا ہواتھا ،، وہ ایک دم پلٹی مگر سعد نے اپنی بات جاری رکھی
"خیر آئ ڈونٹ تھنک کہ یہاں کوی کسی کو نہیں جانتا،،سو بغیر ٹائم ویسٹ کیے ڈنر کریں " بات ختم کر کے باری باری سب کو دیکھا
"جی بلکل جیسے میں نے آپکو دیکھ کہ جان لیا ہے؟" چہرے پہ مسکراہٹ سجاے جواب دیا
"تو کیا جانا؟" وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے
"یہی کہ آپ کافی منہ پھٹ واقع ہوے ہیں"
"بلکل نہیں یہ شرف صرف امیر زادیوں کو حاصل ہے" مسکرا کہ نفی میں سر ہلایا
"ہاں دیکھا ،،،کر گیا ناں تمہاری بیستی اور کہہ لو اسے حسین" کان میں تقی کی تپی ہوئ آواز گونجی
وہ ڈائننگ ٹیبل پر جا کر بیٹھ ہی رہے۔تھے ایسے کہ سربراہی کرسی پہ بشیر خان اور اس کہ دائیں بائیں تیمور اور مسز خان تھیں۔۔جبکہ سوحا اور سعد آمنے سامنے تھے۔۔ جب وہ دوبارہ بول پڑا "اور تم یہ اس کو دیکھ کہ اتنا مسکرا کیوں رہی ہو؟"
سوحا ایک دم الرٹ ہوی اور موبائل نکال کہ میسج ٹائپ کیا
"تم مجھے دیکھ سکتے ہو؟"
"جی بلکل ایسا کوی کیمرہ اور سیکیورٹی سسٹم نہیں جو تقی کی پہنچ سے دور ہو" اس نے کان میں جواب دیا تھا
"ہاں بس ایک سعد خان ہی پہنچ میں نہیں ہے"
"شٹ اپ تم آجکل کچھ زیادہ ہی نہیں بولنے لگی" ۔
"اوہ تقی ۔۔تم جیلس ہو رہے ہو" اور تقی کا جلا بھنا سا "ہنہ" سنای دیا میسج سینڈ کر کے زیرِ لب مسکرائ انکی فون پہ بات چیت کہ دوراں ملازم ٹیبل پہ کھانا رکھ رہے تھے
"ڈائننگ روم کی بجاے۔ سیدھا ڈائننگ ٹیبل،،، اس مہمان نوازی کو میں کیا سمجھوں مسٹر خان؟" نیپکن پھیلاتے ہوے وہ کھنکھار کہ بولی
"ڈائننگ روم ان لوگوں کیلیے ہوتا ہے جو ڈائننگ ٹیبل پہ خاموش ہوتے ہیں ۔۔مگر پاکستانیوں میں یہ خصوصیت نا پید ہے' باتوں کہ بغیر انکا کھانا پیٹ میں نہیں اترتا" سعد نے جوس گلاس میں انڈیلا
"ڈونٹ مائینڈ منال۔۔۔سعد تھوڑا آوٹ اسپوکن ہے " بشیر خان اپنی خفت چھپانے کو بولے
"اور وقت کا پابند بھی۔۔" چاول کا چمچ منہ میں ڈالا "مجھے ادھر ادھر کی باتیں کر کہ تمہید باندھ کر وقت ضائع کرنا زہر لگتا ہے سو" توقف کیا "مس منال یوسف۔۔۔آپ کانٹریکٹ کی بات کریں" بات ختم کر کے دوبارہ پلیٹ پہ جھک گیا
"تو کانٹریکٹ کی بات کرنی کس سے ہے؟" سوحا نے جوس کا سپ لے کر گلاس واپس رکھا
"آپ بات کریں جواب مل جائیگا" جواب سعد کی طرف سے آیا تھا
"بغیر مخاطب کیے بات کرنا میرے اصولوں کہ خلاف ہے' کائنڈلی مجھے یہ بتائیں کہ اونر کون ہے کمپنی کا
اور مجھے آفیشلی بات کس سے کرنی ہے؟" بظاہر عام سے انداز میں کہہ کہ کھانا کھانے لگی مگر دل دھک دھک کر رہا تھا( کچھ غلط ہو گیا تو)
اور کان میں آتی آوازیں بھی پریشان تھیں
"یہ سعد بہت تیز ہے ۔۔ہمارے پلان اور ڈائلاگز میں یہ کہیں نہیں تھا" ابیر پریشان تھی
واپس ٹیبل پہ آو تو وہاں ایک دم خاموشی چھا گئی
سعد نے سکون سے جوس کا سپ لیا
پھر ہاتھ میں پکڑے کانٹے کو ہلا کہ کہنے لگا
"مس منال آپ مجھ سے بات کر سکتی ہیں"
"تو آپ ہیں کمپنی کہ مالک ۔۔اور آپ ہی میرے کانٹریکٹ پر سائن کریں گے" انداز سوالیہ تھا
"مس منال آپکے کانٹریکٹ پر جو بھی سائن کرے۔۔۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔کانٹریکٹ تو ہماری کمپنی ہی کر رہی ہے نا" تیمور اس سب میں پہلی بار بولا
"دیکھیے مسٹر تیمور میں نے اپنی پہلی ملاقات میں ہی یہ کلیر کر دیا تھا کہ مجھے اصلی اور کھری چیزیں پسند ہیں" سوحا کا تنفس ایک دم تیز ہوا "اور میں آپکی کمپنی سے کوی چھوٹی موٹی کنسٹرکشن نہیں کروا رہی،،، دو پلازہ اور دس دکانیں شامل ہیں کانٹریکٹ میں۔۔ خیر " گہری سانس لے کر کھڑی ہوی "میرا مزید یہاں رکنا مناسب نہیں کیونکہ یہاں میں ڈیل کرنے آئ تھی اور یہ ڈنر بھی اسی اعزاز میں تھا " سانس لینے کو رکی" اب جب ڈیل ہوتی نظر نہیں آرہی تو مجھے اجازت دیں" نزاکت سے بالوں کو جھٹکا اور قدم اٹھاتی باہر نکل آی
"شاباش ۔۔تم نے اچھا کام کیا"کان میں آواز گونجی تھی
مگر وہ بس چلتی جا رہی تھی۔۔۔
انداز ایک دم شاہانہ ہو گیا تھا
وہ ہلکا سا ہنسی
"اف کیا کمال فیلیینگ آرہی ہے" دوبارہ بالوں کو جھٹکا
"ہاں شکر ہے کچھ غلط نہیں ہوا" ابیر نے بھی سکھ کا سانس لیا
"کیب کہاں ہے یار" سوحا نے باہر نکل کہ ادھر ادھر دیکھا
" کیوں اس سعد خان نے آپکو لفٹ نہیں دی " تقی ابھی تک برے موڈ میں تھا
"اوہ پلیز تقی تمہاری جلن کی بو یہاں تک آرہی ہے" ادھر ادھر دیکھا تو کیب نظر آہی گئ
اس بار کیب میں وہ سب بیٹھے تھے۔
"تم سب کیوں آے ہو یہاں" انہیں پہلی بار کیب میں اسکا انتظار کرتے دیکھ کر وہ حیران تھی
"تقی کو ڈر تھا کہیں تم سعد کہ ساتھ بھاگ ہی نا جاو" علی نے سرد آہ بھر کہ کہا اور کار اسٹارٹ کی
" ایسی بات نہیں ہے ۔۔ہم لوگ پریشان تھے کہ کچھ اور نا ہو جاے ۔۔۔ہم سیفٹی کیلیے آے تھے"
تقی نے عام سے انداز میں کہا
"ہاں مگر تمہاری شاگردی میں اسکی زبان چلنے لگی ہے"ابیر نے بھی اپنا حصہ ڈالا
"خیر سب چھوڑو سعد خان جتنا غیر متوقع تھا نا اتنا ہی ہینڈسم تھا ۔۔۔افف ابیر میں تمہیں کیا بتاوں" سوحا نے مکمل طور پہ چڑانے والے انداز میں کہا جس کو ابیر بھی سمجھ کہ ہنسنے لگی۔۔۔ہنسا تو علی بھی تھا مگر اس کو ہنسنے پہ تقی کا مکہ موصول ہوا تھا
"اوکے اگر آپکا سعد نامہ ختم ہو گیا تو کام کی بات کریں" تقی نے مڑ کہ ایک تیز نظر دونوں پہ ڈالی
"ہوں" سوحا نے ہنسی دبای
"سعد خان بلکل بھی صبر اور برداشت والا بندہ نہیں ہے،،،اسی لیے انہوں نے اس کو اپنی کمپنی میں آگے نہیں رکھا ہوا ۔۔۔بس پیچھے پیچھے سے کام کرتا ہے" علی نے کہتے ہوے موڑ موڑا
"ہاں جیسے ماسٹر مائنڈ کو پیچھے ہی رکھا جاتا ہے۔۔" تقی نے کہا
"وہ سامنے لانے والا ہے بھی نہیں تقی۔۔۔اس کو نظر بھی لگ سکتی ہے" سوحا جیسے اس کو تنگ کرنا انجواے کر رہی تھی
"تم نے اگر ایک اور بار بھی کچھ کہا تو ابھی اس کہ بعد ہم جہاں جا رہے ہیں وہاں نہیں لے کر جائیں گے " تقی نے اس بار غصہ نہیں کیا تھا۔۔۔وارن کیا تھا
گاڑی میں ایک لمحے کو خاموشی ہوی پھر دوبارہ تینوں ہنسنے لگے اور تقی جلتا رہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(تقی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا علی ،سوحا اور ابیر اسے سن رہے تھے)
کراچی میں رات کہ وقت بھی اتنا اندھیرا نہیں ہوتا اسی لیے ان لوگوں نے ایسے وقت کا انتخاب کیا تھا جب دکانیں بند ہوں اور قدرے اندھیرا بھی ہو
(ہم نے ان کہ ای میلز پہ جو جیمز لگاے تھے اس سے انکی ساری میلز ہمارے پاس آرہی ہیں۔۔اور ان میلز میں سے ایک میں بشیر خان نے ان دکانوں کا ذکر کیا ہے جو اس کہ نام ہیں)
فجر طلوع ہونے سے کچھ پہر پہلے کا وقت تھا جب ایک گاڑی سے دو نفوس سیاہ چغہ نما ہڈ پہن کر باہر نکلے تھے۔۔ان کہ ہاتھوں میں چھوٹے کنٹینر کی طرح کی کوی چیز تھی
(ہمیں اس کی دکان کسی بھی طرح کانٹریکٹ شروع ہونے سے پہلے جلانی ہے تاکہ اسکو کانٹریکٹ کرنے کی جلدی ہو،، تمہاری اس میں مداخلت ظاہر نا ہو)
"وہ دو نفوس ادھر ادھر محتاط انداز میں دیکھتے چل رہے تھے،،آس پاس دکانیں بند تھیں ،،اور وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ایک دکان کہ پاس رکے تھے
(پرانا پلان اب چینج کرنا ہوگا۔۔۔اب ہمارا ٹارگٹ بشیر خان نہیں ہے۔۔وہ ہماری منزل ہے۔۔اب ہمارا ٹارگٹ سعد ہے جس کو ہم سیڑھی بنا کر بشیر خان تک پہنچیں گے)
ایک چغہ پوش دکان کہ اردگرد اس کنٹینر سے کچھ گرا رہا تھا اور دوسرا تار سے تالا کھول کہ اندر داخل ہوا ۔۔۔اندر اس کنٹینر سے مائع گرایا اور لائٹر کھول کہ پھینک دیا۔۔۔آگ کہ شعلے ایک دم اٹھے تھے۔۔۔
دونوں چغہ پوش تیزی سے باہر نکلے۔۔۔دروازہ اسی طرح مقفل کیا دوسرا لائٹر کھول کہ اوپر اچھال دیا۔۔آگ ایک دم دکان کہ اوپری حصہ سے نیچے آنے لگی۔۔۔
دونوں قدم قدم پیچھے ہوے پھر ایک دم بھاگ کہ کار میں بیٹھے تھے
دونوں کا تنفس تیز ہو رہا تھا۔۔۔
دکان آگ کہ شعلوں میں لپٹی گاڑی کو زن سے دور جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
(جاری ہے)
KAMU SEDANG MEMBACA
آتشِ جنون (مکمل✔️)
Romansaیہ کہانی ہے بدلے کی محبت کی اور ان لوگوں کی جو زندگی سے زندگی کیلیے لڑتے ہیں اور آخرکار جیت جاتے ہیں۔