هٰذا الحبُ ليسَ سهلاً

44 3 4
                                    

"نرمین ابراہیم ملک۔۔"
وہ بولتی ہوئی لان میں اس کی طرف آئی۔۔۔
ہادی لیپ ٹاپ پر اپنا کام کر رہا تھا۔اسے ضروری رپورٹس کی ڈاکیومنٹ بنانی تھیں۔۔۔اورہسپتال کے لیے نکلنا تھا۔۔۔
مگر وہ کبھی بھی کم از کم نرمین کو اگنور نہیں کر سکتا تھا۔اس نے مسکرا کر نرمین کو دیکھا اور دوبارہ ٹچ پیڈ پہ تیزی سے انگلیاں چلانے لگا۔۔۔
"اور جلد ہی میرا نام کہلائے گا۔۔ ڈاکٹر نرمین براہیم ملک" وہ اب ہادی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔روح نے جاگنگ سے واپسی پر ان دونوں کو دیکھا تو وہیں آگیا اور مسکراتے ہوئے ہادی کے بائیں جانب کرسی سنبھالی۔وہ نرمین کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا۔۔۔
"نرمین حازم ملک" اس نے مصروف سے انداز میں بغیر سر اٹھائےجواب دیا۔
"میں آپ کا نام نہیں لگاؤں گی اپنے نام کے ساتھ۔۔"نرمین کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
ہادی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"کیوں؟"اس نے سختی سے دانت ایک دوسرے پر جمائے
"بس مجھے نہیں پسند اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام" نرمین کا لہجہ بےزاری اورنخوت لیے ہوئے تھا.
حازم کو نرمین کا لہجہ پسند نہیں آیا تھا۔۔وہ خاموش رہا۔۔۔
"اتنا لمبا نام ہے تمہارا، نرمین ابراہیم ملک یا نرمین حازم ملک" روح نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کی کوشش کی۔
روح کو لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ ہادی کو غصہ آگیا ہے۔وہ ایسے لہجے برداشت کہاں کرتا تھا۔ یہ تو نرمین تھی تو جانے کیسے خاموش ہو گیا۔
"آپ کا بھی تو اتنا ہی لمبا ہے"نرمین کھلکھلائی۔حازم نے بغور اس کی کھلکھلاہٹ دیکھی۔کیسے لمحے میں نرمین کے لہجے کی بےزاری غائب ہوئی تھی۔اس کے دماغ میں مختلف سوچیں کلبلائیں۔اس نے سر جھٹکتے اپنی توجہ دوبارہ کام کی طرف مبزول کرائی۔
اسی ٹائم امائرہ لاونج کا دروازہ کھول کر باہر آئی۔۔۔
روح اس پر نظر پڑتے ہی حیران ہوا۔۔
وہ حسبِ معمول ٹراؤزر کے ساتھ گھٹنوں تک آتی شرٹ میں ملبوس تھی۔۔
وہائٹ ٹراؤزر اور یلو شرٹ۔۔ فرق بس یہ تھا کے شرٹ پر بڑی سی ٹویٹی بنی ہوئی تھی۔۔۔
بال کھلے ہوئے تھے اور کمر سے نیچے تک آرہے تھے۔۔۔
وہ نماز پڑھ کر دوبارہ سو جاتی تھی۔۔اور نو،دس بجے تک اٹھتی تھی۔۔۔
ہادی نے بھی سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔
وہ دوپٹہ پاؤں میں رولتی آدھی کھلی آنکھوں سے چل رہی تھی۔۔۔
ہادی نے گردن موڑ کر روح کو دیکھا۔۔۔
محبت اور احترامِ محبت،اس کی آنکھوں میں بس یہی  رچ گیا تھا۔۔۔
امائرہ چلتی ہوئی روح کے پاس آکے کھڑی ہو گئی جیسےکبھی بچے کھڑے ہوتے ہیں کچھ کہے بغیر بس خاموشی سے۔۔ایسے کہ ان کہ چہرے سے جان لیا جائے وہ کیا چاہتے ہیں۔۔
اس کی آنکھیں ابھی بھی نیند سے بند ہو رہیں تھیں
روح فوراً اپنی کرسی سے اٹھا۔اس نے اس کے دوپٹے کے لٹکتے سرے کو اٹھایاتھازمین سے اور اس کے دوسرے کندھے پر ڈال دیا۔۔
"امائرہ۔۔"اس نے فکرمندی سے اس کا کندھا ہلایا مگر کوئی جواب نہیں دیا گیاتھا۔۔
اس نےکندھوں سے پکڑ کرامائرہ کوچئیر پہ بٹھایا۔۔۔اورخود ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
