sabr

5 1 0
                                    

وہ جو کہہ دے مجھے
شکیب(صبر)part1

شام جو اپنی عظیم الشان تاریخ کے لیے جانا جاتا تھا وو ملک جہاں ہر انے والے کہ استقبال شان سے کیا جاتا تھا۔ہر انے والے مہمان کو شان سے کہا جاتا تھا" مرحبا شام آپ کو خوشامدید کہتا ہے وہ  ملک جو سب کے لے دل سے کھولا ہے "۔ 2 کروڑ 50 لاکھ سے زاید آبادی والا یہ خوشخال ملک کسی کی بری نظر کہ شکار ہو گیا۔طاقت کی ہوس نے سب چیھن لیا۔اپنی فلاح کیلئے اٹھنے والے افراد کو موت دینے سے شروع ہونے والی یہ جنگ اب پورے شام کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اس جنگ کو روکنے کی بجائے اس کو اور ہوا دینے کیلئے آس پاس کے ممالک اگے ا گئے۔کوئی بشر الاسد کہ حامی تھا تو کوئی ان باغی گروپ کہ حامی اور اس سب میں اسلام کے علم بردار بننے داعش نے اسلام کی روح کے معانفی ظلم کرنا شروع کر دیا۔

اس سب میں جو پیس گیے وہ تھی شامی عوام جو ہمیشہ امن کی بات کرتے تھے آج ان سے ان کا امن ، خوشیاں،گهر ،عزیز،کاروبار سب چھین لیا گیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے تھے اور ان کی زندگی بنجر ہو گئی تھی۔ دمشق کے آس پاس جس علاقے میں باغی گروپ کا گمان حکومت کو ہوتا وہاں منٹوں میں قبرستان تیار ہو جاتا۔

ہمص دمشق کے مشرق میں واقع خوشیوں بھرا شہر اس جنگ کی نظر ہونا تھا۔ اس کی ابتدہ بہت ہولناک انداز میں ہوئی۔ہر رات ہونے والی ایئر سٹیرائیک صبح ظلم کی داستان سناتی تھی۔ شامی بس خاموش تماشائی بننے اپنے غم کو دیکھتے اور آسمان والے سے سوال کرتے۔لیکن وہاں سے جواب آنا بہت پہلے بند ہو چکا تھا۔ ظلم کی داستان لکھنے والوں نے امن کی جگہ کو بھی نا چھوڑا ۔اس دفع ہونے والی شیلانگ کا نشانہ ہمص کا ہوسپٹل ہو گا ایسا کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ ہوسپٹل کی آدھی عمارت زمین بوس ہوچکی تھی۔حکومت کیطرف سے اس دفع بومباری ہسپتال پر کی گئی کیوں کہ اس ہسپتال پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس میں باغی گروپ کے لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔جبکے وہاں صرف زخمی سمجھ کر خدمات انجام دیں جاتی تھی یہ بھول کر کے یہ کون سے گروپ سے ہے ۔وہاں کام کرنے والے افراد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آج کا دن ان کی دھکی انسانیت کی خدمت کا آخری دن ہو گا ۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا ہر شخس اپنے پیارے کی تلاش میں ہسپتال کی منہدامن عمارت کے سامنے کھڑا اپنی قسمت کا رونا رو رہا تھا۔ جن لوگوں کو اس جنگ لڑنے والوں سے انسانیت کی کوئی امید تھی وہ منہدام عمارت کو دیکھ کر اپنی ہر آس سمیت خاموش ہو گئے۔ ان کو اب احساس ہوا اب صرف ان کی مدد اوپر سے آیے گی۔

نازل کر اب عیسی کو_اب بھیج خدایا مہدی کو

دیکھ دجال آزاد ہوۓ _اور پھولوں کے کیا حال ہوۓ ۔

بہت سے لوگ تو وہاں اپنے ان پیارو کے لیے رو رہے تھے جن کی جان بچانے کیلئے انہوں نے اس جگہ کا انتحاب کیا تھا ان کو کیا خبر تھی کہ یہ ان کی آخری آرام گاہ بن جائے گی ۔

گری ہوئی عمارت کے ملبے تلے دب کر شہید ہو جانے والے افراد کو ان کے پیارو کے حوالے کرنے کا کام جاری تھا ۔

wo jo keh de mujhe Donde viven las historias. Descúbrelo ahora