أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴۹)فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْؕ-وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠(۵۰)
ترجمۂ کنز العرفان
تم فرماؤ: اگر تم سچے ہو تو الله کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت والی ہو میں اس کی پیروی کرلوں گا۔ پھر اگر وہ یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کی پیروی کررہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو الله کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک الله ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر صراط الجنان
{ قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ : تم فرماؤ: تو اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کے انکار کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو کہ تورات اور قرآن کریم جادو ہیں تو اللہ تعالیٰ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت والی ہو،اگر تم ایسی کتاب لے آئے تو میں اس کی پیروی کرلوں گا۔یہاں یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ کفار ایسی کتاب لانے سے بالکل عاجز ہیں ،چنانچہ اگلی آیت میں ارشاد فرمایاجاتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، پھر اگر وہ کفار یہ تمہاری بات قبول نہ کریں اور ایسی کتاب نہ لاسکیں تو آپ جان لیں کہ یہ کفر کی جس سواری پر سوار ہیں اس کی ان کے پاس کوئی حجت نہیں ہے اور بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کی پیروی کررہے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں جو خلافِ ہدایت اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو اپنے دین کی طرف ہدایت نہیں دیتا ۔
(خازن،القصص،تحت الآیۃ: ۴۹ - ۵۰ ، ۳ / ۴۳۵ - ۵۳۶ ، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۴۹ - ۵۰ ، ۶ / ۴۱۲، ملتقطاً )جزاک اللہ خیرا
طالب دعا