محبت کے چالیس اصول الف شفق جس میں روحانی محبت کے اصولوں سے آگاہ کیا گیا ہے ہر اصول کو مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔قاسم علی شاہ کے سیشن میں اس کتاب کی وضاحت کی گئی ہے جس کو یہاں چند الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے
محبت کے چالیس اصول اس کتاب کا ہر باب 'ب' سے شروع کیا گیا ہے 'ب' سے بسم اللہ
بنتی ہے مطلب ہر کام کے شروع سے پہلے خدا کو یاد کیا گیا ہے
محبت کا پہلا اصول اس کتاب میں "اپنے اندر جھانکنے کا ہے" آپ کیا سوچتے ہیں آپ کا اندر کس طرح کا ہے جو آپکا اندر ہو گا وہی آپ کا بظاہر ہو گا اگر آپ کے اندر ایک خوف ہے ڈر ہے تو آپ کے باہر بھی وہ ہی ہو گا، اپنے اندر کو پہچاننا اپنے سچ کو جاننا ہی آپ کا سب سے بڑا مقصد ہے ، جو گمان آپ اپنے دل میں رکھتے ہو وہی گمان آپ کی حقیقت بن کر آپ کے سامنے آتا ہے ، آپ کا اندر اگر سچا ہے تو پھر آپ کا بظاہر بھی مضبوط اور خود پر یقین رکھنے والا ہوگا کیونکہ ایک سچا انسان کبھی نہیں ڈرتا اسے صرف خدا کا خوف ہوتا ہے دنیا کا نہیں ، وہ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے مجھے خدا دیکھ رہا ہے۔
سچائی سے مراد سب سے پہلے اپنے نفس کے ساتھ سچا ہونا ہے اپنا انیلسسز کرنا ہے آپ نے کن حالات سے کیا کیا سیکھا ہے ، قاسم علی شاہ ایک بہت خوب بات کرتے ہیں " آپ نے زندگی میں حالات سے سیکھا ، اور ادھر سے کچھ ٹولز لے لئے اور اپنے حالات میں انکا استعمال کیا مگر آپ کے حالات ان کے حالات سے بلکل مختلف ہیں جیسے ایک مثال دیتے ہیں ' ایک بندھے کو اونچی آواز میں بات کرنے کی عادت ہے تو وہ وہاں بھی اونچی آواز میں بات کرے گا جہاں ضرورت نہیں ہے' "
دوسرا محبت کا اصول یہ بیان کیا ہے کے قرآن میں راز ہیں جس کے چار درجے ہیں ایک تو وہ جو بظاہر ترجمے سے ہر انسان کو سمجھ آتے ہیں ، علماء لوگ جو غور و فکر سے جانتے ہیں اور پھر دوسروں تک پہنچاتے ہیں دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے اور تیسرا درجہ اولیا کا ہے جبکہ چوتھا درجہ انبیاء کا ہے
ہر ایک کو اسکی مطابق سے اسکا مقام دیا گیا ہے ، سب سے بڑا اور اعلیٰ مقام انبیاء کا ہے جنہوں نے خدا سے سیکھا اور دوسروں کو سیکھایا ، یہاں بھی محمدمصطفیٰﷺ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کو دوستوں کو دعوت دی ، یہاں چالیس سال کی ایمان داری اور سچائی کا اعتبار تھا ، تو اس بات سے ثابت ہوا کے سچائی اور ایمانداری فتح کی پہلی سیڑھی ہے
قاسم علی شاہ کہتے ہیں ' کے میں نے اپنے بہت سے استاتذہ سے قرآن پڑھا پہلی آیت 'الحمدللہ رب لعالمین' جس کا عموم ترجمہ ہے ساری تعریفے اس ذات کے لئے ہے
میرے استاتذہ اس طریقے سے سمجھاتے تھے کے اس کا مطلب ہے کے سارا کریڈٹ رب کی ذات کا ہے پیچھے کچھ نہیں بچتا مطلب تیرے لئے کچھ نہیں بچتا ہر کام کے پیچھے رب کی ذات کا ہاتھ ہے چاہے وہ تیری کامیابی ہے تیری ترقی ہے تیری تعریف کچھ نہیں"تیسرا محبت کا اصول ہے عقل کا مقابلہ دل سے ہے مطلب عقل سے انسان اندازہ لگاتا ہے عقل سے تجزیہ کرتا ہے مگر دل تو صرف قربانی دینے کا نام ہے ، جس انسان کا دل سخی ہے وہ چاہے کچھ بھی پاس نہیں رکھتا مگر دینے والا ہاتھ ہمیشہ رکھے گا ، اور ایک انسان جس کے پاس ہر چیز موجود ہے مگر دل نہیں ہے ، دل کے پاس الفاظ نہیں ہوتے وہ صرف محسوس کرنے کا نام ہے
جو انسان دل سے سخی ہے اس میں شکر سب سے زیادہ ہوگا کیونکہ اس کے پاس جو بھی ہو گا وہ اس میں اپنی بہتری تلاش کرے گا ، وہ سوچے گا میرے لئے یہی ہونا چاہیے تھا ، اور یاد رکھیے خدا شکر کرنے والے پہ ہمیشہ اپنا کرم کرتا ہے ، جس انسان میں شکر نہیں ہوتا اسکی خواہشات کی ہوس کبھی ختم نہیں ہو سکتی ، ایک چیز مل جاۓ گی تو دوسری کی خواہش آ جاۓ گی ایسا انسان کبھی اندر سے خوش نہیں ہو پاتا نا ہی زندگی میں سکون حاچل کر پاتا ہے۔ایک بار الف شفق لکھتی ہے کے کے انسان جتنا بھی سگر کر لے مگر اصل سفر اندر کا سفر ہے ، اپنے اندر کتنا سفر کیا ہے ، باہر چاہے مشرق مغرب ساری دنیا گھوم لو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ تو اس میں سفر کا مطلب اپنی ذات کا سفر ہے اپنے اندر کتنی گہرائی تک خود کو پہچانا ہے۔
ایک اور بات الف شفق کہتی ہے کے ایک ماہ جب بچے کو پیدا کرتی ہے تو تکلیف سے گزرتی ہے ، تو یہ تکلیف سے تخلیق کا سفر ہے
یہ صرف اس مرحلہ میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر مرحلے میں ایسا ہی ہے اگر انسان کچھ بننا چاہتا ہے تو وہ پہلے تکلیف سے گزرتا ہے منزل تک پہنچنے کے لئے وہ سفر طے کرتا ہے ان میں آنے والی رکاوٹوں سے لڑتا ہے پھر کسی مقام پر پہنچتا ہےThis is a concise report ..... After Reading this give your review ❣️
Writer : Amna shahid

YOU ARE READING
fourty rules of love
Ficção Geralیہ سٹوری ایک ریپورٹ میں بند کی گئی ہے وہ لوگ جو انگلش میں نہیں پڑھنا چاہتے اور وہ لوگ جو زیادہ لمبی ڈیٹیلز نہیں پسند کرتے یہ خاص طور پہ ان لوگوں کے لئے ہے