آخری قسط

1K 47 9
                                    

سب مہندی لگا چکے تھے اور وہ بھی کافی تھک چکی تھی تب ہی زروا اور زائیشہ اسے اٹھا کر اس کے کمرے میں لے آئی تھیں۔ 

"بھابھی آپ تھوڑا سا کچھ کھالیں آپ نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے" زروا نے اس کے پیچھے تکیہ درست کرتے ہوئے کہا تو انشراح نے اس کی جانب دیکھا۔

" ہاں زروا پر مجھے بھوک ہی نہیں ہے۔" وہ اپنے مہندی لگے ہاتھ پھیلا کر بولی تو زروا نے اس کے آگے آئے ہوئے بال پیچھے کیے۔

" کوئی بات نہیں تھوڑا سا کھالیں جاؤ زائیشہ بھابھی کے لیے تھوڑا سا کھانا لے آؤ۔" زروا نے قریب کھڑی زائیشہ سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"اچھا میں لے کر آتی ہوں۔" وہ کہہ کر باہر نکل گئی۔

کچھ ہی دیر میں وہ تھوڑا سا کھانا اس کے لیے پلیٹ میں لے آئی ان دونوں نے اسے کھانا کھلایا اور اسے چینج کرکے آرام کرنے کا کہہ کر چلی گئیں۔

وہ کپڑے تبدیل کرکے اپنے بستر پر آکر لیٹی ہی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا فون پر زمریز کا نام چمک رہا تھا اس نے فون اٹھا لیا۔

" پتہ ہے انشراح! "اس کے فون اٹھاتے ہی اس کی پُرجوش سی آواز ابھرئی۔

" میں کتنا خوش ہوں آج کل کے دن تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے پاس آجاؤ گی پھر مجھے کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوگا تمہارا مستقل پرمیٹ مل جائے گا مجھے۔" وہ مسکراتے لہجے میں کہہ رہا تھا مگر وہ عجیب بے چینی محسوس کررہی تھی۔ اس نے اپنی یہ بے چینی زمریز سے چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کر تھی۔ 

"ایک بات کہوں زمریز آپ سے؟" وہ کچھ دیر اس کی بات سننے کے بعد گویا ہوئی تھی۔

" جی زمریز کی جان جتنی مرضی باتیں کہو آج تو ساری باتیں سنوں گا تمہاری لیکن کل صرف اپنی کہوں گا تمہیں بالکل بولنے نہیں دوں گا۔" وہ اس کی بات نظر انداز کرکے بولنے لگی.

" زمریز مجھے بہت بے چینی ہورہی ہے،مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔" آنکھیں میچ کر اس نے کہا تو دوسری جانب سے کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی پھر اس کی سنجیدہ آواز ابھری تھی۔

" ارے کس بات کا ڈر،کس بات کی بے چینی تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے کہ کل تمہاری شادی ہے۔ کیا تم خوش نہیں ہو انشراح!" وہ انتہائی سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔ مختلف وہم و وسوسوں نے ایک لمحے میں دل میں جگہ بنائی تھی۔

"نہیں ایسی بات نہیں ہے بس مجھے ڈر لگ رہا ہے میرا دل بے چین ہورہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے کچھ بہت برا۔" وہ کسی غیر مرعی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے کہہ رہی تھی۔

" توبہ تم کیسی باتیں کررہی ہو اللہ پر بھروسہ رکھو وہ سب خیر کرے گا۔ انشاءاللہ! اب تم سوجاؤ اللہ حافظ۔" اس نے کہہ کر فون بند کردیا لیکن وہ سو نہیں پائی تھی صبح سب خیر ہونے کی دعائیں ہی مانگتی رہی۔ پر کسے معلوم تھا اس کے سارے خدشات درست ثابت ہونے والے ہیں۔

Dil Dharakney tak completed✔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant