"مجھے سمجھ نہیں آتی آخر ایسی کیا مصروفیات ہوتی ہیں انکی جو آدھی رات تک ختم نہیں ہوتی"۔ انہوں نے جھنجھلا کر چشمہ اتار کے میز پر پٹخا۔ ایک طائرانہ نگاہ وال کلاک پہ ڈالی جو رات کا ایک بجا رہا تھا۔ "امی! آپ خواہ مخواہ فکر کر رہی ہیں۔بزنس جب وسیع پیمانے پہ پھیلا ہو تو کسے گھر آنے کی فکر ہوتی ہے اور ابو کا تو بزنس بھی کافی وسیع ہے ایسے میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے".
بیٹے نے کتابوں سے سر اٹھا کے ماں سے کہا۔ جو ایک بار پھر صوفے سے کھڑی ہو چکی تھیں۔"ستائیس سال گزار دیے تمھارے باپ کے ساتھ لیکن ان سالوں کی سردیوں کو سمجھ نہیں پائی ہوں۔یہ سردیاں بہت بڑا معما ہیں میری زندگی کا جو سلجھاۓ نہ سلجھے بس الجھے ہی الجھے"۔ وہ بدبداتی ہوئیں باہر نکل گئیں۔ پوری سڑک دھند کی لپیٹ میں تھی۔خنکی میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا جو ہڈیوں میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی۔ایسی ٹھنڈ اور ہولناک خاموش رات کہ ہوا بھی چلتی تو خوف محسوس ہونے لگتا۔وہ آنکھیں سکیڑے کافی دیر تک راہ تکتی رہیں مگر وہ نہ آئے۔انھیں یاسیت نے اپنے حصار میں لینے کی بجائے غصہ و اشتعال کے حوالے کر دیا۔
"ہو نہ ہو یہ ضرور اپنی کسی سگی کے ہاں ہی جاتے ہوں گے"۔ انکا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔ اسد نے بمشکل ہنسی دبائی۔ایک تو عورتیں بھی ناں کس قدر واہمی ہوتی ہیں۔ "اسد! تم فون کیوں نہیں کرتے اپنے باپ کو۔پوچھو تو کہاں رہ گئے ہیں"۔اب انھیں فکر ستانے لگی۔"کیا ہے امی! لیکن فون بند جا رہا ہے"۔وہ سر تھام کے رہ گئیں۔تبھی وہ ہانپتے کانپتے اندر داخل ہوئے۔ "بیگم! ایک کپ چائے بنا دو فٹافٹ بہت ٹھنڈ ہے یار"۔ وہ عجلت میں کہتے کمرے میں گھس گئے۔ایک طرف جہاں انھیں صحیح سلامت دیکھ کر سکھ کا سانس آیا وہیں انکی فرمائش نے بھی آگ بگولہ کر دیا۔مجبورا چائے بنانے اٹھ گئیں۔"مانا کہ سردیوں کے دن چھوٹے ہیں لیکن ایسے بھی کیا کام جو رات گئے تک ختم ہونے پر ہی نہ آئیں"۔وہ ایک بار پھر اسد سے مخاطب ہوئیں اور کچن کی اور بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کی اذان کے ساتھ ہی سڑکوں پہ زندگی کے اثرات اور تیزی سے ابھرنے لگے۔ہر سو روشنیوں کی چکاچوند میں اضافہ ہونے لگا۔ اسکے ساتھ ہی دھند نے ہر شے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دی۔وہ ہر چیز سے بے نیاز اپنے سر اور چہرے کے گرد مفلر لپیٹے بلند صدا لگاتا آگے بڑھے جا رہا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے کولر پہ اسکی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مظبوط ہو گئ۔
روشنیاں کہیں بہت دور پیچھے رہ گئیں۔گرد سے اٹی کچی پکی سڑک سے نجانے اسے کیسی انسیت تھی کہ وہ اس پہ کئ کئ گھنٹے پیدل چل کر بھی تھکن اور تھکاوٹ نام کو نہ پاتا۔ بلکہ اس کی صدا میں پہلے سے بھی زیادہ جوش اور ولولہ پیدا ہو جاتا۔ اسنے ایک بار پھر صدا لگائی۔
"گرم انڈے"۔
اسکے ساتھ ہی اسے ایک طمانیت کا احساس ہوتا۔"بھائی! دو انڈے دے دو"۔ ایک بچے نے اسکے قریب آ کر کہا۔اسنے کولر کا ڈھکن اٹھایا اور دو ابلے ہوئے موٹے موٹے انڈے بچے کو تھماۓ اور آگے بڑھ گیا اپنی مخصوص صدا کی گونج ہرسو پھیلاتے ہوئے۔
اسکے انڈے ختم ہوئے تو ایک مسجد کی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا۔اسکا چہرہ اب بھی مفلر میں چھپا ہوا تھا یوں کہ ذرا سی پیشانی اور آنکھیں دکھائی دیتیں۔اسنے اپنی جمع پونجی کو ہتھیلی پہ رکھا اور گننے کے بعد ایک نگاہ دھند میں لپٹے آسمان پر ڈالی۔یوں جیسے شکر ادا کر رہا ہو۔اس نے پیسے جیب میں ڈالے اور اٹھ کھڑا ہوا۔یہ چھوٹے چھوٹے کام بعض لوگوں کی زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کو بھی ناکافی ہوتے ہیں۔پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے انسان کیسی کیسی صعوبتیں جھیلتا ہے۔ یہ واحد شے انسان سے کیسے کیسے کام لے لیتی ہے کہ وہ نہ دن دیکھتا ہے اور نہ رات۔ نہ جھلسا دینے والے سورج کو اور نہ منجمد کر دینے والے جھاڑے کو۔ اسے تو بس پیٹ سے غرض ہے۔
زندگی کا پہیہ کب رک جائے کسے معلوم؟ پھر بھی وہ اس پہیے کو چلانے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے۔ مسجد کھلی تھی ،وہ پیسے لیے اندر داخل ہو گیا۔ تہجّد ادا کی، قرآن مجید کی تلاوت کی۔ فجر کی ادائیگی کے بعد باہر نکل آیا۔تبھی مسجد کی داہنی اور کشکول لیے کوئی بیٹھا تھا۔اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر۔۔۔۔
پھر جیب میں موجود اپنی محنت اسکی کشکول میں ڈال دی۔
"رب تجھے ترقیاں دے گا۔ تجھے مالا مال کرے گا۔ تجھے اجر ملے گا دونوں جہانوں میں۔ اجر ملے گا"۔ فقیر نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے دعا دی تو وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسد! تم اپنے باپ کے ساتھ آفس کیوں نہیں جوائن کرتے؟ شام کو جب فری ہوا کرو تو چلے جایا کرو".
"تاکہ وہاں جاسوسی کر کے آپکو ابو کی رپورٹ دیا کروں کہ وہ کہاں جاتے ہیں؟ کس سے ملتے ہیں؟ کتنے بجے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ"۔ وہ شریر سی مسکان لبوں پہ سجاۓ بولا تو وہ خفا سی اسے دیکھنے لگیں۔"اب میں نے یہ تو نہیں کہا".
"مطلب تو یہی ہے ناں"۔
"تم جایا کرو گے کہ نہیں؟"
"اوکے چلا جایا کروں گا۔ اور کوئی حکم؟"
" کل تو انکو جلدی آ جانا چاہیے".
"کل کیوں؟۔۔۔اوہ آپ کی ویڈنگ اینورسری ہے۔پھر تو واقعی جلدی آنا چاہیے"۔ اچانک یاد آنے پہ وہ برجستہ بولا مگر لہجے کی شوخی ہنوز قائم تھی۔
"بلکہ ایسا کروں گا کل انکے ساتھ ہی جاؤں گا اور واپسی پر اپنے ساتھ ہی لے آؤں گا۔ لگتا ہے ابو کو آپ کی بےتابی کا اندازہ نہیں ہے"۔
"اسد!"وہ یک دم چلائیں تو وہ ہنستا ہوا باہر کو لپکا۔ اسکی بیباکی انہیں خفت میں مبتلا کر گئی۔
"کل کینڈل لائٹ ڈنر کا اہتمام کر رکھیے میں ابو کو ٹائم سے لے آؤں گا". وہ جاتے جاتے لقمہ دے گیا تو وہ خود بھی ہنس دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس کچی پکی سڑک پہ خوب رونق جمی تھی۔ کچی آبادی کی جو خصوصیت اسے بے پناہ مسحور کرتی وہ یہاں کے لوگوں کا آپس میں اختلاط و ارتباط کا رشتہ تھا۔یہاں ایک خاص اپنائیت اور انسیت کا احساس جاگتا ہوا محسوس ہوتا۔ہوا میں خنکی تو تھی ہی مگر آج دھند چھٹ گئی تھی۔ زندگی بھاگتی دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی۔ بچے ایک گھر سے نکلتے تو دوسرے میں جا گھستے، دوسرے سے نکلتے تو تیسرے کو جا لیتے۔ بوڑھے و جوان آگ کا آلاؤ دہکاۓ اسکے اردگرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ اپنی مخصوص صدا لگاتا گلی پار کرنے لگا۔
"گرم انڈے"۔
تبھی ایک بوڑھے نے اسے قریب آنے کو کہا۔
"بارہ انڈے دے دو".