"امائرہ۔۔"روح نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور دوبارہ آواز دی۔
"وہ سوئی ہوئی ہیں روح۔۔"ہادی نے بنا  ان کی جانب دیکھے جواب دیا۔۔
"میں جاگ رہی ہوں۔۔"امائرہ نے آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی  اور اس بار کامیاب بھی ہو گئیں وہ اور بات کے کامیابی بس لمحے بھر کی تھی۔
"میں نے یہ جوس پینا ہے۔۔",اس نے اچانک ہی ہاتھ سے ٹیبل پر پڑے جگ کی اشارہ کیا۔۔۔
نرمین نے مسکراتے ہوئے جوس گلاس میں ڈال کر اس کے سامنے کیا۔۔
"میں نے روح سے لے کے پینا ہے۔۔"وہ واقعی ہوش میں نہیں تھی جو ایسے کہہ رہی تھی۔۔۔
روح نے نرمین سی گلاس پکڑ کر اسے پکڑایا۔۔
اب وہ دونوں ہاتھوں میں گلاس پکڑے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتی جوس پی رہی تھی۔۔۔
"میں یہ پی کر پھر سو جاؤں گی ٹھیک ہے نہ۔۔۔"وہ بچوں کی طرح کی حرکتیں کرتی روح کو حیران کیے دے رہی تھی۔۔۔
اس نے جوس پی کر گلاس روح کی طرف بڑھا دیا۔۔۔
"امائرہ کس نے اٹھایا ہے آپ کو؟" روح نے گلاس ٹیبل پر رکھتے اسے دیکھا تھا۔۔۔
"الارم نے۔۔۔"امائرہ نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی
۔ حازم لیپ ٹاپ اٹھاتا اندر چلا گیا۔
"سوری امائرہ"روح نےدوبارہ اس کا دایاں ہاتھ پکڑا۔
"کس بات کی؟" امائرہ نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"الارم آف نہ کر سکنے کی" روح نے شرمندگی سے کہا
"وہ تو میں نے ہی لگایاتھا سب کے ساتھ ناشتہ کرنے کے لیے"امائرہ نے اپنی جھومتی گردن کو کرسی کی بیک سے ٹکایا اورآنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کو ترک کر دیا۔
بلقیس ان کی طرف آئی۔
"نرمین بی بی بیگم صاحب بلا رہیں ہیں آپ کو"اور واپس پلٹ گئی۔نرمین بھی اٹھ کر اندر چل دی۔
"بلقیس بی" روح نے اسے آواز دے کر روکا "امائرہ کو یہاں آنے کیوں دیا آپ نے؟ اگر وہ اسی طرح سیڑھیاں اترتی اور گر جاتی؟یا کچھ ہو جاتاخدانخواستہ۔۔"
"وہ روح صاحب امائرہ بی بی کو میں نے تب دیکھا جب وہ نیچے اتر ائیں تھیں،انہوں نے بیگم صاحب سے آپ کا پوچھا تو انہوں نے بے دھیانی میں کہہ دیا کہ آپ لان میں ہیں" بلقیس نے صفائی دی۔
"عجیب بات ہے،امائرہ نیند میں میرا پوچھتے نیچے آئی تھی؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا وہ۔۔"روح نے امائرہ کی طرف دیکھتے بات ادھوری چھوڑی
بلقیس نے روح کی طرف دیکھا۔ "وہ تو روز اٹھتے ساتھ آپکا پوچھتی ہیں جب میں دس بجے جوس دینے جاتی ہوں کمرے میں" بلقیس نے مسکرا کر بات مکمل کی۔ "ٹھیک ہے آپ جائیں" روح نے انہیں جانے کا اشارہ کیااور فون نکالتا نرمین کو وہاں آنے کا میسج کرنے لگا۔
                            ___________
"مام۔۔۔مام۔۔۔۔۔"روح آواز دیتا کچن کی طرف آیا۔۔
"آپ نے امائرہ کو ایسے کیسے باہر جانے دیا؟اگر اسے کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔"
"کسے بیٹا کس کی بات کر رہے ہو؟ اور کہاں جانے دیا؟"انہوں نے اس کے سامنے کاؤنٹر پر جوس کا گلاس رکھا ۔۔
"امائرہ کی مام۔۔۔۔"روح نے گلاس اٹھا لیا
"امائرہ۔۔۔امائرہ کب اٹھی؟وہ تو اس وقت سو رہی ہوتی ہے!" وہ تو چونک ہی گئی تھیں۔۔۔
"جی مام!امائرہ۔۔۔" روح نے جوس کے گھونٹ بھرے.
"وہ کہاں گئی اور میں تو ناشتہ بنا رہی تھی!" انہوں نے اس نے ہاتھ سے گلاس لیا اور سنک میں رکھ دیا۔
"کیا ہو گیا برخوردار۔۔۔؟ " ابراہیم ملک کچن میں داخل ہوئے۔انہوں نے روح کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنی بیگم کو ناشتہ کے لیے چلنے کا اشارہ کیا
ڈیسینٹ اور سوبر سے ابراہیم ملک کہیں سے بھی روح کے ڈیڈ نہیں لگتے تھے۔جو لوگ انہیں جانتے نہیں تھے وہ ابراہیم ملک کو اس کا بڑا بھائی سمجھ لیتے تھے۔۔۔
"ڈیڈ!امائرہ کی بات کر رہا تھاکہ۔۔۔۔۔"روح کے لہجے میں خفگی کا عنصر واضح تھا۔۔
وہ تینوں بات کرتے کرتے چلتے ہوئے گلاس ایریا میں داخل ہو گئے۔
امریکن طرز کے کچن کے ساتھ ہی چاروں طرف سے شیشے کی والز کا بنا ڈائننگ ایریا تھا۔۔ ٹی وی لاؤنج کی دیواروں بھی شیشے سے بنی ہوئی تھیں۔۔۔ہر طرف سے دیکھنے پر لان کا خوبصورت منظر  دل خوش کر دیتا۔روح نے گراؤنڈ فلور کا نام گلاس ایریا رکھ دیا تھا اور اب وہ سب ہی گلاس ایریا کہنے کہ عادی ہو چکے تھے۔۔۔
"بیٹا یہ آپ کی ہی کوتاہی ہے میری بیگم نے آپکی بیگم کا خیال نہیں رکھنا۔وہ بس میرا رکھیں یہی بہت ہے۔۔۔
اپنی وائف کا خیال رکھنے میں آپ کمی کر رہی ہیں۔۔۔' انہوں نے سربراہی کرسی کے ساتھ والی کرسی عالیہ بیگم کے لیے کھینچی۔۔۔
"ڈیڈ میں کمی کر رہا ہوں؟" روح کو شدید صدمہ ہوا تھا۔
"بالکل تم کر رہے ہو!"انہوں نے سربراہی کرسی سنبھالی۔
"اسلام علیکم مام ڈیڈ!"امائرہ کے سلام پہ وہ تینوں حیرانی سے گردن موڑے اسے دیکھنے لگ گئے۔
وہ شرمندہ سی روح کے دائیں جانب کرسی گھسیٹ کر بیٹھی. ان کی حیرانی سے اسے پتا لگ گیا تھا کہ وہ اس کے جلدی اٹھ جانے پر حیران ہو رہے ہیں۔
روح انہی حیران نظروں سے اسے بیٹھتے دیکھتا رہا۔
"آپ تو نرمین کے ساتھ روم میں گئی تھیں۔۔۔"
"آہمممممممم"ابراہیم صاحب کی آواز پہ ان دونوں نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔
"تو روحم ابراہیم ملک اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ دونوں بس ایک دوسرے پر حیران ہی ہوتے رہتے ہیں اور ابھی تک ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے۔"ابراہیم صاحب نے ناشتہ شروع کر دیا۔وہ اور عالیہ سب سے پہلے ہی ناشتہ کرتے اور وہ عالیہ بیگم کو بوتیک ڈراپ کرتے ہوئے ابراہیمز چلے جاتے۔
اس کے بعد حازم اور روحم تیار ہوتے تھے اور حازم اپنے ہسپتال اور روحم "دا بزنس" کو رونق بخشتا۔اس نے اپنے باپ کے بزنس کو جوائن کرنے کی بجائے ایک شاندار بزنس ایمپائر کھڑی کر کے ابراہیمزکو اچھا خاصا ٹف ٹائم دیا تھااور اب وہ ابراہیمزکو بھی با قاعدگی وزٹ کرتا اور اپنے باپ کو نایاب مشورے دیتا۔
"ایک دماغ سے دو بزنس چلانے کا کیا فائدہ؟" ابراہیم صاحب اکثر اسے یہی کہتے پائے جاتے۔
درحقیقت ابراہیم صاحب اس کے علیحدہ بزنس کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن روح کے دلائل نے انہیں قائل کر ہی لیا تھا۔وہ بولتا تھا اور سحر پھونک دیتا تھا۔وہ پچپن سے ہی ایسا تھا۔جو ایک دفعہ کہہ دیتا اسے کر کے ہی دم لیتا ۔
"روح وعدے نہیں کرتا،روح کا کہنا ہی کافی ہوتا ہے"
دس سال کی عمر میں روحم کی جس بات کو بات کو انہوں نے ڈائلاگ قرار دیا تھا اگلے دس سال میں روح نے ثابت کر دیا تھا کہ روح مصطفٰی لفاظی سے کام نہیں لیتا۔عمل کرتا ہے بس عمل۔
ملک روحم ابراہیم مصطفٰی۔۔۔وعدوں کا پاسدار اور حرفوں کا کھرا بندہ۔۔۔
اٹھارہ سال کی عمر میں اس نے بزنس سٹارٹ کیا تھا
اور بیس سال کی عمر میں وہ "دا بزنس" ایک کامیاب چین تشکیل کر چکا تھا۔
ابراہیم صاحب نے اسے پاکستان آنے کو کہا تھا اور وہ آ بھی گیا تھا۔
روحم مصطفیٰ کی وطن واپسی کئی دن تک اخبار کی زینت بنی رہی تھی۔
انہیں آج بھی اس کے الفاظ یاد تھے جو اس نے ائیرپورٹ پر ان سے مصافحہ کرنے سے قبل سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں ادا کیے تھے۔۔
"روحم مصطفیٰ واپس اگیا ہے۔ میں گمنام گیا تھا اور نام کما کر لوٹا ہوں۔آپ نے مجھے جس اللّٰہ کے آسرے پہ  بے آسرا کیا تھا۔وہ اللّٰہ مجھے فرش سے عرش پر لے گیا۔
آپ نے مجھ سے میرے رشتے،میری ماں کی لحد ،میرے وطن سب کو دور کر دیا تھا۔آج خدا نے مجھے اسی زمین کا فاتح بنا کر لوٹا دیا ہے۔آج روح کے قدم لڑکھڑا نہیں رہے وہ جمے ہوئے ہیں ۔میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
میرے اللّٰہ نے مجھے اتنا نواز دیا ہے کہ مجھے لگتا ہے اگر اپ میرے ساتھ ویسا نہ کرتے تو آج میں اس مقام پر کبھی نہ پہنچ پاتا۔ بس ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟اس نے لمحے بھر کا توقف کیا تھا۔
"کیا روح کو گھر کے ساتھ دعاؤں سے بھی نکال دیا گیا تھا؟" اس نی لہجے میں نامحسوس سی نمی اور ڈھیروں اذیت تھی ۔سالوں کا کرب چھپا تھا۔اوراس کے لہجے کی اذیت نے ان کا دل چیر دیا تھا۔وہ آج تک اس اذیت کو دل میں لیے زندہ تھے۔
"باپ راضی نہ ہو تو رب بھی راضی نہیں ہوتا روح"الفاظ ان کے لبوں پہ دم توڑ گئے تھے،روح ان کے سینے سے لگ گیا تھا۔جوان بیٹے کے وجود کی حرارت ان میں سرائیت کر گئی تھی۔
اذیتوں کا غرور ٹوٹ گیا تھا وہ آگیا تھا اور مان بھی گیا تھا۔
صبر کے صلے ایسے ہی نہیں مل جایا کرتے۔اس میں شکر کا رنگ ملانا پڑتا ہے۔
وہ اتنا نرم خو تھا کہ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوتے رہتے۔
وقت نے نہ اسے مٹی کیا تھا نہ سونا۔۔
وقت نے اس خام سونے کو کندن بنا دیا تھا۔
انہوں نے جسے اللّٰہ کے حوالے کیا تھا اللّٰہ نے اسے ایسا سنوارا تھا کہ وہ اس پہ رشک کرتے۔ روح مصطفیٰ ان کا فخر تھا,ان کامان،ان کی زندگی کا حاصل۔
حالات کی تلخی و ترشی اس کے لہجے کی تندی نہیں بنی تھی
وہ باکمال ظرف کا لاجواب آدم۔۔۔
وہ عاجزی میں گھرا نایاب آدم۔۔۔۔
                            __________
اس نے شیشے میں خود کو دیکھتے بے دریغ پرفیوم کا استعمال کیا۔چینل فائیو کی خوشبو ہر طرف کمرے میں چکراتی پھر رہی تھی۔نک سک سے تیار حازم نے سائیڈ ٹیبل پر سے اپنا والٹ ، گاڑی کی چابیاں اور فون  اٹھایا۔
ڈارک براؤن ڈریس پینٹ کے ساتھ وہ لائٹ براؤن ڈریس شرٹ میں بہت ڈیسینٹ لگ رہ تھا۔ اس نے اپنا وہائٹ کوٹ اٹھایا اور روم سے باہر آگیا
"حازم بات سنیں" نرمین نے اس کے نکلتے ہی اس کو پکارا۔وہ شاید اس کے لیے ہی دروازے پر کھڑی تھی
اس کو حازم کے ناراض ہونے کا ڈر تھا۔
"کیا میں آپ کو  جانتا ہوں؟ "بے اعتنائی سے بھرپور جواب آیا تھا
نرمین کی تو سٹی ہی گم ہو گئی تھی۔۔وہ خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی یہاں تک کے وہ مڑا اور سیڑھیاں اترتا ہوا گلاس ایریا کی طرف بڑھ گیا۔روح اور امائرہ کا بیڈروم, حازم کا روم اور اس کا اپنا روم بھی فرسٹ فلور پر تھا۔فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر جانے کے لیے دو طرف سیڑھیاں بنی ہوئیں تھی جو گھوم کر گلاس ایریا میں اترتی تھیں۔
یہ گھر روح کا تھا جو اس نے پاکستان آنے پر اپنی مرضی سے بنوایا تھا۔روح نے گھر کا نام بھی "دا ہاؤس " رکھا تھا۔باوجود اصرار کے وہ کسی کو نہیں بتاتا تھا کہ اس کا بزنس "دابزنس" اس کا گھر "دا گھر" اور اس  سے جڑی ہر چیز ایسے ناموں سے کیوں کہلاتی ہے۔
نرمین مرے مرے قدموں سے ڈائننگ ایریا کی طرف چل دی
                             ______________
کون روحم؟امائرہ نے ابراہیم صاحب کو دیکھا.
"کس کی بات کر رہے ہیں؟
"آپ کے شوہر نامدار کی"۔ہادی نے دانت نکالتے ہوئے روح کے مخالف سمت کرسی سنبھالی۔
"میرا نام حازم،اس کا روحم۔ہم دونوں کے پیدا ہونے میں ایک دن کا فرق ہے۔میرے پیدا ہونے تک یہ بے نام ہی رہا اور پھر ایک چار حرفی نام تلاشنے کی مہم شروع کی گئی جس کے بعد اگلے دن ہماری نام رکھائی کی گئی۔۔۔"
"نام رکھائی" امائرہ سمیت سب کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔سوائے نرمین کے جو ابھی ہی ڈائننگ ایریا میں آئی تھی
"آپ کو دیکھ کر کہیں سی لگتا ہے کہ آپ کا شمار پاکستان کے نامور ہارٹ سرجنز میں ہوتا ہے؟اور لوگ مجھ سے آکر کہتے ہیں کہ نرمین ملک آپ ایسے شخص کے ساتھ کیسے گزارا کریں گی جس کے رعب سے دل کانپ جاتا ہے؟ نرمین کے لہجے میں محسوس کی جانے والی کاٹ تھی۔ اس کی بات پر وہاں سناٹا چھا گیا تھا۔
نرمین اس کی خفگی پر پہلے ہی جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔اسے سب کے ساتھ نارمل بی ہیو کرتے دیکھ وہ جھنجھلاہٹ غصہ میں بدل گئی تھی۔۔
اور نرمین ملک اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی تھی۔جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا تھا وہ اس کی شکل سے بیان اور اس کی زبان سے ادا ہو جاتا تھا۔۔۔
حازم کا جیم پکڑتا ہاتھ ساکت ہو گیا۔اس کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہورہا تھا۔
"نرمین"ابراہیم ملک کے لہجے میں تنبیہہ تھی انہوں نے اس پر ایک سخت نگاہ ڈالی۔
حازم اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا تھا۔وہ جانے کیسے ضبط کر رہا تھا اب تک۔
"حازم۔۔رک جا بیٹھ تو ناشتہ تو کر!میں بات کرتا ہوں
۔"روح اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوا۔
"بھاڑ میں گئی محبت اور بھاڑ میں گیا ناشتہ۔۔" اس نے اتنی آواز میں کہا کہ صرف روح اور امائرہ سن سکے تھے
حازم کی اواز سرد تھی۔وہ اپنا اوورآل اٹھاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔روح  نرمین پر نظر ڈالتا اس کے پیچھے لپکا۔
                                 ___________
نرمین یہ کیا حرکت تھی۔ابراہیم صاحب ناشتے سے ہاتھ روک چکے تھے۔وہ اس سے سخت خفا تھے۔
"میں نے تو تمہیں یہ نہیں سکھایا۔نہ میں نے ابراہیم صاحب سے کبھی ایسے بات کی نہ امائرہ روح سے کبھی ایسے بات کرتی ہے" عالیہ بیگم کے لہجے میں بے یقینی تھی۔
"کہاں سے سیکھ رہی ہو تم ایسے مس بی ہیو کرنا؟' عالیہ بیگم نے ضبط کا مظاہرہ کیانہیں تو آج پہلی دفعہ دل کیا تھا کہ سارے لحاظ بالائے طاق رکھیں اور جسے اتنے لاڈوں سے پالا تھا اس کے کم ازکم بھی ایک تو جڑ ہی دیں.
"وجہ جان سکتے ہیں اس بد تہذیبی کی؟" ابراہیم صاحب بھی غصے میں آچکے تھے۔
نرمین بس خاموش کھڑی آنسو پی رہی تھی۔ اس کے والدین نے اسے کبھی بھی ایسے نہیں ڈانٹا تھا اور کسی کے سامنے تو کبھی نہیں۔امائرہ بےشک بہت اچھے نیچر کی تھی لیکن اسے اس کے سامنے ڈانٹ سننے میں زیادہ شرمندگی ہو رہی تھی۔۔
"جواب چاہیے مجھے" عالیہ بیگم کی آواز بلند ہوئی۔
"آنٹی میں بات کرتی ہوں نرمین سے پلیز۔"امائرہ نے نرمی سے کہتے عالیہ بیگم اور ابراہیم صاحب کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔۔
"کرو ضرور کرو" انہوں نے نرمین کو کاٹ دار نظروں سے دیکھتے امائرہ کی جانب گردن موڑی "اور تم بھی مجھے مام کہا کرو ۔سمجھی؟"
"جی۔جی آنٹی۔۔سوری سوری میرا مطلب مام۔۔۔" امائرہ نے فوراً تصحیح کی۔
"سو مام ڈیڈ اپ لوگ ایزی ہو جائیں میں نرمین سے بات کرتی ہوں۔ویسے بھی آپ لوگ لیٹ ہو رہے ہیں" امائرہ نے انہیں ریلیکس کرنا چاہا۔
"یہ زیادہ ضروری ہے ہمارے لیے اور اس کی تربیت"انہوں نے نرمین کو کڑی نگاہوں سے دیکھا۔عالیہ بیگم کا غصہ ابھی بھی عروج پر تھا۔۔ابراہیم صاحب نے بھی نرمین کو دیکھا وہ سر جھکائے کھڑی آنسو پی رہی تھی
ابراہیم صاحب کو تو بیٹی کی انکھوں میں نمی دیکھنے نے ہی ٹھنڈا کر دیا تھا۔
"نرمین کوئی مسئلہ ہے؟" انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔
"کوئی مسئلہ نہیں دماغی فتور ہے بس" جواب عالیہ بیگم کی طرف سے آیا تھا۔
"آپ امائرہ کو بات کرنے دیں اس سےاور چلیں"وہ امائرہ کو اشارہ کرتے عالیہ بیگم کا ہاتھ پکڑتے انہیں باہر لے گئے تھے۔۔۔
                           _____________
"میری بات تو سن" روح نے اس کی بازو دبوچی ۔
کیا سنوں؟ یہی کہ کون کون سے ہیں نقص ہے مجھ میں؟ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑھایا۔
"نہیں حازم! یار میری بات تو سن،کیا پتا نرمین کسی بات کو لے کر پریشان ہو یا۔۔۔"
"وہ مجھے لے کر پریشان ہے کہ مجھ جیسے نان سیریس انسان سے اس کا نکاح کیوں کر ہوا تھا۔۔"حازم نے اس کی بات کاٹی۔۔
"نان سیریس؟؟؟"روح کی آنکھوں میں ڈھیروں استعجاب ابھرا۔
"یار ۔وہ ایسے نہیں کہہ رہی تھی وہ تو۔۔۔۔ "روح نے ایک بار پھر کوشش کی۔۔۔
"ایسے نہیں تو پھر کیسے روح؟ میں کتنے عرصے سے اس کا رؤیہ دیکھ رہا ہوں۔میں نوٹ کر رہا ہوں کہ وہ مجھ میں جانے کون کون سے نادیدہ عیب ڈھونڈنے میں مصروف رہتی ہے۔نہ اپنا مسئلہ بتاتی ہے نہ میری بات سن رہی ہے!ایسے کیسے چلے گا روح؟ اسے اس کا ٹائم لینے دو وہ غور کرے اور کوئی فیصلہ کر لے"
اس کی بات غور سے سنتا روح چونک گیا تھا۔۔
"ٹائم لینے دو۔۔فیصلہ کر لے۔۔"اسنے نا سمجھی سے دہرایا۔۔۔بات سمجھ آتے ہی اسے غصہ آگیا تھا۔۔
"دماغ تو نہیں چل گیا تم دونوں کا؟کیسا فیصلہ؟ہاں؟بچوں کا کھیل ہے کیا؟مجھے تو لگتا ہے کہ تجھے ٹائم لینے کی ضرورت ہے! جا شاباش ۔جب واپس آنا تو دماغ درست کر کے آنااپنا۔"۔روح اس کے راستے سے ہٹا۔۔
حازم نے اسے استہزاہیہہ نگاہوں سے دیکھا اور سیکینڈوں میں گاڑی میں بیٹھتا زن سے گاڑی اڑا کر لے گیا۔۔۔
"احمق آدمی۔۔۔"روح نے سر جھٹکتے جیب سے فون نکالا۔پہلی بیل پہ ہی کال ریسیو ہو گئی تھی۔
"کہاں ہو؟" روح نے فوراً سوال کیا
"ٹھیک ہے سب چھوڑو اور اسلام آباد پہنچو۔"
دوسری جانب سے پتا نہیں ایسا کیا کہا گیا تھا کہ اس نے فون کان پر سے ہٹا کر گھورا۔
"گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے سیدھا اس جاہل آدمی کے پاس جانا۔غصے میں کہیں مریضوں کو زہر ہی نہ دے دے"کہتے ساتھ ہے دوح نے کال کاٹ دی تھی۔
ابراہیم صاحب اور عالیہ بیگم اسی طرف آرہے تھے۔
