۳۱ جنوری کو جب آپ کی سالگرہ کے لیے کچھ لکھنے کی پہلی کوشش کی تو تحریر کچھ یوں رہی۔۔۔
آج میرے لفظ کڑی آزمائش میں ہیں
مجھے حرف نہیں موتی پرونے ہیں
مجھے اداسی نہیں خوشیاں لکھنی ہیں
مجھے آہ و زاری کو آج سمیٹ لینا ہے
میرا لفظ لفظ مہکے آج
مجھے نور کا تذکرہ کرنا ہے
یہ کاوش اک حقیر سی ہے
پھر بھی دل کی خوشی عجیب سی ہے
نہ کوئی قافیہ ہے جڑ رہا
نہ کوئی ردیف ہے بن رہی
اک پل کو لگا کہ خوشیاں میرے آس پاس
گنگناتے ہوئے
میرے لفظوں میں آبشار کی تمام خوشنمائی
سینچ رہی ہیں
معلوم نہیں یاں شاید معلوم ہے کیوں
اگلے ہی پل میرا قلم رک گیا
ذہن الجھنوں سے بھر گیا
لکھنا ترک کر دیا
سوچ اپنا ڈھیرا جما چکی ہے
مسرتیں وحشت میں ڈھل گئی ہیں
آنکھ ذرا بھی نہ نم ہوئی
مگر
یوں لگا کہ وہ تمام اشک جو آنکھ سے بہنے ہیں
دل پے گر رہے ہیں
جس خوشی کو سوچ کر لکھنا شروع کِیا ہے
وہ تو ابھی ہی ساتھ چھوڑ گئی۔۔۔امبرین کنول