لال رنگ کا لہنگا زیب تن کیے بھر بھر کے دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے ہوئے بہت ہی خوبصورت سا خاندانی ہار گلے میں پہنے سر پے بہت ہی بھاری اور خوبصورت دپٹا پہنے وہ آنکھیں نیچے کرتی سیڑیاں اتر رہی تھی۔ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی نا وہ۔
آج اس کے چہرے پہ جیسے نور چمک رہا تھا پالر والی نے اپنی مہارت سے اسے بہت ہی اچھا میک اپ کیا تھا اس کے چہرے پر شرم کی لالی یہ عیاں کر رہی تھی کے وہ کتنی خوش اور نروس تھی۔ وہ اسے ہی یک ٹک دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو گر کر اس کے کپڑوں میں گم ہوگیا تھا۔اور وہ جہاں تھی وہیں ساکت رہہ گئی تھی۔مطلب اتنے دنوں کی ریاضت ضائع گئی تھی۔ اور پھر یکدم بہت ہی عجیب سی ہنسی ہنس پڑی تھی اپنے آپ پر۔ کیا کچھ نہیں تھا تب اس کے چہرے پر بہت کچھ کھو دینے کا غم یا کسی کی خوشیوں کو دیکھ کر مسکراہٹ مگر اس سب میں جو کھو چکی تھی وہ غم ہر خوشی پے حاوی ہوا تھا اندر باہر اذیت ہی اذیت تھی اندر کوئی چیخ چیخ کر اپنے نا ہونے کا ماتم منا رہا تھا۔ یکدم اسے اپنا آپ سنمبھالنا مشکل ہوگیا تھا ارد گرد لوگوں کا ہجوم بہت ہی بڑا تھا گانے والیاں گارہی تھی۔ ناچنے والی ناچ رہی تھی اور تھوڑی دیر پہلے وہ بھی تو ایسے ہی گارہی تھی اپنے اندر کے شور کو دبا کر چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ سجائے وہ کتنا خوش دیکھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر اب جیسے سب کچھ دیکھنا اس کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا اس نے گہرے گہرے سانس لیتے اپنے آپ کو پرسکون کرنا چاہا تھا اور ارد گرد دیکھا تھا جہاں سارے بہت ہی خوش تھے لڑکیاں ہنستے مسکراتے باتوں میں گم تھی۔ مگر گھٹن تھی کے کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ تب ہی اس کی نظر الگ تھلگ کھڑے وجود پر پڑی جو کے اس کا چہرہ پڑھ نے میں صاف ماہر تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ وجود اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے مسکرا کر دیکھنے پر وہ وجود سنجیدگی سے اسے دیکھتا ادھر ہی بنے کمرے میں چلا گیا تھا وہ اس کے پیچھے جانا چاہتی تھی مگر جانے کیو وہ جا نہیں پائی کیو کی شاید وہاں جا کر وہ اپنا ضبط کھو بیٹھتی اور کوئی کمرے میں آ جاتا اسی وجہ سے وہ وہیں کھڑی رہی وہ دلہن جس کو اب سوفے پے بیٹھایا گیا تھا وہ اسے بلا رہی تھی اور اس کے بلانے پر وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔"تم وہاں کیو کھڑی تھی اور ارج والے کہاں ہیں۔۔؟اس دلہن نے پوچھا تھا۔۔ اس کے سوال پر وہ سوچ میں پڑ گئی تھی کے وہ کیا جواب دے مگر ساری سوچیں بھی مسترد ہوگئی تھی۔ بہت کچھ ٹوٹا تھا اندر اور اندر جو کچھ وہ سمیٹ رہی تھی ایسے میں اپنے آپ کو جنجھوڑ کے پوچھنا کے اب کیا کہوں بہت ہی مشکل تھا اس وقت اس کو مسلسل خاموش پا کر وہ دلہن حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔۔
+++++
"میں نے کہا نا آپ سے مجھے نہیں کرنی شادی اس سے آپ سب کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آرہی آخر۔۔؟ وہ چیخ ہی تو پڑا تھا کب سے سب کو یہی بات وہ سمجھائے جارہا تھا مگر سب کی ایک رٹ تھی اور وہ تھی نایاب کی شادی بہرام سے۔ اس بات پر سب نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔
YOU ARE READING
کانچ از قلم کشف
Fantasyیہ کہانی ہے نایاب حسام بہرام اور زرناب کی یہ کہانی ہے محبت کی ضبط کی جزبات کی قربانی کی خوشیوں کی۔ انشاءاللّٰہ یہ میری نئی کہانی آپ سب کو بہت اچھی لگے گی۔ اور جیسے میرے دوسرے ناولوں پر آپ نے مجھے سرہا سپورٹ کیا اس پر بھی کرینگے۔ Also follow my ins...