"نرمین۔۔۔۔"روح نے ان کی طرف دیکھا اور کچھ کہتے کہتے رکااور پھر جلدی سے بولا
"اسے کچھ مت کہیے گا میں اس سے بات کر لوں گا!"اس کے لہجے میں اپنی بہن کے لیے فکر تھی کہ کہیں وہ اسے ڈانٹ نہ آئے ہوں
"تم فکر مت کرو"انہوں نے روح کاکندھا تھپکا"امائرہ اپنی خدمات پیش کر چکی ہے"
وہ کہتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔۔
"میرا دل کر رہا تھا ایک لگاؤں اس لڑکی کے" عالیہ بیگم نے روح کی طرف دیکھا۔
"استغفرُللہ"روح کی آنکھوں میں خفگی کا تاثر ابھرا "کیسی بات کر رہی ہیں مام؟اسے ہاتھ بھی مت لگائیے گا۔۔"وہ بولتا لولتا رکا۔۔۔
"ویٹ،ویٹ آپ نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟"روح آنکھیں چھوٹی کیے عالیہ بیگم کو گاڑی کی جانب بڑھتے دیکھ رہا تھا
"کہا تو ہے اگر اس کو سمجھ آجائے تو" ابراہیم ملک نے عالیہ بیگم کے بیٹھتے ہی گاڑی کا دروازہ بند کیا اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آئے۔۔۔
"مام۔۔۔۔"وہ بے یقینی سے گاڑی کو دیکھ رہا تھا "ڈیڈ اتنا بڑا ایشو نہیں ہے یہ جتنا بڑاکیا جا رہا ہے"
"تم اور امائرہ بات کر لینا نرمین سے۔میں اور عالیہ گوٹھ جا رہے ہیں آج واپسی پر" انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
"جی ڈیڈ" وہ ان کی گاڑی کے نکلنے تک وہیں کھڑا رہا اور پھر سر جھٹکتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
                           ___________
وہ گرے رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس اپنی سیاہ بی ایم ڈبلیو سے باہر نکلا۔تاثرات ہمیشہ کی طرح سنجیدگی لیے ہوئے تھے۔۔
اس نے گلے میں ڈالی سیاہ مہنگی شال بھی اتار کر ڈرائیونگ سیٹ پر رکھ دی۔۔
چابی گارڈ کی طرف اچھالتے وہ وقار کے ساتھ چلتا اندر داخل ہوا
ہسپتال کے باہر معمول کا رش اور ہلچل تھی۔۔
"اللّٰہ ہم تیری تمام نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں تو سب کے پیاروں کو صحت و تندرستی عطا کر آمین۔۔"
وہ عمر تھا۔عمر ملک۔کیسے دعا دیے بغیر آگے گزر جاتا!
"آہ۔۔۔سوری سوری عمر۔۔۔"ڈاکٹر فاریہ حازم کے روم سے باہر آرہی تھی اور بری قسمت کہ اس سے ٹکرا گئی۔۔
"ایکسکیوز می!!۔۔۔"عمر نے آبرو اچکا کے اسے دیکھا۔۔۔
"عمر نہیں۔۔ڈاکٹر عمر۔آل رائٹ؟"
ایک تو یہ بندہ لہجے کی مار مارتا ہے۔۔
"اچھا بھئ معاف کرو۔۔۔"وہ آگے ہی خوار ہو رہی تھی اور اب اس پر یہ جناب۔۔۔
"کیا مطلب کیا ہے تمہارا کہ۔۔۔"
عمر کے تو سر پہ لگی تلوؤں پہ بجھی۔
"او بس کر جاؤ دونوں۔۔جاؤ فاریہ تم۔۔میرا آگے ہی دماغ خراب ہے۔۔۔"حازم ان سے بھی زیادہ بے زار نظر آرہا تھا۔۔۔
"صحیح کب تھا؟"بے ساختہ دونوں کے منہ سے ایک جیسے الفاظ برآمد ہوئے تھے۔۔دونوں نے ایک ساتھ ہی حازم کو دیکھا۔حازم نے دونوں کو گھورا۔
عمر نے واپس فاریہ کی طرف گردن موڑی۔۔۔
"جاؤ بی بی پھر کبھی آنا" اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔
فاریہ پاؤں پٹختی وہاں سے نکل گئی۔۔۔
"اور سنا لالے کیا حال ہے؟"عمر حازم کی طرف چلا گیا
                                    ______

حب القلبTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang