آجاؤ۔۔امائرہ نے ٹیرس پر پڑی چئیر پہ اسے بٹھایا اور خود کے لیے بھی چئیر کھینچی۔نرمین کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی وہ اس کے مقابل بیٹھ چکی تھی۔۔۔
نرمین سر نیچے کیے آنسو بہانے میں مشغول تھی۔اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی نظروں کا زاویہ آسمان کی طرف کر لیا۔۔۔صاف شفاف نیلگوں آسمان۔۔
آنسو بہا دینا ہی کبھی کبھی بہتر ہوتا ہے۔۔۔
انسانوں کے سامنے رونا تو نہیں چاہیے لیکن جب کبھی دل تکلیف میں ہو اور سانس بھی زہر کی طرح حلق میں گھل رہی ہو تو کسی اپنے بہت پیارے کے سامنے سب بتا دینا چاہیے،کھل کے رو لینا چاہیے،سب سنا کر دل ہلکا کر لینا چاہیے۔۔
اس کے ہاتھوں کو تھپکتی امائرہ کی آنکھوں میں نمی گھلی تھی ۔۔
اسے میر یاد آئی تھی۔ہاں میر۔۔۔اگر آج میر کہیں زندہ ہوتی تو یقیناً اس وقت وہ نرمین کو سمجھانے کی بجائے حازم سے بدلہ لینے کے ایک سو ایک طریقے سکھا رہی ہوتی۔۔ہر طریقہ پہلے والے سے بھی زیادہ خطرناک۔۔۔
امائرہ نے نم آنکھوں سےہنستے ہوئے نرمین کی طرف گردن موڑی۔۔
"آپ میرا مذاق اڑا رہی ہیں؟" نرمین اس نے ہنسنے پہ حیران رہ گئی تھی
"نہیں میری جان بالکل بھی نہیں۔"وہ مسکرائی"رولیااچھے سے؟"
جواب میں سرخ آنکھوں اور ناک کے ساتھ سر ہلانے پر اکتفا کیا گیا تھا۔۔۔
"گڈ گرل چلو اب میری بات غور سے سنو۔۔۔"
روح انہیں ڈھونڈتا وہاں آیا تھا اور امائرہ کی آواز سن کر وہیں رک گیا
"پہلے امائرہ بات کر لے پھر میں جاؤں گا اندر۔۔"اس نے دیوار سے ٹیک لگائی
"کیا کسی نے تمہیں کچھ کہا تھا حازم کے بارے میں؟"امائرہ نے اس کے جھکے سر کو مسکراتے ہوئے دیکھا
نرمین نے جواباً پھر سے سر ہلا دیا
"اچھا اوپر تو دیکھو"امائرہ کو ہنسی آرہی تھی اس کے معصوم انداز پر
میری دوستوں نے" امائرہ کے نرم لہجے نے اس کی ڈھارس بندھائی۔۔
"کیا کہا تھا؟"
"یہی کہ حازم مجھے پسند نہیں کرتے،اس لیے مجھے میسج بھی نہیں کرتے،گفٹس بھی نہیں دیتے،لینے بھی نہیں آتے، کہیں لے کے بھی نہیں آتے۔۔۔"اس کی شکایتی لسٹ طویل ہوتی جا رہی تھی جسے غور سے سنتی امائرہ کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔ ڈیسینٹ سے حازم بھائی کی پرسنالٹی اس کی نظروں میں گھوم گئی۔۔
نرمین نے بات پوری کر کے اس کی طرف پر امید نظروں سے دیکھا کہ شاید امائرہ اس کی باتیں سمجھ گئی ہو۔۔۔
امائرہ نے اس کے چہرے پر آتی بالوں کی لٹیں اس کے کان کے پیچھے کیں۔۔۔
"لسن پرنسس!ہر انسان کی نیچر ڈفرنٹ ہوتی ہے اسی طرح حازم بھائی کی بھی ڈفرنٹ نیچر ہے،وہ بزی ہوتے ہیں پھر بھی مینیج کرتے ہیں نہ اور آؤٹنگ شادی کے بعد کر لینا نا۔۔۔"
"نکاح ہوا تو ہوا ہے دو سال سے"اس نے منہ بسورا ہوا تھا
"ہممم،اچھا تم حازم بھائی کو پسند کرتی ہو؟"
"شاید" اس نے ڈپلومیسی سے کام لینا چاہا۔۔
"نہیں۔۔۔ ہاں ۔۔۔بالکل" نرمین نے گڑبڑاتے ہوئے نظریں جھکائیں۔۔۔
