umeed

1 1 0
                                        


وہ جو کہہ  دے مجھے۔
امید:
پارٹ 2
یار ابھی انقرا جانا ہے ایک ہفتہ تو لگ جائے گا کانفرنس میں۔۔تم ماما کو کہو کہ اتنا پریشان نا ہوں۔یار استنبول  میں ہوں۔۔۔چل بے جب خود گیا تھا لندن تب لیا تھا میرے لئے کچھ۔۔بس اتنا بھی بڑا نہیں تجھ سے۔۔دیکھتا ہوں۔۔ہادی حیان کی بات پر ہنس کر فون رکھ کر آس پاس دیکھنے لگا تبھی اس کی نظر عبایا میں بیٹھی معصوم سی لڑکی پر پڑی۔یہ چہرا کتنے عرصے بعد دیکھا تھا ہادی نے۔۔ لیکن دل کی زمین پر اس نقش بہت گھرے تھے۔۔وہ اب بھی ویسی ہی تھی ۔ موبائل فون میں گم ماتھے پر بل ڈالے پتا نہیں کیا دیکھ رہی تھی لیکن ہادی کی دل کی دھڑکن اس کو دیکھ اتنے سال بعد بھی تیز ہو گی تھی۔ہادی کے لیے عائشہ کا استنبول میں اکیلے ہونا حیران کن تھا کیوں کہ وہ علی یا اپنے والد کے بغیر کہی نہیں جاتی تھی۔۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے۔۔؟ہادی نے خود سے سوال کیا اور اٹھ کر اس کی طرف بڑھا اور اس کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گیا۔لیکن لگتا تھا عائشہ کو اس کے آس پاس کون کیا کر رہا ہے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔وہ بس موبائل فون کو ہی دیکھ رہی تھی اچانک اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تو ہادی کو لگا جیسے اس سے اچھا کوئی منظر ہو ہی نہیں سکتا۔۔
تبھی عائشہ نے اپنے ساتھ والی چیئر پر ہوۓ اضافے پر نظر  ڈالی تو حیرت سے  ہادی کو دیکھا اور پھر اپنے ایکسپریشن  نارمل کر کے موبائل کو دیکھنے لگی تبھی ہادی بول پڑا۔۔
ابھی آپ کے چہرے کو پڑھ کر یہ لگا جیسے جانتی ہیں مجھے اور اب یوں بيگانی ہو گی آپ۔۔یہ ناانصافی ہے جناب۔۔میجر ہادی گیلانی ہیر۔۔نام تو سنا ہو گا نا۔۔
تبھی عائشہ نے ہادی کو سرد نظرو سے دیکھا اور بولی
حیرت ہوئی کہ مسٹر پرفیکٹ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔ویسے بھی ہمارا ایسا کوئی یارانہ نہیں تھا کہ سلام پیش کرتی آپ کی خدمت میں۔۔
کاش ہوتا یارانہ۔۔۔چھوٹی لڑکی اتنی بڑی کب ہو گئی کہ استنبول میں اکیلے کھڑی ہے اور اب بھی لڑکوں  کی ویسے ہی پیٹایی کرتی ہیں آپ یا کچھ افاقا ہوا وقت کے گزرنے سے۔۔ہادی نے عائشہ کی بات پر ہنس کر کہا
عائشہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولی
آپ کے کسی سوال کے جواب دینے میں انٹرسٹ نہیں مجھے لیکن لاسٹ ون کا دوں گئی اب بھی لڑکوں کو ویسے ہی پیٹتی ہوں بلکے اب تو اپنے سے 5 یا 6 سال بڑے بندو کو بھی ہوسپٹل بھیجوہ سکتی ہوں۔۔کہے تو ڈیمو دوں آپ کو۔۔
عائشہ کے کے چہرے کے بدلتے رنگ ہادی کو تب بھی اچھے لگتے تھے اور اب تو اور خوشنما لگ رہے تھے وہ کیا بول رہی تھی ہادی کو کھک سمجھ نہیں آ رہی تھی تبھی عائشہ کو اس کی بے خیالی کا احساس ہوا تو اس نے حیرت سے ہادی کو دیکھا وہ کبھی اس کی جانب اس طرح سے نہیں دیکھتا تھا جیسے وہ بہت اہم ہو۔ایک غصے کی لہر عائشہ کے بدن میں دوڑ پڑی اور وہ اپنا پرس اٹھا کر کھڑی ہوگئی تبھی ہادی بھی اٹھ کر بولا
کیا ہوا کہاں جا رہی ہو آپ۔۔
وہاں جہاں کوئی عمر رسیدا انسان مجھے گھورے نا۔۔عائشہ نے غصے سے کہا اور وہاں سے واک اوٹ ہوگی۔۔
ہادی کو اول سمجھ نہیں آئی جب ائی تو ایک قہقہہ لگا کر بولا۔۔
حیان ٹھیک کہتا  ہے جتنی یہ معصوم دیکھتی ہے اتنی اندر سے پکی ہے۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
turkish sriyan border camp..
بھائی ہم یہاں کب تک رہے گے۔۔حسن نے کوئی دسوی بار سوال کیا تو حسین نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا
حسن یہ لاسٹ ٹائم بتا رہا ہوں میں آپ کو ہم پرسوں بارڈر پار کریں گے۔۔اور آپ کیا کر رہے تھے باہر اکیلے نا نکالا کریں۔۔
بھائی میرا دوست بنا تھا اس سے بات کر رہا تھا۔۔حسن نے دانین کے بال کھینچتے ہوۓ کہا اس کو دانین غصے میں بہت cute لگتی تھی اب بھی وہ غصے میں حسن کو گھور رہی تھی اور حسین کا ہاتھ پکڑ کر اس کی جانب راغب کرنے لگی۔۔باظاہر تو وہ صرف  ایک سال  کی تھی مگر بہت ہی تیز تھی۔۔حسین نے خوفگی سے حسن کو دیکھا۔۔
بھائی ہمص میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی قبر تھی کیا؟؟
حسن نے سوال کیا۔۔
ہاں تھی کیوں۔۔؟حسین نے حیرت سے پوچھا
کیا ان کو اللہ‎ کی تلوار کہتے تھے؟؟
ہاں۔۔
تو ہم کیوں نہیں ملے ان سے۔۔حسن نے معصومیت سے سوال کیا۔۔
ہم کیسے مل سکتے ہیں ان سے وہ زندہ نہیں ہیں۔۔ حسن کیا بول رہے ہو۔۔حسین کو اب چڑ ہوئی اس کے سوال سے۔۔
یہ کیا بات ہوئی۔۔مطلب اللہ‎ کی تلوار کیسے ٹوٹ گئی وہ کیسے زندہ نہیں۔۔
حسن سب کو ایک دن مرنا ہوتا ہے تو وہ بھی اللہ‎ کے پاس چلے گئے۔۔
لیکن ہمیں ان کی ضرورت ہے بھائی یہاں بہت ظالم لوگ ہیں۔۔بشار ال اسد کو کون ختم کرے گا اور وہ گندے والے بندے جنہوں نے امو کو شہید کیا ان سے بدلا کون لے گا۔؟حسن کی بات پر حسین کے ہاتھ تھم گے اور اس نے حیرت سے اپنے بھائی کی جانب دیکھا جو لگتا تو چھوٹا تھا لیکن باتیں اب بڑی کرتا تھا۔۔
حسن بدلا صرف اللہ‎ لے گے ہمارا۔۔ماریا نے حسن کے سوال کا جواب دیا تو حسن نے منہ بنا کر کہا
یہ کیا بات ہوئی اللہ‎ کے پاس بہت سے کام ہیں وہ کیسے یہاں اے گے۔۔اور میں ان کو کیوں ڈسٹرب کرو۔۔کوئی بندا تو ہو جو لڑے۔۔
حسن کی بات پر ماریا ہنسی اور اس کے بالوں کو چھیڑتے ہوئے بولی
تم تو بہت سمجھدار ہو۔۔ٹھیک ہے ہم دعا کرتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔
ماریا کو ان بچوں سے الگ سا لگاوں ہو گیا تھا۔۔حسن کے بال تو پورے کیمپ کی ماؤں کے فووریٹ تھے۔اس کی بھوری آنکھے اور آنگینت سوال سب کو درد میں بھی ہنسا دیتے تھے۔۔حسین جو گولڈن بال اور نیلی انکھوں میں سنجدگی لیے اپنے بہن بھائی کا خیال رکھتا تھا وہاں سب کو پسند تھا وہ تھا ہی الگ بارہ سالہ بچہ اتنی خاموشی سے سب کی مدد کرتا کہ دل میں جگا خود بن جاتی اور دانین تو تھی اتنی معصوم کہ اس کی مسکراہٹ ہی کافی ہوتی تھی کسی کا دل نرم کرنے کے لیے سفيان جیسا بندا بھی حسن اور دانین کا دیوانہ تھا لیکن حسین سے ایک عجیب سا ڈر لگا رہتا تھا اس کو۔۔اس کے سامنے تو وہ اتا بھی کم تھا۔۔
حسین نے نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاے تو حسن جو دعا کر چکا تھا اور اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا بولا بھائی آپ کو والدہ یاد نہیں آتی کیا۔۔؟
حسن کی جانب سے اٹھے سوال نے حسین کے دل کو ہلا کر رکھ دیا۔۔حسین نے اپنے اٹھے ہاتھوں کو دیکھا لیکن یہ کیا ہو رہا تھا اس کو سب دھندلہ کیوں دیکھ رہا تھا۔۔
بھائی والدہ بول رہی تھی آپ ان سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔حسن نے کہا تو حسین نے نم انکھوں میں حیرت لیے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا
والدہ؟؟؟وہ کب۔۔۔کیوں۔۔کیا کہے رہی تھی۔۔؟؟
وہ میرے خواب میں آتی ہیں اور والد بھی آتے ہیں۔۔آپ کو کبھی نظر نہیں آے۔۔آپ بہادر ہیں مے بی اس لیے نہیں آتے ہوں گے۔۔حسن نے کہا اور منہ موڑ کر دانین کو دیکھا جو  بیٹھی کھیل رہی تھی۔۔
حسین کو کچھ سنائی نہیں دے رہا بس ایک آواز گونج رہی تھی۔۔
آپ بہادر ہیں اس لیے نہیں آتے ہوں گے۔۔۔
آپ کو والدہ یاد نہیں آتی کیا۔۔؟؟
حسین نے اپنی شرٹ کی بٹن کھول دی وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا۔۔
مرحبا حسین کہاں جا رہے ہو۔۔مریم خاتون نے حسین کو دیکھ کر سوال کیا جس پر اس نے عجیب تاثرا ت سے ان کی جانب دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔۔
اور کیمپ سے دور روک گیا۔۔
مجھے درد کیوں نہیں ہورہا اللہ‎۔۔۔۔حسین نے خود سے کہا۔۔
اللہ‎۔۔۔حسین نے ایک دفع پھر پکارا اور آسمان کی جانب دیکھا اور آنکھے میچ لی اور کھول کر ایک دم بولا
اللہ‎ ہاں مجھے آپ سے بات کرنی چاہئے۔۔۔آپ سن رہے ہیں۔۔میں حسین ہوں جانتے ہیں آپ مجھے۔۔نام سنا ہے آپ نے میرا۔۔آپ  ہی نے تو سنا ہے۔۔مجھے اس دنیا میں آنا چاہئے یہ فصیلہ آپ کا تھا۔۔آپ کو تو پتا ہے سب۔۔دیکھ رہے ہیں نا آپ کیا ہو رہا یہاں۔۔آج عید ہے یہاں۔۔دنیا بھر میں عید الفطر خوشی لاتی ہے اور ہماری عید الفطر خوشی نہیں لایی ۔۔۔میرے والد اور والدہ نہیں رہے آپ سن رہے ہیں اللہ‎ وہ نہیں رہے۔۔حسین نے چیختے ہوئے کہا۔۔۔
