hashempensit
اہل دیر و حرم رہ گئے ہیں، تیرے دیوانے کم رہ گئے ہیں۔ رند جنت میں جا بھی چکے، واعظ محترم رہ گئے ہیں۔ ہو گئیں دور تر منزلیں، فاصلے کم سے کم رہ گئے ہیں۔ مٹ گئے منزلوں کے نشاں، صرف نقش قدم رہ گئے ہیں۔ جب کہ دو گام منزل رہی، لڑکھڑا کے قدم رہ گئے ہیں۔ حق بہاروں پہ گلچیں کہے، باغبانی کو ہم رہ گئے ہیں۔ جن کو رہنا تھا وہ چل دیے، ویسے رہنے کو ہم رہ گئے ہیں۔ ان کی ہر شے سنواری مگر، پھر بھی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں۔ اے فنا! اپنی تقدیر میں، ساری دنیا کے غم رہ گئے ہیں۔ -فنا کانپوری