قسط نمبر 5

604 40 0
                                    

وہ کب سے آفس میں بیٹھا روالونگ چئیر پر جھول رہا تھا آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے جیسے اپنی زندگی کے پچھلے کچھ دنوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ اسے اپنی زندگی کے بدترین دن بھلانے میں خاصا وقت درکار تھا جب وہ سنگا پور آیا اور اسے آئے ابھی صرف دو دن ہی ہوئے تھے۔ وہ دوپہر کو لنچ کے بعد ایک امپورٹنٹ کنسائنمنٹ کے سلسلے میں میٹنگ روم میں تھا جب اس کے فون نے بیپ دینی شروع کی تھی۔سکرین پر منان صاحب کا نمبر جگمگارہا تھا۔ڈیڈ کالنگ وہ چاہ کر بھی اس وقت اس کال کو نظرانداز نہیں کرسکا اور فون اٹھالیا۔

"اسلام علیکم ڈیڈ!" لہجے سے ازلی احترام جھلک رہا تھا۔

"وعلیکم اسلام مائی سن کیسے ہو؟" منان صاحب کا پُرشفقت لہجہ سنائی دیا تو وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔

" میں بالکل ٹھیک ہوں ڈیڈ!آپ کیسے ہیں؟" ان کی بات کا جواب دے کر اس نے ساتھ ہی ان کا حال پوچھا تھا۔

" میں ٹھیک نہیں ہوں بیٹا!" ان کی آواز بہت لڑکھڑا رہی تھی۔وہ ایک دم گھبرا گیا کیونکہ وہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ محبت اپنے باپ سے ہی کرتا تھا اور انہیں کوئی دکھ کوئی تکلیف ہو یہ اسے برداشت نہیں تھا۔

" کیا مطلب ڈیڈ خیر تو ہے نا آپ ٹھیک تو ہیں نا کیا ہوا ہے آپ کو؟" زمریز کے لہجے کی بے چینی سے یہ واضح تھا کہ اس لمحے اسے منان صاحب کی حد سے زیادہ فکر ہے۔

" بیٹا بچپن سے لے کر آج تک میں نے تمہاری ساری خواہشات کو پورا کیا ہے کبھی کسی چیز سے منع نہیں کیا۔" منان صاحب کا حد سے زیادہ دھیما لہجہ اسے عجیب اضطراب میں مبتلا کررہا تھا۔

" میں جانتا ہوں ڈیڈ آپ ایسے کیوں بول رہے ہیں؟" اس نے الجھن ذدہ لہجے میں پوچھا تو دوسری جانب کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

"آج تمہارا باپ تمہارے سامنے ہاتھ پھیلا کر کچھ مانگ رہا ہے میرا دل کہتا ہے کہ تم انکار نہیں کرو گے۔" لہجے سے جھلکتے مان نے گویا اس کا دل مٹھی میں جکڑا تھا۔

" ڈیڈ آپ کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے آپ کا درجہ حکم کرنے والا ہے۔ آپ بس حکم کریں۔" اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تو دوسری جانب سے گہری سانس بھرنے کی آواز ابھری۔

" میں نے تمہارے لیے ایک فیصلہ کیا ہے۔میں اس چیز کی تمہیں گارنٹی دیتا ہوں کہ مجھے کبھی اپنے فیصلے پر پچھتانا نہیں پڑے گا۔ تمہاری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ مجھے پتہ ہے مجھے تمہاری مرضی سے اور تم سے پوچھے بغیر نہیں کرنا چاہئیے تھا پر یہ فیصلہ میں نے تمہارے لیے بڑے مان و اعتماد سے کیا ہے کہ میرا بیٹا مجھے مایوس نہیں کرے گا۔" وہ بڑے ہی رسان سے تمہید باندھ رہے تھے۔ زمریز کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔

" ڈیڈ آپ سیدھے سیدھے بتائیں کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟" اس کی برداشت کی حد بس یہی تک تھی۔

Dil Dharakney tak completed✔Where stories live. Discover now