"لیکن انڈے تو گیارہ رہ گئے ہیں".اس نے کولر کا ڈھکن ہٹاتے ہوئے کہا۔
"چلو کوئی بات نہیں، گیارہ ہی دے دو۔"اس بوڑھے نے کہا تو اس نے انڈے نکال کے انہیں تھماۓ تبھی اسکے چہرے سے مفلر ڈھلک کے نیچے آ رہا۔ بوڑھے شخص کے ساتھ بیٹھا شخص نجانے تعظیم کے لیے کھڑا ہوا تھا یا وہ شاکڈ تھا بس کھڑے کھڑے ہاتھ میں تھمے پیسوں کو دیکھنے لگا۔ جیسے سوچ رہا ہو کہ پیسے دے دے یا نہیں۔
"سر انور! آپ۔۔۔۔ یہاں؟"
انور صاحب نے فوراً مفلر درست کیا اور بنا پیسے تھامے الٹے قدم وہاں سے چل دیے۔ انکی چال یوں تھی کہ جیسے انکی بہت بڑی چوری پکڑی گئی ہو۔جبکہ وہ شخص حق دق سا وہیں کھڑا رہ گیا۔اسے سمجھ نہ آنے پا رہی تھی کہ اتنا بڑا بزنس مین ہو کر انڈے بیچنے یہاں کیوں چلا آیا؟ یہ شخص انور صاحب کے پارکنگ ایریا کا سکیورٹی گارڈ تھا، وہ ششدر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہاتھ میں کولر اور چہرے کے گرد مفلر لپیٹے اندر داخل ہوئے تو اسد نے حیرت سے انکا سرتاپا جانچا۔ وہ پرمژدہ سی چال چلتے صوفے پر یوں ڈھے گۓ جیسے کئ سالوں کی مسافت طے کر کے آئے ہوں۔
"ابو! یہ آپ۔۔۔۔یہ کولر؟ مطلب یہ کیا ہے ابو!؟ آپ کہاں گئے تھے؟"وہ حیرت سے آنکھیں پھیلاۓ انور صاحب سے استفسار کر رہا تھا۔ انھوں نے ایک تھکن زدہ نگاہ اسد پہ ڈالی اور چپ چاپ کمرے کی جانب بڑھ گۓ۔کچن کے دروازے پہ کھڑی وہ بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا تھیں۔ ایک نظر کولر پہ ڈالی (جو اس گھر میں انھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا) اور دوسری نگاہ کمرے کے دروازے پہ۔ اگلے پل وہ اندر تھیں۔اسد بھی ساتھ ہو لیا۔
"کیا بات ہے انور! آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"وہ جو آنکھوں پہ بازو لپیٹے لیٹے تھے، بازو ہٹا کر انہیں دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا۔ وہ گھبرا کر آگے چلی آئیں۔ماتھے پہ ہاتھ رکھا جو نارمل تھا۔ البتہ آنکھیں سرخ تھیں۔
ویسی جیسا بہت زیادہ رو دینے پہ سرخ ہو جاتی ہیں۔ یا پھر بہت زیادہ ضبط کرنے کی صورت میں سرخی لے لیتی ہیں۔ انہوں نے ایک نظر اپنی بیوی اور دوسری نگاہ بیٹے کے چہرے پر ڈالی جو پریشان کن تھے۔ وہ انکے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔انہوں نے ایک لمبا سانس اندر کھینچا یوں جیسے اندر کی کثافت کو کم کرنا چاہا ہو۔
"تم اکثر پوچھا کرتی تھی نا مہر! کہ میں ہر بار سردیوں میں اتنا کام کیوں کرتا ہوں؟ میری راتیں بنا آرام کے کیوں اور کہاں کٹ جاتی ہیں؟" وہ لمحہ بھر کو رکے اور ایک نگاہ مہر کے فق ہوتے چہرے پر ڈالی۔
"ہم لوگوں نے بہت غربت کاٹی ہے۔میں، مجھ سے بڑا بھائی اور اماں ابا۔ دونوں کو بہت شوق تھا کہ ہم دونوں بھائی پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائیں۔اماں لوگوں کے کپڑے سلائی کرتیں اور ابا جفت سازی کا کام بڑی مہارت سے کرتے۔ گرمیوں کی شام ٹھنڈا شربت اور سردیوں کی شام آلو کی چپس،رول بنا کر بیچا کرتے تھے۔بھائی کو ابا سے بہت محبت تھی۔ محبت تو مجھے بھی بہت تھی لیکن میں اظہار کرتے شرماتا تھا اور بھائی بلاجھجک اظہار کرتے۔" انکا انداز بہت کھویا سا تھا۔ ایسے کہ وہ یہاں کی بجائے اپنے آبائی گھر پہنچ گئے ہوں۔
"بھائی بہت پرعزم انسان تھے۔جس کام کا ارادہ کرتے وہ کر کے ہی دم لیتے۔ابا سردیوں میں اکثر بیمار ہو جاتے۔کیونکہ بچاؤ کے لیے کوئی گرم چادر نہ تھی اور نہ پاؤں ڈھکنے کو کوئی گرم بوٹ۔ایک ہی چپل تھی جو پورا سال چلتی۔ایک مرتبہ بھائی نے کہا کہ انور یار! ابا بہت محنت کرتے ہیں نا۔ یہ جاڑا ابا کو بالکل سوٹ نہیں کرتا،ہر جاڑے میں بیمار ہو جاتے ہیں۔ یار! ہم بھی کچھ کریں؟"
"ہم کیا کریں گے بھلا؟"
میں نے اشتیاق سے پوچھا۔ وہ ضرور کچھ شاندار ہی سوچ کے بیٹھے ہونگے۔ وہ بارہ سال کے تھے اور میں نو سال کا۔
"ہم اس سال جاڑے میں انڈے بیچیں گے۔ابا تو گیارہ بجے کے بعد ہہ لوٹتے ہیں،ہم ان سے پہلے ہی اپنا کام کر کے آجایا کریں گے۔ کیسا؟"
"لیکن بھائی!انڈوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟"
"میرے بھولے بھائی اسکی فکر نہ کرو۔کچھ میری پاکٹ منی کچھ تمھاری اور کچھ اماں سے لے لیں گے۔ لیکن ابا کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔" آخر میں مجھے تادیبی انداز میں کہا تو میں نے فوراً ہامی بھر لی۔
"بھائی! تم ان پیسوں کا کروگے کیا؟" ہم تین سال سے یہ کام کر رہے تھے۔ ان تین سالوں سے میرے ذہن میں پلنے والے سوال کو آخر زبان مل ہی گئی تھی۔ "میں ان سے ابا کے لیے گرم چادر اور بوٹ لونگا تا کہ ابا ہر جاڑے میں بیمار نہ ہوں". اس نے مسکرا کر اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے بہت ٹوٹ کر پیار آیا بھائی پر۔ ہم تین سال سے ابا سے چھپ کر انڈے بیچ رہے تھے۔اب اتنے پیسے اکٹھے ہو گئے تھے کہ گرم چادر لی جا سکتی۔ ایک روز مجھے ساتھ لے جا کر پسند کی ہوئی چادر بھی دکھا دی اور پھر ایک روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک روز مہر!"انکی آواز رندھ گئی۔
وہ ایک سرد اور دھندلی رات تھی۔ ایک موڑ پر دونوں خود سے جدا ہوئے۔کام کے پورا ہوتے ہی دونوں نے دوبارہ اسی موڑ پہ ملنا تھا۔دونوں بہت خوش تھے کیونکہ اگلے روز انہوں نے وہ چادر خریدنی تھی۔ وہ آنکھوں میں خوش کن خوابوں کے تارے جگمگاتا آگے آگے بڑھ رہا تھا جب درخت کی اوٹ سے کسی نے اسے پکارا۔ وہ جو "گرم انڈے" کی صدا لگاتا آگے بڑھ رہا تھا پیچھے مڑا۔ ان چار آدمیوں کے پاس لوٹا۔ اسے لوٹنا ہی تھا۔ کاتب تقدیر نے ایسا لکھ رکھا تھا وہ کیسے نہ لوٹتا۔ وہ لوٹ آیا۔
"چار انڈے ہیں؟" مونچھوں والے آدمی نے کرخت آواز میں پوچھا۔
"اور بھی ہیں میرے پاس"۔
"کتنے ہیں؟"
"سات ہیں"
"کتنے کے دو گے؟"
"ستر کے"
"یہ تو زیادہ ہیں"۔
"چلو صاحب ساٹھ دے دینا"۔ اس نے کہہ کر انڈے ان آدمیوں کو تھماۓ جو وہ بہت سستی سے کھا رہے تھے اور اتنی ہی کاہلی پیسے دینے میں بھی دکھا رہے تھے۔اسے جانے کی جلدی تھی کیونکہ موڑ پر اسکا بھائی اسکے انتظار میں ہوگا۔
انور جو بہت دیر سے انتظار کر رہا تھا بےچین ہو اٹھا۔ اتنی دیر تو کبھی نہیں لگی۔ اس نے ایک بار اس گلی میں جانے کا سوچا مگر وہاں کے اندھیرے اور سناٹے نے اسے خوفزدہ کر دیا۔ قریب ہی دکان کا شٹر گرائے جانے کی آواز سنائی دی انور وہاں چلا آیا۔ ساری روداد کہہ سنائی۔
"پریشان مت ہو بیٹا۔ آؤ مل کے دیکھ آتے ہیں"۔وہ حلیم طبیعت آدمی اسے ساتھ لیے وہاں آن پہنچا اور۔۔۔اور اسے لگا جیسے کسی نے اسکے بدن سے خون چوس لیا ہو یا وہ محض ایک بےجان مورت ہو۔ وہ آدمی فوراً آگے بڑھا تھا۔ عجیب سی کیفیت تھی۔
"ہاۓ! یہ کس حیوان نے اسکا سینۂ چھلنی کر دیا؟" آنکھوں میں وحشت، خداترسی،ہمدردی، نفرت و حقارت، نجانے کون سا جذبہ چھلک رہا تھا اس آدمی کی آنکھوں سے۔ انور سمجھ نہیں پاۓ۔ وہ تو بس بھائی کی بےنور آنکھوں کو دیکھ رہے تھے۔ سینے میں گولیاں اتار دی گئی تھیں۔ کیوں؟ وہ سمجھ نہیں پاۓ۔ اسکے بھائی کا بدن ٹھنڈا اور آنکھیں بےنور ہو چکی تھیں۔ سفید قمیص اب لال ہو چکی تھی۔جیب خالی۔ کولر خالی۔
وہ نیلا کولر خالی۔
وہی نیلا کولر جو باہر لاؤنج میں پڑا تھا۔
"مجھے یہ سردیاں بھائی کی یاد بھلانے نہیں دیتیں۔ان دنوں مجھے بھائی شدت سے یاد آتے ہیں۔ ابھی تو انہوں نے خواب سجائے تھے۔ انکی آنکھوں نے خواب بننا شروع کیے تھے۔ ہاہ! یہ ظالم زندگی انکے خواب ریزہ ریزہ کر گئی۔" انکی آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔ مہر اور اسد کبیدہ خاطر انور صاحب کو دیکھ رہے تھے۔انکی پلکوں سے بھی موتی ٹوٹ کر گالوں پر بہہ گئے۔
"آج میرے پاس سب کچھ ہے۔ گاڑی، گھر،عزت۔ زندگی کے تمام خوبصورت رشتے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن میرے پاس میرا "بھائی" نہیں ہے مہر!"
وہ جھلملاتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولےاور دوبارہ تکیے پہ سر ٹکا کر بازو آنکھوں پہ رکھ دیے۔ اور مہر کی آنکھوں میں جھلملانے والے آنسو ندامت کے تھے۔ اتنے سالوں کا راز آج ان پہ وا ہوا تھا کہ وہ کہیں اور نہیں بلکہ اپنے آبائی گاؤں کی فضا میں رچی بسی اپنے بھائی کی خوشبو کو سلام کرنے اور محسوس کرنے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ESTÁS LEYENDO
گرم انڈے
Historia Cortaیہ ایک مختصر سا افسانہ ہے جس میں معمولی اور معصوم سی خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی تگ ودو کا ذکر کیا گیا ہے،،،اور کس طرح یہ ظالم سماج اسے روندھ ڈالتا ہے،،،،،تو پھر چلتے ہیں کہانی کی طرف۔۔۔۔۔۔۔