پارٹ 3 روشنی
ہادی نے تیزی سے انولپ اپنے ہاتھ میں لے کر کھولا۔عمر گیلانی کو ہادی کے ہاتھوں کی کپکپی صاف دیکھ رہی تھی ان کو اپنے سینے میں درد اٹھتا محسوس ہوا اور وہ صوفے پے بیٹھ کر بولے
ہادی پلیز اونچی آواز میں پڑھنا میری پری کا شیزادہ کیا بول رها ہے۔۔عمر گیلانی کی بات سن کر ہادی نے کرب سے اپنی موم کی جانب دیکھا اور خط کھول کر عمر گیلانی کے سامنے بیٹھ گیا
السلام و علیکم بابا جانی!
کیسے ہیں آپ۔۔میں آپ کی پری ۔۔یاد ہوں نا آپ کو؟؟
میں آپ لوگوں کو نہیں بھول پایی بابا۔۔میں نے سوچا تھا کہ پھر کبھی آپ کو خط نہیں لکھوں گئی لیکن کچھ دن پہلے میرے گھر میں ایک پری آیی تو آپ کی بددعا یاد آیی بابا کہ اللہ تمہیں بیٹی دے اور وہ تمہراے ساتھ وہ کرے جو میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا۔۔
میرا دل ٹوٹ گیا تھا جب آپ نے میرے بیٹے تک کو دیکھنے سے انکار کردیا اور بددعا دی۔۔
ماما آپ بہت یاد آئی جب میری بیٹی کو اپنی باہنوں میں بھرا۔بابا عیسی کو بیٹی چاہیے تھی۔۔وہ کہا کرتے تھے اللہ ہمیں بیٹی دے جو میرے لیے اتنی پاگل ہو جتنی میں آپ کے لیے تھی۔۔
ہادی نے دکھ سے اپنے بابا کی جانب دیکھا جن کے آنسو ٹیبل کی سطح پر چمک رہے تھے اور دوبارا خط کی جانب راغب ہوا
آج گلہ کرو گئی بابا۔۔آپ کو مجھے پیار نہیں کرنا چاہئے تھا۔بلکے کسی باپ کو پیار نہیں کرنا چاہئے اپنی بیٹی سے اتنا کہ وہ ہر مرد میں اپنا والد ڈھونڈنا شروع کر دے۔۔میرے آئیڈیل آپ تھے بابا اور آپ نے فہد بھائی کو پسند کر دیا میرے ہسبنڈ کے طور پر جو اپنے گھر والوں کی عزت نہیں کرتا تھا۔۔۔کیوں سرپرائز دیا آپ نے اس بیٹی کو جس کی برتھڈے کا گفٹ آپ اس کی مرضی سے لتے تھے اور شادی کے لیے آپ نے مجھے سرپرائز کر دیا۔۔مجھے آپ کا گفٹ پسند نہیں آیا تھا بابا پر صبر کیا میں نے۔۔
عیسی کہتے ہیں کہ مجھے ان سے کبھی بھی محبت نہیں تھی۔۔ہاں نہیں کرتی تھی میں ان سے محبت لیکن آپ نظر آے مجھے ان میں۔۔مجھے لگا وہ آپ کو پسند آے گے مگر سب خراب ہو گیا۔میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا بابا۔۔مجھے خود کو بچانا تھا۔۔ہادی اور تیمور بھائی نے اگر مدد نا کی ہوتی تو میں خودکشی کر لیتی بابا۔۔
عمر گیلانی نے حیرت سے ہادی کی جانب سے دیکھا جس نے سرد نظرو سے ان کی جانب دیکھ کر سر جھکا دیا۔۔
مجھے بہت خوش ہوں آپ کے داماد کے ساتھ۔۔بہت پیار کرتے ہیں وہ مجھے۔۔اتنا خیال رکھتے ہیں کہ رونا آجاتا ہے تب آپ کی یاد آ جاتی ہے آپ بھی تو اتنا ہی پیار کرتے تھے۔۔بابا میں ڈاکٹر بن گئی اور میں نے قرآن حفظ کر لیا بابا۔.
ماما کیسی ہیں۔۔میں نے آپ کے بغیر رہنا اب تک نہیں سیکھا۔۔مجھے اب بھی کوکنگ نہیں آتی۔۔لیکن آپ کا داماد جو پکا لوں کھا لیتے ہیں اور ویکینڈ پر خود کوکنگ کرتے ہیں کیوں کہ آپ کی بات ٹھیک تھی میرے ہاتھ کا کھانے کے لیے جگر ہونا چاہئے۔۔
حیان کتنا بڑا ہو گیا ہو گا نا۔۔اس کو میں یاد تو ہوں نا۔۔آپ لوگ بھولے تو نہیں ہیں مجھے۔۔ہادی اب بھی ویسا ہے نا سب کا خیال رکھتا ہے نا۔۔بہت احسان ہے اس کا مجھ پر بابا ۔۔میرا بیٹا بلکل اس کی طرح بات کرتا ہے۔۔
تیمور ابی کیسے ہیں اور بھابی اور بچے ٹھیک ہیں نا۔۔
میرے بچے جب ایک دوسرے کو ابی اور چھوٹے کہتے ہیں تو آپ سب بہت یاد اتے ہیں۔۔
میری سزا ختم کر دے بابا جانی۔۔اتنے سال بہت ہوتے ہیں۔۔آپ کی پری تھک گئی ہے۔۔مجھے اپنے ملک آنا ہے۔۔بابا مجھے اپنے پاس بولا لیں۔۔مجھے ماما کی گود میں سر رکھ کر سونا ہے۔۔اپنے بھائیوں کے ساتھ بہت سی باتیں کرنی ہے۔۔بابا جانی مجھے آپ کے گلے لگنا ہے۔۔بابا میری سزا ختم کر دیں۔۔
آپ کی بیٹی
یقین گیلانی۔۔۔
ہادی نے نم انکھوں اپنی بہن کا نام پڑھا تبھی عمر گیلانی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور وہی ڈھے گیے۔۔حیان کی آواز پر ہادی نے اپنے بابا کو دیکھا اور تیزی سے ان کی جانب بڑھا۔۔
میری بیٹی کو واپس لے آو ہادی وہ ناراض ہے اپنے بابا سے۔۔وہ لے۔۔ہادی نے اپنے بابا کو آنکھیں بند کرتے ہوئے کہتے سنا۔۔
حیان جلدی گاڑی نکالو۔۔جلدی کرو۔۔موم آپ پلیز صبر کریں بابا کو کچھ نہیں ہو گا۔۔فائزہ گیلانی کی جانب دیکھتے ہوئے ہادی نے کہا۔۔
زندگی ایک اور امتحان لینے والی تھی،دل پر پڑا بوجھ اور بڑھنے والا تھا۔۔
ہوسپٹل کے کوریدور میں کھڑے ہوئے ہادی نے اپنی ماما کو دیکھا جو آج دو لوگوں کے لیے رو رہی تھی۔۔ایک انکی محبت ان کا شوھر عمر گیلانی اور ایک ان کی جان انکی بیٹی یقین۔۔
ڈاکٹر نے ہارٹ اٹیک کا کہا ہے بھائی آپ جا کر چیک اپ کریں نا بھائی۔۔حیان نے بے تابی سے ہادی سے کہا تو ہادی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔
میں چیک کر چکا ہوں بابا ٹھیک ہیں۔۔تم فکر مت کرو جاؤ تمہاری ڈیوٹی ہے وارڈ میں پیشنٹ ویٹ کر رہے ہیں تمہارا میں ہوں یہاں۔۔
بھائی بابا کو کچھ ہو گا تو نہیں نا۔۔حیان نے بچوں کی طرح سوال کیا تو ہادی کے چرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔۔
بابا ٹھیک ہی کہتے ہیں حیان تم چائلڈ اسپیشلٹ بن کر بچے بن گئے ہو۔۔حیان نے خوفگی سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جو 2 راتوں سے نہیں سویا تھا اور ان سب کی فکر کے ساتھ اپنی ڈیوٹی بھی انجام دے رہا تھا۔۔کتنا سکون سے کھڑا تھا اور اپنے ڈر کو چھپا رہا تھا۔ہادی بظہار اپنے بابا سے ناراض تھا لیکن ان کو کھونے کا خیال ہی اس کے خوفناک تھا۔۔
ہادی اپنی ماما کی جانب بڑھا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور بولا۔۔میں اپنی پری کو ڈھونڈ لوں گا ماما آپ بابا کے ساتھ رہے۔۔مجھے امریکہ جانا پڑے گا مجھے اپنی پری کو واپس لینے جانا ہے ماما۔۔لیکن یہاں آپ کو۔۔ہادی کی بات کاٹتے ہوئے فائزہ گیلانی نے بے چینی سے کہا۔۔مجھے میری بیٹی لا کر دے دو بیٹا،تم یہاں کی فکر نا کرو میں سب سمبھال لوں گئی۔میری بیٹی مجھے ہر روز خواب میں بولاتی ہے میرا دل بہت بےچین ہے ہادی کچھ کرو اپنی بہن کو واپس لے کر او۔۔
اپنی ماما کے انہی خاموش آنسووں کی وجہہ سے ہادی اپنے بابا سے دور ہو گیا تھا۔۔
زندگی کبھی کبھی ایسا پلٹا کھاتی ہے کہ انسان اپنے آپ تک کو بھول جاتا ہے۔۔
یقین تھی تو ہادی سے ایک سال بڑی لیکن وہ ہادی اور سب کی پری تھی۔۔وہ تھی ہی کمال کی۔۔سب کے دل کو جیتنا ایک آرٹ ہے اور یقین اس کی چمپین ہے یہ تھا یقین گیلانی کا وہ ڈائلاگ جو وہ سب کو فخر سے کہا کرتی تھی..عمر گیلانی نے جس قدر لاڈ اپنی پری کو دیا اتنا ایک بیٹے کو نہیں دیا۔۔اور اس لاڈ سے کوئی جیلس بھی نہیں ہوا کرتا تھا کیوں کہ یقین اس حق سے ہر چھوٹے بڑے سے لاڈ اٹھواتی تھی کہ کوئی گلہ زبان پر نہیں لاتا تھا۔۔
پر وقت ایک سا نہیں رہا کرتا۔کبھی کبھی کسی حاسد کی نظر آپ کی خوشی کو اس طرح نگل لیتی ہے کہ آپ کو خوشی کو ڈھونڈنا تک بھول جاتا ہے۔۔
جرنل ریٹائر عمر گیلانی کا بس یہ ہی خواب تھا کہ انکے بچے آرمی جوائن کریں۔۔اور یہ خواب انکے بڑے بیٹے تیمور نے پورا کیا۔۔یقین اور ہادی نے آرمی میڈیکل کالج میں ایڈمشن لے کر اسی روایت کو قائم رکھا۔۔
حیان تو تھا ہی یقین کا دیوانہ وہ آرمی میں صرف ڈاکٹر بننے کے لیے جائے گا اپنی پری کی طرح۔۔
آپ کی لائف میں سب ٹھیک ہو ایسا ممکن تو نہیں۔۔
عمر گیلانی نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے فہد سے کر دیا۔۔فہد آرمی میں کپٹیں تھے۔ سب کو بہت پسند تھا۔۔ بٹ یونیفارم آپ کے اچھے ہونے کا تعین نہیں کرتا۔فہد میں ہر وہ برائی موجود تھی جو ایک برے انسان میں ہوتی ہے اور اس کو ہر وہ طریقہ معلوم تھا جو اس کی برائی کو ڈھانپ سکے۔۔
یہ خبر ایک سرپرائز کی طرح سب کو ہادی کو دی گئی پارٹی میں سنائی گئی۔۔سب کے لیے یہ ایک شاک سے کم نہ تھا۔کبھی کبھی ینگ جنریشن وہ راز جانتی ہے جو ہمارے بڑے نہیں جان پاتے اور فہد کے معملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔۔
یقین بس اپنے بابا کو حیرت سے دیکھ رہی تھی جن کے مان کے لیے وہ ایک شخص کی محبت ٹھکرا چکی تھی۔۔
ہاں یقین اسی دن عیسی کو انکار کر چکی تھی جو ان کے وزٹنگ پروفیسر کے طور پر کام کرتے تھے۔کب عیسی کو یقین کی معصوم صورت بھا گئی وہ نہیں جانتے تھے۔ یقین کے والد سے بات کرنے سے پہلے ان کو یقین سے بات کرنا مناسب لگا۔ جس نے سنتے ہی انکار کردیا اور کہا کہ وہ اس کے راستے میں بھی نا آے انکے بابا کو یہ بات بھی بری لگے گئی کہ اس کے لیے اس کا پروفیسر رشتہ لیا ہے۔یقین کا رونا ڈاکٹر سے نا دیکھا گیا اور وہ وعدہ کر گے کہ وہ کبھی یقین کے سامنے نہیں آے گے۔
بیٹی باپ کے مان کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن کوئی کیسے ایک ایسے انسان سے شادی کر سکتا ہے جس کے افایئر کی داستان وہ اپنی کزن سے سنتی تھی اور جس کے ہوس کا شکار اس کی اپنی کلاس فیلو ہو چکی تھی۔۔
ہادی تیمور نے اپنی طرف سے ماما بابا کو سمجھانے کی بہت کوشیش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔۔
تبھی منگنی کی رات یقین کی خودکشی کی کوشیش نے ہادی اور تیمور کی نیند تک اڑا دی۔عمر گیلانی اور فائزہ کو اس بات سے بے خبر رکھا گیا اور تبھی عیسی کی ہیلپ سے یقین کی جان بچا لی گئی۔
ہادی عیسی کے راز میں شریک تھا کیوں کہ یقین کے بارے میں عیسی نے پہلے بات ہادی سے کی۔۔تبھی ہادی اور تیمور نے کچھ سوچ کر یقین اور عیسی کا نکاح کر دیا۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا ایسا سوچتے ہوئے وہ عیسی اور یقین کو گھر لے آے لیکن عمر گیلانی نے ان کو گھر سے نکال دیا اور پورے خاندان میں یقین کی موت کی خبر دے دی۔۔
باپ کی طرف سے اتنے سخت قدم نے سب کو حیران کر دیا۔تیمور اور ہادی کو ان کے بابا کی انکی ماما کو اس عمر میں چھوڑنے کی دھمکی نے روک دیا۔۔
یقین 2 سال بعد اپنے بیٹے کے ساتھ اس امید پر گھر آیی کہ شائد بابا نے معاف کر دیا ہو لیکن جہاں انا رشتوں میں آ جائے وہاں محبت کم ہی زندہ رہ پاتی ہے،وہ محبت کہی سو جاتی ہے۔۔عمر گیلانی کو اپنے خاندان کی محبت بیٹی کی محبت پر بھاری لگی اور انہوں نے ان کو دیکھنے تک سے انکار کردیا۔
تب سے یقین نے پاکستان کی طرف موڑ کر نا دیکھا اور نا ہی اپنے کسی بھائی سے رابطہ رکھنے کی کوشیش کی۔
ہادی نے فون پر اپنی ٹکٹ بک کروا کر تیمور کو کال کی اور جلدی اسلام آباد انے کا کہا۔اور ایک عزم سے سانس بھر کر آنکھے بند کرتے ہوئے کہا
پری آپ کا بھائی آپ کو واپس لے آے گا۔اب آپ ہم سے دور نہیں جاؤ گئی۔۔
ہادی یہ بھول رہا تھا کہ جب وہ عزم کر رہا تھا تبھی اس کی بہن اپنی آخری سانس لے کر دنیا چھوڑ چکی تھی۔ ۔ابھی تو بہت سے پچتاوے ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔
🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾
turkey(zolodaley)
تم sure ہو نا کہ تمہیں یہاں میرے ساتھ سفیان سے بات کرنی چاہئے؟
کوئی تیسری بار مراد نے اپنی ساتھ کھڑی سامنے بلڈنگ کو گھورتی عائشہ سے پوچھا جس نے چڑ کر غصے سے ساتھ کھڑے مراد کو دیکھا اور اس کے قریب جا کر بولی۔۔
اب اگر تم نے ایک لفظ بھی کہا تو میں تمہرا سر توڑ دن گئی۔بیٹا ابھی تو تم پر مجھے پاپا کو سب بتانے کا غصہ ہے۔۔آج سے میں تمہرا کوئی راز نہیں رکھو گئی۔۔اور اب تم وہی کرو گے جو میں نے کہا ہے اور خبردار اگر کچھ الٹا سیدھا کیا ورنہ تمہاری ایک گرل فرینڈ بھی تھی اور آج کل تمہارے آفس میں کام کرتی ہے یہ بتا دوں گئی وہ کیا کہتے ہیں بیوی کو۔۔۔
عائشہ کی بات نے مراد نے مسکین سی صورت بنا کر اس کی جانب دیکھا جو اگے بڑھ گئی اور آواز لاگا کر بولی۔۔
آجاؤ مراد ورنہ ابھی بتا دوں گئی تانی کو۔۔
اللہ اللہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔
اپپاٹمنٹ کی حالت باہر سے زیادہ بری تھی۔ایک ٹوٹا صوفہ اور چھوٹا سا کچن اور ایک کمرے پر مشتمل یہ گھر مکین کی ضبوحالی بتا رہا تھا۔۔اپنے ملک کو چھوڑ کر اچھے گھروں سے تعلق رکھنے والے بھی اس حالت میں رہنے پر مجبور تھے۔پر جو بھی تھا وہ یہاں محفوظ تھے۔
عائشہ نے روم کا جائزہ لتے ہوۓ چاۓ کا کپ تھام کر سفیان کو مخاطب کیا۔۔
بچے کہاں ہیں؟
وہ ذرا باہر سے سامان لینے گے ہیں۔سفیان نے چاپلوسی سے جواب دیا۔
چلو اچھا ہے ان کے سامنے کیا بات کرتی۔خیر میں آپ کو دس لاکھ ڈولر دوں گئی ان بچوں کے کہوں منظور ہے۔۔؟
سفیان نے اپنے سامنے بیٹھی اس چھوٹی سی لڑکی کو حیرت سے دیکھا جو اتنی بڑی رقم کی بات کر رہی تھی ان بچوں کے لیے جن کو وہ اس سے بھی معمولی رقم پر بیچ دیتا۔
آپ کیا کریں گی ان کا،مطلب آپ تو جانتی بھی نہیں ان کو؟؟