آج ان کو یہاں ہمیں اکیلا چھوڑے آٹھ  ماہ ہو گے۔۔اور حسن کہتا ہے میں ان کو یاد نہیں کرتا۔۔۔میں یاد کرتا ہوں۔۔۔کرتا ہوں۔۔۔مجھے درد ہورہا ہے اللہ‎ لیکن رونا نہیں آرہا۔۔حسین نے آسمان کو دیکھ کر دکھ سے پكارا۔۔۔
اللہ‎ کیوں نہیں سن رہے آپ ہماری۔۔؟کیا ہم آپ کے کچھ نہیں۔۔؟بشارال اسد نے ہمیں مار دیا۔۔ہمارا کیا قصور ہے۔۔؟کسی کو ہم پر ترس کیوں نہیں اتا۔۔؟کیوں کوئی ہم پر رحم نہیں کرتا۔۔؟دنیا خاموش تماشائی بنی ہمارے مرنے کا انتظار کر رہی ہے۔۔جواب کیوں نہیں مانگ رہے آپ ان سے۔۔۔؟یا اللہ‎ میری ام نہیں رہی۔۔میرے والد یا اللہ‎ یا اللہ‎۔۔حسین نے چیخ کر کہا اور زمین پر بیٹھ گیا اور تبھی ایک قطرہ زمین پر گرا وہ اس بچے کی انکھوں سے نکلنے والا پہلا آنسو تھا۔۔زمین کے پاس  زبان ہوتی تو درد سے چیخ اٹھتی۔۔آسمان اگر بول سکتا تو آج کہے اٹھتا۔ہوا کو غم کا اظہار کرنا اتا ہوتا تو پوری دنیا کو حسین کے دل پر گزرنے والی داستان سنا دیتی۔۔۔۔
یا اللہ‎ میرا دل بہت درد کر رہا ہے۔۔میرا ملک جل رہا ہے۔۔اس ملک میں بارہ سال گزار کر اب چھوڑ نا ہے ہمیں۔۔یہاں سے کبھی تو آپ کے نیک بندے گزرے ہوں گے۔۔والد کہا کرتے تھے شام سے نبی اور صحابی گزرے ہیں۔۔یہ مٹی انمول ہے۔۔۔۔۔حسین نے مٹی اٹھا کر کہا اور رونے لگا۔۔
یا اللہ‎ تو ہمارا خون انمول کیوں نہیں۔۔؟کیوں کوئی قیمت نہیں اس خون کی۔۔؟ام اور والد کی قبر نہیں دیکھ سکوں گا میں اب کبھی۔۔احمد انکل کو تو قبر نہیں ملی۔۔چودہ سو سال پھلے ظلم جیسا ظلم روز ہوتا ہے۔۔۔زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی۔۔؟ہم زندہ کیوں ہے۔اللہ‎ اللہ‎۔۔۔حضرت عیسی کو بھیج دے۔۔قیامت ہو جائے۔۔۔جب ہم مر رہے ہیں تو دنیا بھی مر جائے۔۔یا اللہ‎ آپ کو پتا یہاں کچھ اچھا نہیں۔۔عید ایسی نہیں ہوتی۔۔
حسین نے روتے ہوئے سر سجدے میں گرا دیا تبھی اسے بچوں کی آوازیں سنائی دی اور اٹھ کر اس نے اس سمت دیکھا۔۔کیمپ میں ایک عجیب سماء تھا۔۔مائیں بہنیں اور باپ اپنے بچوں کو دیکھ  کر رو رہے تھے اور بچے نغمہ گا رہے تھے

wo jo keh de mujhe Where stories live. Discover now