منزلِ تقدیر

13 0 0
                                    

قسط_1
"سعد بیٹا اٹھ جاؤ۔ یونی نہیں جانا کیا؟" سعدیہ بیگم کمرے میں داخل ہوتے کہہ رہی تھی لیکن سعد پر نظر پڑتے ہی وہ بے ساختہ مسکرادی۔ وہ بلکل بچوں کے سے انداز میں سویا ہوا تھا۔کمبل آدھا اس پر جبکہ آدھا بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔تکیہ بیڈ کو چھوڑ کر فرش پر آرام فرما رہا تھا۔اور سعد۔۔۔۔۔۔۔ سعد سیدھی کروٹ لیے بلکل کنارے پر لیٹا تھا اس طرح کہ ذرا سا ہلنے پر اس کے گرنے کے خدشات تھے۔اور رہی سہی کسر اسکی منہ میں سے نکلتی رال نے پوری کردی جو اسکی گھنی داڈھی کو بگھو رہی تھی۔
"سعد" وہ زرا اونچی آواز سے پکارتی آگے بڑھی۔مگر یہ کیا۔۔۔۔سعد جو شاید کوئ ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا ماں جی کی اونچی آواز سن کر اک دم ہڑبڑا کر اٹھا اور دھڑام سے نیچے گر گیا۔۔۔🤕🤦
سعد کو گرتا دیکھ کر سعدیہ بیگم فکرمندی سے آگے بڑھی اور اسکے پاس بیٹھ کر اسکے سر کو نرمی سے سہلاتے ہوۓ کہنے لگی" بیوقوف ہو تم بلکل۔ کتنی بار کہا ہے کنارے پر ہو کر مت سویا کرو۔۔۔ مگر مجال ہے جو تم کسی کی سن لو۔اب آگیا چین۔" سعد اپنی آنکھیں مسلتاہوا مسکراتے ہوۓ انہیں دیکھنے لگا.
"میں بڑا کب ہوا ہوں۔ ابھی تو میں چھوٹا سا بچہ ہوں جس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب وہ کسکتے کسکتے بیڈ کے کنارے پر آجاتا ہے" سعد نے انکی گود میں سر رکھ کر مسکرا کر شرارت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
"ہاں ہاں بلکل 23 سال کے گھوڑے جتنے بچے ہو نہ تم" سعدیہ بیگم اب بھی ناراضی سے بولی۔
"ہاں جییییی۔۔۔" اسنے جی کو لمبا کیا" ماں باپ کے لیے تو 50 سال کے انکل بھی بچے ہی ہوتے ہے نہ میں تو پھر ابھی ان سے آدھی عمر کا ہوں اس لیے چھوٹا سا بچہ ہوا نہ" وہ سر معصومیت سے دیکھتے ہوۓ بولا۔سعدیہ بیگم سے کوئ جواب نہ بنا تو وہ اس کے سر ہر ہلکی سی چپیڑ مار کر اٹھ کھڑی ہوئ اور کہنے لگی" فضول ہی بولنا بس تم۔ اٹھو دیر ہورہی ہے یونی سے۔تیار ہوجاؤ اور نیچے آؤ تمھارے ابو ناشتے ہر تمھارا انتظار کررہے ہے" وہ یہ کہہ کر باہر چلی گئ جبکہ وہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
🌸🌸🌸🌸
ندا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی یونی ھانے ک کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ وائٹ جینز پر لائٹ پنک گٹھنوں سے ٹھوڑی اوپر تک آتی قمیض پہنے دائیں کندھے پر دوپٹہ سیٹ کیے کندھوں تک آتے ہلکے گھنگریالے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ اک خوبصورت اور پر کشش لڑکی تھی۔اس نے خود پر ایک نظر ڈالی اور باہر نکل گئ۔ ناشتے کی میز ہر حسین صاحب اور سونیا بیگم اسکی منتظر تھی۔ ندا کو دیکھ کر دونوں مسکرا دیے۔
"آگئ میری بیٹی" انہوں نے اپنی باہہں پھلائی۔ ندا مسکراتی ہوئ دونوں کو سلام کرتے حسین صاحب سے لپٹ گئ۔انہوں نے اسکے سر ہر بوسہ دیا اور پھر ناشتہ کرنے کا کہتے خود بھی ناشتہ کرنے لگے۔ ناشتہ ختم کر کے حسین صاحب اور ندا آفس اور یونی جانے کے کیے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ حسین صاحب باہر نکل گۓ جبکہ ندا ماں کے گلے لگ کر ان سے پیار لیتی اور اللہ حافظ کہتی بیگ اٹھاا کر ان کے پیچھے باہر نکل گئ۔
🌸🌸🌸🌸
از مریم صدیقی
قسط_3
سعد کلاس لینے کے بعد ندا کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں گھماتا چل رہا جب اک دم کوئ اس سے زور سے ٹکرایا۔ سنبھل کر اس نے سامنے دیکھا تو مایا سامنے ڈری سہمی سی کھڑی تھی۔وہ بار بار مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی۔مایا کی کتابیں نیچے گری ہوئ تھی۔
" سس سس۔۔ سوری۔۔ وہ وہ مم مم میں میں نے اآپکو دیکھا نہیں سوری" وہ ہکلاتے ہوۓ بولی تو جیسے سعد ہوش میں آیا۔ سعد نے غور سے اسے دیکھا جس پر خوف پھیلا ہوا تھا۔وہ اب کتابیں اٹھانے کے لیے جھک رہی تھی لیکن سعد نے اس سے پہلے تیزی سے جھک کر کتابیں اٹھا کر اسے پکڑا دی۔ " سوری تو مجھے کرنا چاہیے آپ کیوں کررہی ہے۔ سوری میں اصل میں کسی کو ڈھونڈ رہا تھا تو دھیان نہیں دیا۔ لیکن آپ اتنا ڈری ہوئ کیوں ہے۔کیا کوئ پرابلم ہے؟" سعد پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ جبکہ اس کی بات سن کر مایا نے چونک کر اسے دیکھا لیکن پھر نظریں جھکا کر بولی" نہ نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ تھینک یو!!" وہ اب سنبھل چکی تھی۔ جواب دے کر وہ رکی نہیں آگے بڑھ گئ۔ سعد اسے جاتا دیکھکر کندھے اچکا کر دوبارا نظریں گھما کر ندا کو ڈھونڈنے لگا اور وہ آخر کار اسے نظر آ ہی گئ۔ اسے دیکھ کر سعد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ۔
"تو یہاں چھپ کر بیٹھی ہے محترمہ" وہ بڑبڑاتا ہوا اسکی طرف بڑھ گیا۔
وہ ایک درخت سے ٹیک لگاۓ کانوں میں ہینڈ فری لگاۓ کچھ پڑھ رہی تھی جب وہ اسکے سر پر جا پہنچا۔ندا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کے چہرے میں مسکراہٹ رینگ گئ۔
"تم بہت لاپرواہ ہوتی جا رہی ہو دیکھ رہا ہوں میں تمھیں۔ تمھیں کوئ فکر ہے میری۔۔۔ کل کتنی دفعہ کال کی وہ پک نہیں کی اتنے میسجز کیے وہ سین کر کے رکھ دیے جواب دیتے ہوۓ تو جیسے انگلیوں میں درد ہو رہا تھا نا۔ اور اب اتنی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں تمھیں اور تم سے یہ تک نہیں ہو سکا کہ مجھ سے آکر مل ہی لو۔حد ہوگئ" سعد غصے میں نان سٹاپ بولتا گیا۔جبکہ ندا پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی گئ۔ اس کے اس طرح ہنسنے پر سعد "ہنہ" کہہ کر سامنے دیکھتا بچوں کی طرح منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ جس پر ندا نے اپنی ہنسی روک کر غور سے اسے دیکھا۔ "سعد" وہ سنجیدگی سے بولی۔ "سعد بچے بات تو سنو" ندا نے اپنی ہنسی روک کر بھر پور سنجیدگی سے اسے دوبارا پکارا۔ اور سعد خود کو بچہ کہے جانے پر ندا کو گھورنے لگا جس پر ندا مسکرا دی۔
"سعد۔۔ اچھا سوری۔۔ میں کل ماما پاپا کے ساتھ باہر گئ ہوئ تھی اور موبائل گھر رہ گیا تھا۔ رات کو دیر سے گھر آۓ۔ آکر تمھارے مسج پڑھے اور جواب لکھ ہی رہی تھی ک لائٹ چلی گئ جس کیوجہ سے WiFi بھی آف ہو گیا اس لیے تمھیں جواب نہیں دے سکی۔۔۔ ریلی سوری" وہ وضاحت دیتی آخر میں کان پکڑ کر سوری کرنے لگی۔اسے کان پکڑتا دیکھ کر سعد بھی پگھل گیا مگر پھر بھی سخت آواز میں بولا " اوکے آئیندہ دھیان رکھنا"
"اوکے۔ اب اپنا موڈ ٹھیک کرو جلدی سے۔ آؤ مجھے بھوک لگی ہے کینٹین سے کچھ کھاتے ہیں" ندا کہتی اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ سعد کے چہرے پر اب مسکراہٹ تھی۔ وہ ندا کو دیکھے گیا۔ اسکی نظروں کو خود ہر محسوس کرکے ندا نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
"ندا میں اپنے امی ابو کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں" سعد ذرا توقف کے بعد بولا
"کیا مطلب" ندا نے اجنبی بن کر پوچھا۔
"اف وو۔۔۔ مطلب میں انہیں ہمارے رشتے کی بات کرنے کے لیے تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔
"اوو۔۔۔ تووو۔۔۔" ندا نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔
"تمھیں کوئ اعتراض تو نہیں" وہ تحمل سے بولا۔
"مجھے کیا اعتراض یو سکتا ہے؟؟" وہ مسکرا کر بولتی نظریں جھکا گئ۔ سعد نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔
🌸🌸🌸🌸
#MS

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Sep 17, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

منزلِ تقدیرWhere stories live. Discover now