سفیان کی بات پر عائشہ نے مسکرا کر کپ رکھ دیا اور بولی۔۔
آپ کو کیا لگتا ہے میں مان لوں گئی کہ آپ ان بچوں سے مخلص ہیں۔۔مراد نے بتایا آپ کے اس بھائی کے بارے میں جس کی وجہہ سے یہ بچے یتیم خانے جانے والے تھے۔۔وہ بڑا اچھا سا نام تھا۔؟؟عائشہ نے اپنے ماتھے کو چھو کر کچھ یاد کرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔۔ارے ہاں!برہان الدین۔۔بڑا کوئی شریف سا بھائی ہے تمہارا یہ نہیں بتایا تم نے مراد کو اور ترکش اتھارٹی کو۔۔؟عائشہ نے مسکرا کر سفیان کی انکھوں میں دیکھ کر کہا تو اس نے گھبرا کر مراد کو دیکھا جو حیرت سے دونوں کو سن رہا تھا۔۔
نہیں نہیں میرے بھائی کا نام ولید ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے بہن۔۔
ولید اوہ انٹرسٹ مطلب امریکا میں اس نام سے رہ رہا ہے۔۔چلو مراد آج میں تمہے سامنے بیٹھے اس شخص کی دکھ بھری داستان سناتی ہوں۔۔تو مراد یہ سفیان صاحب جن کا اصل نام کچھ ابو سیاف ہے اور ان کے بھائی برہان الدین ایک مشھور گینگسٹر ہیں۔داعش اور طالبان کو کم عمر بچے دینا اور اسلحہ پنچانا ان کا پیشہ ہے۔۔مطلب آسان لفظوں میں ان کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔۔عائشہ نے مراد کو انکھ مارتے ہوۓ بات مکمل کی اور سفیان کو دیکھا جو اب تھوڑا سمبھل کر اس کو سن رہا تھا۔۔
ویسے دات دیتی ہوں آپ کی کہانی کو میں۔۔تین معصوم بچے اور ایک لڑکی جس کو بیوی بنا کر معصومیت سے نکلنے کا پلان ہے آپ ترکی سے۔۔واو میں امپریس ہوئی آپ سے۔۔میں تمہے جانتی ہوں ابو سیاف سو میرے سامنے شریف نا بنو اور ڈیل کرو آرام سے۔۔عائشہ نے ابو سیاف کی انکھو میں آنکھے ڈال کر غصے سے کہا تو سفیان عرف ابو سیاف نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور زور سے ہنسا اور بولا
تم کیا سمجھی میں تم سے ڈر جاؤ گا۔۔ابھی گولی مار کر دفن کر دوں تب بھی کسی کو خبر نا ہو گئی۔۔
عائشہ۔۔مراد نے گھبرا کر عائشہ کو پکارا جو اب بھی ابو سیاف کو دیکھ رہی تھی بول پڑی۔۔
تمہے کیا لگا میں یہاں اؤ گئی اور پلان نہیں ہو گا میرے پاس۔۔تم مار دو گے اور پاکستانی خاموش تماشائی بننے رہے گے۔۔۔سو کللڈ سفيان صاحب میں پکا انتظام کر کے یہاں آیی ہوں۔ڈیل فائنل کرو ورنہ ایک گھنٹے میں پولیس چھوڑو پاکستانی ایجنسی کے لوگ یہاں ہوں گے وہ کیا پیارا سا نام ہے اپنی ایجنسی کا ISI ۔۔اور ان کو تو اپنی عوام ویسے بھی بہت پیاری ہوتی ہے جب ان کے آس پاس کوئی آپ جیسا موجود ہو۔۔
عائشہ کی بات سن کر سفيان گھبرا کر سیدھا ہوا اور اپنی بے چینی کو چھپانے کے لیے شاطر انداز میں ہنسا اور بولا۔۔
مجھے یہ ڈیل پسند نہیں آیی۔۔
تم اپنی ڈیل بتا دو دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔؟
تم پہلے بتاؤ کہ کیا کرو گئی ان بچوں کا؟
تم کیا کرنے والے تھے؟
عائشہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔۔
آج کل بچوں کی ویڈیو فلم بنتی ہیں جس میں ان کو برہنہ کر کے کچھ کیا جاتا ہے بس اس کا ٹرینڈ ہے وہ کرتا یا بیچ دیتا کسی پر وہ جو کرتے انکی مرضی۔۔
مراد نے سفیان کی بات سن کی آنکھے ضبط سے بند کر دی اور عائشہ نے خود کو نارمل دیکھانے کے لیے کپ اٹھا لیا۔۔
تم داعش کے کیمپ میں بھی رہے تھے تو میں کیسے مان لوں یہ انچھوا مال ہے۔۔
وہاں میں نے سب کو کہا تھا کہ یہ میرے بچے ہیں اور ہم ایک دوسرے کے بچوں کو لوچ نہیں کہا کرتے۔۔
سفیان نے عائشہ کے سوال پر جواب دیا۔
اب تک کس بات کا انتظار تھا۔۔؟؟
یہ بچے مجھے معصوم بنے میں مدد کرتے ہیں۔۔
اور یہ لڑکی کون ہے؟
یہ میری بہن کی نند ہے۔۔وہ مر گئی اور اس کی زامداری مجھے مل گئی۔۔
تو کیا یہ بھی انچھوئی ہے۔۔عائشہ نے سوال کیا۔۔
ہاں وہ میرے لئے بہن جیسی ہے کیوں کہ وعدہ نہیں توڑا کرتا اپنے خونی رشتوں سے۔۔سفیان نے عائشہ کی بات پر جذباتی انداز میں جواب دیا۔۔
واہ بڑے کوئی اصلووں والا بیغرت ہے یہ۔۔عائشہ نے اردو میں بڑبڑا کر کہا اور پھر سمبھل کر بولی۔۔
ان بچوں کے ساتھ میری ایجنسی جو کرتی ہے ان کی مرضی تم اپنی ڈیل بولو۔۔عائشہ نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے دروازے کی سمت دیکھا جہاں حسن کو تھامے حسین حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے اور ساتھ ایک خوبصورت سی اٹھارا سالہ لڑکی ایک پیاری بچی کو لے کر گم سم کھڑی ان کو دیکھ رہی تھی۔۔تبھی عائشہ اپنی جگہ سے اٹھ کر حسین کے قریب آ کر اردو میں بولی۔ ۔
اللہ پر بھروسہ کرو وہ ہے ہمارے ساتھ۔تم روم میں جاؤ ۔۔حسین نے حیرت سے عائشہ کے چہرے کی جانب دیکھ کر سر ہلایا اور سب کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔تبھی عائشہ نے موڑ کر سفیان کو دیکھ کر کہا
ڈیل فائنل کرو 40 لاکھ ڈالر۔۔
نہیں 50 لاکھ ڈالر۔۔اور ترکش پاسپورٹ اور یہاں سے آرام سے نکلنے کی ضمانت۔۔
کیوں وہاں حلال بزنس کرنا ہے؟؟عائشہ تلخی سے ہنسی تبھی مراد اٹھ کر اس کی جانب آ کر بولا
یہ کیا ڈیل ڈیل بول رہی ہو۔ ۔یہ ٹیررسٹ ہے ار تم مدد کرو گئی اس کی۔۔
عائشہ نے مراد کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے پرس سے ایک پاسپورٹ نکال کر سفیان کی جانب اچھال دیا جس کو اس نے پکڑ کر چیک کرنے لگا۔۔
مجھے پتا تھا ایک ڈیمانڈ تو یہ ہو گئی۔۔مراد کلیر کر دے گا تمہے۔۔
میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا سمجھی تم۔۔تم ایسا کیسے کر سکتی ہو عائشہ اس ملک میں رہ رہی ہو ار یہ غداری ہے۔۔
مراد نے دکھ صد بات مکمل کی تو عائشہ نے اس کی طرف موڑ کر بولی
میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔ابھی مار کر غائب کر دوں اور پھر سبھا غداری کا ٹھپا لگا دوں۔۔میری مرضی تو آرام سے کلیر کرو اس کو سائن کرو مراد۔۔میں نے کہا اٹھاؤ پاسپورٹ۔۔عائشہ نے چیختے ہوئے کہا تبھی سفیان نے پستول نکال کر مراد کے سامنے کی اور غصے سے بولا
لڑکی کی بات سنو تم اور سائن کرو۔۔پستول دیکھ کر ایک لمحے کے لیے عائشہ کی بھی سانس تھم گئی اور اس نے ڈر کر مراد اور سفیان کو دیکھا اور سمبھل کر بولی۔۔
یہ کیا کر رہے ہو تم۔؟میرے بندو نے یہ دیکھ لی تو پہلے تمہے مار دے گے۔۔مجھے دو یہ اور تو نہیں ہیں تمہارے پاس۔۔عائشہ نے سفیان کی جانب ہاتھ آگے کیا تبھی سفیان نے پستول عائشہ کو دے کر جواب دیا
نہیں یہ ایک ہی ہے باقی اندر ہیں۔۔
میں جب تمہے کہوں اس کو پکڑ لینا۔۔عائشہ نے اردو میں مراد کو کہا جو غصے اور گھبراہٹ میں ان دونوں کو دیکھ رہا تھا حیرت سے عائشہ کی جانب دیکھا جو اب اردو میں بول رہی تھی
یہ کیا بول رہی ہو ؟؟ سفیان نے غصے سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں اس کی ایک کمزوری ہے میرے پاس وہ بتا رہی ہوں۔میں اپنے ہائی کمانڈ کو خبر کرتی ہوں۔۔عائشہ موبائل فون پکڑے سفیان کے پیچھے آیی اور اس پر پستول رکھ مراد پر چلائی۔ ۔
پکڑو اس کو جلدی۔۔
مراد جو تیار بیٹھا تھا اس نے سفیان کو دونوں بازو سے دبوچ لیا اور اس کو باندھنے لگا تبھی عائشہ نے اپنا سکارف اتار کر اس کی جانب بھڑا دیا۔مراد نے سفیان کو اچھے سے دبوچ لیا تھا پریشانی سے بولا
یہ ہم کر کیا رہے ہیں؟
تم اس کو باندھ دو تب تک پولیس اور دونوں ملکوں کی انٹلیجنس والے آ جائے گے۔۔عائشہ جو نشانا بندھے ہوئے تھی گھبراتے ہوئے پرس سے ایک انجکشن نکال کر مراد کو دیا اور بولی
اس پر کرو یہ بیہوش ہو جائے گا جلدی۔۔
مراد نے انجکشن لیا لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور
سفیان اپنے ہاتھ کھولنے بس کامیاب ہونے لگا تھا۔عائشہ نے گھبرا کر زور سے بولی۔۔
جلدی کرو مراد کانپنا بند کرو یہ مار دے گا ہمیں۔۔
تبھی مراد کے ہاتھ سے انجکشن حسین نے لیا اور سفیان کی گردن پر زور سے چھبا دیا اور سفیان نے حرکت کرنا بند کر دی۔۔
مراد اور عائشہ نے ساتھ کھڑے حسین کو حیرت سے دیکھا اور زمین پر تھک کر بیٹھ گئے
یہ تم کیا کر رہی تھی؟ ؟مراد نے غصّے سے چیخ کر سوال کیا۔۔
چپ کر جاؤ میں پہلے ڈر گئی ہوں۔۔۔عائشہ نے اپنے بال باندھ کر جھنجھلا کر کہا
یہ ڈر رہی تھی تم۔ ۔ہم ایک دہشت گرد کے ساتھ ملنے والے ہیں یہ کب بتانے والی تھی تم؟؟
بعد میں سب بتا دوں گئی ابھی ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس۔۔یہ سب فنگر پرنٹس صاف کرو۔۔اور آپ بیٹا جلدی نکلنے کی تیاری کرو۔۔عائشہ نے کپ اور انجکشن ہٹاتے ہوئے کہا اور حسین کی جانب موڑی جو اس کو بت بنا دیکھ رہا تھا
بیٹا جلدی ہمیں نکلنا ہے۔اپنے کام کی چیزے لو۔پولیس 10 منٹ میں یہاں ا جائے گئی۔۔
یہ کب بتانے والی تھی تم۔۔مراد زور سے بولا
تم اپنا سپیکر بند کرو تھوڑی دیر کے لیے۔۔
عائشہ نے اسے گھور کر کہا۔۔
5 منٹ میں سب ریڈی ہو کر خاموشی سے بلڈنگ سے نکلے اور عائشہ نے کار کے پاس جا کر کسی کو کال کی
مشن کمپلیٹ سر آپ لوگ جائے بٹ وہاں کوئی بچے اور لڑکی نہیں تھی یہ یاد رکھے گا۔۔یہ ڈیل تھی ہماری۔۔عائشہ کئی بات سن کر سب چونکے اور مراد نے غصے سے سامان گاڑی میں پٹکخا تو عائشہ سب کو اگنور کرتے ہوئے بولی
آپ لوگوں کو سب بتا دو گئی۔۔گاڑی میں بیٹھے سب۔۔
گاری زولودالے کے حدود سے نکلی تو عائشہ نے شکر کیا لیکن سر پر ہاتھ رکھ کر چیخی۔۔
میرا سکارف نہیں ہے یار وہ وہاں۔۔عائشہ کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی حسن نے معصومیت سے سکارف اسکی جانب آگے بڑھایا۔۔عائشہ نے نم انکھو سے اس کو دیکھا اور بولی
شکریہ بیٹا۔۔میں تو ڈر گئی تھی
آپ ڈر نہیں گئی ہمیں ڈرا چکی ہیں۔۔یہ تم پاکستانی کب اپنی ایجنسی کا شو مارنا بند کرو گے بہت شوق ہے تم سب کو ایجنٹ بنے کا۔۔یہ ہوا کیا ہے میرے ساتھ کچھ بتا بھی دو بہن۔۔مراد نے اس کو غصے سے کہا تو عائشہ اس سب مشکل situation کے بعد پہلی بار زور سے ہنسی اور بولی
I know your wife love pakistan army and ISI hahaha
تم اس لیے جیلس ہو رہے ہو نا۔۔عائشہ کو ہنسی سے بے حال ہوتے ہوئے سب نے حیرت سے دیکھا سوائے مراد کے کیوں کہ وہ اس پر یو ہی ہنسا کرتی تھی۔تبھی بچے کی رونے کئی آواز نے عائشہ کو چپ ہونے پر مجبور کر دیا اور اس نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو ایک سال کی پیاری سی بچی دانین نیند سے اچانک جاگنے پر احتجاج کرتے ہوۓ رونے لگی۔
یہ چھوٹا پیکٹ کون ہے؟؟عائشہ نے دانین کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوۓ پوچھا
دانین میری چھوٹی بہن۔۔حسن نے جوش سے جواب دیا۔
دانین نے عائشہ کے بڑھے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر اسکی جانب نظرے اٹھائی اور مسکرا کر اس کی جانب بڑھی۔۔عائشہ نے دانین کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا اور جوش سے بولی
یہ پہلا بچہ ہے دنیا میں جو اتنی آسانی سے میرے پاس آیا ہے۔۔میری جان کتنی پیاری ہے یہ۔۔آپ کی مام بھی اتنی خوبصورت تھی نا
عائشہ کے پاس جا کر دانین خاموش ہو گئی تھی سب نے پیار سے اس کو دیکھا تبھی حسن نے عائشہ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا
میری ام دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون تھی۔۔
عائشہ کو حسن اور حسین کی انکھوں برسوں کی تھکن نظر آیی تبھی وہ دانین کو دیکھ کر بولی
یہ اتنی پیل لگ رہی ہے چلو پہلے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔۔
پہلے تم ہمیں یہ بتاؤ کے ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟؟
مراد نے گاڑی سائیڈ پر روک کر اس سے گھورتے ہوئے پوچھا..
جب میں تم سے ملنے آیی تھی تو میں نے اس صاحب کو پہچان لیا تھا۔ میرا کزن علی جو آرمی میں ہے اس کے روم میں ایک پکچر دیکھی تھی میں نے۔تب اسنے بتایا کہ پاکستان تک کو وہ مطلوب ہے کیوں کہ اس نے وزیرستان میں طالبان کو کافی ہیلپ کی ہے اسلحہ دینے میں اور جو باتیں اس کے بارے میں معلوم ہوئی اس کے بعد اس کو کیسے بھول سکتی تھی میں۔۔جب اس کو آفس میں دیکھا تو علی کو بتا دیا اینڈ اس نے ہائر آفیشل کو خبر کر دی اور میں نے ان سے ڈیل کر دی کے میں ہیلپ اس شرط پر کرو گئی اگر وہ بچوں کو کچھ نہیں ہونے دے گے۔۔بس یہ تھی ساری سٹوری۔۔۔
اور یہ مجھے کب معلوم پڑنا تھا۔۔؟؟
مراد نے خوفگی سے عائشہ کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا کر بولی
یار تمہارے ضیا صاحب نے منانا کیا تھا کہ تم سے ایکٹنگ نہیں ہو گئی تو تمہارے نیچرل روپ سے فائدہ اٹھا لے ہم۔۔۔
مطلب میرے لوگ بھی ملے ہوۓ تھے مجھے بیوقوف بنانے میں۔۔مراد نے افسوس سے سر ہلایا۔
یار بنے بناے کو اور کیا بنانا۔۔عائشہ نے ہنس کر جواب دیا
تم تو بات ہی نا کرو مجھ سے..
ارے اگر بتا دیتے تو وہ جو نیچرل ایکٹنگ ہو رہی تھی وہ کیسے ہوتی۔۔؟؟کیسے کانپ رہے اللہ اللہ۔۔اور ایک انجکشن تک لگایا تک نہیں جا رہا تھا تم سے۔۔
عائشہ نے اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا
واہ میڈم اپنی حالت دیکھی تھی ایک پسٹل تک اٹھائی نہیں جا رہی تھی خود جو کانپ رہی تھی اور اس سانڈھ جیسے آدمی کو کس نے بندھا تھا۔۔اور رونے والی شکل ہو گئی تھی تمہاری۔۔
پیچھے بیٹھے تینوں لوگ مراد کی بات پر ہنس پڑے تو مراد اور عائشہ نے انکی طرف دیکھ کر ایک ساتھ پوچھا
ہم دونوں میں سے کون زیادہ ڈر رہا تھا؟؟
آپ دونوں ڈر رہے تھے۔۔سب نے یک زبان ہو کر کہا تو مراد اور عائشہ نے بھی ہسنا شروع کر دیا۔۔
اچھا تم ایسا کرو کے ماریا کو ضیا صاحب سے ملا کر پروٹیکشن کی ایپلیکیشن اپپرو کرو ،اور میں بچوں کو ہوسپٹل لے جاتی ہوں اتنی کمزور سے ہیں یہ لوگ اور پھر اپنی لاڈو رانی کے ساتھ آ کر رونا ڈال دینا میرے اپامنٹ میں۔۔میں شاپنگ کر کے او گئی سمجھے تو رات کو انا۔۔عائشہ نے مراد کا منہ بنتے دیکھ کر فوراً کہا تو مراد نے کار سائیڈ پر روکی اور ایک ٹیکسی کو روکنے کا اشارہ کیا۔۔عائشہ دانین کو پکڑے اگے بڑھی اور روک مراد کو آواز لگائی
مراد تم دنیا کے سب اچھے بیوقوف دوست ہو۔۔اینڈ میں تمہے بہت پیار کرتی ہیں میرے دوست۔۔
مراد نے پہلے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور جب بات سمجھ آیی تو غصے سے بڑبڑا کر کار میں بیٹھ گیا۔۔
حسین نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو کبھی حسن کا ہاتھ پکڑ کر اس کا پوچھتی تو کبھی دانین کا ماتھا چوم لیتی۔ہوسپٹل میں ایک ایک کا چیک اپ اور رپورٹ ڈیٹیل سے وہ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کی ہی اولاد ہو۔۔اتنے بڑے مال میں لا کر ہر شاپ سے شاپنگ کرتے ہوئے ایک دفعہ بھی حسین کو اس کے ماتھے پر بل نظر نہیں آیا۔۔ہاں تب ضرور غصے سے گھور دیتی جب حسین یا حسن کسی چیز کو لینے سے جھجہتے تھے۔۔۔حسین کو وہ انسان نہیں لگ رہی تھی وہ خواب دیکھ رہا ہے ایسا محسوس ہو رہا تھا۔۔
ٹیکسی روکنے کے لیے عائشہ اگے بڑھی تو حسن نے حسین کو بازو سے کہنچا اور بولا
بھائی ام ٹھیک کہتی تھی یہ ہمارے صبر کا انعام ہیں۔۔
پتا نہیں یہ کون ہیں؟؟حسین نے ٹیکسی ڈرائیور سے بحث کرتی ہوئی عائشہ کو دیکھتے ہوئے کہا
**********#######* ******#"* ####
آپاٹمنٹ میں انٹر ہوتے ہی عائشہ نے گل بیبی my princess where are you??
کی آواز بلند کی اور گل بیبی جانتی تھی کہ عائشہ ایسے ان کو تب پکارتی ہیں جب وہ غصّہ ہوتی ہے۔۔
گل بیبی نے باہر آ کر دیکھا تو حیران رہ گئیں عائشہ نے ایک ایک پیاری بچی کو اٹھایا ہوا تھا جس نے ایک پرانی سی فراک پہن رکھی تھی اور دو بچے ڈھیر سارے شاپنگ بیگ لے کر کھڑے گل بیبی کو دیکھ رہے تھے۔۔
اگر ہمارا پوسٹ مارٹم ختم ہو گیا ہو اور رپورٹ آپ بعد میں بنا لیں تو بہتر ہو گا۔اب یں بچوں سے یہ سامان لیں اور باہر بھی پڑا ہے۔اور پرنسیس تو ابھی کوئی ترکش ڈرامہ دیکھ رہی ہوں گئی تو کھانا تو نہیں بنا ہو گا اور پیپر کی تیاری تو آپ نے کرنے کی زہمت نہیں کی ہو گئی۔۔عائشہ نے گل بیبی کو گھورتے پایا تو آگے بڑھ کر بولی اور ساتھ میں ایک بیگ اٹھا کر دانین کو چیئر پر بیٹھا کر ان کی جانب موڑی۔۔
تم کتنے تانے مارتی ہو عائشہ۔۔پیپر ابھی نہیں ہیں میرے۔۔اور تمہارا کیا پتا ہوتا ہے کبھی تانیہ کے ساتھ کھا کر آ جاتی ہو اور کبھی خود بول دیتی ہو نا بنایا کرو کھانا۔۔گل بیبی نے ہنستے ہوئے کہا اور بچوں سے سامان لیا اور انکو بیٹھنے کا بول کر ان کے لیے کچھ لانے کے لیے کچن میں چلی گئی۔۔
آپ لوگ اتنے حیران کیوں کھڑے ہیں؟ جائیں فریش ہوجائے اور یہ شاپنگ آپ لوگوں کی ہے لیتے جائے اور اب میں اپنی پیاری دانی کو تیار کرو گئ۔یہ وائٹ فراک میں پیاری لاگو گئی واہ واہ
عیشاء نے بات کرتے ہوئے دانین کو اٹھایا اور پچھے بت بنے حسین اور حسن کو دیکھا
کیا ہوا؟
آپ نے کہا تھا یہ آپ کے بھانجے کی شاپنگ ہے اور ہم آپ کی ہیلپ کریں بس۔۔
حسین نے معصومیت سے سوال کیا تو دانین کو سائیڈ پر بلکل بڑی عورتوں کی طرح ڈالتے ہوئے ان کی جانب بڑھی اور ہنس کر بولی
میرا کوئی بھی بھانجا آپ کی ایج کا نہیں ہے ویسے ابھی صرف ایک ہی ہے جو ایک سال کا ہے۔۔آپ لوگ وہاں کچھ لے نہیں رہے تھے تو مجھے یہ جھوٹ زیادہ اچھا لگا۔۔
لیکن جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں ہوتی۔۔حسن نے منہ بنا کر کہا تو عائشہ نے اس کے گال پکڑ کر کھینچے اور بولی
میرے جھوٹ سے آپ لوگوں کا نقصان نہیں ہوا نا تو اللہ نے معاف کیا۔۔چلو اب ہیرو جیسا تیار ہو۔ماریا اور مراد آ رہے ہوں گے اور ابھی کھانا آرڈر کرنا ہے یہاں پر کسی نے کھانا بنایا تک نہیں۔۔۔
یہ کبھی بھی جھوٹ بول سکتی ہے صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے سو آپ لوگ اتنا مت سوچے بچے۔۔اور میڈم میں کھانا آرڈر کر دن گئی تم تیار ہو جاؤ بس۔۔گل بیبی نے حیرت سے عائشہ کو دیکھتے بچوں کی الجھن کم کی اور عائشہ منہ بنا کر دانین کو لے کر روم کی جانب بڑھ گئی
یہاں آپ کو بہت پیار ملے گا بیٹا سارے ڈر چھوڑ دے آپ۔۔گل بیبی نے حسین کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تو حسین نے جواب دیا
ڈر میں جینا اتا ہے اب مجھے یہ سب اب نیا لگا بس اسلیے تھوڑا عجیب سا لگا۔۔چلو حسن فریش ہو جاؤ
گل بیبی نے حیرت سے اس بچے کو دیکھا جو اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا تھا۔۔
😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊
اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھ کر ہادی کو بس یہ بات یاد آ رہی تھی(بیٹا میری بیٹی کو واپس لے کر آ جاؤ)ہادی نے ہمت کر کے بات کا آغاز کیا۔۔
آپ عیسی ضیا کے بارے میں کچھ بتانے والے تھے؟؟کہاں ہیں وہ لوگ ان کی فیملی سب کہاں ہوتے ہیں ؟؟
عیسی ضیا اور ان کی فیملی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ان کا انتقال ہوگیا۔۔اس شخص کی آواز ہادی کو کسی دھماکے سے کم نہیں لگی۔۔اسے لگا جیسے اس نے سنے میں غلطی کی ہے اس نے پھر سے سوال دھورا دیا کہ شائد جواب الگ ملے۔۔سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے افسوس سے اس کی جانب دیکھا اور جواب دیا۔۔
ان کا انتقال ہو گیا ایک کار ایکسیڈنٹ میں پوری فیملی نہیں رہی۔۔مجھے آپ کے دکھ کا اندازہ ہے لیکن میں بس تسلی ہی دے سکتا ہوں۔۔اللہ آپ لوگوں کو صبر اتا کریں امین۔۔آپ ترکی جا کر پتا کر سکتے ہیں مجھے وہاں سے ہی خبر ملی تھی۔۔یہ نمبر تھا۔۔ایک کارڈ ہادی کی جانب بھڑا دیا۔۔
ہادی نے کانپتے ہاتھوں سے کارڈ اٹھا کر اپنے آس پاس دیکھا اس کو سب دهنددلا نظر انے لگا۔۔اس کو سانس تک نہیں آرہی تھی اسنے اپنی شرٹ کی بٹن کھول کر سانس لینے کی کوشیش کی لیکن پانی کا قطرہ اس کے فون پر گر گیا۔۔
کیا یہ بارش تھی۔۔۔۔؟؟یا اس کے آنسو۔۔۔۔!!!
نیو یارک کی بارش اس کو پسند تھی آج نعمت لگ رہی تھی کیوں کہ آج یہ بارش اس کا پردہ رکھ رہی تھی۔۔۔اس کے آنسو زمین پر گر رہے تھے لیکن وہ خود کو محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔
پارک میں پڑے بیچ پر بیٹھ کر ہادی نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔
میں تمہاری بڑی بہن ہوں لیکن تم میرے مامے بن جاتے ہو۔۔۔۔ہادی کو اپنے قریب یہ آواز سنائی دی اسنے چونک کر اس جانب دیکھا تو سامنے اسے دس سال کی یقین نظر آیی اور چھوٹا سا ہادی جو غصّے سے اس کے ہاتھ کے زخم کو گھور رہا تھا۔۔۔وہ ایسا ہی تھا اپنی پری کے زخم نہیں دیکھ سکتا تھا اس دن بہت ہنگامہ کیا تھا اس نے کہ کیوں چچا زاد بہن سارا نے اس کی پری کو مارا ہے۔۔۔
میں ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گئی کیوں کہ تم میری جان ہو۔۔۔ہادی نے اپنے بائیں جانب دیکھا وہاں اس کو کالج یونیفارم میں یقین کھڑی نظر آیی جو اس کی ٹائی کو ٹھیک کرتے ہوئے بول رہی تھی جب وہ بابا سے اس کی مارک شیٹ چھپانے پر ڈانٹ کھا کر آیی تھی وہ ایسی ہی تھی دل رکھنا اتا تھا اسے لیکن ان سب نے اس کا دل نہیں رکھا تھا۔۔
ہادی زمیں پر ڈھے گیا اسے اپنی حالت کی لاپرواه مٹی کو دیکھے جا رہا تھا اور اچانک ایک زور دار چیخ نے نے پارک میں ارتعاش پیدا کر دیا۔۔پرندو نے دکھ سے اس بھائی کو دیکھا جو آج ایک عذاب لے کر جانے والا تھا۔۔آس پاس کے درخت اس کو تھام لینے کے لیے اگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن قدرت بیچ میں حائل تھی۔۔
کیوں نہیں تھا میں آپ کے ساتھ؟؟؟
کیوں ساتھ نہیں دیا میں نے۔۔۔کیوں نے آیا آپ کے لیے۔۔مجھے آپ کا وعدہ توڑ دینا چاہئے تھا کیوں بیوقوف بن گیا تھا۔۔میں کیا بولوں گا ماما کو؟؟
یہ درد کیسے سہو گا میں۔۔پری میں۔۔۔ میں۔۔ اچھا بھائی نہیں ہوں مجھے معاف کر دینا۔۔
یہ ہادی کی زندگی کا وہ پہلا حادثہ تھا جس نے اس کی روح تک ہلا دی تھی۔۔اب رونے کے سوا کوئی بھی اور آپشن نہیں تھا کیوں وہ سب ٹھیک نہیں کر سکتا تھا۔۔ اس کو صبر کرنا تھا۔۔اور اب تو گھر میں انتظار کرنے والی ماں کو بھی بتانا تھا۔۔
😶😶😶😶😶😶😶😶😶😶😶😶😶😶
please share your views about story..
continue