امائرہ کے گھورنے نے اثر کیا تھا جو شاید سیدھا جواب آگیا تھا
"تو پسند تو خوبیوں اور خامیوں سمیت کرتے ہیں نہ اور جس طرح آج تم نے سب کے سامنے ان سے بدتمیزی کی۔۔۔۔۔۔" نرمین کی آنکھوں میں پھر سے آنسو بھر آئے تھے
"میرا مطلب کے برے طریقے سے پیش ائی۔۔۔"اس نے ہڑبڑا کر تصحیح کی کیونکہ نرمین کو لگ رہا تھا اس نے ٹھیک ہی کیا ہے
"بھابھی مطلب تو ایک ہی رہاپھر بھی"۔اس نے خفگی سے اسے دیکھا
"ہاں تو حازم بھائی کو برا لگا ہو گا نا۔۔ اگر تم علیحدہ سے انہیں یہ بات بتا دیتی یا تھوڑے نرم لہجے میں بات کرتی تو انہیں بھی غصہ نہ آتا اور وہ بات بھی سمجھ جاتے۔۔"
"ہاں اور اگر اس پہ تھوڑا اعتبار بھی کیا ہوتا اور اس کی نیچر کو سمجھا ہوتا تو یہ نہ ہوتا۔۔"روح نے اندر داخل ہوتے اپنے لیے چئیر کھینچی۔وہ دونوں اسے آنکھیں چھوٹی کیے جارحانہ انداز میں دیکھ رہیں تھی۔۔
روح نے اپنے بتیس دانتوں کی نمائش کی اور پھر فوراً دانت اندر کر لیے ٹوٹنے کا خدشہ جو تھا۔۔
"میرا مطلب جس طرح مجھے پتا ہے کہ امائرہ کو اگر میں نے کہا ہے کے وہ دن میں دو سے تین دفعہ لازمی جوس پیے تو وہ پیتی ہو گی اس کی صحت کے لیے اچھا ہے،آئی ٹرسٹ ہر، ہےنہ امائرہ؟"اس نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا
مائرہ بیچاری جواب میں ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں سکی۔۔
"ہاں۔ہاں جی۔وہ میں آتی ہوں" وہ اس اچانک حملے پر گڑبڑاتی ہوئی وہاں سے کھسک لی۔۔۔
"تمہاری بھابھی نے جوس بہا بہا کر جانے کتنا رزق ضائع کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا تھا۔۔"
اس نے ہنستے ہوئے نرمین کی طرف دیکھا
"اوووہ اسی لیے۔۔میں بھی کہوں بیچ میں جوس کہاں سے آگیا۔۔۔" اس نے اچانک ہی کچھ یاد انے پہ اس کی طرف کچکچاتے ہوئے دیکھا
بھائ۔۔۔۔ہادی ہارٹ سرجن ہیں نہ تو آپ بھابھی کی فائل انہیں کیوں دکھا رہے تھے اس دن؟میرا مطلب تھا میڈیکل چیک اپ اور بھابھی کی میڈیسن بھی۔۔۔۔۔" اس نے ہچکچا کر بات ادھوری چھوڑی۔۔۔
"ہاں ۔۔"روح کے چہرے پہ ایک سایہ سا آ کے گزرا۔
"بس تم دعا کرو میں کچھ بتانا نہیں چاہتا۔"اس نے توقف کیا "فی الحال تم بھی بہت خیال رکھا کرو امائرہ کا۔ویسے تو یہ میرا کام ہے لیکن۔۔۔اور ہاں۔۔
جن پہ مان ہوتا ہے نہ اور جن سے محبت ہوتی ہے ان کی کی جانے والی چھوٹی سی بات بھی بہت زیادہ تکلیف اور درد دیتی ہے" روح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
میں اب اس "مسٹر ایچ" کی خبر لوں زرا۔بہت غصے میں تھا وہ نرمین کا ماتھا چومتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔
بہنیں مان ہوتی ہیں بھائیوں کی جان ہوتی ہیں
سارا جہان ایک طرف ہو جائے
تب بھی ہر قدم پر ان کےساتھ ہوتی ہیں
_________
حازم فائل بند کرتا سیدھا یوا
"ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے"
عمر نے اس کی ٹیبل سے پیپر ویٹ اٹھایا
"لگ تو نہیں رہا"
"مجھے غصہ ہے جگر"
"کس پر؟"
"مجھے نرمین کے متعلق کسی سے ڈسکس نہیں کرنا"
عمر مسکرایا
"نرمین میری بھی بہن ہے۔اچھے سے جانتا ہوں میں اسے
میں نے صرف وجۂ معرکہ پوچھی ہے"
عمر نے پیپر ویٹ بائیں ہاتھ میں منتقل کیا
"اسلام علیکم! " روح نے اندر آتے ہوئے باآواز بلند سلام کیا اور عمر کو اشارہ کر کے صورتحال جاننے کے کوشش کی۔۔
عمر اسے دیکھتے ہی گرم جوشی سے اس کے گلے ملا۔
"بہت خراب,جناب کا دماغ ساتویں منزل پر ہے"
"کوئی نہ! کر لیتے ہیں ٹھیک".روح ہنستا ہوا کرسی پر براجمان ہوا
"لو آگیا میرا سالا۔۔"حازم نے دنیا کا بیزار ترین لہجہ اختیار کیا
"تمیز سے۔۔"روح نے عمر کے ہاتھ سے پیپرویٹ لے کر اس کی جانب پھینکا جو سیدھا اس کے کندھے کا نشانہ لیتا زمین بوس ہو گیا۔۔۔
"دونوں بہن بھائی ہی لحاظ سے عاری ہیں"حازم نے پیپر ویٹ اٹھایا اور ڈرار کے اندر ڈال دیا۔۔۔
روح صورتحال گاڑی میں بیٹھتے ہی عمر کو ٹیکسٹ کر چکا تھا جسے وہ اب پڑھ رہا تھا
"چل چل بکواس نہ کر۔بہت اچھی ہوئی آج تیرے ساتھ سر عام بے عزتی۔۔" روح نےاور عمر نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے فلک شگاف قہقہہ لگایا "بڑا آیا رعب والا"
"توبچ جا میرے ہاتھ سے روح۔میں دیکھ رہا ہوں آج کل تیری حرکتیں۔سارے زمانے کو آپ کہتا ہے اور مجھے بچپن سے تم بھی نہیں تو" وہ اسی پر چڑھ دوڑا۔ روح نے ہنکارا بھرا
"یہ تو میرا پیار ہے" اس نے حازم کو دیکھ کر آنکھ ماری
"دونوں میرے سامنے شروع مت ہو جانا میں ایک مشرقی اور شریف لڑکا ہوں۔۔" عمر نے ان کے سامنے شریف بننے کی کوشش کی کہ اسی وقت اس کے سامنے پڑا سیل بج اٹھا
"زاہرہ کالنگ"
"نکل گئی شرافت؟ "حازم کو تو طنز کا موقع مل گیا تھا۔عمر بیچارہ کسھیا گیا۔مفت میں ڈائلاگ مارتا پھس گیا تھا۔
"اٹھا لے زہر کی کال ہے،سر پھاڑے گی ورنہ تیرا"۔ روح نے بھی اپنی زبان کے جوہر دکھائے
عمر دانت کچکچاتے ان دونوں کو منتقمانہ نظروں سے دیکھتا باہر نکل گیا
_______________
"امیییی۔۔۔۔امیییییی۔۔۔۔۔ بات کو سمجھنے کی کوششکریں۔۔۔" وہ ملامت زدہ انداز میں انہیں کہتا ہوا اپنے ڈبل بیڈ پر بیٹھا۔۔۔۔
"ارے ایسے ہی پریشان ہو رہا ہے تُو تو ۔۔۔ لڑکی میں نے دیکھی ہے بہت خوبصورت،سلجھی ہوئی فرمانبردار بچی ہے۔۔۔ حیا شرم والی،،دوسروں کا لحاظ کرنے والی، با ادب۔۔۔۔"
"ویٹ۔۔ویٹ یار امی۔۔۔پلیززز پہلے میری بات سن تو لیں"وہ روہانسا ہوا۔
ہر دفعہ وہ انہیں کسی نہ کسی طرح ٹال دیتا تھا پر اس بار وہ بات پکی کر کے آگئیں تھیں اور اب اگلے ہفتے اس کی منگنی کی نوید زور و شور سے سنارہیں تھیں۔۔۔
"نہیں سنوں گی اب ایک بھی"۔ان کا لہجہ اٹل تھا۔اخر کب تک انتظار کرتیں۔
"اب توتُو پروفیسر بھی لگ گیا ہے ۔ما شاء اللّٰہ۔۔۔"ا فرمانبردار اور باوقار سا ارتضیٰ ان کی آنکھوں کا تارا تھا۔اپنے باپ کی وفات کہ بعد وہ بہت حساس ہو گیا تھا اور اب صرف اس کی پیاری ماں ہی ان کی زندگی کا محور و مرکز تھیں۔وہ جب بھی اسلام آباد سے گھوٹھ ان کی بس ایک ہی رٹ ہوتی۔۔۔شادی کر لے میرا پت۔۔۔۔
"امیییی ۔۔۔ اچھا۔۔اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔اس نے ہاتھ کھڑے کرتے انہیں دیکھا۔اگر نہ مانتا تو اسے ایک لفظ نہ بتا تیں وہ۔۔الٹا اتوار کو منگنی کی بجائے نکاح پڑھوا دیتیں۔۔۔۔
"لڑکی کی ایجوکیشن کپملیٹ ہو گئی ہے؟ایج کیا ہے؟میچیور ہے؟ " اس نے مشکوک انداز میں ان کو گھورا۔
"ارے ارتضیٰ کیا کیا پوچھ رہا ہے۔۔۔"انہوں نے صاف صاف پہلو بچایا۔۔۔
"امی,,,؟؟ "ارتضیٰ نے بھنویں اچکائیں
"بتا کب ایا؟کھانا کھایا تو نے؟" امی اسے بچوں کی طرح پچکار رہیں تھیں۔۔۔
"امی پہلے جواب۔۔۔"
"پہلے کھانا۔۔۔"انہوں نے بھی ضدی لہجہ اپنایا۔۔
"اچھا کھانے کے ساتھ باتیں۔۔۔"اس نے مسکرا کے ان کے ہاتھ تھامے۔۔۔۔
وہ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتی رضامندی میں سر کو جنبش دیتی ہوئیں کچن کی جانب چل دیں۔۔۔
"مولا سلامت رکھے آمین! '
آپ کی دعاؤں نے ہی تو یہاں تک پہنچایا ہے ۔وہ مسکراتا ہوا فریش پونے چل دیا۔۔۔
______________
اللّٰہ اکبر۔۔۔ اللّٰہ اکبر۔۔۔
اشہد ان لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ۔۔۔
اذان کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔
یا اللّٰہ۔۔۔۔ایک بار میر مل جائے میں اس سے معافی مانگ لوں۔۔۔
اللّٰہ میں نے بھلا کرتے کرتے اس کے ساتھ اتنا برا کر دیا تھا کہ میں خود سے بھی نظریں نہیں ملا پاتی۔۔۔۔
معمول کی طرح وضو کے پانی کے ساتھ اس کے آنسو بھی اس کے چہرے پر بہتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔
"اور وہ تو اللّٰہ ہے نہ۔۔۔
تمہیں تڑپتا کبھی نہیں چھوڑتا۔۔۔۔
سمیٹ لیتا ہے۔۔۔
بچا لیتا ہے شر سے۔۔۔
ساری راہیں روشن کر دیتا ہے۔۔۔
عشق کی منزلیں طے کر کے۔۔۔
جب تم اس تک پہنچتے ہو نہ۔۔۔۔
تب وہ آسمان پہ تمہارے ذکر کی۔۔۔
محفلیں سجا دیتا ہے۔۔۔۔
_________________
"میر۔۔۔میر نام ہے میرا۔۔۔" اس نے بے زاری سے اس گولڈن بالوں اور نیلی آنکھوں والے انگریز کو دیکھا تھا
۔۔
"میر" زر نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
میر نے مسکراتے ہوئے زر کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکالا اور اسے ایک سمائل پاس کی۔۔۔
"اووہ یو ڈونٹ وری مائی جان!ایسوں کے اچھے بھی پھر میر کا نام نہیں بھولتے" بولتے بولتے اس کے لہجے میں واضح سختی آگئی تھی جو اس کی شہد رنگ آنکھوں کی چمک میں گھلتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
میر نے زر کی طرف دیکھتے ہوئے ہی اس لڑکے کے ہاتھ ٹیبل سے جھٹک دیے تھے۔۔۔
کیفے ٹیریا میں موجود میر کے چند دوستوں نے التجائی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
Hey you paki girl! speak in English, what the fuck you are....
اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی نظروں میں زماں و مکاں گھوم گئے تھے
"لوجی" وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اس کے پاس نیچے بیٹھی جو ایک پنچ پہ ہی زمین پر ڈھیر ہو چکا تھا۔۔۔۔
اس نے آنکھوں میں افسوس اور حیرت لیے اپنے بائیں جانب دیکھا اور زچ کر دینے والی مسکراہٹ اس مے لبوں پہ نمودار ہوئی تھی۔۔۔۔
میر نے کھڑے ہوتے ہوئے لیزا کی حیران آنکھوں میں چہرہ آگے کرتے جھانکا۔۔۔۔
"Oh my Gosh dear! Your darlin' was so senstive? Isn't it true ?
لیزا نے تلملاتے ہوئے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔
بلاشبہ اس کی شخصیت کا رعب سامنے والے پہ وحشت طاری کر دیتا تھا۔۔۔
وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی اسی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔بلیک جینز،بلیک شرٹ جو کہ گھٹنوں کو چھوتی تھی ،ہائی پونی ٹیل اور اس پہ مستزاد اس کی ہنی کلرڈ آئیز،،،،
لیزا نے ایک تیز نظر اس پہ اور کیفے ٹیریا میں موجود تمام لوگوں پہ ڈالی تھی۔۔۔
کچھ جتاتی ہوئی آنکھیں،، استہزاہیہہ لہجے۔۔۔
جیسے کہنا چاہ رہے ہوں "دیکھ لیا انجام"۔۔۔
لیزا نے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔
"بے بی اپنے پلے کا اینڈ تو مس مت کرو"
میر نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا۔۔۔ اور اپنے پیچھے کھڑی جینی کا ہاتھ پکڑ کے آگے کھینچا۔
جینی نے سہمی ہوئی نظروں سے میر کی جانب دیکھا وہ میر کی بلیک شرٹ جسے پہلے وہ اس کے پیچھے کھڑے مٹھیوں میں جکڑے ہوئے تھی اب اس کی آستین سے پکڑ چکی تھی۔۔
"harassment is not an act of humanity and kindness,it should be strongly resisted and denied,did you get that?"
اس نے اپنی نگاہیں موڑ کے جینی کو دیکھا۔۔۔ آواز سے سختی اوربرہمی جھلک رہی تھی ۔۔۔
"تم مجھے ہی بتانے سے خوفزدہ تھی کہ کس طرح یہ لوگ تمہیں بلیک میل کر رہے ہیں۔۔کیا ہوتا اگر مجھے کوریڈور سے گزرتے ہی بات معلوم نہ ہوتی تو۔۔۔" وہ اسے انگلش میں ہی ڈانٹ رہی تھی
میر کی آنکھوں میں بھی سختی چھائی ہوئی تھی
"And hey you Miss lizeh or lizah,, whatever,,, you might remember who we are!"
ایشان نے اس کے پیچھے کھڑے ہوتے اسے باور کرانا مناسب جانا تھا۔۔۔وہ انڈیا سے تھا اور میر کی ہی ٹیم کا ممبر تھا۔
"We belong to the Security circle of students community and meer is our head command"
ُدرِیار ( durry-yar) نے لیزا کو واضح لفظوں میں اپنے جملوں سے میر کی حیثیت بتا دی تھی کہ وہ ان کے لیے کیا ہے اور سمجھا دیا تھا کہ میر کے بارے کچھ نہ بولے۔۔
"Stop bullying others"
میر نے کہتے ہوئے ان سب کو چلنے کااشارہ کیا۔۔۔۔
"Hey girl, I'll talk to you later"
"زر اس کا خیال رکھنا.مجھے سرکل سٹاف کو ڈیٹیلز دینی ہیں ،ابھی جانا ضروری ہے۔"۔۔
وہ شفقت سے بولتے ہوئے ٹیبل سے اپنا فون اٹھا رہی تھی۔۔۔
جینی (Jenny)کو وہ بہت پسند آئی تھی،،، ڈیرنگ،کائنڈ اور پریٹی سی میر۔۔۔۔
_______________________
امائرہ مسلسل بیڈ پر بیٹھی کبھی اپنی رسٹ واٹ اور کبھی وال کلاک پر ٹائم دیکھ رہی تھی۔
روح بیڈروم کی گلاس وال کے ساتھ پڑے سنگل صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ اور فائلز میں گھرا تھا۔
گاہے بگاہے اس پر بھی نظر ڈال لیتا جو پلین بلیک شرٹ کیپری سٹائل ٹراؤزر اور دوپٹہ میں بے چین سی نظر آتی تھی۔۔
امائرہ نے بیڈ کی پائنتی کی طرف ریکھا روح اسی طرف بیٹھا تھا۔۔
"کیا ہوا مسز؟ "روح نے اس کی نظریں خود پر محسوس کیں تو استفسار کیا
"کچھ نہیں" اسے شدید نیند آرہی تھی اور دس بجنے میں ابھی بھی پانچ منٹ باقی تھے۔
"روح" اس نے بال ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل کیے
جی" وہ ہنوز اپنے کام میں مگن تھا
"روح" اس نے پھر آواز دی.پچھلے ایک گھنٹے سے وہ یہی کر رہی تھی اسے پکارتی اور پھر چپ کر جاتی۔۔۔۔۔۔۔
اب کے روح نے خفگی سے اس کی جانب دیکھا
امائرہ اسے خفا ہوتے دیکھ چپ کر کے بیڈ سے اتری اور سوکٹ سے چارجر ریموو کر کے موبائل کی سکرین روشن کی۔۔۔
"روح دس بج گئے""وہ تیزی سے اس کی طرف گئی اور ہاتھ سے لیپ ٹاپ کی سکرین ڈاؤن کر دی
"امائرہ۔۔"روح نے کراہ کر اسے دیکھا "یار میں تو یہ دس سے بارہ والا ٹائم رکھ کر پچھتا رہا ہوں"
"اپ نے ہی رکھا تھا نا۔چلیں اٹھیں نا جلدی جلدی۔" امائرہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا
"اچھا جاؤ تم کافی بنا کر لاؤ میں سٹڈی میں فائلز رکھ کر آتا ہوں"
"پہلے بتانا تھا نہ۔۔۔ " کہتی ہوئی وہ جلدی سے بھاگتی دروازہ کھول کر نیچے چلی گئی
دھیان سے جب کے وہ ہنس کر سر جھٹکتا فایلز سمیٹنے لگا
وہ روح کا اور اپنا کافی کا مگ پکڑے روم میں داخل ہوئی تھی۔ یہ اس کے دن کا سب سے خوبصورت حصہ ہوتا تھا جس میں وہ اور روح موویز ریکھتے،گینز کھیلتے، گانے سنتے,,,
"آج کیا کریں ہم؟" اس نے ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے پوچھا
"مووی دیکھیں؟"روح نے اپنا مگ تھامتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
"ہر گز نہیں جب دیکھو موویز لگا لیتے ہیں".اس نے اپنی بے زاری ظاہر کی
روح کی آنکھیں چھوٹی ہوتی جا رہیں تھی
"ایکسکیوز می؟؟؟"اس نے آبرو اچکائی۔جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کیا واقعی؟
"چلو پھر باتیں کرتے ہیں بیٹھ کے۔۔"ایکدم ہی وہ کہتا گلاس وال کی طرف چلا گیا
"باتیں تو ہیں ہی نہیں ہمارے پاس کرنے کو۔"امائرہ نے فکر مندی کم بے زاری سے کہا
روح سکون سے گلاس وال کی طرف دایاں کندھا کیے التی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
امائرہ بھی منہ بسورتی اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی اور مگ کارپٹ پر اس کے مگ کے ساتھ رکھ دیا
امائرہ کی بائیں جانب اور روح کی دائیں جانب گلاس وال سے چھن چھن کر داخل ہونے والی چاند کی روشنی خوبصورتی سے پڑ رہی تھی اور کمرے کی دلکشی و خاموشی میں اضافہ کر رہی تھی
روح اسے دیکھ کر مسکرایا اور واپس چاند پر نظریں جما لیں
دونوں ہی گردن موڑے چاند کو دیکھ رہے تھے
روم کی لائٹ روح نے اس کے کافی لاتے ہی آف کر دی تھی۔ہر طرف ایک سکون اور خاموشی سی چھائی ہوئی تھی
امائرہ نے روح کی جانب چہرہ موڑا
"آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ اپ کا پورا نام حازم ہے ؟" وہ حیرانی سے مگ کے کناروں پر انگلی پھیر رہی تھی
"جب مولوی صاحب نکاح نے وقت چیخ چیخ کر میرا نام لے کر اقرار مانگ رہے تھے تم سے تو اس وقت رونا روک کے حواس حاضر کر لینے تھے" روح نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے اسے دیکھا
"ہنہنہہہہ" امائرہ کو نکاح نے نام پہ جانے کیا کیا یاد آیا تھا
"روح میں نے گھر جانا ہے میں دو ماہ سے نہیں گئی "
کافی سے اٹھتا ہوا دھواں ان کے درمیان پھیل رہا تھا
"میں لے چلوں گا پر ابھی نہیں۔"روح نے صاف جواب دے دیا
"روح میں حمدان بھائی کے ساتھ چلی جاتی ہوں نہ۔"اس نے منت کی
روح چونک گیا۔۔
"حمدان بھائی؟ کب آئے وہ؟"
"ہاں وہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں کام کے سلسلے میں صبح آئیں گے یہاں ۔۔" اس نے پر امید لہجہ اختیار کیا
"نہیں۔."روح نے سختی سے جواب دیا "آپ اپنا بالکل خیال نہیں رکھتی،میں نہیں جانے دوں گا"
"ویسے بھی آپ کا لاڈلا شہیر پاکستان تشریف لا رہا ہے"
اچھا کب؟امائرہ کو اتنی زیادہ خوشی ہوئی تھی سن کر۔۔۔۔
وہ کچھ حیران ہوا۔۔۔وہ صرف شہیر کی ہی باتیں کرتی تھی۔۔۔۔
"کل شام..."
" اتنی جلدی؟مجھے کیوں نہیں بتایا پہلے؟"
"وہ آپ کو سرپرائز دینا چاہ رہا تھا۔مگر آپ تو آگے جانے کے ارادوں میں تھیں۔اس لیے میں نے بتا دیا" روح نے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور مگ سائیڈ پر رکھا
امائرہ نے فوراً فون ہاتھ میں لے کر آن کیا۔"ابھی پوچھتی ہوں میں اس جناب سے "
اس نے چہکتے ہوئے اس کا نمبر ڈائل کیا مگر اس سے پہلے ہی روح اس کے ہاتھ سے فون جھپٹ کر کال کاٹ چکا تھا
'یہ میرا ٹائم ہے"۔روح نے ٹھنڈا ٹھار جواب دیا تھا اس کی استہفامی نظروں کا
امائرہ کا تو حیرت سے منہ ہی کھل گیا
"میر افون دیں ۔"۔اب فون ایک طرف سے روح اور دوسری طرف سے امائرہ کے ہاتھ میں تھا اور وہاں شور گونج رہا تھا
"ہائے میں مر جاؤں " امائرہ نے اپنا سر پکڑا جو زور سے روح کے سر میں لگ گیا تھا۔اس نےروح کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھا۔
ہاہاہاہا جو پیٹ پکڑے ہسنے میں مصروف تھا
" مجھ سے بد تمیزی کا انجام ہے سارا"۔اس نےفون فوراً آف کر کے پاکٹ میں ڈالا
"آؤ ایک دفعہ اور ٹکر مارتے ہیں نہیں تو لڑائی ہو گی۔۔۔" روح نے آہستگی سے اس کا سر سہلایا
"آگے کون سے ادھر ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں۔ہنہنہنہ۔سنی سنائی بات۔۔"
مگر روح کی اس کے زچ ہوتے تاثرات دیکھتے ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی
امائرہ نےاس کا ہاتھ جھٹک کر اٹھتے ہوئے بیڈ سے کشن اٹھا کہ اس کی طرف پھینکا
"ہنسیں بیٹھ کر اب۔۔"
دور چاند ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا اور اپنے دیوانوں کو سدا خوش رہنے کی دعا دی تھی
____________
ВЫ ЧИТАЕТЕ
حب القلب
Разноеزندگی کے اتار چڑھاؤ کی سادہ سی کہانی۔۔ دوستی،عزت،محبت پر انحصار کرتی داستان ۔۔۔ رشتوں کی خوبصورتی اور مقام کو واضح کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش